پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بيوى كى ماں

بیوى کى ماں

ایک اور چیز جو میاں بیوى کے درمیان ناچاقى پیدا کرتى ہے اور خاندانوں کے سکون و چین کو سلب کرنے کا سبب بنتى ہے بلکہ اس کے باعث بعض اوقات طلاق اور قتل تک کى نوبت آجاتى ہے وہ ہے بیوى کى ماں کى بیجا مداخلت اور روک ٹوک_

بعض مائیں اپنى بیٹى کى شادى سے پہلے اپنے ذہن میں ایک ایسے داماد کاتصور قائم کرلیتى ہیں جو تمام نقائص اور خامیوں سے پاک اور کامل صفات اور خوبیوں کا مالک ہوگا اور اس بات کى متوقع رہتى ہیں کہ ایک ایسے آئڈیل نوجوان سے ، کہ جوان کے نصیب میں نہ تھا ، اپنى بیٹى کى شادى کریں _ اسى امید پر کسى نوجواں کو اپنى دامادى کے لئے منتخب کرتى ہیں _ شروع میں اس کو ایک آئیڈیل انسان مان کر اس سے اپنى محبت و شفقت کا اظہار کرتى ہیں _ شروع میں اس کو ایک آئیڈیل انسان مان کر اس سے اپنى محبت و شفقت کا اظہار کرتى ہیں _ اس کى خاطر مدارات اور عزت افزائی کرتى ہیں اپنے دل میں سوچتى ہیں کہ اگر اس میں کوئی معمولى سى خامى ہوگى تو میرى ہدایات اور نصیحتوں سے اس کى اصلاح ہوجائے گى _

اگر نیا داماد ان کى مرضى کے مطابق ہوا تو خوش و خرم رہتى ہیں لیکن اگر ان کى مرضى کے مطابق نہ ہوا تو فوراً اس کے علاج کى فکر میں لگ جاتى ہیں اور شروع میں ہى فیصلہ کرلیتى ہیں کہ اپنى یا دوسروں کى شادى شدہ زندگى کے دوران جو تجربے حاصل کئے ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے داماد کو اپنى مرضى کے مطابق ڈھال لیں اس مقصد کے حصول کے لئے پلان بناتى ہیں اور اپنے تمام امکانات سے استفادہ کرتى ہیں _ کبھى ہمدردى اور خیرخواہى کے طور پر اس کو پند ونصیحت کرتى ہیں کبھى لڑجھگڑکے اپنا کام نکالنا چاہتى ہیں _

اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنى بیٹى کو وسیلہ قراردیتى ہیں اور اس کو تلقین کرکے اعتراضات کرنے بہانے بنانے ، اور حالات کو ناسازگار بنانے پر مجبور کرتى ہیں _

کبھى اس کو لڑنے جھگڑنے کا حکم دیتى ہیں _ کبھى التماس و گریہ کرنے کا حکم دیتى ہیں _ اس کے شوہر کى بد گوئی اور عیب جوئی کرتى ہیں بے چارى لڑکى جو کہ ابھى زمانے کے سردو گرم سے نا آشنا ہوتى ہے اور اپنا بہترین حامى وخیرخواہ سمجھتى ہے اس کى تلقین و نصیحتوں کا اثر قبو ل کرکے اس کے احکام کے مطابق کام کرتى ہے اگراس وسیلے سے داماد قابو میں آگیا تو کیا کہنے _ لیکن اگر داماد نے ان کى خواہشات کے آگے سرنہ جھکا یا تو ضد اور کشمکش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ حتى کہ اس ضد کا انجام طلاق مارپیٹ اور قتل کى صورت میں نکلتا ہے _ یہى وجہ ہے کہ اکثر داماد اپنى بیوى کى ماؤوں سے ناخوش رہتے ہیں اور انکى بیجا مداخلتوں سے پریشان رہتے ہیں _ اپنى بیوى کى بہانہ بازیوں اور عدم موافقت کا باعث سال کوسمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہى اپنى بیٹى کو سکھاتى ہے اور زندگى چین سے گزارنے نہیں دیتى _

