پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شكّى مرد

شکّى مرد

یہ صحیح ہے کہ شوہر کو اپنى بیوى کى نگرانى کرنا چاہئے لیکن ن ہ اس طرح کہ شک و شبہ کى حد تک بڑھ جائے _ بعض مرد بدگمانى اور شک کى بیمارى میں مبتلا ہوتے ہیں اور بلا سبب اپنى بیوى پر شک کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان کى وفادار نہیں ہیں _

جو مرد اس خانماں سوز مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ خود اپنى اور اپنے خاندان کى زندگیاں تلخ کردیتے ہیں _ بہانے تلاش کرتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں _ اپنى بیوى کى حرکات و سکنات کو شک کى نظرسے دیکھتے ہیں اور سایہ کى طرح اس کا پیچھا کرتے ہیں چونکہ دل میں شک ہوتا ہے اس لئے انھیں درودیوار پر شک ہوتا ہے _ جو چیزیں خیانت اور بے وفائی کى دلیل نہیں ہوتیں ، اپنے وہم کے سبب ان باتوں کو بھى بیوى کى بے وفائی کى قطعى دلیل تصورکر لیتے ہیں _ مثلاً فلاں مرد نے چونکہ اس کو خط لکھا ہے یقینا دونوں میں تعلقات رہے ہوں گے فلاں جوان کى فوٹو اس کے پاس تھى ضرور اس کو چاہتى ہوگى _ فلاں مرد نے سلام اور احوال پرسى کى تھى اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیوى وفادار نہیں جوان ہمسائے نے کوٹھے کى چھت سے اس پر نظر ڈالى تھى یقیناً دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں _ یا بیوى نے فلاں مرد کى تعریف کى نھى اس کا مطلب ہے وہ اس پر فریفتہ ہے _ یا بیوى نے خط مجھ سے چھپایا تھا یقینا وہ اس کے معشوق کا خط ہوگا _ یا پہلے کے مقابلے میں اب مجھ سے کم اظاہر کرتى ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کسى اور کو چاہنے لگى ہے _ یا میرى بیٹى کى شکل مجھ سے نہیں ملتى اس سے بیوى کى خیانت ظاہر ہوتى ہے _

غرضکہ شکى مرد اس طرح کى بلکہ اس بھى معمولى باتوں کو خیانت کى قطعى دلیل مان کر بیوى پر شک کیا کرتے ہیں _ اس سے بھى بدتر تو اس وقت ہوتا ہے جب اس کى ماں ، بہن یا کوئی ہمسایہ دشمنى یا جلن کے سبب اس کے خیال کى تائید کردے _ اس صورت میں بیوى کا جرم و خیانت ان کى نظر میں یقینى ہوجاتا ہے _

جو بد نصیب خاندان شک کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں انھیں کبھى سکون و چین نصیب نہیں ہوتا مرد ایک خفیہ پولیس کى مانند ہمیشہ اپنى بیوى کے ہر ہرفعل کى نگرانى کرتا ہے اور معمولى معمولى باتوں پر اسے شک ہوتا ہے اور دائمى طور پر پریشانى میں مبتلا رہتا ہے _ بیچارى بیوى بھى ہمیشہ ایک بے گناہ مجرم کى مانند ذہنى اذیت و پریشانى میں مبتلا رہتى ہے _ اور سخت پابندیوں اور کڑى نگرانى کى حالت میں زندگى گزارنے پر مجبور ہوتى ہے _

ایسے خاندان کى بنیادیں ہمیشہ متزلزل رہتى ہیں اور ہروقت طلاق کا خطرہ لاحق رہتا ہے شک و شبہ کے نتیجے میں قتل و غارت گرى تک کى نوبت آجاتى ہے _

ایسے مردوں کى کافى تعداد پائی جاتى ہے جنھوں نے اپنى بے گناہ بیویوں کو اپنى بیجا بد گمانى کے سبب قتل کردیا اور خود بھى خودکشى کرلى _

