پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بے فائدہ شكوے شكايات

بے فائدہ شکوے شکایات

زندگى میں مشکلات اور دشواریاں پیش آتى رہتى ہیں _ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جسے کبھى نہ کبھى گردش ایام کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور وہ سو فیصدراضى و خوش ہو اور اسے کوئی غم نہ ہو _ البتہ بعض لوگ اس قدر وسیع القلب ، صابر اور باحوصلہ ہوتے ہیں کہ مشکلات کو نہایت سکون کے ساتھ برداشت کرلیتے ہیں _ زمانے کا رونا نہیں روتے صرف ضرورى مواقع پرہى ان کا ذکر کرتے ہیں اور سنجیدگى کے ساتھ مشکلات کو رفع کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں _

باوقار انسان نالہ و فریاد ، ہر ایک پر نکتہ چینى کرنے اور ہر ایک سے اپنا دکھرا بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہاس کا کوئی فادہ بھى نہیں اور یہ چیز نفس کى کمزورى کى علامت سمجھى جاتى ہے بلکہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اپنى پریشانیوں کو بیان کرنے سے ان کے درد کى دوا نہیں ہوجائے گى پس اپنا درد و غم سنا کر دوستوں کى پر لطف محفل کو کیوں درہم برہم کریں اور ان کا وقت برباد کریں لیکن بعض لوگوں میں اتنا ظرف نہیں ہوتا اور انھیں اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا کہ کوئی بات اپنے دل میں رکھ سکیں انھیں شکوہ شکایات اور نالہ و فغان کرنے کى عادت پڑجاتى ہے _ ہر کسى کے سامنے خواہ موقع محل ہو یا نہ ہو شکایتوں کے دفتر کھول کے بیٹھ جاتے ہیں _ دوستوں کى محفل میں ، جو کہ تفریح اور پر لطف وقت گزارنے کى خاطر سجائی جاتى ہے ، عنان سخن کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیںاور پریشانیوں ، زمانے کے کج رفتارى ، اور چرخ فلک کى شکایتیں کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں ، گویا شیطان کى طرف سے انھیں یہ کام سونپاگیا ہے کہ انس و خوشى کى محفل کو درہم برہم کردیں اور محفل میں موجود لوگوں کو بھى ان کى پریشانیاں یادلادیں _ یہى وجہ ہے کہ اکثر دوست اس قسم کے شیطان صفت لوگوں کى صحبت سے گریز کرتے ہیں اور جہاں تک ہو سکتا ہے ان سے اپنا دامن بچاتے ہیں _

چونکہ دوسرے لوگ ان کى شکایتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو اس کى تلافى اپنے گھر والوں سے کرتے ہیں اور اس سلسلے میںمعمولى باتوں کو بھى نظر انداز نہیں کرتے _ کبھى چیزوں کى مہنگائی کا گلہ کرتے ہیں کبھى ٹیکسیوں کے خراب سسٹم کى اور بسوں میں زیادہ مسافروں کو سوارکر لینے کى شکایت کرتے ہیں تو کبھى دوستوں کى بد سلوکیوں یا ساتھیوں کى رقابتوں اور رکاوٹوں یا باس کى سخت گیرى اور بے انصافیوں کا رونا روتے ہیں _ کبھى بازار کے ماندہ پڑنے یا خراب گاہکوں کا ، کبھى بیماریوں اور ڈاکٹروں کى اونچى فیسوں کا یا اچھے ڈاکٹروں کى کمى کا ماتم کرتے ہیں _ اس قسم کے افراد چونکہ قنوطى ہوتے ہیں اوردنیا میں انھیں صرف برائیاں ہى نظر آتى ہیں _ معمولى معمولى ناگوار باتوں سے متاثر ہوکر شکوہ کیا کرتے ہیں اور گھر والوں کا بھى سکون و چین غارت کردیتے ہیں _ ان بیچاروں کے لئے توکوئی راہ فرار بھى نہیں ہے بس جلے جائیں اور حئے جائیں _

برادر محترم اس قسم کى باتوں اور نالہ و زاریوں سے سوائے پریشانى کے کیا حاصل ؟ یہ کس درد کى دوا کرتى ہیں ؟ کیوں ایک برى اور بے سود عادت کے سبب اپنے خاندان والوں کى پریشانى میں اضافہ کرتے ہیں ؟ آپ کى بیوى صبح سے رات تک گھر میں کتنى زحمتیں اٹھاتى ہے اسے بھى گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے _ گھر کے کاموں کى کثرت اور بچوں کے ہنگاموں نے اس کے اعصاب کو تھکادیا ہے _

