پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

زمانہ حمل اورزچگي

زمانہ حمل اورزچگی

زمانہ حمل بہت حساس اورسرنوشت ساز دور ہوتا ہے _ ماں کى غذا اور اس کى جسمانى حرکات و نفسیاتى حالات خود اس کے مستقبل پر اور اس کے رحم میں پرورش پانے والے بچے ، دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں _

بچے کى سلامتى یابیمارى ، طاقت یاکمزوری، خوبصورتى یا بد صورتى ، خوش اخلاقى یا بداخلاقى اور کسى حد تک ذہانت و عقلمندى اسى زمانے میں جبلکہ وہ رحم مادر میں ہوتا ہے تشکیل پاتى ہے _

ایک دانشور لکھتا ہے : بچے کے والدین کے ہاتھ میں ہے کہ اس کى اچھى طرح نشو و نما کریں یا خراب اور غمگین گوشہ میں اس کى پرورش کریں _ یہ امر مسلم ہے کہ مذکورہ دوسرى جگہ انسانى روح کے رہنے کے لائق نہیں ہوتى اس لئے انسانیت کے مقابلہ میں ماں باپ کے کندھوں پر بہت بھارى ذمہ دارى رکھى گئی ہے _ (284)

لہذا زمانہ حمل کو ایک عام زمانہ نہیں سمجھنا چاہئے _ اور اس کى طرف سے بے توجہى برتنى چاہئے بلکہ دوران حمل کى ابتدا سے ہى ماں باپ پر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوجاتى ہے کہ اگر ذرا بھى غفلت برتى تو شدید ا ً اور ناقابل تلافى مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ یہاں پر چند باتوں کا تذکرہ ضرورى معلوم ہوتا ہے _

1_ غذائی پروگرام : جو بچہ ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے وہ ماں کے خون سے غذا حاصلہ کرتا ہے اور نشو ونما پاتا ہے _ اس بناء پر ماں کى غذا ، اتنى مکمل اور بھر پور ہونى چاہئے کہ خود اپنى غذائی ضروریات کو پورا کرے اور صحیح و سالم زندگى گزارے اور دوسرى طرف بچے کے جسم و جان کى پرورش کے لئے جن غذائی مواد کى ضرورت ہوتى ہے وہ اسے فراہم ہوسکے تا کہ اچھى طرح صحت و سلامتى کى ساتھ نشو و نما پا سکے ، لہذا ایک حاملہ عورت کا غذائی پروگرام بہت مناسب اور ممکن ہونا چاہئے _ کیونکہ بعض غذائی مواد مثلاً مختلف وٹامن ، معدنى مواد، پروٹین ، چربى ، شکر اور نشاستہ و غیرہ کى کمى یا فقدان سے ماں اور بچے (جو کہ ماں کے خون سے غذا حاصل کرتا ہے ) دونوں ہى کى صحت و سلامتى کو خطرہ لاحق ہوتا ہے _

امام صادق (ع) سے ایک حدیث منقول ہے کہ ''مال جو کچھ کھاتى ہے اور پیتى ہے ، ماں کے رحم میں موجود بچے کى غذا اسى سے بنتى ہے _ (285)

یہاں پر ایک اور مشکل بھى پیش آتى ہے _ بعض خواتین کا حمل کے پورے زمانے میں یا کچھ مدت تک عام مزاج نہیں رہتا بلکہ بعض کھانوں سے انھیں نفرت ہوجاتى ہے یا کم خوراک ہوجاتى ہیں جبکہ اس زمانے میں انھیں زیادہ غذا کى ضرورت ہوتى ہے اس لئے جن غذائی چیزوں سے انھیں رغبت ہواور وہ مختلف غذائی مواد سے بھرپور بھى ہوں اور ان کا حجم بھى ہو ان کے لئے مہیا کى جائیں _ اس قسم کے غذائی پروگرام کى تنظیم کرنا دشوار کام ہے بالخصوص ان افراد ک ےلئے جن کى آمدنى کم ہو اور حفظان صحت او رغذاؤں کى خاصیت سے پورى طرح آگاہ نہ ہوں _ یہاں پر بچے کے باپ کے اوپر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے _ اس کو چاہئے اپنے امکان بھر کوشش کرے اوراپنى حاملہ بیوى اور بچے کے لئے جو کہ ابھى رحم مادر میں پرورش پارہا ہے ، مناسب اور طاقت و توانائی سے بھر پور غذائیں مہیا کرے _ اگر اس نے عظیم ذمہ دارى سے کوتاہى کى تو اس کى بیوى اور بچے دونوں کى صحت و سلامتى کو نقصان پہونچے گا _ اس دنیا میں بھى اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں بھى خدا کے عتاب کا نشانہ بننا پڑے گا _

