پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

نفس كى تكميل اور تربيت

نفس کى تکمیل اور تربیت

نفس کو پاک صاف کرنے کے بعد اس کى تکمیل اور تربیت کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے اصطلاح اخلاقى میں تحلیہ_ کہا جاتا ہے_ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا نفس ہمیشہ حرکت اور ہونے کى حالت میں ہوتا ہے_ اس کى فعلیت اس کى استعداد اور قوت سے ملى ہوئی ہے_ آہستہ آہستہ اندر کى قوت اور استعداد کو مقام فعلیت اور بروز و ظہور میں لاتا ہے اور اپنى ذات کى پرورش کرتا ہے اگر نفس نے صراط مستقیم پر حرکت کى اور چلا تو وہ آہستہ کامل کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر کمال تک پہنچ جاتا ہے اور اگر صراط مستقیم سے ہٹ گیا اور گمراہى کے راستے پر گامزن ہوا تو پھر بھى آہستہ آہستہ کمال انسانى سے دور ہوتا جاتا ہے اور حیوانیت کى ہولناک وادى میں جا گرتا ہے_


خدا سے قرب

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کى حرکت ایک حقیقى اور واقعى حرکت ہے نہ کہ اعتبارى محض اور یہ حرکت انسان کى روح اور نفس کى ہے نہ جسم اور تن کى اور روح کا حرکت کرنا اس کا ذاتى فعل ہے نہ کہ عارضی_ اس حرکت میں انسان کا جوہر اور گوہر حرکت کرتا ہے اور متغیر ہوتا رہتا ہے_ لہذا انسان کى حرکت کا سیر اور راستہ ایک واقعی راستہ ہے نہ اعتبارى اور مجازی_ لیکن اس کا مسیر اس کى متحرک ذات سے جدا نہیں ہے بلکہ متحرک اور حرکت کرنے والا نفس اپنى ذات کے باطن میں حرکت کرتا ہے اور مسیر کو بھى اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے_ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حرکت کے لئے کوئی غایت غرض ہوتى ہے_ انسان کى ذات کى حرکت کى غرض اور غایت کیا ہے؟ انسان اس جہان میں کس غرض اور غایت کى طرف حرکت کرتا ہے اور اس حرکت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟

روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کى حرکت کى جو غرض معین کى گئی ہے وہ قرب الہى ہے لیکن تمام انسان صراط مستقیم پر نہیں چلتے اور قرب الہى تک نہیں پہنچتے _ قرآن انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کرتا ہے_ 1_ اصحاب میمنہ_ 2_ اصحاب مشئمہ_ 3_ سابقو کے جنہیں مقربین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' تم انسان تین گروہ ہو_ اصحاب میمنہ آپ کیا جانتے ہیں کہ اصحاب میمنہ کون اشخاص ہیں؟ اصحاب مشئمہ اور آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کون اشخاص ہیں ؟ بہشت کى طرف سبقت کرنے والے اور اللہ تعالى کى رحمت کو حاصل کرنے کے لئے بھى سبقت کرتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جو خدا کے مقرب بندے ہیں ور بہشت نعیم میں سکونت رکھیں گے_''[1]

اصحاب میمنہ یعنى سعادت مند حضرات اور اصحاب مشئمہ یعنى اہل شقاوت اور بدبخت_ اور سابقین وہ حضرات ہیں کہ جو صراط مستقیم کو طے کرنے میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں اور قرب الہى کے مقام تک پہنچتے ہیں_ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حرکت نفس کى غرض اللہ تعالى کا قرب حاصل کرنا ہے_ خدا ایک اور آیت میں فرماتا ہے _ '' اگر خدا کے مقربین سے ہوا تو قیامت کے دن آرام والى بہشت اور نعمت الہى سے جو خدا کا عطیہ ہے استفادہ کرے گا_ اور اگر اصحاب یمین سے ہوا تو ان کى طرف سے تم پر سلام ہے اور اگر منکر اور گمراہوں سے ہوا تو اس پر دوزخ کا گرم پانى ڈالا جائیگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا_ [2]

