پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بچوں كى پيدائشے

بچوں کى پیدائشے

ایک چیز جو کبھى کبھى میاں بیوى کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کا سبب بنتى ہے وہ ہے بچہ کى پیدائشے یہ اختلاف کبھى اس موضوع پر ہوتا ہے کہ بیوى بچہ چاہتى ہے اور شوہر بطور کلى اس کا مخالف ہوتا ہے یا کبھى اس کے برعکس ہوتا ہے _ یہ اختلاف کبھى اس قدر شدت اختیار گرجاتا ہے کہ ضداورکشمکش کا سلسلہ جارى رہتا ہے اور اس کا خاتمہ ہوتا ہے طلاق پر_

... نام کى ایک خاتون نے خاندان کى حمیات کرنے والى عدالت میں کہا کہ : میں نے 27 سال کى عمر میں اپنى پسند سے یونیورسٹى کے تعلیم یافتہ ایک مرد سے جو کہ ایران کى ایک یونیورسٹى میں استاد ہے شادى کى _ اور میں بہت خوش و خرم تھى _ لیکن میرا شوہر بچہ پیدا کرنے کا سخت مخالف ہے _ اس کى اس بات نے مجھے سخت مضطرب اور پریشان کردیا ہے _ اصولى طور پر جبکہ ہم دونوں صحیح و سالم ہیں اوربچہ پیدا کرسکتے ہیں _ روپیہ پیسہ کى بھى ہمارے پاس کمى نہیں ہے غرضکہ ہر لحاظ سے ہم اس قابل ہیں کہ کم سے کم دو بچوں کى پرورش آسانى سے کرسکتے ہیں _ میرى سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا شوہر بچے کى پیدائشے کى اس قدر شدت سے مخالفت کیوں کرتا ہے _ حالانکہ اسے بچے برى نہیں لگتے اپنى بہن اور دوستوں کے بچوں کو اس قدر والہا نہ طریقے سے پیار کرتا ہے کہ جو اسے دیکھے سمجھے گا بیچارہ بچوں کا بھوکا ہے _ اب میرى عمر 20 سال ہوگئی ہے اور دنیا کى ہر عورت ماں بننے کى آرزومند ہوتى ہے _ میرا شوہر میرى آرزو سے واقف ہے مگر اس کے باوجود کہتا ہے بچہ ہمارے درمیان مزاحم ہوگا اور ہمارى پریشانى کا باعث بنے گا _ مختصر یہ کہ اس قسم کے غیر منطقى دلائل پیش کرتا ہے '' _

اس خاتون نے اتنا کہہ کر بڑى مشکل سے اپنے آنسوؤں پر قابو پایا مگر ظاہر ہوتا تھا کہ اس کواس بات کا بے حد شدید صدمہ ہے اور یہ بات ان کے درمیان اس حد تک اختلاف کا سبب بن گئی ہے کہ دونوں علیحدہ ہونے پر راضى ہوگئے ہیں تا کہ وہ خاتون دوسرى شادى کرکے اپنى ماں بننے کى آرزو کى تکمیل کرسکے اورڈاکٹر صاحب اپنى علمى تحقیقات انجام دیتے رہیں _ (272)

بچے کى خواہش ہر انسان بلکہ ہر حیوان کى ایک فطرى آرزو ہے _ بچے کا وجود ، انسان کى شادى شدہ زندگى کا بہترین ثمرہ اور بہترین یادگار شمارکیا جاتا ہے _ اگر انسان صاحب اولاد ہو تو اسکى موت سے اس کى زندگى کى یادیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ گویا اس کى عمر بہت طویل ہوجاتى ہے _

لا ولد انسان اپنے آپ کو بے وارث اورتنہا محسوس کرتا ہے اوریہ احساس بڑھاپے میں شدیدتر جاتا ہے _ بچے کا وجود خاندانى زندگى کو گرم اور پر لطف بناتا ہے جس گھر میں بچہ نہ ہو اس گھر میں ویرانى برستى ہے _ جوش وولولہ کا نام ونشان تک نہیں ہوتا _ بے اولاد جوڑوں کو ہمیشہ رشتہ ازدواج منقطع ہوجانے کاخطرہ لاحق رہتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہیں : شائستہ اولاد، انسان کى سعادت کا باعث بنتى ہے _ (273)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں : زیادہ اولاد پیدا کرو تا کہ قیامت کے روز، تمہارے وسیلے سے تمام امتوں فخر کروں _ (274)

