پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اس كى لغزشوں كو نظر انداز كيجئے

اس کى لغزشوں کو نظر انداز کیجئے

ہر انسان سے خطا سرزد ہوتى ہے سوائے معصوم کے دنیا میں کوئی نہیں جس سے زندگى میں کبھى کوئی لغزش یا غلطى نہ ہوئی ہو _ کبھى کبھى انسان سے جہالت اورنادانى کے سبب ناماسب کام انجام پا جاتے ہیں _ اس سلسلے میں عورت مرد میں کوئی فرق نہیں ہے _ شادى شادہ زندگى میں بیوى سے بھى یقینا غلطیان اور کوتاہیاں ہوتى ہیں _ نادانى ، عدم توجہ یا غصہ کى شدت ، کوئی بھى وجہ ہوسکتى ہے کہ اپنے شوہر کى نسبت بے ادبى کردے یا اس کے منھ سے نامناسب الفاظ نکل جائیں یا طنز آمیز جملے بول دے یاغصہ سے بے قابو ہوکر چیخنے چلّانے لگے _ یا شوہر کى اجازت کے بغیر یا اس کے منع کرنے کے باوجود کوئی کام کرے _ یا بے احتیاطى یا نادانى یا بے توجہى کے سبب کوئی مالى نقصان کردے _ غرضکہ اس قسم کى سینکڑوں دوسروں باتیں ہوسکتى ہیں جن سے کم و بیش ہر خاندان کو سابقہ پڑتا ہے _

البتہ اس بات کى یاددہانى ضرورى ہے کہ میاں بیوى دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کى کوشش کریں اور ان کاموں سے سختى سے اجتناب کریں جو ایک دوسرے کى ناراضگى و رنجیدگى کا باعث ہوں _ لیکن ایسا اتفاق کم ہى ہوتا ہے کہ میاں بیوى کبھى کوئی غلطى ہى نہ کریں_

بعض مرد یہ سوچتے ہیں کہ بیوى کى لغزشوں اور غلطیوں پر، خواہ وہ چھوٹى اور معمولى ہى کیوں نہ ہوں ،سختى سے بازپرس کرنى چاہئے تا کہ اس کى تکرار نہ ہو _ اور شادى ہوتے ہى اسے آنکھیں دکھانى چاہئے اور اپنے رعب میں لے لینا چاہئے تا کہ اس کے ہوش حواس درست رہیں اور کوئی غلطى نہ کرے _

لیکن تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اس قسم کى باتوں سے نہ صرف یہ کہ حسب دلخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بلکہ اکثر اس کاانجام برعکس ہوتا ہے کیونکہ جو عورتیں شوہر کى زیادہ سختیوں اور دباؤ کا شکار رہتى ہیں وہ کچھ دن تو صبر و برداشت سے کام لے سکتى ہیں لیکن آخر کار ان حالات سے تنگ آجاتى ہیں اور اس وقت ممکن ہے عاجز آکر اس قید و بند سے آزدادہونے کا فیصلہ کرلیں یا شوہر کى سختیوں ، اعتراضات عتاب آور ناروا سلوک کى عادى ہوکر اس کى طرف سے بے پروا ہوجائیں _ اپنے دل میں سوچتى ہیں کہ میرا شوہر تو معمولى معمولى باتوں پر غصہ ہوجاتا ہے غیر ارادى طور پر مجھ سے کوئی غلطى یا کوتاہى ہوجاتى ہے تو مجھ نہیں چھوڑتا اور مجھ پر سختى کرتا ہے پس بہتر ہے کہ اس کى باتوں پر توجہ نہ دوں تا کہ ٹھیک ہوجائے اور ظلم و ستم سے بازآئے _ اور اس طرح شوہر سے گستاخى کرتى ہیں _ برابر سے جواب دیتى ہیں اور اس کى مخالفت و نافرمانى کرنے کى عادت پڑجاتى ہے _

ایسى صورت میں مختلف نتائج سامنے آتے ہیں:

مثلاً مرد بیوى پر سختى و ظلم کرنے سے دستبردار نہیں ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہٹ دھرمى کشمکش لڑائی جھگڑے کا سلسلہ ہمیشہ جارى رہتا ہے اور اگر اسى طرح زندگى گزرتى رہے تو سارى زندگى میں کبھى خوشى و سکون میسر نہیں ہوتا _ یا یہ ہوتا ہے کہ مرد اس کشمکش سے تنگ آکر بیوی کے سامنے جھک جاتا ہے اور اسے مکمل آزادى دے دیتا ہے _ ایسى صورت میں کہ جو عورت زور آزمائی اور مخالفت کے ذریعہ قید و بند سے رہائی حاصل کرے گى وہ کامیابى اور آزادى کا احساس کرے گى نتیجہ اپنے شوہر اور اس کى باتوں کى طرف سے بے اعتنائی برتے گى _ نادان شوہر بھى جو کہ شادى شدہ زندگى اور زن دارى کے اصول و رائض سے ناواقف سے ناچار ہوجائے گا کہ بیوى خواہ بڑى غلطیاں ہى کیوں نہ کرے خاموش رہے _ یا تیسرى صورت یہ ہوتى ہے کہ ضد اوررسہ کشى کے نتیجہ میں ان میں سے کسى ایک کى جان پر بن جاتى ہے اور ایسى صورت میں علیحدگى کو ترجیح دیتے ہیں _

