پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

طلاق

طلاق

اگر چہ اسلام کى نظر میں طلاق ایک جائز اور شرعى امر ہے لیکن اسى کے ساتھ اسے بدترین اور نہایت ناپسندیدہ فعل قراردیا گیا ہے _ امام جعفرصادق (ع) فرماتے ہیں : شادى کیجئے لیکن طلاق نہ دیجئے کیونکہ طلاق واقع ہونے سے عرش خدا لرز جاتا ہے _ (289)

حضرت امام جعفر صادق (ع) یہ بھى فرماتے ہیں : خداوند عالم اس گھر کو دوست رکھتا ہے جہاں شادى انجام پائے اور اسے وہ گھر ناپسند ہے جہاں طلاق دى جائے _ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت اور ناپسندیدہ چیز طلاق ہے _ (290)

شادى کرنا ، جوتا اور موزہ خردینا نہیں ہے کہ جب دل بھرگیا اٹھاکے پھینک دیا اوردوسرا جوتا خریدلیا _ شادى ایک مقدس انسانى عہد و پیمان اور معنوى ملن ہے _ دو اانسان باہم عہد و پیمان کرتے ہیں کہ آخر عمر تک ایک دوسرے کے یارومددگار اور مونس و غمخوار رہیں گے _ اسى مقدس عہد پر بھروسہ کرکے لڑکى اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر سینکڑوں آرزؤں کے ساتھ شوہر کے گھر میں قدم رکھتى ہے اور اپنى عفت و عصمت کو اس کے حوالے کردیتى ہے ، اسى ملکوتى عہد پر اعتماد کرکے مرد عقد و شادى اور ضروریات زندگى کو فراہم کرنے کے لئے بہت زیادہ خرچہ کرتا ہے _ اور شب و روز اپنے خاندان کے آرام و آسائشے کے لئے زحمت اٹھاتا ہے شادى کوئی ہوس بازى یا کھیل تماشہ نہیں ہے کہ مرد یا عورت کوئی معمولى بہانہ کرکے اس کو توڑ ڈالیں _ یہ درست ہے کہ طلاق کو جائز قراردیا گیا ہے لیکن اسلام کى مقدس شرع میں اسکى سختى سے ممانعت کى گئی ہے _ افسوس کہ اسلامى ممالک میں یہ گھناؤنى چیز اس قدر رائج ہوگئی ہے کہ اس نے خاندانوں کى بنیادوں کو متزلزل کرکے ازدواجى زندگى کے اعتماد کو سلب کرلیا ہے طلاق جائز ہے لیکن بے حد ناگزیر مواقع کے علاوہ اس سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے پیغمبر اسلام (ص) کا فرمان ہے کہ مجھ سے جبریل امین نے عورتوں کے بارے میں اس قدر تاکید کى ہے کہ میں سمجھتا ہوں سواے اس موقع کہ وہ زنا کى مرتکب ہوئی ہوں انھیں ہرگز طلاق نہیں دینى چاہئے _ (291)

ہمارے معاشرے میں جو طلاقیں انجام پاتى ہیں ان میں سے اکثر کے اسباب و علل بے بنیاد اور ناقابل توجہ ہوتے ہیں بلکہ اکثر بچگانہ بہانوں اور میاں بیوى کے ضد کے نتیجہ میں انجام پاتى ہیں _ اور نہایت چھوٹى چھوٹى اور غیر اہم باتوں کى خاطر شادى شدہ زندگى کا شیرازہ بکھر جاتاہے _ لیکن میاں یا بیوى اپنى نادانى اور خود غرضى سے ایک نہایت معمولى بات کو اس قدر بڑا بنادیتے ہیں کہ مفاہمت اور سمجھوتہ ناممکن بن جاتا ہے ذیل کے واقعات پر توجہ فرمایئے

ایک 24 سالہ خاتون ... اپنے شوہر سے فرمائشے کرتى ہے کہ اس کے ماں باپ کوشاندار دعوت دے _ چونکہ شوہر اس کى یہ فرمائشے پورى نہیں کرتا اس لئے طلاق کا مطالبہ کرتى ہے _ (292)

ایک مرد اس سبب سے کہ اس کى بیوى کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوتى ہیں ، پانچ بچوں کے ہوتے ہوئے اس کو طلاق دے دیتا ہے _ (293)

ایک عورت اس بناء پر طلاق کاتقاضہ کرتى ہے کہ اس کا شوہر عارف قسم کا ہے اورزندگى میں دلچسپى نہیں لیتا _ (294)

ایک مرد ، ایک دولتمند خاتون سے شادى کرنا چاہتا ہے اس لئے اپنى بیوى کو طلاق دینے کى درخواست کرتا ہے _ (295)