جى ہاں اولاد سے محبت ایک فطرى امر ہے لیکن بعض انسان آئین فطرت سے منحرف ہو کر ایک قسم کى بیمارى میں مبتلا ہوجاتے ہیں _ کبھى فقر و تنگدستى کا بہانہ کرتے ہیں _ حالانکہ روزى کى ضمانت خدانے لى ہے اور کسى نہ کسى ذریعہ سے روزى پہونچاتا ہے _ بکربن صالح کہتے ہیں: حضرت ابوالحسن (ع) کو میں نے لکھا کہ پانچ سال سے بچہ پیدا کرنے سے گریز کررہاہوں کیونکہ میرى بیوى راضى نہیں کہتى ہے چونکہ ہم تہى دست ہیں اس لئے بچہ کى پرورش کرنا مشکل ہے _ اس سلسلے میں آپ کى کیا رائے ہے ؟

حضرت نہ مجھ کو لکھا کہ بچے کى پیدایش سے مانع نہ ہو کیونکہ خدا روزى پہونچانے والا سے _(275) حتى کہ کبھى خدا بچہ کے وجود کى برکت سے ماں باپ کى روزى میں اضافہ کرتا ہے _ بہت سے لوگ ہیں جو بچوں کى پیدائشے سے قبل پریشانى اور تنگدستى میں مبتلا تھے مگر بعد میں خوشحال ہوگئے _ بعض لوگ بچے کے وجود کو آزادى میں رکاوٹ اور مزاحمت سمجھتے ہیںحالانکہ بچہ نہ صرف یہ کہ مزاحم نہیں ہوتا بلکہ ماں باپ کے لئے تفریح اور دل بہلانے کا بہترین وسیلہ ہوتا ہے _

یہ صحیح ہے کہ بچے کى پرورش اور تعلیم و تربیت میں بہت زحمتیں اٹھاتى پڑتى ہیں لیکن چونکہ یہ ایک فطرى عمل ہے اس لئے اس کو برداشت کرنا مشکل نہیں ہے بلکہ منفعت بخش ہوتا ہے _ حقیقتاً وہ جوڑے کس قدر خود غرض ، ضدى اور کوتاہ فکرہوتے ہیں جن کے درمیان بچہ پیدا کرنے کا مسئلہ باہمى نزاع کا سبب بن جاتا ہے اور اس کى خاطر ازدواجى زندگى کے مقدس بندھن کو توڑ ڈالتے ہیں _

کیا ایک مرد ہ وہ بھى ایک دانشور کو یہ بات زیب دیتى ہے کہ وہ بچہ پیدا کرنے کى ، جوکہ ہر ماں باپ کى ایک فطرى آرزو ہوتى ہے ، مخالفت کرے اور اس بات پر اسے اس قدر شدید اصرار ہوکہ شادى شدہ زندگى کى بنیادوں کو درہم برہم کرنے پر تیار ہوجائے _ کچھ لوگوں کے یہاں بچہ کى پیدائشے کے مسئلہ پر اختلاف نہیں ہوتا لیکن دیر یا جلدى کے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے _ بیوى یا میاں کوئی ایک کہتا ہے کہ جوانى کے دور کو خوشى اور آزادى و بے فکرى کے ساتھ گزارنا چاہئے _ بچے کا وجود آزادى میں مانع ہوتا ہے _ جوانى کے ایام میں بچے کى پیدائشے سے گریز کرنا چاہئے البتہ آخر عمر میں ایک دوبچے ہوجائیں تو کوئی بات نہیں _ لیکن ان میں سے دوسرے کو اس بات سے اختلاف ہوتا ہے اوریہى اختلاف لڑائی جھگڑے اور کشمکش کا باعث اور کبھى کبھى علیحدگى و طلاق کا سبب بن جاتا ہے _ ایک بات کى یادآورى ضرورى معلوم ہوتى ہے کہ اگر انسان اولاد چاہتا ہے تو بچے جتے جلدى ہوجائیں اتنا ہى بہتر ہے کیونکہ جوانى کے دور کى اولاد ، بڑھاپے کے دور کے اولاد س کئی لحاظ سے بہتر ہوتى ہے _ اول تو یہ کہ ایسے بچے عموماً زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں دوسرے چونکہ زیادہ مدت تک ماں باپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان کى تعلیم و تربیت زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتى ہے _ اس کے برخلاف بڑھا پے کى اولاد عموماً تعلیم و تربیت سے بالکل محروم ہوجاتى ہے اور ماں باپ کى موت یا ان کے معذور ہوجانے کے باعث اکثر بدبخت اور دوسروں کے دست نگر ہوجاتے ہیں _