نمونے کے طور پر چند دامادوں کے درددل سنتے چلیں_

(جوادرم) لکھتاہے : میرى ساس ایک دیونى ہے ایک ادھا ہے _ ایک دوسروالى ناگن ہے _ خدا جنگل کے بھیڑیئےو بھى ایسى ساس نصیب نہ کرے _ مجھ سے نہ جانے کہاں کا بدلہ لے رہى ہے _ میرى زندگى تباہ کردى ہے کہ قریب ہے اس کے ہاتھوں دیوانہ ہوکر کوہ و بیابان کى طرف بھاگ جاؤں صرف میں ہى واحد شخص نہیں ہوں جو اپنى ساس کے ہاتھوں خون کے آنسو رورہاہوں بلکہ اس درد میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں میرا خیال ہے ہر سو شادى شدہ مردوں میں سے 95 افراد اس پریشانى میں مبتلا ہوں گے _ اور شاید باقى لوگوں کى ساسیں ہى نہ ہوں گى _

محمد . ف ر قمطراز ہے : میرى ساس میرى او رمیرى بیوى کى زندگى میں بہت دخل دیتى ہے بلا وجہ ہمارى پریشانى کا باعث بنى ہوئی ہے _ میرى خاندان کى غیبت کرتى ہے _ جب میں اپنى بیوى کے لئے کوئی چیز خرید کرلاتاہوں فوراً اعتراض کردیتى ہے کبھى اس کے رنگ پر تنقید کرتى ہے کبھى اس کے ڈیزائن کى برائی کرتى ہے _ ہزار طرح سے کوشش کرتى ہے کہ جو چیزمیں خرید کرلایا ہوں اس کو معمولى اورحقیر ظاہر کرے _

پرویز_ک لکھتا ہے : اس کى وجہ سے ہم میں اب تک تین بار طلاق کى نوبت آچکى ہے _ بچھو کى طرح ڈنک مارتى ہے _اپنى بیٹى کو سکھاتى ہے میرى توہین کرے اورگھرکے کام نہ کرے اور بیجا توقعات کرتى رہے _ جب ہمارے گھر آتى ہے ایک ہفتہ تک ہمارا گھر جہنم بنارہتا ہے _ اسى لئے مجھے اس کو دیکھنے کى تاب نہیں _ (198)

بعض داماد ساسوں کے اثر و نفوذ کو کم کرنے اور ان کى دخل اندازیوں کى روک تھام کرنے کے لئے اس مشکل کا حل یوں تلاش کرتے ہیں کہ ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیں _ ملاقاتوں اور آمد و رفت کا سلسلہ محدود کردیتے ہیں _ اجازت نہیں دیتے کہ ان کى بیوى اپنے ماں باپ کے گھر جائے یا وہ ان کے گھر آئیں _ ان کى باتوں پر توجہ نہیں دیتے بے اعتنائی برتتے ہیں _ ان دخل اندازیوں پر اعتراض کرتے ہیں _ مختصر یہ کہ ان کے ساتھ سختى سے پیش آتے ہیں _

لیکن مذکورہ روش کوئی عاقلانہ روش نہیں ہے بلکہ اس کا نتیجہ برعکس نکلتا ہے کیونکہ ماں بیٹى کى محبت ایک فطرى تعلق ہے جسے منقطع کردینا ایسى آسانى سے ممکن نہیں ہے _ مرد یہ توقع کیسے کرسکتا ہے کہ وہ لڑکى جس نے سالہا سال اپنى ماں کى آغوش میں پرورش پائی ہے اور اس کى شفقت سے بہرہ مند رہى ہے اور اب بھى اس کو اپنا بہترین حامى و خیرخواہ سمجھتى ہے ایک اجنبى مرد سے شادى کے رشتہ میں بندھ کر بغیر چون و چرا اس کى بات مان لے گى اوراپنے ماں باپ کى زحمتوں اور محبتوں کو یکسر فراموش کرکے ان سے مکمل قطع رابطہ کرنے پر راضى ہوجائے گى _

