پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سپاس گزار بنيئے

سپاس گزار بنیئے

ممکن ہے بعض مردوں کو گھر کے کام ذرا بھى اہم معلوم نہ ہوتے ہوں لیکن اگر ذرا بھى انصاف سے کام لیں تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ گھر کے کام دشوار اور بہت تھکادینے والے ہوتے ہیں

ایک گھریلو خاتون اگر شب و روز گھر کے کام کرے تب بھى بعض کام کسى حد تک پڑے رہ جاتے ہیں _ کھانا پکانا ، گھر کى صفائی ، کپڑے دھونا ، استہرى کرنا، برتن دھونا ، گھر کا سامان ٹھیک ٹھاک کرنا، اور سب سے بڑھ کر بچوں کى پرورش اور نگہداشت آسان کام نہیں ہیں _ وہ بھى ایک ، ایک خاتون خانہ حقیقتاً گھر میں شدید زحمت برداشت کرتى ہے _ مرد سمجھتا ہے وہ غذا جو دن میں تین با رپکى پکائی اس ک سامنے آجاتى ہے یوں ہى بڑى آسانى سے تیار ہوجاتیہے یا گھر کے مختلف چھوٹے بڑے کام خودبخود انجام پاجاتے ہیں _ بچوں کى پرورش اور دیکھ بھال کو تو کچھ شماررہى نہیں کیا جاتا_

اگر مرد گھر میں ایک مہینہ رہ کر گھر کے تمام امور اور بچوں کى نگہداشت و پرورش کى ذمہ دارى لے اس وقت اس کو ان کاموں کى اہمیت معلوم ہوگى اور بیوى کى طاقت فرسا زحمات کا اندازہ ہوسکے گا _

بیوى ان تمام زحمتوں کو برداشت کرتى ہے اور کوئی شکایت بھى نہیں کرتى لیکن شوہر سے اس بات کى توقع ضرورکرتى ہے کہ اس کى زحمتوں کى قدر کرے اور اس کا ممنو ن ہو _ وہ چاہتى ہے کہ شوہر ہمیشہ اس پر توجہ کرے اور اس کے ذوق و سلیقہ کو قدر کى نگاہ سے دیکھے _

برادرعزیز جس وقت آپ قرینے سے سجے سجائے ، صرف ستھرے گھر میں داخل ہوتے ہیں اگر اس وقت اپنى بیوى کے ذوق و سلیقہ اور زحمات کى تعریف کردیں تو کیا ہرج ہوجائے گا ؟ اگر کبھى کبھى اس کے تیار کئے ہوئے لذیذ کھانوں کى تعریف کردیں تو آپ کا کیا چلا جائے گا _ کیا ہرج ہے اگر بچوں کى پرورش اور نگہداشت کے موضوع کو ، جو کہ حقیقتاً بہت سخت ، لیکن بہت اہم کام ہے ،اہمیت دیں اور کبھى کبھى اس کے اس صبر آزما اورکٹھن کام کا شکریہ ادا کردیا کریں؟ آپ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ آپ کا اظہار تشکر اس میں کتنى ہمت اور حوصلہ پیداکردے گا _ اور اس کو مزید کام ، کوشش اور فداکارى کے لئے آمادہ کردے گا _ اگر آپ اپنى بیوى کے کاموں پر ذرا بھى توجہ نہ کریں اور ان کو معمولى ظاہرکریں تو رفتہ رفتہ گھر کے کاموں سے اس دلچسپى کم ہوجائے گى _ اپنے دل میں سوچے گى کہ جس گھر میں اس کے کسى کام کى قدر نہ ہو وہاں زحمتیں اٹھانے سے کیا فائدہ _ ایک وقت آئے گا جب کسى کام میں اس کا دل نہیں لگے گا _ اس وقت آپ داد و فریاد کریں گے کہ میرى بیوى کسى کام میں دلچسپى نہیں لیتى _ یہ نہیں کرتى وہ نہیں کرتى _ یہ کام پڑارہ گیا وغیرہ اگر یہ نوبت آگئی تو سمجھ لیجئے خود اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں _ قصور خود آپ کا ہے کہ آپ زن دارى ، کے طور طریقوں سے ناواقف ہیں _ اگر ایک غیرآدمى آپ کامعمولى سا کا م کردیت ہے تو آپ باربار اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اپنى بیوى کى رات دن کى زحمتوں کى طرف سے غافل ہیں اور اس بات کے لئے تیار نہیں کہ مفت ہیں ، شکریہ کا ایک لفظ بول کر اس کا دل شاد کرکے اس کى سارى تھکن دورکردیں _