ایسى صورت میں مرد عورت دونوں کو ہى نقصان پہونچتا ہے یوں آسانى کے ساتھ اطمینان نصیب ہونا مشکل ہى معلوم ہوتا ہے لہذا بیوى کے عیوب کى اصلاح کرنے کے لئے سختى اور شدت عمل سے کام لینا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں ہے بلکہ سختى سے اکثر خراب نتائج بر آمد ہوتے ہیں _ دوستوں ، واقف کاروں کى زندگى اور اخبار ورسائل میں شائع ہونے والے واقعات سے ان باتوں کى تصدیق ہوسکتى ہے _ پس زن دارى ، کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر میانہ روى سے کام لے _ عقل و تدبر کا راستہ اختیار کرے _ بیوى کى معمولى معمولى غلطیوں اور کوتاہیوں کو ، جو غلطی، غفلت یا بھول کے سبب ہوئی ہوں یکسر نظر انداز کرے_ او ران پڑلڑے جھگڑے نہیں بلکہ بہتر ہے کے ذرا بھى پیشانى پر شکن نہ آنے دے کیونکہ بیوى نے قصداً ایسا نہیں کیا ہے اس لئے شوہر کو غصہ اور بازپرس کرنے کاحق نہیں ہے _ البتہ مناسب موقعہ پر نہایت اچھے اور خوبصورت الفاظ میں اس کو یادآورى کرادے کہ اس کى بات کا دھیان رکھے تا کہ آئندہ اس قسم کى غلطى عمل میں نہ آئے _

اگر نادانى کے سبب کوئی خلاف ورزى ہوئی ہے تب بھى مناسب نہیں کہ مرد غصہ اور سختى کرے اور اس کى تنبیہ و بازپرس کرنے کى سوچے _ کیونکہ بیوى نے مخالفت اورنافرمانى کے خیال سے نہیں بلکہ اپنى جہالت اور نادانى کے سبب اسے اچھا سمجھ کر انجام دیا تھا _ ڈانٹنے پھٹکارنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو نظر انداز کردینا چاہئے اور مناسب موقعہ پر اچھے الفاظ میں اس عمل کى خرابی اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کو دلیل و ثبوت کے ذریعہ واضح کرنا چاہئے تا کہ بغیر کسى زور زبردستى کے اپنى مرضى و خوشى سے اس فعل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلے اور بعد میں اس کى خلاف ورزى نہ کرے_ ایسى صورت میں مرد کا احترام ووقار باقى رہ سکتا ہے اور اپنے اس عمل کے ذریعہ وہ بڑى بڑى غلطیوں اور خطاؤں کے وقوع میں آنے کى ورک تھام کرسکتا ہے _

اگر نرم وملائم لہجے اورباہمى تفاہم کے ذریعہ اپنى بیوى کو اپنا ہم خیال بنا سکے اور بیوى اس کى باتوں پر عمل کرے تو چاہئے کہ بیوى کى قدردانى کرے اور اس کا شکریہ ادا کرے _ لیکن اگر دیکھے کہ اس کى باتوں پر پور توجہ نہیں دیتى اور کبھى کبھى غلطى کرجاتى ہے تو بھى بہتر ہے کہ مرد بیوى کى معمولى غلطیوں کو نظر انداز کردے او راس سے سختى سے پیش نہ آئے اور انتقام لینے اور تنبیہ کرنے کى فکر میں نہ رہے حتى کہ اس کو قصور وثابت کرکے اس بات پر مصر نہ ہو کہ بیوى اس سے معافى مانگے کیونکہ عورتوں میں عموماً ایک قسم کى ضد اور خودسرى پائی جاتى ہے اگر مرد ان کى اس حالت سے سمجھوتہ کرلے تو ان کے وجود سے فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن اگر ان کے مقابلے میں سختى اور شدت اختیار کى تو ضد اورکشمکش کے نتیجہ میں بڑے خراب نتائج برآمد ہوسکتے ہیں _ طلاق حتى قتل تک کى نوبت آسکتى ہے _

عقلمند اور ہوشیار مرد کو چاہئے کہ ہربات کے نتائج کو خوب اچھى طرح پرکھ لے اورسختى و ظلم کے نتائج کا ، عفو و درگزر کے نتائج سے مقابلہ کرے تو یقینا عفو و درگزر کو ترجیح دے گا _ البتہ ناقابل معافى خطاؤں اور غلطیوں کے سلسلے میں مرد دوسرے طریقوں پر عمل کرسکتا ہے _

یہ موضوع اس قدر حساس ہے کہ دین مبین اسلام میں اس کو عورت کے ایک حق کے عنوان سے مرد پرواجب قراردیا گیا ہے _

حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام فرماتے ہیں ، ہر حال میں عورتوں سے نباہ کرو _ ان سے خوش بیانى کے ساتھ بات کرو _ شاید اس طریقہ کارسے ان کے اعمال نیک ہوجائیں _ (194)

حضرت امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں : تم پر عورت کا یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ مہربانى سے پیش آؤ _ کیونکہ وہ تمہارى دست نگر ہے _ اس کے کھانے کپڑے کا انتظام کرو _ اس کى نادانیوں کو معاف کردو _ (195)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے لوگوں نے سوال کیا کہ بیوى کا اپنے شوہر پر کیا حق ہے کہ اگر اسے انجام دے تو اس کا شمار نیک بندوں میں ہوگا؟

فرمایا: اس کے لباس و غذا کا انتظام کرے اور جن کاموں کو اپنى نادانى کے سبب انجام دیتى ہے انھیں معاف کرے _ (196)

امام جعفر صادق (ع) یہ بھى فرماتے ہیں کو جو شخص اپنے زیردستوں کو معمولى خطاؤں پر تنبیہ کرے اسے اپنى بزرگى اور عزت قائم رہنے کى توقع نہیں کرنى چاہئے _ (197)

 

194_بحارالانوار ج 103 ص 223
195_بحارالانوار ج 74 ص 5
196_ شافى ج 2 ص 139
197_بحارالانوار ج 75 ص 272