پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خوش اخلاق بنيئے

خوش اخلاق بنیئے

دنیا اپنے معینہ راستے پر ایک منظم نظام کے تحت گردش کرتى ہے اور اسى نظم و ترتیب کے تحت ، دنیا میں ایک کے بعد ایک حوادث رونما ہوتے رہتے ہیں _ اس وسیع وعریض کائنات میں ہمارا ناچیز وجود بمنزلہ ایک چھوٹے سے ذرے کے ہے جو ہر لحمہ دوسرے ذروں کے ساتھ حرکت میں ہے _ کائنات کا نظام ہمارے ہاتھ میں نہیں اور دنیا کے حادثات ہمارى مرضى و منشاء کے مطابق رونما نہیں ہوتے _ صبح جب ہم گھر سے نکلتے ہیں اس وقت سے لیکر واپس لوٹتے ہیں طرح طرح کے چھوٹے بڑے مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے زندگى کے امیدان میں اور کسب و معاش کے سلسلے جسے ایک طرح سے میدان جنگ سے تشبیہ دى جا سکتى ہے بیشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ مثلاً ٹیکسى کے انتظار میں کھڑے میں ، فلان شخص نے توہین کردى _ کسى کى عیب جوئی اور سرزنش کا شکار ہونا پڑا _ کوئی شخص آپ سے حسد و رقابت کرتا ہے _ باس یا ما تحتوں کے اعتراضات اور سخت کلامى کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ کسى بدنت دیا کا دیا ہواچکرواپس لوٹ آیا مطالبات کى وصولى مشکل ہورہى ہے، غرضکہ اس قسم کے سینکڑوں چھوٹے بڑے حادثات ہر شخص کى زندگى میں پیش آتے رہتے ہیں _

ممکن ہے ان ناسازگار _ حالات سے آپ قدر غضبناک ہوجائیں کہ ایک آتش فشان کى مانند پھٹ پڑیں چرخ گردوں اور ستمگروں پرتو آپ کا زورچلتا نہیں لیکن جس وقت گھر میں داخل ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں اپنى طاقت و قدرت کامظاہرہ کریں اور چرخ فلک اور کج رفتار افراد کا انتقام اپنے بے گناہ بیوى بچوں سے لے کر اپنے دل کى بھڑ اس نکالیں _

آپ گھر میں کیا تشریف لاتے ہیں معلوم ہوتا ہے حضرت عزرائیل گھر میں داخل ہوتے ہیں _ سب کى روح فنا ہوجاتى ہے _ بچے چوہوں کى طرح دمم دبا کر ادھر اودھر ہوجاتے ہیں _ خدا نہ کرے کہ کوئی معمولى سا بہانہ آپ کے ہاتھ لگ جائے _ کھانے میں نمک تیز ہوگیا یا کم ہے ، چائے فوراً پیش نہ کى گئی ، یا معصوم بچے نے شور مچا دیا ، گھر میں کوئی چیز غلط جگہ پر رکھى ہوئی ہے ، یا بیوى کے منھ سے کوئی نامناسب لفظ نکل گیا وامصیبتا قیامت آگئی ہے ، اور صاحب بہادر بم کى طرح پھٹ پڑے _ اس کو ڈانٹا ، ا س کو پھٹکارا کسى کو گالیوں سے نوازا، کسى کو تھپڑمارا ، ایک اودہم مچ گئی ، اور اس طرح گھر کے خوشگوار اور پرسکون ماحول کو ،کہ جس میں آپ آرام کرنے کى غرض سے پناہ لینے آئے تھے، جہنّم بنادیا_ اور خود اپنے ہاتھوں تیار کئے ہوئے اس جہنم میں خود بھى جلے اور بے گناہ بیوى بچوں کو بھى جلادیا _ اس رعب و وحشت کے ماحول میں اگر بچوں کو فرار کرنے کى مہلت مل گئی تو گلى کو چوں میں مارے مارے پھریں گے اور خدا سے چاہیں گے کہ دوزخ کامالک کسى طرح جلدى گھر سے باہر جائے تا کہ اس کے شر سے نجات ملے _

ایسے ماحول میں جہاں ہمیشہ لڑائی جھگڑے اور جو تم پیزاررہے کسى کو بھى سکون وچین نصیب نہ ہوگا ایسے خاندان کى افسوسناک حالت اور خراب انجام ظاہر ہے _ گھر کى حالت ابتر رہے گى _ بیوى گھر کے ماحول اورشوہر کى تیوریاں چڑھى صورت سے بیزار ہوجائے گى _ وہ عورت جو ہمیشہ اپنے شوہر کى بدسلوکیوں کا شکاربنتى رہے کس طرح خوش رہ سکتى ہے _ اور اس سے گھر دارى اور شوہر دارى دلجمعى کے ساتھ دلچسپى لینے کى توقع کیسے کى جا سکتى ہے ؟

