پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بدگوئي كرنے والوں كى باتوں پر دھياں نہ ديجئے

بدگوئی کرنے والوں کى باتوں پر دھیاں نہ دیجئے

ایک بہت برى عادت جو عام طور پر لوگوں میں پائی جاتى ہے وہ ہے دوسروں کى مذمت اور بدگوئی کرنا _ یہ گندى عادت دوستوں اور خاندانوں میں دشمنى اور کدورت پیدا کردیتى ہے ، خاندانوں کو تباہ کردیتى ہے _ گھر کے پر خلوص ماحول کى رونق ختم کردیتى ہے اور اکثر اوقات و قتل و غارت گرى کے اسباب فراہم کردتى ہے _عیب جوئی اور بدگوئی کے مختلف اسبا ب و عوامل ہوتے ہیں _ کبھى حس کے سبب کسى کى بدگوئی کى جاتى ہے _ کبھى دشمنى اور کینہ کے سبب اور کبھى انتقام لینے کى خاطر کبھى دوسرں کى برائی کرنے کا مقصد اپنى خود ستائی کرنا ہوتا ہے _ کبھى مذمت کسى کو کسى دوسرے کى طرف سے بدظن کرنے اور اپنى محبت جتانے کے لئے کى جاتى ہے تا کہ اس کى محبت و توجہ کو اپنى طرف مبذول کرسکے _

کبھى اس کے ذریعہ خیرخواہى اور دوستى ظاہر کرنا ہوتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہى ہوتا ہے کہ واقعى ہمدردى اورخیرخواہى کرنے کا ارادہ ہو _ ایسے ہى مواقع پر ایک ہوشیار اور عاقل انسان کا فرض ہے کہ وہ ان بدگوئیوں کا اثر قبول نہ کرے بلکہ نہایت احتیاط اور توجہ سے کہنے والے کے مقصد کو سمجھے او ردھیان رکھے کہ اس کى ظاہر دارى سے دھوکانہ کھائے اور اس کے شیطان ہتھکنڈوں کے زیر اثر نہ آجائے _

مرد کو ایک اہم نکتہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ عموماً اس کى ماں، بہن ، بھائی اور بھائی کى بیوى ، اس کى بیوى کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتیں خواہ بظاہر ان کے آپسى تعلقات اچھے ہوں _

اس قضیہ کى اصل وجہ یہ ہوتى ہے کہ شادى سے پہلے لڑکا اپنے ماں باپ کے خاندان کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے _ اور اس کى اپنى الگ سے کوئی حیثیت نہیں ہوتى _ ماں باپ سالہا سال تک اپنے لڑکے کى تعلیم و تربیت اورپرورش کے سلسلے میں زحمتیں اٹھاتے ہیں امید کرتے ہیں کہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے گا _ اگر چہ والدین خود اپنے بیٹے کى شادى کرتے ہیں اور بظاہر وہ ایک آزاد شخصیت کا مالک بن جاتا ہے لیکن اس سے توقع رکھتے ہیں کہ اپنے ماں باپ سے قطع تعلق نہ کرلے اور خود مختار ہونے کے باوجود ان کا مطیع و فرمانبردار رہے _ اور پہلے سے زیادہ ان سے محبت کااظہار کرے اور تمام امور میں ، حتى کہ بیوى کو بھى ان پر ترجیح نہ دے _ اور پہلے کى مانند اس کى تمام تر توجہ ان پر مرکوز رہے _

لیکن جب لڑکا شادى کرتا ہے تو اس کى خواہش ہوتى ہے کہ ایک خوش ومسرور ، آبرومند اور آزادانہ زندگى کا آغاز کرے_ چونکہ اپنى نئی نویلى بیوى کو اپنى نئی زندگى کا شریک اور ایک اہم رکن سمجھتا ہے اس لئے اس سے عشق ود لچسپى کا اظہار کرتا ہے شب و روز محنت و مشقت کرتا ہے تا کہ زندگى کى ضروریات فراہم کرکے اپنى اور اپنى بیوى کى زندگى کے لئے آرام و آسائشے کے اسباب مہیا کرے _ چونکہ اس سلسلے میں اس کى مشغولیات بڑھ جاتى ہیں اس لئے اپنى سابقہ زندگى سے جدا ہوجاتا ہے اور اپنے گھروالوں سے اظہار محبت کرنے کا موقع کم ملتا ہے _

