پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تنبيہ

تنبیہ

میاں بیوى چونکہ ایک مشترکہ خاندانى زندگى کى تشکیل کرتے ہیں لہذا گھر کے امور کى انجام وہى میں دونوں میں ہم آہنگى اور باہمى کوشش و مشارکت ہونى چاہئے _ لیکن بہرحال بعض امور کے متعلق دونوں کے مختلف نظریات بھى ہوتے ہیں _ مرد چاہتا ہے کہ خاندان کے تمام امور اس کى مرضى و خواہش کے مطابق انجام پائیں اور بیوى اس کى مطیع ہو _ اس کے برعکس بیوى کى بھى یہى خواہش ہوتى ہے _

ایسے ہى موقعوں پر طرفین کى جانب سے احکام صادر کرنا اور اس کى مخالفت کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور مخالفتوں اور کشمکشوں کا آغاز ہوتا ہے _ اس کا بہترین طریقہ یہى ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر احکام صادر کرنے اور روک ٹوک لگانے سے دستبردار ہوجائیں اورجن امور میں اختلاف نظر پایا جاتا ہو اس میں باہمى صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ مفاہمت پیداکرلیں اور اگر ہٹ دھرمى اور زور زبردستى سے کام نہ لیں تو زیادہ تر مسائل آسانى سے حل ہوجائیں گے اور دونوں آپس میں مفاہمت پیدا کرلیں گے کیونکہ ان میں سے کسى کو بھى یہ حق نہیں ہے کہ اپنے عقیدے اورنظریات کودوسرے پر زبردستى مسلط کرے اور اپنے حکم کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کرے _ اور خلاف ورزى کى صورت میں اسے کوئی حق نہیں پہونچتا کہ اس کى سرزنش و تنبیہ کرے _ لیکن بعض مرد یہ بہانہ کرکے کہ وہ خاندان کے ولى و سرپرست ہیں اپنے لئے اس حق کو روا سمجھتے ہیں_ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو زور زبردستى کے ذریعہ اپنے خیالات منوانے کا پورا اختیار ہے اور انھیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنى مرضى کے مطابق حکم چلائیں اورروک ٹوک لگائیں _ اس قسم کے مرد سمجھتے ہیں کہ ان کى بیوى کا فرض ہے کہ ان کے احکام کى پابندى کرے اور کسى صورت میں بھى خلاف ورزى نہ کرے اور خلاف ورزى کى صورت میں وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ اس پر عتاب نازل کریں _ اسے برا بھلا کہیں _ برے لہجے میں خطاب کریں _ اسے دھمکى دیں اور اس کى سرزنش کریں اور ایسا غیر اخلاقى رویہ اختیار کرنا وہ اپنا شرعى حق سمجھتے ہیں _ حتى کہ بعض اوقات اسے اذیت پہونچاتے ہیں اور مارتے پیٹتے ہیں _

حالانکہ مرد کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنى بیوى کو اذیت و آزار پہونچائے اوراسے مارے پیٹے _ زمانہ جاہلیت میں جبکہ مرد مہربانى او رانسانیت سے بہت کم بہرہ مند تھے اپنى بیویوں پر ظلم و ستم کرتے تھے ان کو مارتے پیٹتے تھے اسى لئے رحمت للعالمین پیغمبر اسلام (ص) نے اس غلط اوربیہودہ رسم کو ختم کیا اور فرمایا: جو مرد اپنى بیوى کے منہ پرتھپڑمارے گا خداوند عالم دوزخ کے مالک فرشتہ کو حکم دے گا کہ دوزخ میں اس کے منہ پر ستر تھپڑمارے _ جو مرد کسى مسلمان عورت کے بالوں کو ہاتھ لگائے گا ( یعنى اذیت پہونچانے کى خاطر بال نوچے گا ) دوزخ میں اس کے ہاتھوں میں آتشیں کیلیں ٹھونکى جائیں گى _ (216)

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو مارنے کى ممانعت فرمائی ہے سوائے ایسى صورت میں کہ جب تنبیہ واجب ہو _ (217)

