پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خاندان كے اخراجات

خاندان کے اخراجات

بیوى کا نان و نفقہ شوہر پرواجب ہے یعنى قانونى اور شرعى طور سے مرد اس بات کا ذمہ دار ہے کہ خاندان کے تما م اخراجات ، یعنى پوشاک ، خوراک ، مکان حتى ڈاکٹر کى فیس اور دوا کا انتظام کرے اور اگر اس نے اس ذمہ دارى کو پورا نہ کیا یا کوتاہى کى توشرعى اور قانونى لحاظ سے وہ اس امر کا جواب وہ ہوگا _

بیوى بچوں کو ہمیشہ یہ کہہ کرٹالا نہیں جا سکتا کہ ''میرے پاس نہیں ہے '' انھیں ہر حال میں چاہئے انکى خواہشوں اور مطالبات کى حد و انتہا نہیں ہوتى _ رقابت کى حس ، ان میں بہت قوى ہوتى ہے _ اسى لئے مرد بے چون و چرا ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کرسکتا اور نہ ہى ایسا کرنا مناسب ہے _

عقلمند مرد گھر کے تمام اخراجات کاحساب لگاتا ہے _ لوازم زندگى کى ضرورت کے مطابق درجہ بندى کرتا ہے _ زندگى کى اولین ضروریات مثلاً خوراک و پوشاک کو سب چیزوں پر فوقیت دیتا ہے _ اپنى آمدنى کا کچھ حصہ آڑے وقت کے لئے بچاکررکھتا ہے _ آمدنى کا کچھ حصہ مکان کے کرایہ کے لئے یا مکان خریدنے کے لئے جمع کرتا ہے کچھ حصہ بجلى ، پانى ٹیلیفوں، ٹیکس اور بچوں کى اسکول فیس و غیرہ کے لئے رکھتا ہے _ گھر کے ضرورى سازوسامان کو بھى مد نظر رکھتا ہے اور سارى ضرورى چیزوں کیلئے اپنى آمدنى کے مطابق بجٹ بناتا ہے _ اسراف و فضول خرچى سے گریز کرتا ہے _

ایک مدبر انسان اپنى چادر کے مطابق پیر پھیلانے کى کوشش کرتا ہے ہر وہ خاندان جو اپنى آمدنى اوراخراجات کا بجٹ بنالیتے ہیں اور عقل و تدبر کے ساتھ اپنى آمدنى کا لحاظ کرکے خرچ کرتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ قرض لینے یا دیوالیہ ہوجانے کى مصیبت سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ جلدى ہى اپنى خوشحالى اور بہتر زندگى کے اسباب فراہم کرلیتے ہیں _

خداوند کریم نے اقتصادیات اور میانہ روى کو ایمان کى علامت قراردیا ہے _ قرآن مجید میں فرماتاہے : جو لوگ اس طرح خرچ کریں کہ نہ اسراف کریں اور نہ بخل سے کام لیں وہ لوگ اعتدال پسند ہوتے ہیں _(253) امام صادق (ع) فرماتے ہیں : جو شخص اپنى آمدنى کا لحاظ رکھئے میں ضمانت لیتا ہوں کہ وہ کبھى فقیر نہیں ہوگا _

امام جعفر صادق (ع) ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : چار قسم کے لوگوں کى دعا قبول نہیں ہوتى ان میں سے ایک وہ ہیں جو اپنا مال بیکار تلف کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اے خدا مجھ کو روزى عطا کر ،پس خدا فرماتا ہے کیا میںنے تم کو حکم نہیں دیا تھا کہ اخراجات پر کنٹرول کرو _ (255)

عبداللہ بن ابان کہتے ہیں : میں نے امام موسى کاظم (ع) سے خاندان پر بخشش کے متعلق سوال کیا _ فرمایا : اسراف اور کم خرچ کرنا دونوں مکروہ ہیں _ میانہ روى سے کام لینا چاہئے _ (256)

عقلمند اور عاقبت اندیش انسان ، حتى الامکان قرض لینے اور قرض پر سامان خرید نے سے پرہیز کرتے ہیں _ اور غیر ضرورى مصارف کے لئے اپنے آپ کو قرض کے بوجھ تلے نہیں دبا تے _ وہ پیسہ جو بینکوں یا دوسرے اداروں سے سود کى شرح پر قرض لے کر فراہم کیا جائے شرعى اور عقلى اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہے _

قسطوں پر چیزیں خریدنا ، اگر چہ ممکن ہے زندگى کو بظاہر پر کشش بنادے لیکن در حقیقت خاندان کى خوشى اور سکون کو سلب کرنے کا باعث بنتاہے _ قسطوں پر مکان ، قسطوں پر فریج ، قسطوں پرٹى وى ، قسطوں پر کار، قسطوں پر ٹیلیفون ، قسطوں پر قالین و غیرہ و غیرہ _ یہ کوئی زندگى ہوئی ؟ آخر ایسا کیا ضرورى ہے کہ انسان غیر ضرورى اشیاء کو زیادہ قیمتوں پر خرید ے اور قسطیں ادا کرنے کے لئے اپنى آمدنى کا ایک حصہ بینکوں اور دوسرے اداروں کے فنڈمیں بھرے _ کیا یہ بہتراور زیادہ مفید نہ ہوگا کہ ذرا صبر سے کام لے کہ مالى حالت کچھ بہتر ہوجائے اس کے بعد وہى چیزیں کم قیمت پر نقد ادا کرکے خرید لے ؟