ایسے موقعہ پر اس کى ماں نہیں خطرہ کا احساس کرتى ہیں اور انھیں خدشہ پیدا ہوتاہے کہ ان کے خاندان میں ایک غیر لڑکى کے آجانے سے ان کا بیٹا ہاتھ نکل جائے گا_ اور لڑکا اپنى بیوى سے جتنا زیادہ محبت کرتا ہے انھیں زیادہ خطرہ لاحق ہوجاتاہے _ انھیں ڈرہوتاہے کہ کہیں ان کا بیٹا انھیں ، بالکل نظر انداز نہ کردے اور اس سلسلے میں سارا الزام بہوکے سر تھونپى ہیں اور اس خطرہ کوٹالنے کے لئے کوشش نہ کرتى ہیں کہ بیوى کى محبت اس کے دل سے کم کردیں اور اس مقصد کے تحت نئی نویلى بہو میں عیب نکالنا شروع کردتى ہیں _ معمولى خامیوں کو بڑھا چڑھا کربیان کرتى ہیں _ اس کے شوہر سے اس کى برائیاں کرتى ہیں بلکہ بعض عورتیں تو دروغ گوئی سے بھى دریغ نہیں کرتیں _ بہوکونیچا دکھانے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بناتى ہیں اور اس کو شوہر کى نظروں سے گرانے کى کوشش کرتى ہیں _

اگر مرد سادہ لوح اور کانوں کا کچاہے تو ان کى ظاہرى ہمدردیوں سے متاثرہوکر ان کى باتوں میں آجاتا ہے اور بیوى کى برائیاں اور خامیاں سن سن کر بیوى سے بیزار ہوجاتا ہے _ بہانے تلاش کرتا ہے اوربات بے بات جھگڑآ کرتا ہے _ بہت معمولى معمولى باتوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے بہت اہمیت دیتا ہے اور بیوى کو تنقید و اعتراض کا نشانہ بناتا رہتا ہے اور اس طرح گھر کا ماحول اعتراضات و عیب جوئی کا میدان بن جاتا ہے اور آپس میں میل محبت اور صلح و صفائی کے بجائے ، ہر وقت باہمى چپلقش ، نزاع و بیزارى کا بازارگرم رہتا ہے _ شوہر جتنا زیادہ ماں بہنوں کى باتوں پر توجہ دیتا ہے اتنى ہى زیادہ ان کى ہمت بندھتى ہے اور زیادہ سے زیادہ بہوکى عیب جوئی اور برائیاں کرتى ہیں اور ان کى فتنہ انگیز یاں میاں بیوى کے درمیان نفرت ، مارپیٹ حتى کہ علیحدگى کا باعث بن سکتى ہیں _ بعض ساس نندیں بیچارى بہوکو اس قدر اذیتیں پہونچاتى ہیں کہ بعض اوقات بہویں پریشان ہوکر خودکشى کا اقدام کرڈالتى ہیں _ ایسى عورتوں کى کافى تعدا د موجود ہے جو اپنى ساس نندوں یادیور جیٹھوں کے ہاتھوں تنگ ہوکر اپنى زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھیں _ ہم اخباروں اور رسالوں میں ان کى داستانیں پڑھتے رہتے ہیں مثال کے طور پر ذیل کے سچے واقعات پیش خدمت ہیں :_

ایک نئی نویلى دلہن نے اپنى شادى کے چند روز بعد ہى سوئی نگل لى _ آپریشن کے بعد اس نے اخبار اطلاعات کے نامہ نگار کو بتایا کہ ایک ہفتہ میرى فلاں شخص سے شادى ہوئی ہے جب میں بیاہ کر اپنے شوہر کے گھر آئی تو میں بھى اپنے آپ کو دوسرى عورتوں کى مانند خوش نصیب تصورکرتی تھى لیکن ابھى چند دن بھى نہیں گزرے تھے کہ نند اور شوہر کى جانب سے اذیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا _ جس زندگى کو میں سمجھتى تھى کہ میرے لئے بہشت ہوگى وہ جہنم ثابت ہوئی _ اتنى کم مدت میں ہى شوہر کے رشتہ داروں نے مجھ کو اس قدر اذیتیں اور تکلیفیں پہونچائیں کہ زندگى سے دل بھر گیا _ سوئی نکل کر میں اپنى زندگى کا خاتمہ کرنا چاہتى تھى _ (188)

ایک عورت نے اپنے کپڑوں میںآگ لگالى اور زندگى کے آخرى لمحات میں پولیس کو بیان دیا کہ : میرے شوہر کے بھائیوں نے میرى زندگى تلخ کردى _ ان کى اذیتوں اور آزار سے تنگ آکر میں نے اپنے کپڑوں میں آگ لگالى _ (189)