یہ چیز ہرگز امکان پذیر نہیں ہے اور اگر چند روز کے لئے تعلقات منقطع بھى کرلئے تو یہ حالات ہمیشہ باقى نہیں رہ سکتے کیونکہ زور زبردستى اور جبر ، ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا _ ایک مدت ممکن ہے صبر و ضبط سے کام لے لیکن آخر کار ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرڈالے گى _ ممکن ہے زیادہ سختیوں سے تنگ آکر گستاخ ہوجائے اور نافرمانى کرنے لگے ممکن ہے شوہر کے رشتہ داروں سے اس کا بدلہ لے اور لڑائی جھگڑا کرے _ اس کے علاوہ ساس سے مکمل قطع رابطہ کرلیناناممکن سى بات ہے _ ماں بھى تو اپنى بیٹى سے دستبردار نہیں ہوجائیگى بلکہ یہ امر باعث بنتا ہے کہ دلوں میں کدورت اور تنفر مزید بڑھے اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر آزار واذیت پہونچانے اور عدم تعاون کرنے کے لئے اپنى بیٹى کى ہمت افزائی کر ے_

ایسى صورت میں طلاق تک کى نوبت آسکتى ہے بہت سى طلاقیں انھیں غیر عاقلانہ ضدوں اور رسہ کشى کے نتیجہ میں انجام پاتى ہیں _

ان سب باتوں کے علاوہ ، اصول طور پر یہ بات انسان کے مفادمیں نہیں ہے کہ اپنى بیوى کے رشتہ داروں سے بجائے اس کے کہ ان کى محبت و حمایت حاصل کى جائے _ ان کے وجود سے استفادہ کیا جائے ان سے رابطہ منقطع کرلیں _

بہر حال یہ غیر عاقلانہ روش نہ صرف یہ کہ کچھ سودمند ثابت نہیں ہوسکتى بلکہ مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بنتى ہے _ صورت حال اور زیادہ نازک ہوجاتى ہے اور اکثر اس کا انجام قتل یا خود کشى ہوتا ہے _

ہندوستان کى پولیس نے رپورٹ دى کہ سنہ 1972 میں نئی دہلى میں 146 خودکشى کى وارداتیں ہوئی ہیں جن میں سب کا اصلى سبب داماد اور ساس کے درمیان اچھے تعلقات استوار نہ ہوتا تھے _ (199)

ایک شخص نے اپنى ساس کى دخل اندازیوں سے پریشان ہوکر خودکشى کرلى _ (200)

ایک شخص جو اپنى ساس کى بیجا مداخلتوں سے سخت تنگ آچکا تھا ، اس کو ٹیکسى سے باہر پھینک دیا ،(201)

ایک شخص نے گھونسہ مارکر اپنى ساس کا سرتوڑدیا _ اس بات پر غضبناک ہوکر اس کے سالے نے اس کو چاقو سے زخمى کردیا اور بھاگ گیا _ (202)

ایک شخص ... اپنى ساس سے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ گرم گرم کلے پائے کا پیالہ اس کے سرپر الٹ دیا _ ساس چیخ مارکر زمین پر گر گئی _ اس کو اسپتال لے جایا گیا _ ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ چونکہ وہ بہت برى طرح جل گئی ہے اور اس کى حالت خطرہ میں ہے اس لئے اس کو تہران لے جانا چاہئے _ بیوى اپنى ماں کو تہارن لے کر گئی اور اپنے شوہر کہا ہم شوشتر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے اور جلدى ہى تہران جاکر طلاق حاصل کرلیں گے کیونکہ مجھے تمہارا جیسا شوہر نہیں چاہئے _ (203)

مذکورہ روش مناسب نہیں اور جہاں تک ممکن ہو اس سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ روش اس مشکل کا حل نہیں بن سکتى بلکہ دوسرا راستہ بھى موجود ہے جو زیادہ معقول اور زیادہ قابل اطمینان ہے اول تو یہ کہ اس میں کسى ضرر کا خدشہ نہیں ہے دوسرے اس میں کامیابى کا امکان زیادہ ہے _ یہ دو نکتے ذہن نشین کرلینے چاہئیں _

1_ یہ بات مسلم ہے کہ ساس اپنے داماد کى دشمن اور بدخواہ نہیں ہوسکتی_ بلکہ فطرى بات ہے کہ اس کو بہت عزیز رکھتى ہے اور اپنى بیٹى سے محبت کا تقاضہ بھى یہى ہے کہ اپنے داماد سے بھى محبت کرے کیونکہ وہ سمجھتى ہے کہ اس کى بیٹى کى خوشبختى اس کے ہاتھ میں ہے _ پس اگر ان کى داخلى زندگى میں مداخلت کرتى ہے تو یقینا اس کى نیت برى نہیں ہوتى بلکہ جو کچھ بھى کرتى ہے ہمدردى اور خیرخواہى کى غرض سے کرتى ہے _