تیسرے یہ کہ جوانى میں پیدا ہونے والے بچے، جب تک ان کے ماں باپ بوڑھے اورریٹائر ہوں ، ایک مقام و منصب حاصل کرلیتے ہیں _ اس طرح بڑھاپے اور ناتوانى کے زمانے میں ماں باپ اپنى اولاد کى مدد سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جوانى میں اولاد کى پیدائشے ، بڑھاپے کے دورسے بہتر ہے _ لیکن یہ بات اس قدر بھى اہم نہیں ہے کہ اس کے باعث باہمى لڑائی جھگڑے اور طلاق کى نوبت آجائے _ بہتر ہے کہ کوئی ایک جھک جائے اور جھگڑے کو رفع کرے _ کبھى بچوں کى تعداد کے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے مثلا ً مرد زیادہ بچے چاہتا ہے لیکن بیوى اس کى مخالفت کرتى ہے یا اس کے برعکس _

ایک عورت ایسى حالت میں کو دو بچوں کو گود میں لئے ہوئے تھى کہتى ہے:

شادى کے بعد چار سال کے اندر دو لڑکیاں ہوئیں لیکن چونکہ میرے شوہر کوبیٹے

کى خواہش تھى اس لئے پھر حاملہ ہوگئی _ لیکن اس بار بھى میرے شوہر کى خواہش کے برخلاف لڑکى پیدا ہوگئی اور اب میرى تین بیٹیاں ہوگئی ہیں _ میرا شوہر ایک بینک میں کام کرتا ہے اس کى آمدنى بس ہم دو میاں بیوى اور تین بچوں کے گزارے بھر کے لئے ہے _ ایک مدت سے اس بات پر مصر ہے کہ بچوں کى پیدائشے کا سلسلہ جارى رہے تا کہ شاید کبھى ایک بیٹا پیدا ہوجائے _ میں اس کى محتمل نہیں ہوسکتى کیونکہ ایک تیسرے درجے کے طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے لئے کہ جس کى آمدنى نہایت معمولى ہے زیادہ اولاد ماں باپ کے لئے پریشانى کا باعث بن جاتى ہے _ بارہا میں نے اس سےکہا کہ لڑکى لڑکے میں کوئی فرق نہیں مگر وہ سنتا ہى نہیں مجھے خطرہ ہے کہ کہیں پھرلڑکى نہ ہوجائے تو اس وقت میرا شوہر لڑکے کا بہانہ کرکے پانچویں بچے کى فکر کرے گا اس بات سے مجھ اختلاف ہے اور یہى مسئلہ ہمیں عدالت میں لانے کابا عث بناہے _ (276)

یہاں اس بات کى یاددہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے کہ زیادہ بچوں کے اخراجات پورے کرنا اور ان کى تعلیم و تربیت بہت دشوار کام ہے _ اور وہ بھى اس زمانے میں کم آمدنى والے افراد کیلئے بہترہے کہ میاں بیوى ہٹ دھرمى چھوڑکر اپنے مالى امکانات اوراپنے حالات کو مد نظر رکھ کر اولاد کى تعداد کے بارے میں اتفاق رائے کریں _ ضد اورہٹ دھرمى کوئی اچھى بات نہیں ہے _ میاں بیوى کو عقل و تدبر سے کام لینا چاہئے اور اپنى مشکلات کو آپس میں مل کر طے کرلینا چاہئے اگر ان میں سے کوئی ایک ضدپر اڑاہوا ہے اور دوسرا مفاہمت کرے تو لڑائی جھگڑے اور علیحدگى کى نوبت نہیں آئے گى _