ایک نئی شادى شدہ دلہن نے ساس کى بدسلوکیوں سے تنگ آکر اپنے کپڑوں میں آگ لگالى _ (190)

ایک عورت نے ساس کى بدسلوکیوں اور بہانہ بازیوں کے سبب آگ لگاکر اپنا خاتمہ کرلیا __ (191)

بعض اوقات ساس نندوں کى فتنہ انگزیاں اور جھگڑے بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں اور شادى شدہ جوڑے کى زندگى کى بنیادوں کو متزلزل کردیتے ہیں _خاندانوں کى خوشى و آسائشے کو سلب کردیتے ہیں لہذا ان باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ عقل و تدبر سے کام لے کر ان کو حل کرنے کى فکر کرنى چاہئے _ انکے منہ تو بند نہیں کئے جا سکتے لیکن اس کا حل یہى ہے کہ ان کى باتوں میں نہ آجائے _

مرد کو یہ بات اپنى ذہن نشین کرلینى چاہئے کہ مذمت ، عیب جوئی اور برائیاں، خواہ ماں کے یا نہیں یا ان کے علاوہ اور کوئی رشتہ دار، وہ ہمدردى اور خیرخواہى کى غرض سے نہیں کى جاتیں بلکہ ان کا سبب سد ، کینہ انتقام ، خود نمائی ، او رناجائز فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے _ چونکہ نئی دلہن کى خوشى و آسائشے ان کے لئے رشک و حسد کا باعث بنتى ہے اور سمجھتى ہیں کہ بہونے آکر ان کے بیٹے پر قبضہ جمالیا ہے اس لئے اسے اپنا رقیب سمجھنے لگتى ہیں _ یا بعض مائیں لڑکى کى آمدنى س خود پورا پورا استفادہ کرنا چاہتى ہیں اس لئے بہوکا وجود ان کى نظروں میں کھٹکنے لگتا ہے یا بعض اپنے آپ کو خیرخواہ ثابت کرنے کے لئے بہوکى برائیاں کرتى ... ...میٹے کے دل پر بہو قبضہ نہ کرلے _

ایسى عورتوں کو صرف اپنى فکر ہوتى ہے اوراپنے مفاد پر اپنے بیٹے بہو کى زندگیوں کو قربان کردتى ہیں کیونکہ اگر خیرخواہ ہوتیں تو بہو کى برائیاں او رعیب جوئی کرکے ان کى زندگیوں میں تلخیاں نہ بھر دیتیں بلکہ انکے درمیان باہمى محبت اور تعلقات کو مستحکم و پائیدار بنانے کى کوشش کرتیں _

تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ جب کسى لڑکى کو اپنى بیٹے کے لئے پسند کرتى ہیں تو اس کى تعریف میں آسمان زمین کے قلابے ملا دیتى ہیں لیکن جب وہى لڑکى بہوبن کر ان کے گھر آجاتى ہے تو صورت حال بدل جاتى ہے اور اسى لڑکى میں سینکڑوں عیب اور نقص پیدا ہوجاتے ہیں _

برادر عزیز ظاہرى ہمدردیوں اور چرب زبانیوں سے دھوکانہ کھاجایئے اکثر وہ عیوب جو آپ کى بیوى میںنکالے جاتے ہیں یا تودر اصل عیب ہى نہیں ہوتے یا اتنے معمولى ہوتے ہیں کہ عقلمند انسان ان پر توجہ نہیں دیتا ہے _ فرض کیجئے کوئی خامى ہے بھى تو کیا دنیا میں کوئی انسان بے عیب ہے ؟ جو آپ اس بات کى توقع رکھتے ہیں کہ آپ کى بیوى ہر عیب سے پاک ہوگی