ذیل کے واقعہ پر توجہ فرمایئے :

ایک 29 سالہ گھریلو خاتون تہران سے لکھتى ہے : میرا شوہر بڑا حق ناشناس ہے صبح سے شام تک زحمتیں اٹھاتى ہوں _ برتن اور کپڑے دھونے اور کھانا پکانے سے لے کر گھر کى صفائی و سجاوٹ ، اس کے اور بچوں کے کپڑوں کى سلائی و غیرہ تک سب کام میں تنہا انجام دیتى ہوں ،جب گھر آتا ہے تو کسى چیز پر توجہ ہى نہیں دیتا اور اپنے رویے سے ایسا اظہار کرتا ہے گویا میں نے اب تک کوئی کام ہى نہیں کیا ہے _ استرى کئے ہوئے کپڑے، صاف ستھرى ٹائی ، پالش کئے چمچماتے جوتے اس کے لئے تیار رکھتى ہوں _ لیکن کبھى شکریہ کا ایک لفظ اس کے منھ سے نہیں نکلتا _ اگر میں خود کچھ بیان کروں تو سختى سے میرى بات منقطع کرکے جھڑک دیتا ہے اور کہتا ہے اچھا اپنے کاموں کو اتنا بڑھا چڑھا کے بیان نہ کرو _ آخر کون سا ایسا بڑا کام انجام دیا ہے ؟ آسمان سے تارے توڑلائی ہو یا کوہ دماوند کى چوٹى فتح کرلى ہے ؟ حالانکہ میرى محنت و مشقت اور سلیقے کى وجہ سے ہى گھر کى ساکھ بنى ہوئی ہے _ (238)

بعض مرد ، بیوى اور اس کے کاموں کى طرف سے بے اعتنائی برتنا، مرد انگى سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر بیویوں کى تعریف کى تو سرپر چڑھ جائیں گى _ بعض مردوں کا خیال ہے کہ غیروں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے _ میاں بیوى کے درمیان ان چونچلوں کى کیا ضرورت ہے ،

حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے _ کیونکہ ہر احسان کرنے والا ، نفسیاتى طور سے قدردانی کا خواہشمند ہوتاہے _ قدردانى تشویق کاباعث بنتى ہے خصوصاً گھریلو خواتین کو گھر کے ہرروز وہى تھکادینے والے کام انجام دینے کے سلسلے میں سب سے زیادہ قدردانى کى ضرورت ہوتى ہے _

یہى وجہ ہے کہ دین مبین اسلام میں تشویق اور سپاس گزارى کو اچھے اخلاق میں شمار کیا جاتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :جو شخص کسى مسلمان کى ستائشے کرتا ہے خداوند عالم قیامت تک اس کى ستائشے لکھتا ہے _ (239)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں : جو شخص کسى مسلمان کا احترام کرتا ہے اور خوش خلقى کے ساتھ اسکى دلجوئی کرتا ہے اور اس کے رنج و غم کو برطرف کرتا ہے ، وہ ہمیشہ خدا کى رحمت کے سائے میں رہے گا _ (240)

 

238_ کتاب او نمى داند چرا ؟ ( اوروہ نہیں جانتے ، کیوں ؟) ص 140
239_شافى ج 1 ص 197
240_شافى ج 1 ص 197