اور سب سے بدتر حالت اور خطرناک سرنوشت تو ان معصوم بچوں کى ہوتى ہے جو ایسے بد نصیب ماحول میں پرورش پاتے ہیں _ ماں باپ کے آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے بلا شبہ ان کے معصوم دل و دماغ اور حساس روح پر بہت خراب اثر پڑتا ہے _ وہ بھى بڑے ہو کر بدمزاج ، غصہ ور، بدتمیز اور کینہ ور نکلتے ہیں _ ان کے چہروں پر پمردگى چھائی رہتى ہے _چونکہ انھیں گھڑ کے ماحول اور زندگى میں کوئی مسرت حاصل نہیں ہوتى ، آوارہ گردى کرتے ہیں _ بعض بچے اور نوجواں سماج کے حیلہ باز عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اسى قسم کے بچوں اورنوجوانوں کو گمراہ کرنے کى تاک میں رہتے ہیں اور ان کے حال میں پھنس کرہمیشہ کے لئے اپنى عاقبت خراب کرلیتے ہیں _ اس بات کا بھى امکان ہے کہ دماغى پریشانیوں میں مبتلا ہوجائیں اور بیحد خطرناک کام مثلاً قتل و غارتگرى ، چوری، یا خودکشى کا ارتکاب کرڈالیں _اس بات کى تصدیق جرائم پیشہ افراد خصوصاً مجرم بچوں کى فائلوں پر نظر ڈالنے سے ہوسکتى ہے _ اس قسم کے بچوں کے متعلق خبریں اور اعداد شمار جو ہرروز اخبار ورسائل کے صفحات میں نظر آتى ہیں اس با ت کى بہترین گواہ ہیں ان تمام ناگوار حادثات کے ذمہ دار خاندان کے سرپرست ہوتے ہیں جو اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کرپاتے اور گھر میں بداخلاقى اور بدمزاجى کامظاہرہ کرتے ہیں _ ایسے لوگ اس دنیا میں بھى کوئی سکون و آرام حاصل نہیں کرپاتے اوریقینا اس دنیا میں بھى اپنے ان اعمال کى سزا بھگتیں گے _

برادر عزیز دنیا کا نظام ہمارے اختیار میں نہیں ہے _ رکاوٹیں ، مصائب ، پریشانیاں اس دنیا کے لا ینفک جزو ہیں _ ہر انسان کو زندگى میں ان سب چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیاررہنا چاہئے _ انسان کے کردار کى پرکھ ایسے ہى موقعوں پر ہوتى ہے _ نالہ و فریاد کئے بغیر ، مردانہ وار ان کامقابلہ کرنا چاہئے _ اور ان کو حل کرنے کى فکر کرنى چاہئے _ انسان اس بات کى توانائی رکھتا ہے کہ سینکڑوں چھوٹى بڑى مشکلات کو خندہ پیشانى کے ساتھ قبول کرے اور اس کى ابروپربل نہ آئے _

پریشانیوں کى اصل وجہ زمانے کے ناخوشگوار حادث نہیں ہوتے بلکہ یہ خود ہمارے اعصاب کى کمزورى ہے جو ہر چھوٹى بڑى بات سے جلد متاثر ہوکر پریشانیوں اور گھبراہٹ میںمبتلا ہوجاتے ہیں اگر درپیش حالات کے مقابلے میں ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھیں اور اپنے اعصاب پر کنٹرول کریں تو غم و غصہ کوئی معنے ہى نہیں رکھتا _

ہمارى زندگى میں جو ناگوار حالات وواقعات پیش آتے ہیں وہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اس جہاں مادى کا جزو لا ینفک ہیں اور جن سے بچنے کے لئے ہمارى کوئی بھى سعى و تدبیر کام نہیں آتى _ دوسرے وہ حادثات ہیں جنھیں ہم اپنى سعى و تدبیر سے ٹال سکتى ہیں _