کیا آپ کى ماں بہنیں جو آپ کى بیوى کى عیب جوئی کیا کرتى ہیں خود ہر عیب سے مبرا ہیں ؟ اگر آپ کى بیوى میں کوئی کمى ہے تو کیا ہوا ، سینکڑوں دوسرى خوبیاں بھى تو موجود ہیں اس کى خوبیوں کو کیوں نہیں دیکھتے ؟ اگر آپ ا ن کى باتوں پر توجہ دیں گے تو گھر ہرروز حشر کا میدان بنا رہے گا _ آپ کى زندگى اجیرن ہوجائے گى اور زندگى اور بیوى سے بیزار ہوجائیں گے آپ کى بیوى بھى آپ سے اور اپنى زندگى سے بیزار ہوجائے گى _ اور اسى طرح زندگى کى گاڑى چلتى رہى تو زندگى میں کبھى سکون و چین نصیب نہ ہوگا اگر تنگ آکر علیحدگى اختیار کرلى یا طلاق دیدى تو بھى عموماً حالا ت میں بہترى پید ا نہیں ہوتى ، مالى نقصانات اورذہنى پریشانیوں کے علاوہ بدنامى الگ ہوتى ہے _ ہر ایک ایسے آدمى کو اپنى بیٹى دینے کو تیار نہیں ہوتا یادوسرى شادى ہو بھى گئی تو ماں بہنیں اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوجائیں گى بلکہ اگر ان کى مرضى کے مطابق نہ ہوئی تو پھر عیب جوئی اور تنقید شروع کردیں گی_ پس بہترى اسى میں ہے کہ شروع میں ہى ان سے صاف صاف کہدیجئے کہ اگر آپ چاہتى ہیں کہ ہمارے تعلقات اور آمد و رفت برقرار رہے تو میرى بیوى کى برائیاں نہ کیا کیجئے _ اور ہمارے باہمى تعلقات میں مداخلت نہ کیجئے _ میرى بیوى میں کوئی برائی نہیں ہے وہ مجھے پسند ہے اور مجھے اس سے محبت ہے _ جب وہ لوگ دیکھیں گى کہ ان کى باتوں کا آپ پر کوئی اثرنہیں ہوتا تو خود ہى خاموش ہوجائیں گى اور آپ بھى اس روز روز کى مصیبت سے نجات پاجائیں گے _

البتہ اس نکتہ کو بھى مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض ماں بہنیں اتنى آسانى سے دستبردار نہیں ہوجاتیں بلکہ اپنے مقصد کى تکمیل اور بہو سے انتقام لینے کے لئے جھوٹ بولنے اور تہمت لگانے سے بھى دریع نہیں کرتیں _ اور ان کا یہ حربہ بعض وقت اتنا کارگر ثابت ہوتا ہے کہ شوہر اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھتا ہے اور تحقیق کئے بغیر بے گنا ہ بیوى کو طلاق دے دیتا ہے یا بعض اوقات قتل تک کردیتا ہے_

اکثر ظلم وقتل اور طلاقیں ان ہى بدگوئیوں اور ناروا تہمتوں کے سبب وقوع میں آتى ہیں _

مثال کے طور پر ذیل کے واقعہ پر توجہ فرمایئے

ایک نوجوان جوڑا جن کے نام ... اور ... تھے تبریز میں خاندانوں کى حمایت کرنے والى عدالت میں طلاق حاصلہ کرنے کى غرض سے حاضر ہوئے _ شوہرنے عدالت میں کہا کہ میرى بیوى میرے بھائی کو جو کہ اصفہان میں رہتا ہے عاشقانہ خطوط لکھتى ہے _ کل رات مجھے اس کے کپڑوں کى المارى میں کچھ خطوط ملے ہیں _ بیوى نے جوکہ زار و قطاررورہى تھى وضاحت کى اور کہا کہ میرى ساس اورنند کو ... ... ہر بات پر مجھ سے اختلاف ہے اور وہ مجھے ہمیشہ اذیتیں پہونچاتى ہیں اب جبکہ انھوں نے دیکھا کہ ان کے اعتراضات کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انھوں نے یہ خط لکھ کر میرے کپڑوں کى المارى میں رکھ دیئےا کہ میرے شوہر کو بھڑکاکر مجھے طلاق دلوادیں _ عدالت نے میاں بیوى کے درمیان صلح کرادى فقط آخر میں شوہر سے کہا کہ اپنى ماں بہن سے کہدو کہ جواں بہو کے اس قدر پیچھے نہ پڑى رہا کریں _ (192)

ایک 34 سالہ عورت نے ساس کے مظالم سے تنگ آکر اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگالى _ کچھ لمحوں کے بعد اس کى چیخیں سن کر پڑوسى مددکو دوڑ ے او اسے تہران کے ایک اسپتال میں لئے گئے

اسپتال میں اس عورت نے اپنے بیان میں کہا: میرى ساس میرے ساتھ رہتى ہے بہت غصہ وار اور بہانہ باز ہے ہمیشہ مجھ پر اعتراضات کرتى رہتى ہے _ میرے اور میرے شوہر کے درمیان جھگڑا کرتى ہے _ کل جب میں سودا خریدنے کے لئے بازارگئی تو راستے میں میرى ایک پرانى دوست مل گئی _ چند لمحے ہم دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے _ جب میں گھر پہونچى تو میرى ساس نے پوچھا: اتنى دیر کہاں رہیں؟ میں نے اپنى زمانہ طالب علمى کى ساتھى سے ملاقات کا حال بیان کیا _ لیکن وہ سرہلا کر بولى :'' جھوٹ بولتى ہے _ تیرى یہ ہمت ہوگئی ہے ، میں نے سنا ہے تو محلے کے قصاب سے عشق لڑاتى ہے'' _ اس بات نہ مجھے بیحد غضبناک کردیا اور میں نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشى کرنے کا فیصلہ کرلیا _ (193)