شادى شدہ زندگى کے لئے یہ چیز نہایت خطرناک ہے ، ایسے موقعہ پر میاں بیوى کو ضد اور ہٹ دھرمى چھوڑدینا چاہئے اور ناگوار حادثات کے وقوع میں آنے سے قبل ہى عقل و تدبر سے کام لے کر اس کا حل تلاش کرلینا چاہئے _ میاں بیوى اگر ذرا بھى سمجھدارى سے کام لے کر اس عظیم خطرہ کو ، جوکہ ان کى تا ک میں ہے ، محسوس کر لیں اور احتیاط و عاقبت اندیشى کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کى کوشش کرلیں تو یہ کوئی ایسا دشوار اور ناقابل حل مسئلہ نہیں ہے _ مرد کو چاہئے بیجا وہم اور شک و شبہ سے پرہیز کرے اورسمجھدارى سے کام لے _ کسى پزشک کرنا بہت اہم اور بڑى ذمہ دارى کى بات ہے _ جب تک ٹھوس ثبوت و دلائل کے ذریعہ خیانت ثابت نہ ہوجائے کسى پر تہمت نہیں لگائی جا سکتى _

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : اے لوگوجو ایمان لائے ہو، بہت سى بدگمانیوں سے اجتناب کرو کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتى ہیں _ (224)

حضرت رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : جو شخص اپنى بیوى کو بلا سبب زنا کى تہمت لگائے ، اس کى سارى نیکیوں کا ثواب اس سے اس طرح الگ ہوجاتا ہے جس طرح سانپ اپنى کینچلى سے باہر نکل آتا ہے اور اس کے بدن کے ہر بال کے برابر ہزار گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں _ (225)

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں: جو شخص کسى مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے گا _ خداوند عالم قیامت میں اس کو آگ کى بھٹى پر رکھے گا تا کہ اپنے جرم کى سزاپائے _ (226) جب تک بیوى کى خیانت شرعى طور سے دلیل و ثبوت کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے مرد کو حق نہیں کہ اس کو ملزم ٹھہرائے _ بیوى پر جھوٹى تہمت لگانا اتنا عظیم گناہ ہے کہ اسلام میں اس کى سزا 80 کوڑے مقرر کى گئی ہے _

صرف احتمال کى صورت میں یا خیالى علائم و شوہاہد کے سبب ایک ایسے اہم موضوع کو ثابت نہیں کیا جا سکتا _ مثلاً جوانى میں کسى کو خط بھیجا یا کسى نے اس کو خط یا فوٹوا بھیج دیا تو یہ اس کى خیانت کى دلیل نہیں ہوسکتى _

یہ صحیح ہے کہ اس قسم کے کام ہرگز نہیں کرنا چاہئیں _ البتہ ہوسکتا ہے سادگى یا نادانى کے سبب اس غلطى کى مرتکب ہوگئی ہو لیکن حقیقتاً پاکدامن اور عفیفہ ہو جوانى میں اس قسم کى غلطیاں سرزد ہوجاتى ہیں _ اگر کوئی مرد خط بھیجتا ہے تو اس کا خط قبول نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر نادانى کے سبب خط قبول کرلیا یا بدنامى کے خوف سے چھپادیا تو صرف اس خط کو خیانت کى دلیل نہیں ٹھہارایا جا سکتا اگر کسى غیرمرد کو سلا م کرلیا اور احوال پرسى کرلى ،اگر چہ کسى غیر مرد سے گرمجوشى کا اظہار کرنا اچھى بات نہیں لیکن صرف یہ بات خیانت کى دلیل نہیں ہوسکتى _ ممکن ہے اپنے خیال میں خوش اخلاقى کا مظاہرہ کرنا چاہتى ہو یا کوئی دوسرى وجہ ہوسکتى ہے _ ممکن ہے اس کے باپ یا بھائی کے دوستوں میں سے ہو ، یا کسى رشتے سے اس سے پہلے سے واقفیت رہى ہو _ اگر کسى مرد کى تعریف کردى تو یہ اس بات کى دلیل نہیں ہے کہ اس پر فریفتہ ہے اگر چہ بیوى کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اپنے شوہر کے سامنے کسى دوسرے مرد کى تعریف کرے لیکن شاید سادگى یا عدم توجہ کے سبب ایسا کیا ہو_ لیکن محض اس بات کو خیانت کى علامت نہیں سمجھنا چاہئے _