ایک عورت اس وجہ سے کہ ا س کے شوہر نے اپنے کوٹ کى آستین میں روپیہ چھپا رکھا تھا ، علیحدگى کا مطالبہ کرتى ہے _ (296)

ایک شخص اپنى بیوى کو منحوس کہہ کر طلاق دیتا ہے کیونکہ شادى کے بعد اس کے باپ کا انتقال ہوگیا اور اس کے ماموں کا دیوالیہ نکل گیا _(297)

اکثر طلاقیں اسى قسم کى معمولى اور غیر اہم باتوں کى بنیاد پر انجام پاتى ہیں _ اگر میاں بیوى انجام کار کے متعلق غور کریں تو اس منحوس چیز سے پرہیز کریں _

جو میاں بیوى علیحدہ ہونا چاہتے ہیں انھیں چاہئے جلد بازى سے ہرگز کام نہ لیں بہتر ہے کہ پہلے اس کے نتائج اور اپنے مستقبل کے بارے میں خوب غور و فکر کریں _ اس کے بعد فیصلہ کریں خاص طور پر ان دو باتوں کے متعلق اچھى طرح غور و فکر کرنا چاہئے _

1_ جو میاں بیوى علیحدہ ہونا چاہتے ہیں یقینا بعد میں دوسرى شادى کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے مرد سوچتا ہے کہ اس بیوى کو طلاق دے کر اپنى پسند کے مطابق دوسرى عورت سے شادى کرلوں گا عورت بھى یہى سوچتى ہے کہ اس شوہر سے طلاق حاصل کرکے ایک آئیڈیل مرد سے شادى کرلوں گى لیکن ان میاں بیوى کو یہ بات ذہن نشین کرلینى چاہئے کہ علیحدہ ہونے کى صورت میں و ہ بدنامى کا شکار ہوجائیں گے _ ہوس باز، خود غرض اور بے وفا مشہور ہوجائیں گے _ مرد جس لڑکى کو شادى کا پیغام بھجواتے گا تحقیق کے بعد اس کے گھروالوں کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے اپنى بیوى کو طلاق دى ہے اور اس سبب سے اس کا کردار مشکوک ہوجائے گا _ وہ لوگ سوچیں گے کہ یا تو یہ آدمى اچھا نہیں ہے جس کے سبب اس کى بیوى نے طلاق لے لى یا اس نے اپنى بیوى کو طلاق دے دى جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفادار نہیں ہے _

جو عورت اپنے شوہر سے طلاق لیتى ہے اس کو جاننا چاہئے کہ دوسرى شادى میں اس کو بہت سى مشکلات پیش آئیں گى _ کیونکہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر یہ عورت وفادار اور نیک ہوتى تو اپنے شوہر سے طلاق نہ لیتى _

اس لئے مرد عورت دونوں کو دوسرى شادى کرنے میں بہت سى رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد ناچار بقیہ سارى عمرتنہا اور پریشان زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے _اور عورت بھى مجبوراً سارى عمر ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کے سرپر پڑى رہتى ہے _ یا بغیر کسى ہمدرد کے تنہا زندگى گزارتى ہے _ تنہا زندگى بہت دشوار اور تھکادینے والى ہوتى ہے کبھى کبھى تو یہ تنہائی انسان کو ڈس لیتى ہے اور انسان ایسى زندگى پر موت کو ترجیح دیتا ہے اور اکتا کر خودکشى کرڈالتا ہے _

ایک 22 سالہ جوان عورت نے جو ایک بچہ ہوجانے کے باوجود طلاق لے کر اپنے باپ کے گھر چلى آئی تھى ، اپنى بہن کى شادى کى رات خودکشى کرڈالتى ہے _(298)

فرض کیجئے مرد بہت زیادہ مالى نقصانات برداشت کرکے اور سعى بسیار کے بعد دوسرى شادى کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے لیکن کیا معلوم دوسرى بیوى پہلى سے بہتر ہوگى یا نہیں بلکہ اکثر انجام کا ربدتر ہى ہوتاہے _ اکثر دیکھنے میں آتا ہے دوسرى شادى بھى ناکام ہوتى ہے او راگر امکانى صورت پیدا ہوگئی تو د وسرى بیوى کو طلاق دے کر پہلى بیوى سے صلح کرلیتا ہے _