 

نیز ایک اور آیت میں ہے کہ '' اس طرح نہیں ہے کہ کافرون نے گمان کیا ہوا ہے یقینا ابرار اور نیک لوگوں کا دفتر اور کتاب (اور جو کچھ اس میں موجود ہے) علین یعنى اعلى درجات میں ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ علین کیا چیز ہے وہ ایک کتاب ہے جو خدا کى طرف سے ہوا کرتى ہے اور اللہ کے مقرب اس مقام کا مشاہدہ کریںگے_[3] ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا انتہائی کمال اور اسکے سیر اور حرکت کى غرض اور غایت اللہ تعالى کا قرب حاصل کرنا ہے تا کہ انسان حرکت کر کے اس مقام تک جا پہنچیں لہذا مقربین کا گروہ سعادتمندوں میں سے ایک ممتاز گروہ ہے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جب ملائکہ نے کہا اے مریم خداوند عالم نے تجھے ایک کلمہ کى جو خداوند عالم کى طرف سے ہے یعنى عیسى بن مریم کى بشارت دى ہے کہ جو دنیا اور آخرت میں خدا کے نزدیک عزت والا اور اس کے مقرب بندوں میں سے ہے_[4]

ان آیات اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالى کے لائق اور ممتاز بندے کہ جنہوں نے ایمان اور نیک اعمال میں دوسروں پر سبقت حاصل کرلى ہے بہت ہى اعلى جگہ پر سکونت کریں گے کہ جسے قرب الہى کا مقام بتلایا گیا ہے اور شہداء بھى اسى مقام میں رہیں گے_ قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو راہ خدا میں مارے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ گمان نہ کر کہ وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں روزى پاتے ہیں_[5]

لہذا انسان کا انتہائی اور آخرى کمال خداوند عالم کا قرب حاصل کرنا ہوتاہے_


قرب خدا کا معنی

یہ معلوم کیا جائے کہ خدا کے قرب کا مطلب اور معنى کیا ہے؟ اور کس طرح تصور کیا جائے کہ انسان خدا کے نزدیک ہوجائے_ قرب کے معنى نزدیک ہونے کے ہیں اور کسى کے نزدیک ہونے کو تین معنى میں استعمال کیا جاتا ہے_


قرب مکان

دو موجود جب ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں_


قرب زمانی

جب دو چیزیں ایک زمانے میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب اور ہمعصر ہیں_ اور یہ واضح ہے کہ بندوں کا خدا کے نزدیک اور قریب ہونا ان دونوں معنى میں نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کسى مکان اور زمانے میں موجود نہیں ہوا تھا تا کہ کوئی چیز اس مکان اور زمان کے لحاظ سے خدا کے قریب اور نزدیک کہى جائے بلکہ خدا تو زمانے اور مکان کا خالق ہے اور ان پر محیط ہے


قرب مجازی

کبھى کہا جاتا ہے کہ فلان شخص فلان شخص کے قریب اور نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلان کا احترام او ربط اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کى خواہش کو وہ بجالاتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے انجام دے دیتا ہے اس طرح کى نزدیکى اور قرب کو مجازى اور اعتبارى اور تشریفاتى قرب اور نزدیکى کہا جاتا ہے یہ قرب حقیقى نہیں ہوا کرتا بلکہ مورد احترام قرا ردینے والے شخص کو اس کا نزدیک اور قریبى مجازى لحاظ سے کہا جاتا ہے_ کیا اللہ کے بندوں کو خدا سے اس معنى کے لحاظ سے قریبى اور نزدیکى قرار ددیا جا سکتا ہے؟ آیا خدا سے قرب اس معنى میں ہو سکتا ہے یا نہ؟

