پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اعتراض اور بہانہ جوئي

اعتراض اور بہانہ جوئی

بعض مردوں کو اعتراض کرنے اور عیب نکالنے کى عادت ہوتى ہے _ گھر میں داخل ہوتے ہى اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ چھوٹى چھوٹى باتوں کے لئے بھى مسلسل بولتے رہتے ہیں مثلا فلاں چیزوہاں کیوں رکھى ہے ؟ فلاں چیز اپنى جگہ پر کیوں نہیں ہے ؟یہاں پا جامہ کیوں پڑا ہے ؟ یہاں گندگى کیوں ہے؟ کھانا تیار ہونے میں دیر کیوں ہوئی؟ کھانے میں نمک

کم ہے کتنى با رکہا ہے چکھ کے دیکھ لیا کرو_ فلاں چیز کیوں نہیں پکائی؟ آج سلادکیوں نہیں بنایا و سالن میں ہرادھنیا کیوں نہیں ڈالا_ ہرى مرچیں دستر خوان پر کیوں نہیں آئیں چٹنى کیوں نہیں بنائی، حوض کا پانى کیوں گندہ ہے _ گلدان کو یہاں سے ہٹاؤ_ ہزار وقعہ کہا ایش ٹرے کو میز پر رکھا کرو_ آخرکتنى بار کہا جائے کیسے کہا جائے و غیرہ و غیرہ اور اس قسم کے سینکڑوں چھوٹے بڑے اعتراضات کرتے رہتے ہیں _

حتى کہ بعض مرد اس سلسلے میں اس قدر سختى سے کام لیتے ہیں کہ خود اپنا اوراپنے گھر والوں کا سکول و چین حرام کردیتے ہیں _بلکہ بعض تواس کى خاطر شادى شدہ زندگى کے مقدس پیمان کو بھى متزلزل کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں _

ہم اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ مرد کو گھر امور میں دخل دینے کا اور اچھا برابتانے کاحق ہے اور اس کتاب کے پہلے حصہ میں خواتین کونصیحت کى جا چکى ہے کہ مرد کے اس حق کو مانیں اور اس کى دخل اندازیوں کے مقابلے میں کسى رد عمل کا اظہار نہ کریں لیکن مرد کو جو ک خاندان کا سرپرست اور منیجر ہے احتیاط سے کام لینا چاہئے سوجھ بوجھ اور تدبر کو ملحوظ رکھنا چاہئے _ اگر گھرکے امور میں دخل اندازى کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ عاقلانہ اور صحیح طریقہ اختیار کرے تا کہ اس کى بات مؤثر ثابت ہو _