در اصل یہ موضوع اتنا اہم نہیں ہے _ کثیر الاولاد اورکم بچے والے خاندان بہت سے ہوتے ہیں _ لہذا صرف اس بات کى خاطر میاں بیوى آپس میں لڑیں جھگڑیں اور شادى کے مقدس بندھن کو توڑڈالیں یہ کسى طرح بھى مناسب نہیں اور نہ ہى کسى کے مفاد میں ہے _

کبھى لڑکے اور لڑکے کے موضوع پر اختلاف ہوتا ہے _ میاں بیوى دونوں ہى زیادہ تر لڑکے کو لڑکى پرترجیح دیتے ہیں اورلڑکى کى پیدائشے سے انھیں خوشى نہیں ہوتى _ اگر لڑکى ہوجاتى ہے تو چونکہ کوئی چارہ نہیں بیوى تو خاموشى رہتى ہے لیکن اکثر مرد ناراضگى کا اظہار کرتے ہیں _

البتہ مختلف قسم کے مرد ہوتے ہیں بعض مرد دل میں رنجیدہ ہوتے ہیں لیکن خوددارى سے کام لیتے ہیں اور اپنے شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرتے فقط ملال ظاہر کرتے ہیں اور ان کامنہ لٹک جاتا ہے وضع حمل کے زمانے نے میں اپنى بیوى پر پورى توجہ نہیں دیتے _ کچھ دنوں تک رنجیدہ رہتے ہیں _ بعض لوگ اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں _ اپنى بے گناہ بیوى سے لڑتے ہیں مختلف بہانے کرکے غصہ کرتے ہیں _ بعض توحد سے تجاوز کرجاتے ہیں _ بیوى کو مارتے پیٹتے ہیں اور طلاق دینے پر بھى آمادہ ہوجاتے ہیں _

ایک عورت نے عدالت میں بتایا : سواسال قبل میرى شادى ہوئی تھى چھ ماہ بعد میں حاملہ ہوگئی _ میرا شوہر کہا کرتا تھا کہ مجھے بیٹا چاہئے _ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرے پیٹ میں ایک کے بجائے دو یا تین بچے ہیں _

چند روز قبل اسپتال میں میرى دو جڑوال لڑکیاں پید اہوئیں _ جب نرس نے مجھے دو جڑوال لڑکیوں کى خبر سنائی تو میں خوشى سے پھولى نہیں سمار ہى تھى _ جب میرا شوہر مجھے دیکھنے آیا اور اسے دو لڑکیوں کى خبر سنائی تو وہ ناراض ہوگیا اور کچھ دیر بعد کوئی بہانہ کرکے کمرے سے باہر چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا _ رات کو جب میرا شوہر مجھے لینے آیا تو میں نے اس سے کہا کہ بچیوں کولے آؤ_ وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا اورشور مچانے اور غصہ کرنے لگا بولا '' دو جڑوال لڑکیاں نہیں ہونى چاہئے تھیں_ ان بچیوں کو یہیں چھوڑ دو '' میں بھى اپنے باپ کے گھر چلى آئی اور اب طلاق کى درخواست کرتى ہوں _ (277)

ایک خاتون ... نے عدالت میں اخبار اطلاعات کے رپورٹر کوبتایا: اپنى 21 سالہ شادى شدہ زندگى میں نے خون کے گھونٹ پى پى کر گزارى ہے _ پانچ بچوں کى پیدائشے کے بعد مجھے علیحدہ ہونے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے _کیونکہ میرا شوہر ایک ایسى عورت سے شادى کرنا چاہتا ہے جس میں صرف ایک خوبى ہو کہ وہ لڑکا پیدا کرسکے _ اس خاتون نے بڑے دکھ سے کہا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے لڑکیوں کو جنم دیا ہے _ میرى پانچ لڑکیاں ہیں سب کى سب خوبصورت ، ذہن و عقلمند اور پڑھنے میں تیز ہیں _ اور کبھى اپنے باپ کے لئے پریشانى کا باعث نہیں بنیں _ جب خدا کى مرضى نہیں کہ مجھے ایک بیٹادے تو اس کے لئے میں کیا کروں؟ آج تک میرا شوہر مجھے سے یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ میں اس ایک اور شادى کرنے کى اجازت دے دوں _ (278)