ایک اسّى سالہ مرد نے عدالت میں بتایا: تقریباً ساٹھ سال قبل میں نے ایک عورت سے شادى کى تھى _ میرى زندگى بہت پرسکون تھى لیکن کچھ مدت کے بعد اپنى بیوى کے ناروا سلوک سے ناراض ہوکر میں نے اس کو طلاق دے دى _ اس دوران میں ، میں 97 مختلف عورتوں سے نکاح او رمتعہ کئے اور طلاقیں دیں _ کافى عرصہ بعد میں نے محسوس کیا کہ میرى پہلى بیوى ان سب سے زیادہ وفادار تھى ، بہت کوشش کے بعد میں نے اسے ڈھونڈ نکالا ، چونکہ وہ بھى میرى طرح تنہائی سے تھک چکى تھى اس لئے ہم دونوں پھر سے شادى کرنے پر رضامندہوگئے _ (299)

ایک شخص نے اپنى دوسرى بیوى کو طلا قدے دے دى کیونکہ دوسرى بیوى اس کى پہلى بیوى سے ہونیوالے اس کے دو بچوں کى نگہداشت نہیں کرسکتى تھى _ اور اپنى پہلى بیوى سے ، جسے اس نے پانچ سال قبل طلاق دے دى تھى پھر سے شادى کرلى _ (300)

2_ جو میاں بیوى علیحدہ ہونے کى فکر میں ہیں اگر بال بچوں والے ہیں تو انھیں اس اہم اور حساس مسئلہ پر بھى غورکرنا چاہئے _ بچوں کى خوشى اور بھلائی اسى میں ہوتى ہے کہ ماں باپ دونوں ساتھ رہیں تا کہ وہ باپ کے سائے اور ماں کى شفیق آغوش میں پرورش پائیں _

اگر اس مشترک زندگى کے تانے بانے بکھر جاتے ہیں تو بچوں کى امیدوں کے محل چکنا چور ہوجاتے ہیں _ اور ان کى خوشى و مسرت کا خاتمہ ہوجاتاہے _ اگرباپ ان کى پرورش کى ذمہ دارى لے تو ماں کى بے لوث محبت ومامتا سے محروم ہوجاتے ہیں اور اکثر اوقات سوتیلى ماں سے سابقہ پڑتا ہے _ سوتیلى ماؤوں کا سلوک عام طور پر اچھا نہیں ہوتا _ وہ اپنى سوت کے بچے کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتى ہے لہذا اکثر سوتیلى مائیں بچوں کو بہت اذیت و آزار پہونچاتى ہیں _ باپ کے پاس بھى سوائے صبرو خاموشى کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا _

ایک چودہ سالہ دلہن جس نے خودکشى کا اقدام کیا تھا اسپتال میں بتایا : میں ایک سال کى تھى جب میرے ماں باپ علیحدہ ہوگئے اور جیسا کہ میں نے سنا ہے میرے باپ نے ڈیڑھ سال بعد دوسرى شادى کرلى اور اب بھى دونوں باہم زندگى گزاررہے ہیں _ میرى سوتیلى ماں مجھ کو بہت مارتى پٹیتى تھى _ یہاں تک کہ اس نے کئی بار کباب بنانے والى لوہے کى سیخ سے میرے جسم کو جلا دیا _ اگر چہ میرے باپ کى ماں حالت اچھى ہے لیکن انھوں نے مجھے اسکول نہ جانے دیا _ میں ہمیشہ اسکول اور کتابوں کى حسرت میں کڑھتى رہى _ ایک ماہ قبل میرے باپ نے زبردستى میرا نکاح ایک 45 سالہ مرد سے کردیا _ (301)

ایک تیرہ سالہ لڑکى نے گلى میں رسى ڈال کر خودکشى کرلى _ یہ لڑکى اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رہتى تھى _ اس کے بھائی نے بتایا کہ میرے ماں باپ تین سال قبل علیحدہ ہوگئے تھے _ میرى ماں نے ایک اور مرد سے شادى کرلى اور دو مہینے قبل میرے باپ کا بھى انتقال ہوگیا _ میں کل شام ساڑھے چھ بجے جب گھر واپس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرى بہن نے گلے میں رستى ڈال کر خودکشى کرلى _ (302) اگر بچہ کى سرپرستى ماں کے ذمہ ہوتى ہے تو معصوم بچے باپ کى سرپرستى اور محبت سے محروم ہوجاتے ہیں اکثر اوقات سوتیلے باپ کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں _

ایک ماں نے اپنے نئے شوہر کى مدد سے اپنے آٹھ سالہ بچے کے ہاتھ پاؤں پلنگ میں باندھ دیئےور کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر گھومنے چلى گئی _ جب وہ لوگ واپس لوٹے تو دیکھا کمرے میں آگ لگ گئی تھى اور بچہ جل کر ختم ہوچکا تھا _ (303)