اگر اپنے خط کو پوشید ہ رکھتى ہے یا کسى بات میں جھوٹ بولا یا غلط بیانى کردى تو یہ چیز بھى خیانت کى دلیل نہیں _ ممکن ہے بدنامى کے خوف سے خط چھپا دیا ہو یا خط میں جو بات لکھى ہوا سے اپنے شوہر سے مخفى رکھنا چاہتى ہو _ یا غلط بیانى کى کوئی اور وجہ بھى ہوسکتى ہے _ اگر پہلے کى بہ نسبت کم اظہار محبت کرتى ہے تو یہ اس بات کى دلیل نہیں کہ اس نے کسى دوسرے سے دل لگالیا ہے اس کى دوسرى وجوہات ہوسکتى ہیں _ کسى بات پر ناراض یا غصہ ہو ، بیمار ہو ، شوہر کى بے توجہى اورعدم اظہار محبت کے سبب دل برداشتہ ہوگئی ہو _ بہر حال اس قسم کى باتوں کو خیانت کى علامت ہرگز نہیں کہا جا سکتا _ مختصراً یہ کہ جو باتیں شک کا باعث بنتى ہیں اگر نیک نیتى سے ان پر غور کیا جائے تو وہ اصل میں نہایت معمولى معلوم ہوں گى _

برادر عزیز خدا کے لئے بد ظنى اور شک ووسواس چھوڑدیجئے _ ایک عادل قاضى کى مانند اپنى بیوى کى خیانت کے شواہد و دلائل کا نہایت توجہ اور انصاف کے ساتھ جائزہ لیجئے اور خوب سوچ سمجھ کر ان دلائل کو پرکھئے اور دیکھئے کہ کیا آپ کا شک واقعى درست ہے یا صرف بد گمانى ہے ؟

ہم یہ نہیں کہتے کہ لا ابالى اور بے غیرت بن جایئےلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو چیز پورى طرح ثابت ہوجائے صرف اسى پر یقین کیجئے اس سے زیادہ نہیں _

بیجا توہمات اور مہمل شواہد پر یقین کرکے کیوں اپنى اور اپنے خاندان کى زندگى عذاب میں مبتلا کرنے کے درپے ہیں _ اگر اسى قسم کے خیالى شواہد کى بناء پر کوئی آپ پر الزام لگائے تو آپ پرکیا گزرے گی؟ انصاف اور ضمیر کا تقاضہ کیا ہے ؟ کیوں اپنى اور اپنى بیوى کى عزت و آبرو خاک میں ملا نے پر تلے ہوئے ہیں ؟ اس کے حال زار پر آپ کو رحم نہیں آتا؟ کیا آپ نہیں سوچتے کہ ممکن ہے آپ کى بددلى اور بیجا تہمتوں کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ کى پاکدامن بیوى عفت و عصفمت کى وادى سے نکل کرتباہى و گمراہى کے گڑھے میں جاگرے؟

حضرت على (ع) نے اپنے بیٹے سے فرمایا: دھیاں رکھو جہاں ضرورت نہ ہو وہاں غیرت مندى نہ دکھاؤ_ کیونکہ یہ عمل صحیح افراد کو گمراہى کى طرف اور پاکدامن افراد کو گناہ کى جانب مائل کردینے کا سبب بنتاہے _ (227)