یہ درست ہے کہ روپیہ پیدا کرنا مشکل کام ہے اور انسان کى زندگى پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے لیکن اس سے اہم بات روپیہ کو صحیح طریقے سے خرچ کرنا ہے _ بہت سے ایسے خاندان ہوتے ہیں جو اپنے اچھى آمدنى کے باوجود ہمیشہ پریشان اور مقروض رہتے ہیں _ اس کے برعکس بہت سے ایسے لوگ بھى ہوتے ہیں جو اپنى معمولى آمدنى کے باوجود نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ آبرومندانہ طریقے سے زندگى گزارتے ہیں ان کى حالت ہر لحاظ سے اچھى اور اطمینان بخش ہوتى ہے _

ان دونوں قسم کے گروہوں میں فرق یہى ہے کہ اپنى آمدنى کو کس طرح سے خرچ کرتے ہیں _ لہذا خاندان کى فلاح و بہبودى اسى نکتہ میں مضمر ہے کہ مرد نہایت احتیاط اور عقلمندى کے ساتھ یا تو ذاتى طور پر گھر کے اخراجات چلانے کى ذمہ دارى لے اوراگر خرید و فروخت کا کام کسى دوسرے کے سپردے تو اس کى نگرانى کرے _

آخر میں ایک نکتے کا ذکر کرنا ضرورى معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ احتیاط سے خرچ کرنا اچھى بات ہے اور خاندان کے مفاد میں ہے لیکن سخت گیرى بھى اچھى چیز نہیں ہے _ اگر مرد کى مالى حالت اچھى ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے بیوى بچوں پر اچھى طرح خرچ کرے _ اپنى آمدنى کے مطابق ان کے عمدہ لباس خوراک اور آرام وہ رہائشے کا بند و بست کرے _

مال و دولت خرچ کرنے اور زندگى کى ضروریات مہیا کرنے کے لئے ہوتى ہے نہ کہ محض جمع کرنے اور اپنے پیچھے باقى چھوڑ دینے کے لئے _ انسان کى زندگى سے اور اس کى بیوى بچوں کے رہن بہن اور غذا و لباس سے اس کى دولت و ثروت کا اظہار ہونا چاہئے _

آخر اس سے کیا فائدہ کہ مرد دن رات محنت کرے اور خوداپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو سختى میں ڈالے رکھے اور مال وپونچى جمع کرکے اس دنیا سے رخصت ہوجائے جب تک زندہ رہے بیوى بچے عمدہ غذا اور اچھے لباس کے لئے ترستے رہیں اور غذائی کمى کے سبب ہمیشہ بیمار یا کمزور رہیں اور اس کے مرنے کے بعد دولت کى تقسیم میں آپس میں لڑیں جھگڑیں _

اگر خدا نے انسان کودولت کى نعمت عطا کى ہے تو اسے چاہئے کہ اپنى آمدنى کے مطابق اپنے خاندان کا معیار زندگى بہتر بنائے_ ان کے لئے قیمتى لباس اور غذا کا انتظام کرے اپنی

آمدنى کے مطابق ہر فصل کے پھل ان کے لئے فراہم کرے _

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: وہ شخص ہم سے نہیں ہے جو مال و دولت کے اعتبار سے خوشحال ہو لیکن اپنے بیوى بچوں پر سخت گیرى کرے _ (257)

حضرت موسى بن جعفر (ع) فرماتے ہیں : مرد کے اہل و عیال اس کے پاس اسیر کى مانند ہوتے ہیں پس خدا نے اس کو جو کچھ نعمت عطا کى ہے اسے چاہئے کہ اپنے اسیروں پر فراخدلى سے خرچ کرے _ ورنہ ممکن ہے خدا اس سے نعمتیں چھیں لے _ (258)

امام رضا (ع) فرماتے ہیں: مناسب یہ ہے کہ مرد اپنے اہل و عیال پر اچھى طرح خرچ کرے تا کہ وہ اس کى موت کا انتظار نہ کریں _ (259)

امیر المومنین حضرت على (ع) فرماتے ہیں : ہر جمعہ کو اپنے اہل و عیال کے لئے پھل مہیا کرو تا کہ وہ لوگ جمعہ کے آنے سے خوش ہوں _ (260)

253_سورہ فرقان آیت 67
254_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 258
255_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 261
256_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 261
257_مستدرک ج 2 ص 643
258_بحارالانوار ج 104 ص 9 6
259_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 249
260_ بحارالانوار ج 104 ص 73