البتہ اس بات کا امکان ہے کہ بیجا مداخلتیں کرے اور اس کى تجاویز غلط یا ضرر بخش ہوں لیکن وہ محض اس کا نادانى اور جہالت کے سبب ہوسکتى ہیں _ اس کو بدبختى پر محمول نہیں کرنا چاہئے _

2_ ماں اور اولاد کا تعلق ایک فطرى چیز ہے کہ جس کو آسانى سے منقطع نہیں کیا جا سکتا_ اور اگر کوئی اس تعلق کو منقطع کرنے کے درپے ہوجائے تو یہ ایک غیر فطرى عمل ہوگا اور اس کے نتائج بیحد خراب ہوں گے اصولى طور پر یہ چیز انصاف سے کوسوں دورہے کہ انسان ماں بیٹى کے رابطہ کو منقطع کرنا چاہے اور ان کے درمیان جدائی ڈال دے _ جس طرح مرد چاہتا ہے کہ آزادى کے ساتھ اپنے ماں باپ سے تعلقات قائم رکھے او رآزادانہ طور پر ان کے پاس جائے اور وہ اس کے پاس آئیں _ اسے خود سوچنا چاہئے کہ اس کى بیوى بھى جذبات و احساسات رکھتى ہے اور اس کا بھى دل چاہتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے میل جو ل رکھے _ مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھ کر کہا جاتاہے کہ اس مشکل کا بہترین حل یہ ہے کہ ساس سے بلکہ بیوى کے تمام دوسرے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات رکھنا چاہئے اور ان احترام کرنا چاہئے _ مہربانى اور اچھے اخلاق کے ذریعہ ان کى محبت و توجہ حاصل کرنى چاہئے _ نیکى اور محبت کا اظہار کرکے انھیں اپنا بنا لینا چاہئے _ کاموں میں ان سے صلاح ومشورہ لینا چاہئے _ اپنى مشکلات کو ان سے بیان کرکے ان کى رائے لینى چاہئے _ ان کى مفید تجاویز اور ہدایات پر توجہ دینى چاہئے _ ان سے اپنى بیوى کى برائی نہیں کرنى چاہئے _ ایسا کام کرنا چاہئے کہ انھیں یقین ہوجائے کہ وہ ان کى بیٹى کا وفادار ہے _ اور واقعى اس کو چاہتا ہے _ اگر رائے نامناسب ہو تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس مین ان کى بدبینى کو دخل ہے بلکہ ایسى صورت میں کوشش کرنى چاہئے کہ اچھے الفاظ میں ثبوت و دلائل کے ذریعہ اس چیز کے مضر نتائج بیان کردے _ ان کى تجاویز کو غصہ یا بے اعتنائی کے ساتھ رد نہیں کردینا چاہئے حتى کہ اگر بیوى سے بھى کھٹ پٹ ہوگئی ہو تو اس کو شکایت کے طور پر نہیں بلکہ دوستانہ طریقے سے اور مدد طلب کرنے کى غرض سے ان سے بیان کرے اور ان کے خیالات سے استفادہ کرے _ مرد کو چاہئے کہ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھے کہ بیوى کے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا ، ازدواجى زندگى کا ایک بہت بڑا راز اور''زن داری'' کے لوازمات میں شمار ہوتا ہے _ اس طرح سے وہ داماد پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں اور شادى شادہ زندگى کى بہت سى مشکلات خودبخود حل ہوجاتى ہیں _ بنابراین جہاں یہ دیکھنے آتا ہے کہ اکثر داماد حو اپنى ساسوں سے پریشان ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ سارى غلطى ساسوں کى ہى ہوتى ہے بلکہ وہ خود بھى بے قصور نہیں ہوتے _ کیونکہ یہ وہ خود ہوتے ہیں جو اپنے غیر خرومند انہ طرر عمل سے ایک حقیقى خیر خواہ کو مزاحمت کرنے والا سمجھ لیننے ہیں _

ایسے بہت سے داماد ہیں جواپنى بیوى کے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں او ران کى محبت وحمابت سے بہرہ مند ہوتے ہیں _

