پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تعليم و تربيت

ایک لڑکى جب شوہر کے گھر بیاہ کرآتى ہے تو اس پر اس گھر چلانے کى ذمہ دارى آپڑتى ہے _ ایک گھر کا نظم و نسق چلانے کے لئے مختلف باتوں کا جاننا ضرورى ہوتا ہے _ مثلا کھانا پکانا کپڑے دھونا ، صفائی کرنا، استرى کرنا، سلائی کرنا، گھر کے سازوسامان کو قرینے سے رکھنا، مہمان نوازى کے آداب ، ملنے جلنے کے آداب شوہر کى دیکھ بھال اور بچہ کى نگہداشت اور اس قسم کے دوسرے کاموں سے واقف ہونا چاہئے _ شوہر اپنى نئی تویلى دلھن سے توقع رکھتا ہے کہ وہ یہ سارے کام جانتى ہوگى اور ایک مکمل تربیت یافتہ عورت ہوگى _ لیکن افسوس یہ سارى توقعات خاک میں مل جاتى ہیں اورنئی دلہن یا تو آداب زندگى ہے بالکل ہى نابلد ہوتى ہے یا اس کى معلومات محدود ہوتى ہیں_

اب کیا کریں؟ ہمارے سماج کى یہ بھى ایک بڑى خامى ہے _ نہ ماں باپ اپنى لڑکى کو آداب و زندگى سکھاتے ہیں اور نہ ہى اسکول و کالج کے نصاب میں اس قسم کى تعلیم وتربیت دینا شامل ہوتا ہے _ حالانکہ بجائے بے فائدہ چیزیں سکھانے کے ، لڑکیوں کو آداب زندگى کى تعلیم دى جائے تو ان کے کام

بھى آئے گى _ بہر حال کوئی چارہ ہى نہیں لہذا اس کے علاج کى فکر کرنى چاہئے _ مرد چونکہ چاہتا ہے کہ اپنى بیوى کے ساتھ زندگى بسر کرے اس لئے ناچار ہے کہ اس کى تعلیم و تربیت کرے _ تا کہ اس کى خامیاں دور ہوجائیں _ عموماً شوہر عمر میں اپنى بیوى سے بڑا ہوتا ہے اس لئے اس کے تجربات اور اطلاعات بھى زیادہ ہوتى ہیں _

اگر ذرا صبر و حوصلے سے کام لے تو بیوى کى خامیوں کو دور کرکے اپنى مرضى کے مطابق اس کى تربیت کرسکتا ہے _ جن کاموں سے وہ واقف ہے انھیں نہایت نرمى اور شیریں بیانى کے ساتھ اسے سکھادے اس سلسلے میں گھر کى تجربہ کارخواتین مثلاً ماں، بہن ، خالہ ، پھوپھى و غیرہ کى مدد لى جا سکتى ہے ،کھانا پکانے، خانہ داری، مہمان داری، شوہر داری، طرز معاشرت ، اور ملنے جلنے کے آداب و غیرہ سے متعلق کتابیں اسے پڑھنے کے لئے دینى چاہئیں_ اخلاقى کتابیں پڑھنے کى اسے ترغیب دلانى چاہئے _ اگر دیکھے کہ بیوى بداخلاق اور غیر مہذب ہے تو ہمدردى اور نرمى کے ساتھ اسے سمجھانا چاہئے لیکن مہربانى اور ہمدردى کے انداز میں خلوص ونرمى کے ساتھ ، نہ کہ اعتراض ، لعن طعن کے ساتھ کے ساتھ ، کیونکہ اسى صورت میں نتیجہ برعکس برآمد ہوسکتا ہے _

مرد اگر شادى کے شروع کے ایک دو سال ذرا صبر وحوصلہ سے کام لے اور عقل و تدبر کے ساتھ اپنى بیوى کى تعلیم و تربیت پر کمر ہمت باندھ لے تو اپنى مرضى کے مطابق اس کى تربیت کرسکتا ہے _ خواہ سوفیصد ى کامیابى نہ ہو لیکن بلا شک کسى حد تک اس کى خامیوں کو دور کر سکتا ہے _

