پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جناب فاطمہ (ع) باپ كے بعد

پیغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجرى کو تمام مسلمانوں کو حج بجالانے کى دعوت دى اور آپ آخرى دفعہ مکہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں کو حج کے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسى پر جب آپ غدیر خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لے گئے اور على ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین فرمایا اس کے بعد مسلمانوں نے حضرت على (ع) کى بیعت کى اور اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھى مدینہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر کى مراجعت کے بعد مریض ہوگئے آپ کى حالت دگرگوںہوتى گئی، آپ کے احوال سے معلوم ہو رہا تھا کہ آپ کى وفات کا وقت آگیا ہے_ کبھى کبھار کسى مناسبت سے اپنے اہل بیت کى سفارش فرمایا کرتے تھے، کبھى جنت البقیع کے قبرستان جاتے اورمردوں کے لئے طلب مغفرت کرتے_

جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع کے بعد خواب دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں قرآن ہے اور اچانک وہ ان کے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگیا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھیں اور اپنے خواب کواپنے والد کے سامنے نقل کیا، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا،میرى آنکھوں کى نور ہیں وہ قرآن ہوں کہ جس کو تم نے خواب میںدیکھا ہے، انہیں دنوں میں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(1)_

آپ پر آہستہ آہستہ بیمارى کے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ایک لشکر جناب اسامہ کى سپہ سالارى میں مرتب کیا اورفرمایا کہ تم روم کى طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدمیوںکے خصوصیت سے نام لئے اورفرمایا کہ یہ لوگ اس جنگ میں ضرور شریک ہوں آپ کى اس سے غرض یہ تھى کہ مدینہ میں کوئی منافق نہ رہے اور خلافت اعلى کا مسئلہ کسى کى مدافعت اور مخالفت کے بغیر حضرت على (ع) کے حق میں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) کى بیمارى میں شدت آگئی اور گھر میں صاحب فراش ہوگئے_ پیغمبر(ص) کى بیمارى نے جناب فاطمہ (ع) کو وحشت اور اضطراب میں ڈال دیا، کبھى آپ باپ کے زرد چہرے اور ان کے اڑے ہوئے رنگ کو دیکھتیں اور رودیتیں اور کبھى باپ کى صحت اور سلامتى کے لئے دعا کرتیں اور کہتیں خدایا میرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام کے درخت کا پودا لگایا ہے اور ابھى ثمر آور ہوا ہى ہے اور فتح و نصرت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں_

مجھے امید ہوگئی تھى کہ میرے والد کے واسطے سے دین اسلام غالب ہوجائے گا اور کفر اور بت پرستی، ظلم اور ستم ختم ہوجائیں گے لیکن صد افسوس کے میرے باپ کى حالت اچھى نہیں_ خدایا تجھ سے ان کى شفا اور صحت چاہتى ہوں_

پیغمبر(ص) کى حالت شدیدتر ہوگئی اور بیمارى کى شدت سے بیہوش ہوگئے جب ہوش میں آئے اور دیکھا جناب ابوبکر اور عمر اور ایک گروہ کہ جن کو اسامہ کے لشکر میں شریک ہوتا تھا شریک نہیں ہوئے اور مدینہ میں رہ گئے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اسامہ کے لشکر میں شریک ہوجاؤ؟ ہر ایک نے اپنے جواب میں کوئی عذر اور بہانہ تراشا، لیکن پیغمبر(ص) کو ان کے خطرناک عزائم اور ہدف کا علم ہوچکا تھا اور جانتے تھے کہ یہ حضرات خلافت کے حاصل کرنے کى غرض سے مدینہ میں رہ گئے ہیں_

اس وقت پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ تا کہ میں وصیت لکھ دوں حاضرین میں سے بعض نے چاہا کہ آپ کے حکم پر عمل کیا جائے لیکن حضرت عمر نے کہا_ کہ آپ پر بیمارى کا غلبہ ہے، ہذیان کہہ رہے ہیں لہذا قلم و قرطاس دینے کى ضرورت نہیں ہے(2)_

جناب زہراء (ع) یہ واقعات دیکھ رہى تھیں آور آپ کا غم اور اندوہ زیادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے کہتى تھیں کہ ابھى سے لوگوں میں اختلاف اور دوروئی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں_ میرے باپ کے کام اور حکم اللہ کى وحى سے سرچشمہ لیتے ہیں اور آپ ملت کے مصالح اور منافع کو مد نظر رکھتے ہیں پس کیوں لوگ آپ کے فرمان سے روگرانى کرنے لگے ہیں، گویا مستقبل بہت خطرناک نظر آرہا ہے گویا لوگوں نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ میرے والد کى زحمات کو پائمال کردیں_

1) ریاحین الشریعة، ج 1 ص 239_
2) الکامل فى التاریخ، ج 2 ص 217 و صحیح بخاری، ج 3 ص 1259_