اگر آپ کو اپنى بیوى پر سک ہے تو یہ بات ہر ایک سے بیان نہ کیجئے کیونکہ ممکن ہے کچھ لوگ دشمنى ہا نادانى کے سبب یا ہمدردى جتانے کے لئے بغیر تحقیق کئے آپ کے خیال کى تائید کردیں بلکہ کچے اور بے بنیاد باتوں کا بھى اضافہ کردیں جو آپ کے شک کو یقین میں بدل دے اور آپ کى دنیا و آخرت تباہ ہوجائے _ خاص طور پر اس سلسلے میں اپنى ماں بہنوں سے ہرگز بات نہ کریں کیونکہ عام طور پر ساس نندیں بہوسے رقابت رکھتى ہیں ایسے مواقع پر توان کے حسد و کینہ میں تحریک پیداہوگى اور وہ انجام سوچے سمجھے _ بغیر آپ کے شک کو مزید تقویت پہونچانے کے اسباب فراہم کردیں گى _ اگر آپ دوسروں کى رہنمائی حاصل کرنا چاہئے ہیں تو اپنے عاقل ، تجربہ کار، خیرخواہ اور عاقبت اندیش قسم کے دوستوں سے مشورہ لیجئے _ سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اپنى بیوى کے جن اعمال و حرکات پر آپ کو شک ہے ان کے متعلق نہایت صبروسکون اور صراحت کے ساتھ اپنى بیوى سے بات کیجئے اور وضاحت طلب کیجئے _ لیکن اس سے آپ کا مقصد ، ہر حال میں اپنے شک کو ثابت کرنا نہ ہو _ بلکہ وقتى طور پر شک کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے اورایک عادل قاضى کى مانند اپنى بیوى کى وضاحتوں کو غور سے سنئے اور اس کى توضیات کو یکسر غلط نہ سمجئھے تھوڑى دیر کے لئے فرض کر لیجئے کہ آپ کا بہنوئی آپ کے پاس فیصلہ کرانے آیا ہے اور اپنى بیوى کى اس قسم کى شکایت کرتا ہے _ دیکھئے آپ اس کا فیصلہ کس طرح کریں گے؟

اپنى بیوى کے سلسے میں بھى اسى طرز فکر سے کام لیجئے _ اس کا گریہ زارى اور دلیل و ثبوت آپ کے پتھر دل پر اثر کیوں نہیں کرتا ؟ آپ کو اس کى باتوں پر یقین کیوں نہیں آتا ؟ بردبار اور عاقل بنئے _ مبادا فقط ان بے بنیاد شک و شبہات کى بناء پر آپ اپنى بیوى کو طلاق دے دیں اور اپنى اور اس کى زندگى تباہ کرلیں _ فرض کیا اس بیوى کو طلاق دیدى اور بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے کے بعد ایک دوسرى بیوى کا انتخاب کرلیا تو کیا گارنٹى ہے کہ دوسرى اس سے بہتر ہوگى _ آپ کى شکى طبیعت پھر آپ کو شک میں مبتلا کرسکتى ہے آپ کو اپنے بے گناہ بچوں کا خیال نہیں آتا ؟ آخر ان معصوموں کا کیا قصور ہے کہ وہ بیمارے آپ کے شک کے مرض کى بھینٹ چڑ ھ جائیں _ ان کى پمردہ صورت اور حسرت بھرى نگاہوں پر نظر ڈالئے اور بددلى چھوڑدیجئے کہیں ایسا نہ ہو کو بیجا شک و شبہ میں مبتلا ہوکر آپ خودکشى کا ارتکاب کرڈالیں یا اپنى بے گناہ بیوى کوقتل کرڈالیں _ ایک طرف قتل جیسے عظیم گناہ کے مرتکب ہوں کہ جس کى سزا خدانے دوزخ رکھى ہے اور دوسرى طرف اپنى نزدگى تباہ کرڈالیں یہ بات ذہن نشین رہے کہ خون زیادہ دن چھپا نہیں رہتا ایک نہ ایک دن جرم ظاہر ہوجاتا ہے اور مجرم کیفر کردار کو پہونچتا ہے پھانسى کے تختہ پر لٹکایا جاتا ہے ، یا سارى عمر قید میں بسر کرنى پڑتى ہے _