ایسے موقعوں پر مرد کو چاہئے کہ نہایت صبرو تحمل ، احتیاط او ربردبارى سے کام لے اور اس بات کى خوب اچھى طرح چھان بین کرے اور جب تک کوئی بات پورى طرح ثابت نہ ہوجائے ہر قسم کے اقدام سے سختى سے پرہیز کرے _

یہاں پر ایک بات اور یاد دلادیں کہ ماں باپ اپنى اولاد کى تعلیم و تربیت اور پرورش میں بیحد زحمتیں اٹھاتے ہیں اور اولاد سے بھى بہت سى امیدیں رکھتے ہیں اور اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتے ہیں اور وہ حق بجانب بھى ہیں _ شرعى اعتبار سے بھى ضرورى ہے او رانسانیت کا بھى یہ تقاضا ہے کہ جب اولاد بڑى ہوجائے اور اسے طاقت و توانائی حاصل ہوجائے تو والدین کے حقوق کو یکسرفراموش نہ کردے اور اپنے بیوى بچوں میں محو نہ ہوجائے _ والدین کى سپاس گزارى ہرحال میں واجب ہے شادى کے بعد بھى ان کى خدمت و احترام کرنا چاہئے اگر وہ محتاج اور ضرورت مند ہیں تو ان کى مدد کرنى چاہئے _ ان کے مقابلے میں ہمیشہ عجز و انکسارى کرنا چاہئے اور ان سے ہمیشہ محبت و خلوص کا اظہار کرنا چاہئے _ ان سے رابطہ منقطع نہیں کرلینا چاہئے _ ان کى احوال پرسى کرنے کے لئے ان کے پاس جاتے رہنا چاہئے ان کو اپنے پاس بلاتے رہنا چاہئے _ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے ان کى دل آزارى ہو _ اپنى بیوى بچوں کو بھى بتانا چاہئے کہ ان کا احترام کریں ان کى خاطر تواضع کریں _ انھیں سمجھانا چاہئے کہ ہمارى بہترى اسى میں ہے کہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں سے محبت کریں _ اس طرح ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق بھى ادا کئے جا سکتے ہیں اور انھیں خوش بھى رکھا جا سکتاہے اگر انھیں بہوسے یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ انھیں ان کے بیٹے سے چھڑادے گى تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بةوکى مخالفت کریں بلکہ اس کى حمایت اور طرفدارى کریں گى _ آخر میں اس بات کى بھى یاد دہانى کرادیں کہ بیوى کو اپنے شوہر سے یہ توقع نہیں رکھنى چاہئے کہ وہ اپنے ماں باپ اور عزیزوں کو یکسر فراموش کردے اور ان کى زحمتوں اور محبت کو مکمل طور پر نظر انداز کردے اور ان سے رابطہ منقطع کرلے _ یہ بات بالکل غیر فطرى ہے _

بہو اگر عقلمندى اور تدبر سے کام لے کر اپنى ساس نندوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ اس کى اپنى ماں بہنوں سے بڑھ کر مہربان و ہمدرد بن سکتى ہیں _ اگر ان کا احترام کرے ان سے محبت کا اظہار کرے اور ان کے ساتھ نیکى کرے _ کاموں میں ان سے صلاح و مشورہ لے ان کے یہاں سے برابر آمد و رفت رکھے تو نہ صرف یہ کہ وہ اس کى مخالفت نہیں کریں گى بلکہ ہمیشہ اس کى حامى و مددگار بنیں گى اس موضوع کے متعلق کتاب کے پہلے حصہ میں مفصل بحث کى جا چکى ہے _

 

188_ روزنامہ اطلاعات 16 نومبر سنہ 1969
189_روزنامہ اطلاعات 5 اگست سنہ 1970
190_روزنامہ اطلاعات 3مئی سنہ 1970
191_روزنامہ اطلاعات 6 مئی سنہ 1970
192_روزنامہ اطلاعات 22 فرورى سنہ 1972
193_روزنامہ کیھان ، تہران 14 اپریل سنہ 1973