اگر حادثات کا تعلق پہلى قسم سے ہو تونالہ و فریاد ، غم و غصہ اوربدمزاجى کرنا بلا شک و شبہ بے سود ہوگا _ بلکہ یہ امر سو فیصدى غیر عاقلانہ ہوگا _ کیونکہ اس سلسلے میں کوئی چیز ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں اس جہان مادّى میںان چیزوں کا وجود میں آنا لازمى امر ہے _ بلکہ ہمیں ان کے لئے تیار رہنا چاہئے _ البتہ اگر ان کا تعلق دوسرى قسم سے ہے تو سعى و تدبیر او ربردبارى سے ان کو حل کرنے کى فکر کرنى چاہئے _ اگر ہم اپنى مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ رکھیں اور اپنے اعصاب کو کنٹرول میں رکھیں اور دانشمندى اور سوجھ بوجھ سے کام لیں تو اکثر مشکلات بڑى آسانى سے حل ہوسکتى ہیں _ ایسى صورت میں غصّہ اوربداخلاقى سے نہ صرف یہ کہ مشکلات حل نہیں ہو سکیں گى بلکہ ممکن ہے مزید اضافہ ہوجائے _ لہذا ایک عاقل اور باوقار انسان کو چاہئے کہ اپنے ہوش و حواس اور اعصاب کو ہمیشہ قابو میں رکھے اور زمانے کے حادثات اور زندگى کى اونچ نیچ سے متاثر ہوکر آپے سے باہر نہ ہوجائے _

انسان ایک طاقتور اور بااختیار مخلوق ہے جو اپنى سعى و کوشش اور بردبارى سے بڑى سے بڑى مشکل پر فتح حاصل کرسکتا ہے _ کیا یہ چیز قابل تاسف نہیں کہ چھوٹى باتوں اور زمانے کے سردو گرم کے مقابلے میں انسان ہمت چھوڑ بیٹھے اور نالہ و فریاد شروع کردے اور اپنے سے کمزوروں پر اپنا غصہ اتارے ان پر چیخ چلائے ؟

سب سے بڑھ کر یہ کہ زمانے کى گردش اور ناپسندیدہ عناصر کے سلوک نے آپ کى پریشانى کے حالات فراہم کئے ہیں اس سلسلے میں آپ کى بیوى بچوں کا کیا قصور ہے؟ آپ کى بیوى صبح سے اب تک گھر کے کاموں میں مشغول رہى ہے _ کھانا پکانے ، کپڑے دھونے ، گھر کى صفائی اور بچوں سے نپٹنے جیسے صبر آزما مراحل سے گزرى ہے اور تھکى ہارى آپ کے انتظار میں ہے کہ آپ گھر آئیں اور اپنى خوش اخلاقى اور مہربانى سے اس کے دل کو شاد کرکے اس کى سارى تھکاوٹ دور کریں گے _

آپ کے بچے بھى صبح سے اب تک اسکول میں پڑھائی میں مشغول رہے ہیں ان کا دل و دماغ بھى تھکا ہوا ہے یا دوکان یا کارخانے میں کام میں مشغول رہے ہیں اور اب تھکے ہارے گھر لوٹے ہیں اور اپنے باپ سے اس بات کى توقع رکھتے ہیں کہ اپنى میٹھى میٹھى محبت و شفقت بھر ى باتوں کے ذریعہ ان کى تھکن دور کردیں گے _ اور باپ کا شفیق رویہ اور اظہار محبت ان میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور انھیں مزید سعى و عمل کے لئے حوصلہ عطا کرے گا_

جى ہاں آپ کے بیوى بچے دل میں سینکڑوں امیدیں اور آرزوئیں لئے آپ کے منتظر ہیں _ آپ خود غور کریں کیا یہ مناسب ہے کہ وہ بیچارے آپ کى تیوریاں چڑعى ہوئی ، غصے سے لال پیلى صورت سے روبرو ہوں ؟

یہ سب آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ ان کے لئے فرشتہ رحمت ثابت ہوں گے _ اپنى خوش اخلاقى اور شگفتہ چہرے کے ساتھ گھرکے ماحول کورونق بخشیں گے اور اپنى دلکش اور شفیق باتوں سے ان کے تھکے ماندے اعصاب کو سکون پہونچائیں گے نہ یہ کہ اپنى بدمزاجى اورناروا سلوک سے گھر کے ماحول کو تیرہ و تاریک بنادیں گے اور غصہ و ناراضگى کا اظہار کرکے اور ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان کے تھکے اعصاب کو مزید خستہ کردیں گے _

کیا آپ جانتے ہیں کہ نامناسب جملوں او رجھڑکیوں سے ان کى معصوم روح و جسم پر کتنے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کہ جن کے نتائج کا خمیازہ آپ کو بعد میں بھگتنا پڑے گا _ اگر آپ کو ان پر رحم نہیں آتا تو کم سے کم خود اپنے آپ پررحم کھایئے یہ جو آپ خود پر کنٹرول نہیں کریں گے اور معمولى معمولى باتوں پر چراخ پا ہوجایاکریں گے تو کیا آپ کا جسم اوراعصاب صحیح و سالم رہ سکیں گے ؟

ایسى صورت میں آپ کس طرح اپنے روزمرہ کے فرائض کو لجن و خوبى انجام دے سکتے ہیں اور زندگى کى مشکلات اور زمانے کے مصائب پر قابو پا سکتے ہیں ؟ کیوں اپنے اور اپنے بیوى بچوں کے سکون و آرام کى جگہ کوایک خوفناک قید خانے میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں _ یادرہے اس ماحول سے حاصلہ خراب نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے _

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہمیشہ خوش و خرم اورمسکراتے رہئے _ اور اگر کوئی مشکل آپڑے تو غصہ اور چیخے چلاّئے بغیر اپنى عقل و تدبر سے کام لے کر سکون کے ساتھ اس کو حل کرنے کى فکر کریں؟

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جب آپ اپنى تونائیوں کو پھر سے بروئے کارلانے کى غرض سے اپنے گھر کى آسائشے گاہ میں قدم رکھیں تو اپنے دل میں خود اس بات کا تجزیہ کریں کہ غصہ اور بدمزاجى سے کوئی مشکل حل نہ ہوگى _ بلکہ اعصاب اور زیادہ خستہ ہوجائیں گے بلکہ ممکن ہے اور کئی نئی نئی مشکلات پیدا ہوجائیں لہذا بہتر ہے کہ تجدید توانائی کے لئے فى الحال آرام کروں تا کہ میرے جسم کو آرام ملے اس کے بعد تروتازہ ہوکر اطمینان کے ساتھ اس مشکل سے نپٹنے کى فکرکروں _

تھوڑى دیر کے لئے زندگى کى پریشانیوں اورتلخ حادثات کو بھول جایئے اور کشادہ پیشانى کے ساتھ مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے _ خوشگوار اورمحبت بھى باتوں ہے اہل خانہ کے دلوں کو شاد کیجئے _ اطمینان کے ساتھ پر لطف باتیں کیجئے ہنسئے ہنسایئے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایئےور آسودہ اعصاب کے ساتھ سوجایئےا آرام کیجئے، اس طریقہ کار سے آپ اپنے بیوى بچوں کے دلوں کو اور گھر کے ماحول کو خوش اور پرسکون بنا سکتے ہیں اور انھیں اپنے اپنے کاموں میں سرگرم رہنے کے لئے آمادہ کرسکتے ہیں اور خود بھى صحیح و سالم اعصاب کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں _

یہى وجہ ہے کہ دین مقدس اسلام میں اچھے اخلاق کو ، دیانت کا جزو اور کمال ایمان کى علامت کہا گیا ہے _

حضرت رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : ایمان کے اعتبار سے کامل ترین انسان وہ لوگ ہیں جو بیحد خوش اخلاق ہوں _ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنے خاندان کى نسبت نیکى کرے _ (175)

پیغمبر اسلام(ص) کا ارشاد گرامى ہے کہ اچھے اخلاق سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے _ (176)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : نیکوکارى اور خوش مزاجى گھروں کو آباد اور عمر کو طویل کرتى ہے _ (177)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ بھى قول ہے کہ '' بداخلاق انسان خود کو عذاب میں مبتلا کرلیتا ہے _ (178)حکیم لقمان کا کہنا ہے : عقل مند آدمى کو چاہئے کہ اپنے گھروالوں کے درمیان ایک بچے کى مانند رہے اور اپنى مردانگى کا مظاہرہ گھر کے باہر کرے _ (179)

حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہیں خوش اخلاقى سے بڑدہ کر کوئس عیش نہیں _ (180)

آنحضرت صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ بھى قول ہے کہ : اچھا اخلاق ، نصف دین ہے _ (181)

حضرت رسول خدا (ص) کے ایک بڑے صحابى سعد بن معاذ ، جن کا آپ بہت احترام کرتے تھے ، کا جب انتقال ہو ا تو رسول اکرم نے صاحبان عزا کى طرح پا برہنہ ہو کر ان کے جلوس جنازہ میں شرکت کى _ اپنے دست مبارک سے ان کے جنازہ کو قبر میں اتارا اور قبر کى مٹى برابر کى _ سعد کى والدہ نے ، جو رسول خدا (ص) کے ان تمام احترامانہ اعمال کو دیکھ رہى تھیں اپنے بیٹے سعد کو مخاطب کرکے کہا : اے سعد بہشت مبارک ہو _

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: اے مادر سعد ایسا نہ کہئے کیونکہ سعد کو قبر میں سخت فشار کا سامنا کرنا پڑاہے _ لوگوں نے وجہ پوچھى تو آ پ نے فرمایا کہ اس کى وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ بداخلاقى سے پیش آتے تھے _ (182)

 

175_ بحارالانوار ج 103 ص 226
176_شافى ج 1 ص 166
177_شافى ج 1 ص 166
178_شافى ج 1 ص 176
179_محجة البیضاء ج 2 ص 54
180_ بحارالانوار ج 71 ص 389
181_بحارالانوار ج 71 ص 385
182_بحارالانوار ج 73 ص 298