اسلام کے پیغمبر (ص) عالیقدر فرماتے ہیں : جو مرد اپنى بیوى کو مارتا ہے اور تین سے زیادہ بارضرب لگاتا ہے خدا اس کو قیامت میں مخلوق کے سامنے رسوا کرے گا اور پہلى اور بعد کى تمام مخلوقات ایسے مرد کا تماشہ دیکھیں گى _ (218)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : میں ایسے مرد پر حیرت کرتاہوں جو اپنى بیوى کو مارتا ہے حالانکہ اپنى بیوى سے زیادہ وہ خود مارکھانے کے لائق ہے _ اے لوگو اپنى بیویوں کو لکڑى سے نہ مارو_ کیونکہ اس کا قصاص ہے _ (219)

جو مرد اپنى بیوى کو مارتا ہے اور اس پر ظلم و ستم کرتا ہے وہ ستم گر اور ظالم ہے اور اس دنیا میں بھى اور آخرت میں بھى اس کى سزاپائے گا _ وہ بھى ایسى ناتواں اورنازک صنف پر ظلم کرنا جو سینکڑوں امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ شوہر کے گھر آئی ہے _ یہ سوچ کر آئی ہے کہ اس پناہ میں عزت و آبرو کے ساتھ زندگى گزارے گى اور وہ اس کا حامى و مددگار اورغمخوار ہوگا اور مشکلات میں اس کى مدد کرے گا _

عورت خدا کى جانب سے ایک امانت ہے جو مرد کو سونپى گئی ہے _ کیا کوئی امانت الہى کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے ؟

امیر المومین حضرت على (ع) فرماتے ہیں : عورتیں مردوں کو امانت کے طور پر سونپى گئی ہیں _ وہ اپنے نفع و نقصان کى مالک نہیں ہیں _ وہ تمہارے پاس خدا کى امانت کے طور پر ، میں ان کو تکلیف نہ پہونچاؤ اور ان پر سختى نہ کرو_ (220)

جو مرد اپنى بیوى پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ اس کى روح پر کارى ضرب لگاتے ہیں اور اس سے دل میں جو گرہ پڑجاتى ہے اس کو دورکرنا محال ہوتا ہے _

خاندان کا سکون چین ختم ہوجاتا ہے _ میرى سمجھ نہیں آتا کہ جو شوہر اپنى بیوى کى تحقیر و توہین کرتے ہیں آور اسے مارتے پیٹتے ہیں کس منہ سے ازدواجى روابط برقرار کرتے ہیں _ واقعاً قابل شرم بات ہے _

حضرت رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : اے لوگو تم میں سے جو لوگ اپنى بیوى کو مارتے ہیں پھر کس طرح اس کو اپنى آغوش میں لے لیتے ہیں؟ (221)

لہذا ایسى صورت میں شوہر کا اپنى بیوى پر کوئی حق نہیں رہ جاتا_ اور شرعاً ، قانوناًاور اخلاقاً اس کو حق حاصل نہیں کہ بیوى کو کسى کام پر مجبور کرے اور خلاف ورزى کى صورت میں اس کى تنبیہ کرے اور مارے پیٹے _ مثلاً بیوى شرعى طور پر ذمہ دار نہیں ہے کہ گھر کے کام انجام دے _ مثلاً گھر کى صفائی کرنا _ کھانا پکانا_ برتن دھونا _ کپڑے دھونا، بچوں کى دیکھ بھال کرنا ، سلائی بنائی کرنا اور اس قسم کے دوسرے گھریلو کام انجام دینا عورت پر شرعى اعتبار سے واجب نہیں ہے _ حالانکہ عورتیں نہایت شوق ودلچسپى سے گھر کے کاموں کو انجام دیتى ہیں اور اس سلسلے میں کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتیں _ لیکن یہ سب ان کے اوپر واجب نہیں ہے شوہر کو چاہئے ان کاموں کى انجام دہى پر اپنى بیوى کاشکریہ ادا کرے اس کى قدردانى کرے اور اظہار تشکر کے ذریعہ اس کى ہمت افزائی کرے _ لیکن اگر وہ بعض کاموں کو انجام نہ دے یا اچھى طرح نہ کرے تو مرد کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ بیوى کى تنبیہ و سرزنش کرے اور اس کو مارے پیٹے_