افسوس کہ یہ برى عادت جو بعض مردوں میں پائی جاتى ہے در اصل دور جاہلیت کى یادگار کے طور پر ہمارے درمیان آج بھى باقى ہے _ وہ دور جس میں مردوں کو عورت کے انسان ہونے میں شبہ تھا لڑکى کا باپ بن جانے سے حقارت و شرمندگى محسوس کرتے تھے بے گناہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے _ قرآن مجید ان لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے :_

جس وقت ان میں سے کسى کو لڑکى پیداہونے کى خبر ملتى تو شرم کے مارے اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا اور خشم ناک ہوجاتا _ اور اس کى خبر کو سن کر اپنى قوم کے لوگوں کى نظروں سے چھپا چھپا پھر تا اور سوچتا کہ آیا خفت وخوارى کے ساتھ اس کى حفاظت کرے یا اسے (زندہ ہی) زمین میں چھپادے _دیکھو یہ لوگ کس قدر بے انصافى سے کام لیتے ہیں _ (279)

لیکن اسلام ان غلط افکار کا مقابلہ کرتا ہے عورت و مرد کو یکساں اور برابر قرار دیتاہے _ پیغمبر اسلام ''رحمة للعالمین'' (ص) فرماتے ہیں : تمہارى بہترین اولاد لڑکیاں ہیں _ (280)

حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : عورت کى خوش قدمى کى علامت ہے کہ اس کى پہلى اولاد لڑکى ہو _ (281)

حضرت رسول خدا (ص) ، یہ بھى فرماتے ہیں _ جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں کى پرورش کرے اس پر بہشت واجب ہوگئی _ (282)

اگر لڑکى خراب چیز ہوتى تو خداوند عالم اپنے پیغمبر (ص) کى نسل کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ذریعہ قائم نہ کرتا _

جناب محترم آپ روشن خیال اور تہذیب یافتہ ہونے کا دعوى کرتے ہیں _ ان غلط افکار کو دور پھینکئے _ بیٹے اوربیٹى میں کیا فرق؟ دونوں ہى آپ کى اولاد اور اپنے ماں باپ کى یادگار ہوتے ہیں _ دونوں ہى انسان ہیں اور ترقى وتکامل کے قابل ہیں _ اگر لڑکى کى صحیح طریقے سے تعلیم و تربیت کى جائے تو وہ سماج کى ایک برجستہ فرد ہوسکتى ہے _ اور معاشرے میں قابل قدر خدمات انجام دے سکتى ہے اور اپنے والدین کى سربلندى و افتخار کا باعث بن سکتى ہے _ بلکہ بیٹى کئی لحاظ سے بیٹے سے برتر ہوتى ہے _ مثلاً

بیٹیاں ، اپنے والدین کا زیادہ خیال کرتى ہیں _ بعض لڑکے جب بڑے ہوجاتے ہیں اور آزاد ہوجاتے ہیں تو اپنے والدین پر زیادہ توجہ نہیں دیتے _ اگر ان کو آزار نہیں پہونچاتے تو اپنے وجود سے کوئی خاص فائدہ بھى نہیں پہونچاتے _ لیکن لڑکى ہر حال میں اپنے والدین کى نسبت ہمدرد اور مہربان ہوتى ہے خصوصاً اگر والدین بیٹے بیٹى میں فرق نہ کریں اور بیٹیوں کے حقوق پائمال نہ کریں تو ہمیشہ اپنى بیٹیوں کى نظروں میں محترم و محبوب رہتے ہیں _

اقتصادى لحاظ سے بھى بیٹى ، بیٹے کے مقابلے میں کم خرچ ہوتى ہے _ ماں باپ کے پاس رہنے کا وقفہ کا نسبتاً کم ہوتا ہے _ بڑے ہوتے ہى ایک مختصر جہیز لے کر شوہر کے گھر چلى جاتى ہے _ اس کے بعدماں باپ اس کے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن بیٹا زیادہ مدت تک بلکہ آخر عمر تک ماں باپ کے سرپربار ہوتا ہے _ اس کى تعلیم کا خرچ اٹھانا ، پھر اس کے لئے مناسب کام تلاش کرنا _ اس کى شادى کرنا، شادى کے اخراجات اٹھانا ، اس کے بعد جب ضرورت ہوئی والدین کے سرپر آپڑا _