طلاق ، خاندان کے محبت بھرے مرکز کو درہم برہم کردیتى ہے _ اس خاندان کے بچے لاوارث اور خانماں برباد ہوجاتے ہیں _ کبھى کبھى ماں باپ اپنى خود غرضى اور ضد میں آکر ان بے گناہ معصوم بچوں کویونہى لا وارث چھوڑدیتے ہیں _

4_6_9_اور 12 سال کى عمر کے چار بچے آوارہ اور سرگردان و پریشان ایک پولیس چوکى میں گئے _ بڑے بچے نے بتایا کہ ہمارے ماں باپ میں مسلسل لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا _ کچھ دن قبل دونوں علیحدہ ہوگئے اور ان میں سے کوئی بھى ہم لوگوں کى سرپرستى قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہے _ (304)

جن معصوم بچوں کا کوئی سرپرست نہ رہے اور ان کى کوئی جائے پناہ نہ ہو تو ایسے بچے زیادہ تر آوارہ اور بد معاش بن جاتے ہیں _ ان کى نفسیاتى الجھنیں انھیں بچپن سے ہى یا بڑے ہونے کے بعدچوری، ڈکیٹى ، مارپیٹ اور قتل و غارت جیسے جرائم میں مبتلا کردیتى ہیں ، اخبار ورسائل میں ہمیں ایسے مجرموں کى خبریں برابر پڑھنے کو ملتى ہیں _ اخبار اطلاعات لکھتا ہے :_

بچوں کى اصلاح و تربیت کے مرکز میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اس مرکز کے ایک سوسولہ مجرم جوانوں میں سے اسّى افراد کى مائیں سوتیلى تھیں اور ان کے کہنے کے مطابق ان کى گمراہى اور بے راہروى کا سبب ان کى سوتیلى ماؤوں کا ظلم و ستم ، سختیاں اور برا سلوک تھا _ (305)

برادر عزیز اور خواہر گرامى خدا کى خوشنودى اور اپنے معصوم بچوں کى خاطر ایثار و فداکاری سے کام لیجئے ، جو کچھ اب تک ہوا اسے بھول جایئے بہانے نہ تلاش کیجئے _ ہوس بازى سے دستبردار ہوجایئے ایک دوسرے کے معمولى عیوب اور خامیوں کو نظر انداز کیجئے _ باہمى کشمکش اور ہٹ دھرمى چھوڑدیجئے _ اپنے اور اپنے معصوم بچوں کے انجام کے بارے میں خواب اچھى طرح غور و فکر کیجئے یہ بیچارے تو بے قصور ہیں _

ان کى مسکین و افسردہ صورتوں اور حسرت بھرى نگاہوں پر ترس کھایئےہ معصوم آپ سے اس بات کى توقع رکھتے ہیں کہ آپ ان کے اشیانے یعنى خاندان کے پر خلوص مرکز کو درہم برہم نہ ہونے دیں گے اور ان بے بال و پر کے چوزوں کو سرگرداں اور بے خانماں نہ کریں گے _

اگر آپ نے ان کى دلى خواہشات و جذبات کو نظر انداز کردیا تو ان کے ننّھے ننّھے دل ٹوٹ جائیں گے اور ان کے نالہ و فغاں بے اثر نہ ہوں گے اور آپ کبھى بھى خوشى و اطمینان محسوس نہ کر سکیں گے !!

 


289_ مکارم الاخلاق ص 235
290_وسائل الشیعہ ج 15 ص 267
291_مکارم الاخلاق ص 248
292_روزنامہ اطلاعات 3 مارچ سنہ 1972
293_ روزنامہ اطلاعات 7 مارچ سنہ 1972
294_ روزنامہ اطلاعات 7 مارچ سنہ 1973
295_ روزنامہ اطلاعات 9 مارچ سنہ 1972
296_ روزنامہ اطلاعات 7 مارچ سنہ 1972
297_ روزنامہ اطلاعات 15 جنورى سنہ 1972
298_ روزنامہ اطلاعات 8 مارچ سنہ 1970
299_ روزنامہ اطلاعات 10 فرورى سنہ 1970
300_ روزنامہ اطلاعات 29 دسامبر سنہ 1969
301_روزنامہ کیہان تہران 20 نومبر سنہ 1969
302_ روزنامہ اطلاعات 24جنورى سنہ 1973
303_ روزنامہ اطلاعات 7 فرورى سنہ 1970
304_ روزنامہ اطلاعات 28 مئی سنہ 1970
305_ روزنامہ اطلاعات 13 مارچ سنہ 1972