2_ ذہنى سکون : ایام حمل کے دوران عورت کو مکمل ذہنى سکون و آرام کى ضرورت ہوتى ہے اور اسے زندگى سے بھر پور اور خوش و خرم رہنا چاہئے _ کیونکہ جسمانى آرام اور ذہنی سکون اور خوشى ومسرت خو د اس کى صحت و سلامتى پر بھى اثر انداز ہوتى ہے اور اس کے شکم میں پرورش پانے والے بچے کے جسم اورنفسیات پر بھى اس کا بہت اثر پڑتا ہے _ خوشى و سکون کا ماحول فراہم کرنا بھى شوہر کى ذمہ دارى ہے شوہر کو چاہئے ہمیشہ اپنى محبتوں اور نوازشوں اور دلجوئیوں سے اپنى بیوى کے دل کو گرم اورخوش ومطمئن رکھے لیکن حمل کے زمانے میں اس میں اور اضافہ کردینا چاہئے _ شوہر کا سلوک ایسا ہونا چاہئے کہ اس کى بیوى اپنے وجود میں پیدا ہونے والے اس تغیر پر غرور و شادمانى محسوس کرے اور اپنے آپ پر فخر کرے کہ اس کى سرشت میں ایک اچھے اور سالم انسان کى پرورش کى ذمہ دارى رکھى گئی ہے _ اور اسے اطمینان ہو کہ اس کا شوہر اپنے پورے وجود سے اسے چاہتا ہے اور اپنے ہونے والے بچے سے بھى دلچسى رکھتا ہے _

3_ شدید حرکات سے پرہیز کرنا چاہئے : حمل کے زمانے میں عورت کو آرام کى ضرورت ہوتى ہے اور اسے دشوار اور بھارى کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے _ بھارى چیزیں اٹھانا، تیزتیز چلنا ، اچھلنا ، کودنا خود اس کے اور بچے کے لئے نہایت مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے _ حاملہ عورتوں کو اس بات کو پورا دھیان رکھنا چاہئے _ شوہروں کا بھى فرض ہے کہ اپنے بیویوں کو بھارى چیزیں نہ اٹھانے دیں اور بھارى کام نہ کرنے دیں بلکہ بھارى کام خود انجام دیں _

4_ زمانہ حمل میں بعض خواتین وضع حمل کے مراحل سے بہت زیادہ خوفزدہ رہتى ہیں _ خصوصاً جن خواتین کا پہلا بچہ ہو یا جن کے بچے غیر فطرى طریقے سے پیدا ہوتے ہوں _اس سلسلے میں بھى شوہر کو اپنى بیوى کى مدد کرنى چاہئے اسے تسلى دے ہمت بندھائے _ _اور بتائے کہ اگر اپنى صحت و تندرسى کا خیال رکھا تو بچے کى پیدائشے میں کوئی مشکل نہ ہوگى یہ ایک فطرى عمل ہے جس سے تمام عورتوں کو گزرنا پڑتا ہے اور اس کو برداشت کرنا بہت مشکل نہیں ہے اس تکلیف بصورت بچہ عطا فرمائے گا جو ہمارے لئے افتخار کا باعث ہوگا _ اور اپنی ہر طرح کى مدد کا وعد کرے _ و غیرہ

