پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شيخ نجم الدين كا دستور العمل

شیخ نجم الدین کا دستور العمل

شیخ نجم الدین رازى لکھتے ہیں کہ اداب اور شرائط کے بغیر زیادہ ذکر کرنا مفید نہیں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتیب سے قیام کیا جائے اور جب سچے مرید کو سلوک الى اللہ کا دل میں درد پیدا ہوجائے تو یہ علامت ہوگى کہ اس نے ذکر سے انس پیدا کر لیا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پیدا ہوگئی ہے جو تمام مخلوق سے نامید ہو کر ذکر الہى کى پناہ میں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (یعنى اللہ کا ذکر کر اور تمام مخلوق کو چھوڑ دے کہ وہ اپنى لغویات میں کھیلتے رہیں) جب ذکر کو پے در پے بجالائے جو صحیح اور خالص توبہ کے بعد ہو اور ذکر کرنے کى حالت میں با غسل ہو اور اگر یہ نہ کر سکے تو با وضو ہو کیونکہ ذکر الہى کرنا دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے مانند ہوا کرتا ہے اور بغیر اسلحے کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وضو مومن کا اسلحہ ہوا کرتا ہے_ الوضوء سلاح المومومن پاک کپڑے پہنے ہوا ہو اور کپڑے کے پاک ہونے کى چار شرطیں ہیں_

1_ نجاست سے پاک ہو_

2_ لوگوں پر ظلم کئے ہوئے مال سے پاک ہو_

3_ حرام سے یعنى ابریشم سے پاک ہو یعنى ابریشمى کپڑا نہ ہو_

4_ رعونت اور تکبر سے پاک ہو یعنى کپڑا کوتاہ ہو بہت لمبا نہ ہو_

ثیابک فطہر سے مراد کوتاہ کرنا ہے_ اور گھر میں خلوت اور تاریکى اور صفات ستھرا کر کے بیٹھے اور اگر تھوڑى خوشبو یعنى دھونى کرے تو بہتر ہے_ قبلہ رخ بیٹھے اور چار زانوں یعنى پلٹھى مار کر گرچہ تمام حالا میں بیٹھنا منع ہے لیکن ذکر کرنے کى حالت میں خواجہ علیہ السلام جب صبح کى نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اسى جگہ پلتھى مار کر یعنى چار زانوں سورج کے نکلنے تک بیٹھے رہتے تھے_ ذکر کرنے کے وقت اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور دل کو حاضر کرے اور آنکھیں بند کر لے اور پورى تعظیم کے ساتھ ذکر کرنا شروع کردے اور لا الہ الا اللہ کے جملے کو پورى طاقت سے گویا اس کى ناف لا الہ سے اٹھے اور الا اللہ دل پر بیٹھ جائے اور اس کا تمام اعضاء پر اثر ظاہر ہو رہا ہو لیکن اپنى آواز کو بلند نہ کرے اور جتنا ہو سکے آہستہ اور کمتر آواز سے ذکر کرے جیسے کہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے _و اذکر ربک فى نفسک تضرعا و خیفة و دون الجہر من القول اس طرح سے تحت ذکر کرتے ہوئے اس کے معنى کو دل میں فکر کرے دوسرے خیالات کو دور کرے جیسے کہ لا الہ کے معنى سے یہى مراد ہے کہ جو بھى خدا کے علاوہ خیالات ہوں انہیں دور کرے اور گویا یوں سوچے کہ میں سوائے الا اللہ کے کوئی چیز نہیں چاہتا اور میرا مقصود اور محبوب صرف الا اللہ ہے اور تمام خیالات کو الا اللہ کے ذریعے دور کر رہا ہوں اور اللہ تعالى کو اپنا مقصود اور محبوب اور مطلوب الا اللہ کے ذریعے سے کر رہا ہوں اور جان لینا چاہئے کہ ہر ذکر میں اول سے لے کر آخر تک دل نفى اور اثبات میں حاضر ہو اور لگا رہے_ اور جس وقت دل کے اندر نگاہ کرے اگر کوئی چیز دل کو لبھانے والى ہو تو اسے نظر انداز کر کے دل کو ذات الہى کى طرف توجہہ دے اور الا اللہ کے ذریعے اس چیز کو دل سے اکھیڑ دے اور اس کے ربط کو باطل کردے اور الا اللہ کو اس چیز کى محبت کى جگہ قرار دے دے اسى روش کو دوام دے تا کہ دل آہستہ آہستہ تمام چیزوں کى محبت اور انس سےے خالى ہو کر ذکر الہى سے سرشار ہوجائے_ اس کا باحال ہونا ذکر کے غالب ہوجائے سے ہو_ ذکر کرنے والے کا وجود ذکر کے نور میں مضمحل ہو جائے اور ذاکر کو ذکر مفرد بنا دے اور تمام تعلقات اور موانع کو اس کے وجود سے ختم کر دے اور اسے جسمانى دنیا سے اخروى دنیا کے لئے آمادہ کردے جیسے وارد ہوا ہے کہ سیروا فقد سبق المفردون جان لے کہ دل اللہ تعالى کے لئے خلوت کى جگہ ہے_ لا یسعنى ارضى و لا سمائی و انما یسعنى قلب عبدى المومن یعنى مجھے نہ زمین اور نہ آسمان سمو سکتا ہے مجھے صرف مومن کا دل سمو سکتا ہے_ اور جب تک دل میں اغیار کا وجود ہوگا اس وقت تک اللہ تعالى کى عظمت کى غیرت اس سے نفرت کرے گى لیکن جب لا الہ کا چابک دل کو اغیار سے خالى کر دے گا اس وقت الا اللہ کى بادشاہ کى تجلى کا انتظار کیا جا سکتا ہے_ «فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إِلى‏ رَبِّکَ فَارْغَبْ.»[1]