مجرمین کے اعداد و شمار پر نظر ڈالئے جن میں کچھ کى خبریں تو اخبار ورسائل میں بھى شائع ہوتى رہتى ہیں تا کہ اس قسم کے جرم کے نتائج آپ پرروشن ہوں _

اس قسم کے شکى مردوں کى بیویوں پر بھى بہت بھارى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے ان کو چاہئے کہ خود اپنى اور اپنے شوہر اور بچوں کى بھلائی کى خاطر ایثار و قربانى سے کام لیں اور اچھى طرح سے شوہر دارى کر یں _ ایسے ہى دشوار اور مشکل موقعوں پر خواتین کى لیاقت ، سمجھداری، دانشمندى اور تدبر کا امتحان ہوتا ہے _

خواہر عزیز سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجئے کہ آپ کا شوہر ایک خطرناک نفسیاتى بیمارى میں مبتلا ہے _ بلا سبب تو اپنى آپ کى زندگى تلخ نہیں کرے گا اور اصل وہ بیمار ہے _ جى ہاں شک کا مرض بھى خطرناک بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے _ لہذا بیمار کا علاج ہونا چاہئے تا کہ اس کا مرض دور ہوجائے _ حتى الامکان اس سے والہا نہ نحبت کا اظہار کیجئے _ اس قدر اپنى محبت و لگاؤ کا اظہار کیجئے کہ اس کو یقین جائے کہ آپ کے دل میں اس کے علاوہ اور کسى کى جگہ نہیں ہوسکتى _ اگر اعتراضات کرے بہانہ بازیاں کرے تو صبر کیجئے _ اس کے غصہ اور بدمزاجى کے مقابلے میں بردبارى سے کام لیجئے _ اس کى سختیاں کو برداشت کرلیجئے _ آہ و فریاد نہ کیجئے _ لڑائی جھگڑانہ کیجئے _ اس کى باتوں کے مقابلے میں ہٹ دھرى محسوس کرتى ہیں کہ آپ کے خطوں اورآپ کى حرکات و سکنات پر کنٹرول

تو ابرو پربل نہ آنے دیجئے _ روزمرہ کے تمام واقعات اور سارى باتیں اس سے باتیں اس سے بیان کردیا کیجئے _ کوئی بات اس سے پوشیدہ نہ رکھئے _ جس بات کى توضیح طلب کرے بے کم و کاست حقیقت اسے بتادیا کیجئے _ جھوٹ بولنے اور کوئی بات چھپانے سے پورى طرح اجتناب کیجئے _ کیونکہ اگر ایک مرتبہ آپ کاجھوٹ اس پر کھل گیا تو وہ آپ کے جرم کى سند اور قطعى ثبوت مان لیا جائے گا _ او رپھر اس کے شک کو دورنا بیحد مشکل ہوجائے گا _

اگر کہے کہ فلاں شخص سے نہ ملو _ فلاں کام انجام نہ دو تو بغیر چون و چرا مان لیجئے اور ضد یا بحث نہ کیجئے ورنہ اس کى بدگمانى بڑھ جائے گى _

غرضکہ ان تمام کاموں سے پرہیز کیجئے جن سے شک و بدگمانى پیدا ہونے کا امکن ہو _

حضرت على (ع) فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مشکوک حالت سے دوچار کرلے تو اس پر شک و شبہ کرنے والوں کو ملامت نہین کرنا چاہئے _ (228)

اگرکسى خاص شخص کى جانب سے مشکوک ہے یا اسے ناپسند کرتا ہے تو آپ اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کرلیں _