یہ درست ہے کہ اس کام کے لئے وقت اور صبر و حوصلہ در کار ہے لیکن اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا _ کیونکہ اپنى شریک زندگى اور اپنے بچوں کى سرپرست کى تکمیل کرکے آخر عمر تک اس عمل کے ثمرات سے بہرہ مند ہوگا _

ایک اہم امر جس پر مرد کو توجہ دینى چاہئے وہ یہ ہے کہ اس کى نئی نویلى دلہن ایک مسلمان لڑکى ہے اور قاعدے سے اس کو دین اسلام کے احکام اور قوانین سے واقف ہونا چاہئے _ لیکن

اکثر لوگ اسلام کے شرعى مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں حتى کہ اسلام کى ابتدائی تعلیمات مثلاً نماز ، وضو ، غصل اور تیمم و غیرہ جیسے بنیادى احکامات سے بھى بعض لڑکیاں ناواقف ہوتى ہیں _ البتہ یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنى لڑکیوں کو اسلام کے احکام و قوانین سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں لیکن اب جبکہ انہوں نے اس سلسلے میں کوتاہى کى ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکى کوتعلیم دیئےغیر شادى کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو یہ اہم اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتا ہے کہ اس دینى مسائل سے روشناس کرائے اور اسلام کے واجبات اور محرمات یعنى واجب اور حرام چیزوں کے بارے میں بتائے _ اس کى عقل و فہم کے مطابق اس کو اسلامى اخلاق و عقائد کى تعلیم دے _ اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنے _ اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمى و اخلاقى و دینى کتابیں اور رسالے مہیا کرکے اسے پڑھنے کى ترغیب دلایئے اسلامى دینى مسائل کى کتاب اس کو پڑھنے کو دیجئے _ ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم و دیندار استاد کو اس کى تعلیم و تربیت کے لئے مقرر کیجئے _

بہر حال بیوى کو اچھى باتوں کى طرف راغب کرنا اور منکرات سے روکنا ، اور اس کى رہنمائی کرنا شوہر کافرض ہے اگر اس نے اپنے اس فریضہ کو ادا کیا تو ایک دیندار، نیک و مہربان، خوش اخلاق اور دانا بیوى کى ہمراہى میں زندگى بسر کرے گا اور اخروى ثواب کے علاوہ اس دنیا میں ہى کامیابى سے ہمکنار ہوگا اور ار اپنے اس فریضہ کى انجام دہى میں کوتاہى کى تو اس دنیا میں ایک ضعیف الایمان اور لا علم بیوى کا ساتھ رہے گا جو دینى و اخلاقى اصولوں سے بے بہرہ ہوگى اور قیامت میں بھى خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ، خداوند بزرگ و برتر قرآن مجید میں فرماتا ہے :

اے ایماندارو خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو جہنم کى اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمى اور پتھرہوں گے _ (268)

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ جس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اور بولامیں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوفارکھنے سے عاجز ہوں چہ جائیکہ اس پرمجھے یہ ذمہ دارى سونپى گئی ہے کہ اپنے خاندان والوں کو بھى دوزخ کى آگ سے بچاؤ_ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اسى قدر کافى ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو اسى کو کرنے کو ان سے کہواور خودجن کاموں کوتمہیں چاہئے ترک کرو ان سے انھیں روکتے رہو_ (269)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: مرد کو خاندان کا سرپرست مانا گیا ہے _ ہر سرپرست کے ذمہ اپنے ماتحتوں کى نسبت ذمہ دارى ہوتى ہے _ (270)

رسول خدا صلى اللہ علیہ و الہ و سلم نے عورتوں کو یاددہانى کرائی ہے کہ قبل اس کے کہ وہ (شوہر) تمہیں برے کام کرنے پر مجبور کریں تم انھیں نیک کام کرنے کى ترغیب دلاؤ_ (271)

 


268_ سورہ ء تحریم آیت 6
269_وسائل الشیعہ ج 11 ص417
270_مستدرک ج 2 ص 550
271_بحارالانوار ج 103 ص 227