اسلام نے صرف اسى صورت میں تنبیہ کو جائز قرار دیا ہے جہاں پر شوہر کا حق ضائع ہورہا ہو _ او راس کى دو صورتیں ہیں _

1_ مرد کو شرعى اور قانونى طور پر حق حاصل ہے کہ اپنى بیوى سے جنسى تعلقات قائم کرے اور اپنى خواہشات کے مطابق اس سے لذت حاصل کرے اور بیوى کى یہ قانونى اور شرعى ذمہ دارى ہے کہ شوہر کى جنسى خواہشات کى تکمیل کرے اور اپنے آپ کو اس کے اختیار میں دیدے اگر بیوى جنسى خواہشات کى تکمیل سے دریغ نہیں کرتى تو کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگى البتہ اگر مرد کو

جنسى خواہش کى انجام دہى سے روکے تو ایسى صورت میں بہتر ہے کہ مرد پہلے تو بیحد محبت و نرمى سے سمجھائے بلکہ اس کو تحفے تحائف دے کر اس کا دل اپنے ہاتھ میں لے لے لیکن اگر محسوس کرے کہ بیوى کا مقصد اذیت پہونچانا ہے اور محض اپنى ضد کى وجہ سے کسى طرح راضى نہیں ہوتى اور مرد کے لئے صبر و ضبط مشکل ہے تو ایسے موقعہ پر شوہر کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس میں بھى احتیاط اور حفظ مراتب کاخیال رکھے ایسے ہى موقعہ کے لئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے : تمہارى بیویاں اگر تمہیں تمہارى جنسى خواہشات کى تکمیل سے روکیں تو پہلے انھیں سمجھاؤ اس پر بھى نہ مانیں توان کے ساتھ سونا چھوڑدو_ اور اس کے بعد بھى نہ مامیں توان کو مارو _ (مگر اس طرح سے کہ خون نہ نکلے اور کوئی عفو نہ ٹوٹے)پس اگر وہ تمہارى بات مان جائیں تب ان پر ظلم کرنا جائز نہیں _ خدا تو سب سے بزرگ و برتر ہے _ (222)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا خداوند تعالى نے اس آیت شریفہ میں شوہر کو اجازت دى ہے کہ اگر تمہارى بیوى ، تمہارے جائز مطالبات پورے نہ کرے _ یعنى تمہیں جنسى تسکین بہم پہونچانے سے گریز کرے اور اس سے اس کا مقصد تم کو اذیت پہونچانا ہو توایسى حالت میں تم کو تنبیہ کرنے کا حق دیا گیا ہے وہ بھى تین مرحلوں میں پند ونصیحت اور پیار ومحبت سے راضى کرنا _

2_ پند ونصیحت سے کام نہ چلے توان سے اپنے بستر جداکر لویا بستر میں ان کى طرف پشت کرکے سؤو اوراس طرح اپنى ناراضگى اور غصے کا اظہار کرو_

3_ اگر یہ عمل بھى مؤثرثابت نہ ہو اور بیوى اسى طرح اپنى ضد پر قائم رہے اور مرد کو اجازت نہ دے کہ وہ اپنے جائز اور قانونى حق سے استفادہ کرے تو صرف ایسى صورت میں مارسکتا ہے لیکن اس حالت میں بھى مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ حد سے تجاوز کر جائے اور ظلم و ستم کرنے لگے _ اس سلسلے میں بھى چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے _

1_ ضرب لگانے کا مقصد اصلاح ہو نہ کہ انتقام جوئی_

2_ یا توہاتھ سے یانازک لکڑى سے یہ کام انجام دے _ جیساکہ روایات میں آیا ہے مسواک کى لکڑى ہونى چاہئے _

3_ اس طرح مارے کہ اس کا بدن سیاہ یا سرخ نہ ہوجائے ورنہ اس کو جرمانے کے طور پر قصاص دینا پڑے گا _

4_ ان جگہوں پر ضرب لگانے سے قطعى طور پر اجتناب کرے جونازک ہیں اور نقصان پہونچنے کا احتمال ہو مثلاً آنکھ ، سر پیٹ_