کچھ خاص افراد سے دوستى قائم رکھنے کے مقابلہ میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان سے کنارہ کشى اختیار کرکے اپنى اور اپنے شوہر کى زندگى تلخ ہونے سے بچالیں _ اپنے دل میں یہ نہ سوچئے کہ کیا میں اپنے شوہر کى زر خرید لونڈى ہوں یا نوکر ہوں کہ اس قدر سختیاں اور پابندیاں برداشت کروں جى نہیں آپ غلام نہیں ہیں البتہ ایک بیمار مرد کى شریک حیات ہیں _

جس وقت آپ شادى کے مقدس رشتے سے منسلک ہوئی تھى تو گویا آپ نے عہد کیا تھا کہ مشکلات اور پریشانیوں میں ایک دوسرے کے شریک و غمخوار رہیں گے _ کیا رسم و فادارى یہى ہے کہ آپ اپنے بیمار شوہر سے کشمکش جارى رکھیں اور ہٹ دھرمى اور ضد سے کام لیتى رہیں بیکار افکار سے دامن چھڑایئےور عقلمند اور عاقبت اندیش نبئے _ یقین مانئے اپنے شوہر اور خاندان کى خاطر آپ کا ضبط و تحمل اور اثار و فداکار بیحد اور لائق ستائشے ہے _ عورت کا ہنر تو اسى میں ہے کہ وہ ایسے دشوار گزار اور نازک حالات میں ایسے مردوں کا ساتھ نبھائے _ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں :عورت کا جہاد یہى ہے کہ اپنے شوہر کى اذیتوں کے مقابلے میں بردبارى سے کام لے _ (229)

ایسا کوئی نہ کیجئے کہ جس سے آپ کے شوہر کو شک پیدا ہوجائے یا اس کے شک میں مزید اضافہ ہوجائے _ غیرمردوں خصوصاً ان لوگوں کى جن کى طرف سے آپ کا شوہر بد ظن ہے ، تعریف نہ کیجئے _ نامحرم مردوں پر نگاہ ڈالئے _ پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں : جو شادى شدہ عورت نامحرم مردوں پر شوقیہ نگاہ ڈالے گى خداوند عالم اس پر شدید عذاب نازل کرے گا _ (230)

غیرمردوں سے ربط ضبط نہ رکھئے اور ان سے بات چیت نہ کیجئے _ اپنے شوہر کى اجازت کے بغیر ان کے گھر نہ جایئے کسى غیر مرد کى کارمیں لفٹ نہ لیجئے آپ کا باعصمت اور پاکدامن ہونا ہى کافى نہیں ہے بلکہ ان تمام امور سے مکمل طور پر دوررہنا بھى ضرورى ہے جن سے شک و شبہ پیدا ہونے کا امکان ہو _ ممکن ہے غفلت یا سادگى میں آپ سے کوئی ایسا معمولى سا فعل سرزد ہوجائے جو آپ کے شوہر کو بدگمان کردے _ ذیل کے واقعہ پر توجہ فرمایئے_

ایک 27 سالہ لڑکى ... نے عدالت میں بتایا : آٹھ سال قبل 1963سنہ ء کے موسم سرما کا ایک برفیلا دن میرى مصیت و پریشانى کا باعث بن گیا جب میں اپنى دوست کے اصرار پر ، اپنے گھر واپس آنے کے لئے اس کے ماموں کى کارمیں بیٹھ گئی اس واقعہ سے دوماہ قبل جبکہ میں اسکول میں زیر تعلیم تھى میرا عقد ہواتھا ہواتھا ، واقعہ یوں ہے، کہ ایک دن اپنے نوٹس تیار کرنے کے لئے اپنى ایک ہم جماعت کے گھر گئی تھی_ واپسى کے وقت برف بارى شروع ہوگئی میرى دوست نے مجھ سے کہا کہ میرا ماموں تمہیں اپنى کارسے گھر پہونچادے گا _ اتفاق سے جب میں گھر کے نزدیک پہونچى توگلى سرے پرمیرا شوہر کھڑا ہواتھا _ اسے دیکھ کر مجھ خوف محسوس ہوا او رمیں نے اپنى دوست کے ماموں سے کہا کہ مجھے یہیں اتارکر جلدى سے واپس چلا جائے _ وہ بھى ایک مجرم کى مانند فوراً فرارہوگیا _ اور یہى امر میرے شوہر کى بدگمانى میں اضافے کا سبب بنا _ بعد میں جب اس نے اعتراض کیا تو میں نے ڈرکرسرے سے انکار ہى کردیا اور اس بات نے میرے شوہر کو اس حد تک میرى طرف سے بدگمان کردیا کہ بعد میں میرى دوست اور اس کے گھر والوں کى گواہى بھى اس کو مطمئن اور آسودہ خاطر نہ کرسکى اوراس کا شک دور نہ ہوا _