جیسے کہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ عرفان کے استاذہ نے ذکر کے دوامى بجالانے کو سیر و سلوک کے لئے بہترین طریقہ قرار دیا ہے اور اس کے پہنچنے کے لئے مختلف طریقے اور تجربات اور وصیتیں فرمائی ہیں_ اس مطلب کى علت یہ ہے کہ جتنے ذکر کے طریقے شرعیت میں وارد ہوئے ان کے بنانے کى اصلى غرض غیر خدا سے قطع تعلق کرنا اور پورى توجہہ خدا تعالى کى طرف کرنے کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ کام افراد اور مقامات اور حالات کے لحاظ سے فرق رکھتا ہے لہذا کسى نہ کسى استاذ اور مربى کى ضرورت ہے کہ جو اس کام میں رہبرى انجام دے احادیث اور دعاؤں کى کتابوں میں بہت زیادہ دعائیں نقل ہوئی ہیں_ اور ہر ایک کے لئے ثواب اور خاصیت ذکر کى گئی ہے_ مطلق دعا اور ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک مطلق اور دوسرا مقید_ بعض ذکر کے لئے خاص زمانہ اور خاص ترکیب اور خاص عدد بتلایا گیا ہے ایسے ذکر کو اسى طرح بجالانا چاہئے جیسکہ ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوا ہے تا کہ اس کے ثواب اور خاص اثر کو حاصل کیا جا سکے_ اس کے بر عکس بعض ذکر مطلق ہیں جن میں کوئی قید نہیں ہے اسے انسان اپنے اختیار سے خاص شرائط اور حالات اور عدد اور زمانے کا تعین کر سکتا ہے_ اور اسے دائمى بجالاتا رہے یا اپنے کسى استاد اور رہنما سے اس میں راہنمایى حاصل کرے آپ اس بارے میں احادیث اور دعاؤں کى کتابوں کى طرف رجوع کر سکتے ہیں_آخر میں دو مطلب کى طرف توجہہ دلانا ضرورى ہے_ پہلا_ عارف انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر کرنے کى اصلى غرض و غایت خداوند عالم کى طرف حال اور حضور قلب کا حاصل کرنا ہوتا ہے لہذا ذکر کى تعداد اور زمانے اور کیفیت میں یہ مطلب مد نظر رہے اور پھر اس کو دائمى بجالائے اور جب تھک جائے یا بے میل اور رغبت ہو تو اسے چھوڑ دے اور پھر مناسب وقت میں دوبارہ شروع کر دے_

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' دل اور روح کبھى حالت اقبال اور توجہہ رکھتى ہے اور کبھى سب اور بے میل اور بے رغبت نہ ہوتى ہے لہذا جب دل مائل اور رغبت رکھتا ہو اس وقت عمل کیا جائے کیونکہ اگر روح کو عمل کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے_[2]

البتہ اس بارے میں افراد اور مقامات اور حالات کا فرق ہوا کرتا ہے_

دوسرا_ یہ جاننا چاہئے کہ ریاضت نفس اور ذکر کى اصلى غرض اور غایت نفس اور روح کا تکامل اور قرب خداوند ہے_ اللہ تعالى کا تقرب بغیر احکام پر عمل کرنے سے ممکن نہیں ہوا کرتا اگر کوئی انسان شرعى یا اجتماعى ذمہ دارى رکھتا ہو تو وہ اسى حالت میں اللہ تعالى کى یاد میں ہو سکتا ہے اور جتنا ہو سکے ذکر کو بھى انجام دے اور فراغت کى حالت میں ذکر کو دائمى بجالائے گوشہ نشین نہیں ہو جانا اور اجتماعى اور شرعى ذمہ دارى کو نظر کردینے سے انسان اللہ کا قرب اور تقرب حاصل نہیں کر سکتا_

 


[1]- مرصاد العباد/ ص 150.
[2]- قال على علیه السّلام: انّ للقلوب شهوة و اقبالا و ادبارا فأتوها من قبل شهوتها و اقبالها فانّ القلب اذا اکره عمى- بحار/ ج 70 ص 61.