5_ بچے کى پیدائشے کا مرحلہ سخت ہوتا ہے _ حاملہ عورتیں احتمالى خطرات و نتائج سے خوفزدہ ہوتى ہیں _ وضع حمل کے بعد بھى ضعف و کمزورى باقى رہتى ہے _ بچے کى پیدائشے کے سلسلے میں عورت کو نو ماہ حمل کى زحمت ، پھر بچے کو جنم دینے کے سخت اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اوردودھ پلانا ہوتا ہے _ لیکن بچے کو وجود میں لانے میں شوہر پورى طرح دخیل رہتا ہے _ در حقیقت بچہ ماں باپ دونوں کے اشتراک سے وجود میں آتا ہے _ اگر چہ اس نئے وجود کا مرکز ماں کا رحم ہوتا ہے _ لہذا شوہر کا اخلاقى ، انسانى اور اسلامى لحاظ سے یہ فریضہ ہے کہ زچگى کے سخت مراحل سے گزرنے میں اپنى بیوى کى دلجوئی کرے _ اور پورى کوشش کرے کہ یہ مرحلہ آسانى سے انجام پاجائے _ اگر ڈاکٹر ، دوا اور اسپتال لے جانے کى ضرورت ہو تو اس سے دریغ نہ کرے _ اظہار محبت کے ذریعہ بیوى کى ہمت بنڈھائے _ جب بیوى اسپتال میں ہو تو برابر اس کى احوال پرسى کرتا رہے _ برابر اس کے پاس جائے بچے کى پیدائشے کے بعد ممکن ہو تو فوراً اس کے پاس جائے _ جب بیوى و بچہ اسپتال سے گھر آئیں تو بہتر ہے کہ خود ساتھ رہے _ اور گھر میں اس کے آرام کے سامان مہیا کرے _ کمزورى کے زمانے میں اسے بھارى کام نہ کرنے دے _ کوشش کرے کہ اس کے لئے مقوى غذاؤں کا انتظام رہے تا کہ وہ اپنى کھوئی ہوئی طاقت کو پھر سے محال کرلے اور صحت و سلامتى کے ساتھ اپنے کاموں او رنوزاد کى پرورش میں مشغول ہوجائے _

مرد اگر اس طرح سے اپنے اخلاقى و اسلامى فریضہ کو پورا کرے گا تو خدا اسے اجر عطا فرمائیگا حضرت رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں بہترین مرد وہ ہے جو اپنى بیوى کے ساتھ اچھا سلوک کرے _ اور میں تم سب کى بہ نسبت اپنى بیویوں سے سب سے اچھا سلوک کرنیوالا ہوں _ (286)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا اس شخص پر رحمت نازل کرتا ہے جو

اپنے اور اپنى بیوى کے درمیان اچھا رابط قائم رکھتا ہے کیونکہ خداوند عالم نے مرد کو اختیار دیا ہے اور اس کو سرپرست بنایا ہے _ (287)

مرد اپنے اچھے طرز سلوک سے اپنے خاندان کے مرکز کو اور زیادہ پر خلوص اور گرم بنا کر ازدواجى زندگى کو مزید مستحکم و پائیدار بنا سکتا ہے _ ایسے مرد کى بیوى بھى اپنے مہربان شوہر کى نوازش محبتوں اور زحمتوں کا جواب بھى محبت سے دے گى اور نہایت ذوق و شوق اور دلچسپى کے ساتھ زندگى کے کاموں میں مشغول رہے گى _
بچہ کى پرورش میں بیوى کى مدد کیجئے

بچے ، میاں بیوى کى مشترکہ ازدواجى زندگى کا ثمرہ ہوتے ہیں _ بچے کى پیدائشے میں دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں ان کے نفع و نقصان میں دنوں شریک ہوتے ہیں _ لہذا بچے کى پرورش و نگہداشت بھى میاں بیوى کا مشرتکہ فریضہ ہے نہ کہ فقط بیوى کا یہ صحیح ہے کہ مائیں نہایت محبت و رغبیت کے ساتھ اپنے بچے کى پرورش کرتى ہیں اور بچے کے تمام کام نہلانا دھلانا ، دودھ پلانا و غیرہ نہایت دلچسپى اور توجہ کے ساتھ انجام دیتى ہیں _ بچے کى دیکھ بھال اور پرورش میںہر قسم کى تکلیف و زحمت برداشت کرتى ہیں _ بچہ بیمار یا بے چین ہو تو سارى رات جاگ کر گزاردیتى ہیں اس کے رونے چیخنے چلاّنے کو برداشت کرتى ہیں لیکن شوہروں کو بھى چاہئے کہ اپنى بیوى کے ایثار اور زحمات کو معمولى نہ سمجھیں اور یہ نہ کہیں کہ بچہ کى پرورش کرنا عورت کا کام ہے میرى اس سلسلے میں کوئی ذمہ دارى نہیں _ یا جب بچہ بے چین ہو اور رورہا ہو تو بچہ کو ماں کے پاس چھوڑ کر خود دوسرے کمرے میںجا کر سوجائے _