اس کے بعد سے میرا شوہر نہ تو مجھے ساتھ رکھنے پر راضى ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق دیتا ہے اس واقعہ کو آٹھ سال ہورہے ہیں اور میں اسى طرح زندگى گزاررہى ہوں _ (231)

قارئین کرام کى نظر میں اس داستان میں اصل قصور وار کون ہے ؟

میرى نظر میں اصل قصور توبیوى کا ہے جس نے اپنى ناسمجھى اورنادانى کے سبب خوداپنے اور اپنے شوہر کے لئے مصیبت کھڑى کردی_

1_ پہلا غلط کام تو یہ کیا کہ ایک غیر مرد کى کارمیں سوار ہوگئی _ فرض کیجئے شوہر نے نہ بھى دیکھا ہوتا تب بھى اصولى طور پر ایک غیر مرد کى کارمیں عورت کا بیٹھنا ہى ایک بہت غلط اور خطرناک کام ہے _

2_ چلئے مان لیجئے ناسمجھى کے سبب غیر مرد کى کارمیں بیٹھ گئی تھى _ لیکن جب شوہر کو گلى کے سرے پر کھڑے دیکھا تھا تو چاہئے تھا اسى وقت اس شخص سے کارروکنے کو کہتى اورکارسے اترکر شوہر کے ساتھ گھر جاتى اورسارى بات اسے بتادیتى _

3_ بہت برى غلطى یہ کى کہ اس شخص کو بھاگ جانے کو کہا _

4_ چوتھى غلطى یہ کى بعد میں تمام واقعہ سے سرے سے انکار ہى کردیا _ حالانکہ ان سب باتوں کے بعد بھى موقعہ تھا کہ جب شوہر نے پوچھا تھا تو بے کم و کاست سارى بات بیان کردیتى اور اپنى غلطى کا اعتراف کرتى کہ نا سمجھى یا مروت کے سبب یہ نامناسب کام انجام دیا _

البتہ اس سلسلے میں مرد بھى بے قصور نہیں ہے _ محض اس واقعہ کو خیانت کى قطعى دلیل نہیں سمجھ لینا چاہئے تھا _ اس کو اس امکانى صورت حال پر توجہ دینى چاہئے تھى کہ اس کى بیوى غفلت ناتجربہ کارى یا ناسمجھى کے سبب اس غلطى کى مرتکب ہوئی ہے اور بعد میں الزام کے ڈرسے اس اس نے اس شخص کو بھا گ جانے کى ہدایت کى اور اسى سبب سے اصل واقعہ سے انکار کررہى ہے _ دانشمندى کا تقاضہ تویہ تھا کہ نہایت انصاف اور غیر جانبدارى کے ساتھ اس واقعہ کى پورى طرح تحقیق اور چھان بین کرتا اور ہر طرف سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد اس کى غلطى کو معاف کردتیا اور اس پر زیادہ سختى نہ کرتا _

 

224_سورہ حجرات آیت 12
225_بحارالانوار ج 103 ص 248
226_بحارالانوار ج 75 ص 194
227_بحارالانوار ج 103 ص 252
228_بحارالانوارج 74 ص 187
229_وسائل الشیعہ ج 103 ص 111
230_بحارالانوار ج 103 ص 39
231_روزنامہ اطلاعات 13 مارچ سنہ 1973ء