یہ مطلب ٹھیک ہے کہ خدا اپنے لائق بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے علاقمند ہے اور ان کى خواہشات کو پورا بھى کرتا ہے لیکن پھر بھى بندے کا قرب خدا سے اس معنى میں مراد نہیں لیا جا سکتا_ کیونکہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ علوم عقلیہ اور آیات اور روایات اس پر دلالت کرتى ہیں کہ انسان کى حرکت ذاتى اور اس کا صراط مستقیم پر چلنا اور مسیر ایک امر واقعى ہے نہ کہ امر اعتبارى اور تشریفاتى خدا کى طرف رجوع کرنا کہ جس کے لئے اتنى آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ایک حقیقت فرماتا ہے_ ''اے نفس مطمئن تو اللہ تعالى کى طرف رجوع کر اس حالت میں کہ جب اللہ تعالی تجھ سے راضى ہے اور تو اللہ تعالى سے راضى ہے_[6]

نیز فرماتا ہے ''جس نے نیک عمل انجام دیا اس کا فائدہ اسے پہنچے گا اور جس نے برا عمل انجام دیا اس کا نقصان اسے پہنچے گا اس وقت سب اللہ کى طرف پلٹ آؤ گے_[7]

خدا فرماتا ہے '' جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالى کا ملک ہیں اور اسى کى طرف لوٹ جائیں گے_[8]

بہرحال اللہ تعالى کى طرف رجوع اور صراط مستقیم اور سبیل اللہ اور نفس کا کامل ہونا یہ ایسے امور ہیں جو واقعى ہیں نہ اعتبارى اور تشریفاتی_ انسان کا خدا کى طرف حرکت کرنا ایک اختیارى اور جانى ہوئی حرکت ہے کہ جس کا نتیجہ مرنے کے بعد جا معلوم ہوگا_ وجود میں آنے کے بعد یہ حرکت شروع ہوجاتى ہے اور موت تک چلى جاتى ہے لہذا خدا سے قرب ایک حقیقى چیز ہے_ اللہ تعالى کے لائق بندے واقعا اللہ تعالى کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور گناہنگار اور نالائق اللہ تعالى سے دور ہوجاتے ہیں لہذا غور کرنا چاہئے کہ خدا سے قرب کے کیا معنى ہیں؟