برادر عزیز یہ بات بالکل درست نہیں _ یہ بچہ آپ دونوں کا ہے_ اس کى دیکھ بھال بھى آپ دونوں کا مشترکہ فریضہ ہے _ کیا آپ محبت و جذبات سے عارى ہیں ؟ کیا انصاف ہے کہ آپ خود تو ایک کونے میں جاکر آرام کریں اور بیچارى بیوى کو تنہا اس شور اور پریشانى سے نپٹنے کے لئے چھوڑدیں؟ کیا زن دارى اور خاندان سے محبت اسى کا نام ہے ؟ اگر آپ دن بھر کے کاموں سے تھک گئے ہیں تو آپ کى بیوى بھى تو سارے دن گھر کے کاموں میںمشغول رہى ہے اور تھکى ہارى ہے _ اگر آپ کو نیند آرہى ہے تو اس کو بھى نیند آرہى ہوگى _ اگر بچہ کے رونے اور چیخنے چلاّنے سے آپ کے اعصاب خستہ ہوجاتے ہیں تو بیچارى ماں بھى تو پریشان ہوجاتى ہے لیکن اس کے لئے سوائے برداشت کرنے کے اور کوئی چارہ ہى نہیں ہے _

برادر محترم انصاف ، ضمیر ، اسلامى اخلاق اور رفیق زندگى کا ساتھ نبھانے کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے حساس موقعوں پربچے کى نگہداشت میں اپنى بیوى کى مدد کریں یا تو دونوں مل کر بچے کو چى کرائیں اس کے بعد سوئیں _یا کچھ ویربچے کو آپ دیکھیں اور آپ کى بیوى سوجائے _ اور کچھ دیر بیوى بچے کو دیکھے اور آپ سوجائیں _ اگر آپ کى بیوى رات کو جاگنے کے سبب صبح کى نماز کے بعد آرام کرنا چاہے تو آپ اس سے اس بات کى توقع نہ کریں کہ ہرروز کى مانند وہ آپ کے لئے ناشتہ تیار کرے _ کیا ہرج ہے اگر آپ خود چائے اور ناشتہ تیار کرکے کھالیں اور بیوى کے لئے بھى تیار کرکے باہر جائیں _ جب سفر یا دعوت میں جائیں تو ضرورى نہیں ہے کہ بیوى ہى سارے وقت بچے کو گود میں لئے رہے _ بلکہ آپ اس کام میں بھى اس سے تعاون کریں _ بطور مجموعى بچے کى دیکھ بھال اور پرورش میں آپ پورى طرح مدد کریں _ زن دارى اوراسلامى اخلاقى اسى کانام ہے _ اور یہ چیز آپ کى زندگى کو خوشى و مسرت سے ہمکنارکرے گى _

البتہ بہنوں سے بھى اس سلسلے میں عرض ہے کہ شوہر بہت زیادہ توقعات نہ رکھیں کیونکہ کسب معاش اور ضروریات زندگى کو مہیا کرنے میں اسے گوناگون مشکلات اورزحمتوں کا سامنا پڑتا ہے اورانھیں یہ بات ذہن میں رکھنى چاہئے کہ مرد کو گھر سے باہر طرح طرح کى مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تھکاہارا آرام وسکون حاصل کرنے کى غرض سے گھر آتاہے لہذا یہ توقع نہ کریں کہ جب وہ گھر آئے تو کپڑے اتارکرفوراً بچے اور گھر کے کاموں میں مشغول ہوجائے _ اس سلسلے میں ضرورت سے زیادہ اور عام حالات میں اسے سے مدد کى امید نہیں رکھنى چاہئے _

 

284_کتاب راز آفرینش انسان ص 108
285_ بحارالانوار ج ص 342
286_وسائل الشیعہ ج 14 ص 122
287_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 122