5_ ضرب اس طرح نہ لگائی جائے کہ شدید کدورت کا سبب بن جائے او ربیوى کو اور زیادہ ضد او نفرت پیدا ہوجائے _

6_ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ خاتون اس کى بیوى ہے اور اس کے ساتھ اسے زندگى بسر کرنا ہے _ سچى محبت اور خلوص کے ساتھ ہى وہ اس کے وجود سے استفادہ کرسکتاہے _

7_ ضرب سے کام لینا صرف اسى صورت میں تجویز کیا گیا ہے کہ بیوى اس کے جنسى مطالبات کو پورا کرنے سے معذور نہ ہو _ مثلاً حیض کى حالت میں ، رمضان میں روزہ کى حالت میں ، حالت احرام میں ، یا بیمار ہونے کى صورت میں اس کى خواہش پورى کرنے سے مانع رہے تو ایسى صورت میں مرد کو ہرگز اسے تنبیہ کرنے کا حق نہیں ہے _

بیوى اگر گھر سے باہر جانا چاہتى ہے تو اسے اپنے شوہر سے اجازت حاصل کرنى چاہئے اگر اجازت نہ دے تو شرعاً اسے گھر باہر جانے کاحق نہیں ہے اور اگر اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے گى تو گناہ کى مرتکب ہوگى _

حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس بات کى ممانعت کى ہے کہ عورت شوہر کى اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے اور فرمایا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کى اجازت کے بغیر گھر سے باہر جاتى ہے تو تمام آسمانى فرشتے اور جن وانس اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ گھر واپس نہیں آجاتى _ (223)

لیکن مرد کو اس سلسلے میں سختى سے کام نہیں لینا چاہئے اور اپنے اس حق کے ذریعہ اسے اذیت نہیں پہونچانى چاہئے _ بہتر ہے جہاں جانے میں کوئی ہرج نہ ہوں وہاں جانے سے نہ روکے اور اسے جانے کى اجازت دیدے اس کو یہ حق اپنى طاقت و قدرت کا مظاہرہ کرنے اور بیوى پر بیجا دباؤ ڈالنے کى غرض سے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مرداپنى بیوى کو نامناسب جگہوں پر جانے سے بازرکھے اور اس کى عصمت و آبرو کى حفاظت کرے _

بیجا سختیاں نہ صرف یہ کہ مفید ثابت نہیں ہوتیں بلکہ خاندان میں ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جاتاہے اور باہمى انس و محبت باقى نہیں رہتا _ حتى کہ بعض اوقات سرکشى اور انحراف کا سبب بنتا ہے البتہ اگر دیکھے کہ وہ مناسب جگہ پر جاتى ہے جو اخلاقى پستى اور گناہ کے ارتکاب کا باعث بنتا ہے ایسى حالت میں بیوى کو سختى سے منع کردینا چاہئے اور عورت پر بھى واجب ہے ،کہ اطاعت کرے اور ایسى محفل میں جانے سے پرہیز کرے _

اگر بیوى شوہر کے احکام کى خلاف ورزى کرے اور بغیر اجازت یا شوہر کے منع کرنے کے باوجود گھر سے باہر جائے تو مرد کو حق حاصل ہے کہ اس کو اسى صورت سے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے تنیہ کرے _ ان ہى مراحل اور شرائط کا لحاظ رکھے _ البتہ بیوى چند حالتوں میں شوہر کى اجازت کے بغیر گھر سے باہر جا سکتى ہے اور شوہر کو حق نہیں کہ اسے روکے _

1_ دین کے ضرورى مسائل سیکھنے کے لئے گھر سے باہر جانا _

2_ استطاعت کى صورت میں حج کے لئے سفر کرنا _

3_ قرض ادا کرنے کے لئے گھر سے باہر جانا جبکہ گھر سے باہر جائے بغیر ممکن نہ ہو _

 

216_مستدرک ج 2 ص 550
217_مستدرک ج 2 ص550
218_مستدرک ج 2 ص 550
219_بحارالانوار ج 103ص 349
220_مستدرک ج 2 ص 551
221_وسائل الشیعہ ج 14 ص 119
222_سورہ نساء آیت 34
223_وسائل الشیعہ ج 13 ص 119