اگر والدین بیٹے بیٹى میں فرق نہ کریں اوراپنے داماد کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اپنے بیٹے جیسى محبت کریں اور اس کى مشکلات اور پریشانیوں میں اس کى مدد کریں تو اکثر داماد بیٹے سے زیادہ محبت کرنے والے ہوتے ہیں _

اصولى طور پر بیٹى کى پیدائشے میں آخر بیوى کا کیا قصور ہے جو شوہر اس پر اعتراض کرتے ہیں اس میں میاں بیوى دونوں ہى شریک ہیں _

ممکن ہے بیوى شوہر پر اعتراض کرے کہ لڑکى کیوں پیدا کى _ در حقیقت اس میں قصور وار کوئی بھى نہیں ہے بلکہ یہ چیز تو خدا کى مرضى و مصلحت پر منحصر ہوتى ہے _ وہ جس کو چاہتا ہے لڑکى دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکا عطا کرتا ہے _ البتہ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ لڑکے یا لڑکى کى پیدائشے حمل کے شروع کے دومہینوں میں ماں کى غذاکى نوعیت پر منحصر ہے ان کا کہنا ہے کہ غذا کے مخصوص پروگرام کے تحت حسب ودلخواہ اولاد پیدا کى جا سکتى ہے _

لہذا جن لوگوں کى شدید خواہش ہے کہ بیٹا پید اہو بہتر ہے کہ اس سلسلے میں اس فن کے ماہر ین سے مشورہ کریں اور بلا سبب اپنى اور اپنى بیوى کى پریشانى اور ناراضگى کے اسباب فراہم نہ کریں _

ایک عقلمند اور روشن خیال انسان بیٹى کى پیدائشے کى خبر سن کر نہ صرف یہ کہ رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ خوشى و شادمانى کا اظہار کرتاہے _ اس خیال سے کہ دوسرے اور اس کى بیوى یہ نہ سوچیں کہ بیٹى کى پیدائشے پر اسے افسوس ہے ، معمول سے کچھ زیادہ ہى خوشى ظاہر کرتا ہے _ بیوى کى نسبت زیادہ نوازش ومحبت سے پیش آتا ہے اور امکان میں ہوتو اس کوتحفہ پیش کرتا ہے _ اپنى نومولود بچى کى ولادت پر جشن مناتا ہے _ اگر بیوى بیٹى کى پیدائشے سے رنجیدہ ہے تو اس کو تسلى دیتا ہے اور دلیل و ثبوت کے ذریعہ واضح کرتا ہے کہ بیٹے اور بیٹى میں کوئی فرق نہیں _ خود بھى کبھى بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہیں دیتا او راس طرح عہد جاہلیت کے فرسودہ اور فضول خیالات سے مقابلہ کرتا ہے _

ایک شخص رسول خدا (ص) کے پاس بیئها تها که اس کوبیئی کی پیداکش کی خبر ملی - یه خبر سن کر اس کے چهرهے کارنگ متغیر هوگیا - پیغمبر اکرم (ص) نے پوچها - تمهارے چهرے کی رنگت کیوں بدل بدل گئی ؟ عرض کیا جب میں گهر سے چلاتها اس دقت سیری بیوئی و ضع خمل کمی حالت بس تهی اب مجھے اطلاع ملى ہے کہ لڑکى پیدا ہوئی ہے _ رسول خدا (ص) نے فرمایا : زمین اس کو جگہ دے گى اور آسمان اس کے سرپر سایہ کرے گا _ اور خداوند عالم اس کو روزى عطاکرے گا _ وہ پھول کى مانند ہے کہ جس کے وجود سے تم کو فائدہ ہوگا _ (283)

 


272_روزنامہ اطلاعات 17 فرورى سنہ 1972ئ
273_وسائل الشیعہ ج 15 ص 97
274_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 96
275_وسائل الشیعہ ج 15 ص 99
276_روزنامہ اطلاعات 24 جولائی سنہ 1972 ء
277_روزنامہ اطلاعات 5 جولائی سنہ 1970ئ
278_روزنامہ اطلاعات 7 مارچ سنہ 1972
279_سورہ نحل آت 58
280 _مستدرک ج 2 ص 615
281_مستدرک ج 2 ص 614
282_وسائل الشیعہ ج 15 ص 100
283_وسائل الشیعہ ج 15 ص 101