چونکہ مرد کو اتنى فرصت نہیں ہوتى کہ گھر کے تمام امور میں دخل دے اور اصولى طور پر اسے اس سلسلے میں کوئی مہارت بھى نہیں ہوتى اس لئے صلاح اسى میں ہے کہ امور خانہ دارى کا کل اختیار اپنى بیوى کے سپرد کردے اور اس سلسلے میں اسے پور ى آزادى دے کہ اپنے سلیقے اور ذوق کے مطابق گھر کا انتظام چلائے _ اگر اس سلسلے میں اس کے کچھ خاص نظریات ہوں تو صلاح و مشورہ کے طور پر، نہ کہ زورزبردستى اور حکم کے طور پر، اپنى بیوى کو بتادے اور اس سے کہے کہ اس کے سلیقے اور نظریے کہ بھى لحاظ رکھے _ بیوى کو جب اپنے شوہر کے ذوق کا علم ہوجائے تو اگر وہ عقلمند اورمدبر ہے اورگھر اور زندگى سے دلچسپى رکھتى ہے تو اسے چاہئے کہ کوشش کرے کہ اپنے شوہر کى مرضى و خوشى کا خیا ل رکھے _ اوراگر گھر کے بعض امور میں شوہر کى رائے کو مناسب نہ سمجھے تو نہایت نرمى و ملائمت سے اور مناسب الفاظ میں اپنے شوہر سے اس کا ذکر کردے _ ایسى صورت میں مرد کا احترام باقى رہے گا اور اس کى شخصیت مجروح نہیں ہوگى اور ایک حد تک اس کى رائے مان لى جائے گى _ کیونکہ اکثر خواتین اس صورت میں مرد کى دخل اندازیوں کو تو قبول کرلیتى ہیں لیکن اگراعتراضات کى شکل میں اور دائمى طور پر ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ اس کا نتیجہ برعکس نکلنے کا بھى امکان ہے _ کیونکہ بیوى آہستہ آہستہ شوہر کے مسلسل اعتراضات کى عادى ہوجاتى ہے اور اس کو اہمیت نہیں دیتى _ ایسى صورت میں شوہر کى شخصیت اس کى نظر میں بے وقعت ہوجاتى ہے اور اس کى باتوں پر توجہ نہیں دیتى _ حتى کہ بجااور بہت اہم اعتراضات کو بھى درخوراعتنا نہیں سمجھتى _ اپنے دل میں سوچتى ہے کہ جو بھى کام کروں گى آخر اس پر اعتراضات اور جھڑ پ تو ہونى ہى ہے ، لہذا کیا ضرورت ہے کہ اس کى رضامندى حاصل کرنے کیلئے زحمت اٹھاؤں _ اس کى توعادت ہى اعتراضات کرنے اور عیبب نکالنے کى ہے ، جتنا کرے کرنے دو _ رفتہ رفتہ گھر دارى اور شوہر کے کاموں کى طرف سے سرد مہرى برتنے لگتى ہے ، بعض اوقات انتقام کى غرض سے اسى کى طرح وہ بھى اعتراض اور عیب جوئی کرنے لگتى ہے _

ایسى صورت میں گھر کا ماحول، جسے سکون و آرام کامرکز ہونا چاہئے دائمى کشمکش کا شکار ہوکر میدان جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے _ ممکن ہے مسلسل اعتراضات او رجھگڑوں سے اتنا تنگ آجائے کہ ایسى زندگى پر علیحدگى کو ترجیح دے اور شادى شدہ زندگى کے تانے بانے بکھر جائیں _ بیوى خواہ کتنى ہى عاقل اور بردبار ہوبالآخر مسلسل اعتراضات اور تحقیر سے تھک جاتى ہے

مثل کے طور پر ذیل کے واقعہ پر توجہ کیجئے :

ایک شخص نے پولى چوکى میں رپورٹ درج کرائی کہ اس کى بیوى دومہینے ہوئے لڑکر اپنے باپ کے گھر چلى گئی ہے _ اس شخص کى بیوى نے بتایا کہ میرے شوہر کو گھر کے کاموں میں میرا طریقہ کارپسند نہیں ہے _ کھانا پکانے اورگھر کے انتظامات کے سلسلے میں ہمیشہ میرى تحقیر کیا کرتا ہے اس لئے میں اس کے گھر سے آگئی ہوں _ اس کى باتیں سنتے سنتے میرے کان پک گئے _ (186)

مرد کو یہ نکتہ دھیان میں رکھنا چاہئے کہ گھر کے امور کى تنظیم اور گھر کا انتظام عورت سے مخصوص ہے اور یہ اس کى ذمہ دارى ہے _ اس کے اس حق کو سلب نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ایک بے ارادہ مشین بن کررہ جائے _ بلکہ اس کو مکمل آزادى و اختیار دینا چاہئے تا کہ اپنے ذوق و سلیقے کو بروئے کارلائے اور شوق و دلچسپى کے ساتھ امور خانہ دارى کو انجام دے _ یہ بات مصلحت سے بعید ہے کہ مرد اس سلسلے میں سختى اور ہٹ دھرمى سے کام لیں اور بہانہ تراشیاں کریں _ کیونکہ گھر کا سکون و چین اور باہمى میل محبت تمام چیزوں پر مقدم ہے _

186_روزنامہ اطلاعات 5 مئی سنہ 1972