ذیل کے نمونوں پر غور فرمایئے

منو چہر... لکھتا ہے : میرى ساس ایک فرشتہ ہے بلکہ فرشتہ سے بھى بہتر ہے میں اپنى ماں سے زیادہ ان سے محبت کرتاہوں ببجد مہربان ، نیک اور سمجھدار خاتون ہیں ، میرى داخلى زندگى کى مشکلات کو میرى ساس حل کرتى ہیں _ ان کا وجود ہمارے خاندان کى خوشبختى اور سعادت کا ضامن ہے ،

البتہ ممکن ہے بعض ساسیں ضدى اور خود خواہ جن میں سوجھ بو جھ اور لیاقت نہ ہو اور ان کى بیجامد اخلتوں اور غیر علاقلانہ تجاویز سے پیچھا چھڑا نا مشکل ہو _ لیکن ایسى صورت میں بھى طلاح نہیں کہ ان سے لڑائی جھگڑا کیا جائے اورسخت و خشونت آمیز رویہ اختیار کیا جائے _ بلکہ بہتر یہ ہے حتى الا مکان نرمى و محبت اور خوش اخلاقى کے ساتھ ان سے برتا ؤ کیا جائے _ اگر چہان کہ اصلاح نہیں کى جاسکتى لیکن اس طرح ان کى ضد اور اعتراضات کو کسى حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اس بڑ ے خطرے کوٹا لا جا سکتا ہے جو ممکن ہے ازدواجى زندگى کے محل کو چکنا چور کرد ے

اس سلسلے میں شوہر کے لئے لازم ہے کہ اپنى بیوى کے ساتھ مکمل مفا ہمت پیدار کرنے کى کوشش کرے اور اظہار محبت کے ذریعہ اس کے قلب کو مسخر کر کے اس کا اعتماد حاصل کرے _ اس کے بعد ساس کى بیجامد اخلتوں اور غلط تجاویز کے سلسلے میں اپنى بیوى سے مناسب الفاظ میں بات کرے اور اس کے خراب نتائیج کو بیان کرے اور دلیل و ثبوت کے ذریعہ اسے سمجھا ئے کہ اس کى ماں کى تجاویز درست نہیں ہیں _

اگر شوہر اپنى بیوى سے پورى طرح مفا ہمت پیدا کرلے اور اسے اپناہم خیال بنا لے تو سارى مشکلات منجملہ ساس کى مشکل بھى خود بخود حل ہو جائے گى _ بہر حال اس بات کو ہر گزفراموش نہیں کرنا چاہئے کہ نرمى اور خوش اخلاقى اور خردمند انہ تدبر کے ذریعہ تمام مشکلات آسانى کے ساتھ حل کى جا سکتى ہیں اور شادى کے مقدس بند ھن کو مستحکم کیا جا سکتا ہے _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں : دوستى بڑھانا ، نصف عقل ہے _ (205)

حضرت على کایہ بھى ارشاد ہے کہ : لوگوں سے نزدیکى اور ران سے خوش اخلاقى سے پیش آنے سے شراور برائیئں کى روک تھام ہوتى ہے_ (206)

حضرت على یہ بھى فرماتے ہیں کہ : جو شخص تم سے سختى سے پیش آور شاید اسى وسیلے سے وہ رام ہو جائے _ (208)

حضرت على ایک اور مو قعہ پر فرماتے ہیں : ایک دوسر ے سے نزدیکى اختیار کرو _ اور احسان کرو _ لرالى جھگڑ ے اور دورى سے پرہیز کرو _ (208)

198_اطلاعات ہفتگى شمارہ 1646
199_روزنامہ کیھان ، تہران 4 اپریل سنہ 1973
200_روزنامہ اطلاعات 2 مئی سنہ 1970
201_روزنامہ اطلاعات 3 مئی سنہ 1970
202_ روزنامہ کیھان 23 فرورى سنہ 1972
203_ روزنامہ کیھان 5 مارچ سنہ 1972
204_ اطلاعات ہفتگى شمارہ 1636
205_بحارالانوار ج 74 ص 168
206_بحارالانوار ج 74 ص 168
207_بحارالانوار ج 74 ص 168
208_بحارالانوار ج 74 ص 400