خدا سے قرب وہ قرب نہیں کہ جو متعارف اور جانا پہچانا ہوا ہوتا ہے بلکہ ایک علیحدہ قسم ہے کہ جسے قرب کمالى اور وجودى درجے کا نام دیا جاتا ہے _ اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک تمہید کى طرف اشارہ کیا جاتا ہے _ فلسفہ اسلام اور کتب فلسفہ میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وجود اور ہستى ایک حقیقت مشکک ہے کہ جس کے کئی درجات اور مراتب ہیں_ وجود بجلى کى روشنى اور نور کى طرح ہے جیسے نور کے کئی درجے زیادہ اور کم ہوتے ہیں ایک درجہ مثلا کمتر ایک ولٹ بجلى کا ہے کہ جس میں روشنى تھوڑى ہوتى ہے اور اس کے اوپر چلے جایئےہ زیادہ سے زیادہ درجے پائے جاتے ہیں یہ تمام کے تمام نور اور روشنى کے وجود ہیں اور درجات ہیں کمتر اور اعلى درجے کے درمیاں کے درجات ہیں جو سب کے سب نور ہیں ان میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے بعینہ اس طرح وجود اور ہستى کے مختلف مراتب اور درجات ہیں کہ جن میں فرق صرف شدت اور ضعف کا ہوتا ہے _ وجود کا سب سے نیچا اور پشت درجہ اسى دنیا کے وجود کا درجہ ہے کہ جسے مادہ اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود کا اعلى ترین درجہ اور رتبہ ذات مقدس خدا کا وجود ہے کہ جو ذات مقدس کمال وجود کے لحاظ سے غیر متناہى ہے ان دو مرتبوں اور درجوں کے درمیان وجود کے درجات اور مراتب موجود ہیں کہ جن کا آپس میں فرق شدت اور ضعف کا ہے_ یہیں سے واضح اور روشن ہوجائیگا کہ جتنا وجود قوى تر اور اس کا درجہ بالاتر اور کاملتر ہوگا وہ اسى نسبت سے ذات مقدس غیر متناہى خدائے متعال سے نزدیک تر ہوتا جائیگا اس کے برعکس وجود جتنا ضعیف تر ہوتا جائیگا اتنا ہى ذات مقدس کے وجود سے دور تر ہو جائیگا اس تمہید کے بعد بندہ کا اللہ تعالى سے قرب اور دور ہونے کا معنى واضح ہوجاتا ہے_ انسان روح کے لحاظ سے ایک مجرد حقیقت ہے جو کام کرنے کے اعتبار سے اس کا تعلق مادہ اور طبیعت سے ہے کہ جس کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور کامل سے کاملتر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے انتہائی درجے تک جا پہنچتا ہے_ حرکت کى ابتداء سے لے کر مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ ایک شخص اور حقیقت ہى ہوا کرتا ہے_ لیکن جتنا زیادہ کمال حاصل کرتا جائیگا اور وجود کے مراتب پر سیر کرے گا وہ اسى نسبت سے ذات الہى کے وجود غیر متناہى کے نزدیک ہوتا جائیگا_ انسان ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنے وجود کو کامل کاملتر بنا سکتا ہے یہاں تک کہ وہ قرب الہى کے مقام تک پہنچ جائے اور منبع ہستى اور چشمہ کمال اور جمال کے فیوضات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر لے اور خود بھى بہت سے آثار کا منبع اور سرچشمہ بن جائے _ اس توضیح کے بعد واضح ہوگیا کہ انسان کى حرکت اور بلند پروازى ایک غیر متناہى مقصد کى طرف ہوتى ہے ہر آدمى اپنى کوشش اور تلاش کے ذریعے کسى نہ کسى قرب الہى کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے یعنى اللہ تعالى کے قرب کے مقام کى کوئی خاص حد اور انتہا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالى کے مقام قرب کى حقیقت کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ قرب ایک اضافى امر ہے کہ انسان جتنى زیادہ محنت اور عمل کرے گا ایک اعلى مقام اور اس سے اعلى مقام تک پہنچتا جائیگا اور ذات اللہ کے فیوضات اور برکات سے زیادہ سے زیادہ بہرمند ہوتا جائیگا_

 

 

[1]- وَ کُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً، فَأَصْحابُ الْمَیْمَنَةِ ما أَصْحابُ الْمَیْمَنَةِ وَ أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ ما أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ؟ وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولئِکَ الْمُقَرَّبُونَ، فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ- واقعه/ 12.
[2]- فَأَمَّا إِنْ کانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ فَرَوْحٌ وَ رَیْحانٌ وَ جَنَّةُ نَعِیمٍ. وَ أَمَّا إِنْ کانَ مِنْ أَصْحابِ الْیَمِینِ فَسَلامٌ لَکَ مِنْ أَصْحابِ الْیَمِینِ وَ أَمَّا إِنْ کانَ مِنَ الْمُکَذِّبِینَ الضَّالِّینَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِیمٍ وَ تَصْلِیَةُ جَحِیمٍ- واقعه/ 88- 94.
[3]- کَلَّا إِنَّ کِتابَ الْأَبْرارِ لَفِی عِلِّیِّینَ وَ ما أَدْراکَ ما عِلِّیُّونَ کِتابٌ مَرْقُومٌ یَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ- مطفّفین/ 21.
[4]- إِذْ قالَتِ الْمَلائِکَةُ: یا مَرْیَمُ! إِنَّ اللَّهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهاً فِی الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ- آل عمران/ 45.
[5]- وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ- آل عمران/ 169.
[6]- یا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِی إِلى‏ رَبِّکِ راضِیَةً مَرْضِیَّةً- فجر/ 28.
[7]- مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَیْها ثُمَّ إِلى‏ رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ- جاثیه/ 15.
[8]- الَّذِینَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِیبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ- بقره/ 156.
*امینى، ابراهیم، خودسازى (تزکیه و تهذیب نفس)، 1جلد، شفق - قم، چاپ: هشتم.