آپ کے بچے بھى اسکول سے یا اپنے کام پر سے تھکے ہارے گھر آئے ہیں سبھى آپ سے اس بات کى توقع رکھتے ہیں کہ آپ گھر آئیں گے تو اپنى خلوص گفتگو سے سب کے دلوں کو خوش کردیں گے _ سچ کہئے گا کیا یہى انصاف ہے کہ ان کى دلجوئی کرنے کے بجائے آپ ان کے لئے شکوہ و شکایات کا تحفہ لے کر آئیں ؟

کیوں انس و محبت کے مرکز اوراپنى آرام و آسائشے کو ایسے سلگتے ہوئے جہنّم میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ جس کے ہر گوشے سے نالہ و فریاد اور آہ و زارى کى صدائیں بلند ہوتى ہیں ؟ اگر زندگى کے مخارج زیادہ ہیں یا دوسرے لوگ ناروا سلوک کرتے ہیں یا کچھ اور مشکلات درپیش ہیں تو اس میں آپ کے بیوى بچوں کا کیا قصور ہے ؟ اگر آپ کا کاروبار ماندہ چل رہا ہے ، یا ٹھپ ہوگیا ہے وہ لوگ کیا کریں؟

آپ کى یہ ضرر سال عادت جو کسى مشکل کو حل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتى ، آپ کے گھر والوں کو ، گھر زندگى اور آپ کى صورت سے بیزار بنادگے گى ، بدمزگى اور رنجیدہ دلى کے ساتھ جو کھانا کھایا جائے گا اس کا بھلا کیا اثر ہوگا ؟ بس سب زہر مارکرلیں گے _

آپ کے بیوى بچے آپ کے دائمى شرسے بچنے کى خاطر ، گھر سے فرار اختیار کرنے کى کوشش کریں گے بہت ممکن ہے فتنہ و فساد اور بدعنوانیوں کے رنگین جالوں میں پھنس جائیں _ اس کے علاوہ مختلف بیماریوں خصوصاً اعصابى امراض میں ہمیشہ گرفتار رہیں _

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ بردبارى ، متانت و سنجیدگى ، اعلى ظرفى اور عقلمندى سے کام لیں؟ جب آپ گھر کے لئے روانہ ہوں تو آلام و مصائب اور تلخیوں کى وقتى طور پر فراموش کردیجئے اور ہنستے مسکراتے خوش و خرم گھر آیئے جب تک گھر میں رہئے اچھے اور خوشگورا موڈمیں رہئے _ گھر کے ماحول کو ٹھیک رکھئے زمانے کى شکایتں اور دردل بیان کرے نہ بیٹھ جایئےور اپنے گھر والوں کو رنجیدہ و افسردہ نہ کرویجئے اچھى اچھى باتیں کیجئے خود بھى ہنسئے اور دوسروں کو بھى ہنسایئے خوشگوار ماحول میں سب مل کر کھانا کھایئےور محبت بھرے پر سکون ماحول سے فرحت حاصل کیجئے اور زندگى کى جد و جہد میں سرگرم عمل رہنے کے لئے اپنے دل و دماغ کو تروتازہ کیجئے _

اسلام میں بھى بردبارى سے کام لینے اور آہ و زارى اور شکوہ شکایات سے اجتناب کو ایک اچھى عادت ماناگیا ہے اور اس کے لئے جزا معین کى گئی ہے _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں : جب کسى مسلمان پر کوئی مصیت پڑ جائے تو لوگوں سے خدا کى شکایت نہ کرے بلکہ خدا سے ، کہ جس کے ہاتھ میں تمام مشکلات کو حل کرنے کى کنجى ہے ، شکایت کرے _ (183)

حضرت على (ع) کا یہ بھى ارشاد ہے کہ : توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص اپنى مصیبتوں کى شکایت کرتا ہے وہ در اصل خدا کى شکایت کرتا ہے _ (184)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: کسى شخص پر جسمانى یا مالى اعتبار سے کوئی مصیبت آپڑے اور وہ لوگوں سے اس کى شکایت نہ کرے تو خدا پر لازم ہے کہ اس کے گناہوں کو معاف کردے _(185)


183_بحارالانوار ج 72 ص 326
184_بحارالانوار ج 72 ص 196
185_مجمع الزوائد ج 3 ص 331