پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ذكر اور بقاء كے آثار اور علائم

ذکر اور بقاء کے آثار اور علائم

جیسے کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ذکر اور شہود اور لقاء ایک باطنى مقام اور معنوى اور روحانى پایہ تکمیل نفس کا ذریعہ ہے_ عارف انسان اس مقام تک جب پہنچ جائے تو وہ ایک ایسے مقام تک پہنچا ہے کہ وہ اس سے پہلے یہاں تک نہیں پہنچا تھا اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مقام شہود ایک حقیقت اور واقعیت ہے اور اسى طرح جب کہا جاتا ہے کہ مقام انس یا مقام رضا یا مقام محبت یا مقام شوق یا مقام وصال یا مقام لقاء تو یہ مجاز گوئی اور مجازى معنى مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ سب حقیقت ہیں لہذا مقام ذکر وجود واقعى کا ایک مرتبہ ہے اور رتبہ اور وہ نئے علائم اور آ ثار رکھتا ہے اس کمال کا وجود اس کے آثار اور علامتوں سے پہچانا جاتا ہے_ ہم یہاں اسکے کچھ اثرات بتلاتے ہیں:


1. خداوند عالم کى اطاعت

جب کوئی آدمى مقام شہود اور ذکر تک پہنچ چکا ہو اور اپنے باطن میں ذات احدیت کے جمال کا مشاہدہ کرلے اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے پائے تو پھر بغیر کسى شک کے سوفیصدى اس کے احکام کى پیروى کرے گا اور جو کچھ خدا کہے گا اس بجالائیگا اور جس سے روکا ہوگا اسے ترک کرے گا اگر انسان یہ معلوم کرنا چاہے کہ آیا اس مقام تک پہنچا ہے یا نہ تو اسے اوامر اور نواہى الہى کى پابندى سے معلوم کرے اور جتنى اس میں پابندى کى نسبت ہو اسى نسبت سے اس مقام تک پہنچے کو سمجھ لے یہ ممکن ہى نہیں ہے کہ انسان مقام شہود اور انس تک پہنچا ہوا ہو اور پھر اللہ تعالى کے احکام کى کامل طور سے پابندى نہ کرے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ذکر کى شناسائی او رتعریف میں فرمایا ہے کہ '' ذکر کے یہ معنى ہیں کہ جب تیرے سامنے اللہ تعالى کى کوئی حکم آئے تو اسے بجالائے اور اگر منع کیا ہو تو اس سے رک جائے_[1]

امام حسین علیہ السلام نے عرفہ کى دعا میں فرمایا ہے '' اے وہ ذات کہ جس نے اپنے ذکر کى مٹھاس اور شرینى کو اپنے دوستوں کے موہنہ میں ڈالا ہے کہ جس کى وجہ سے وہ تیرى عبادت کے لئے تیرے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں_[2]

اور تیرے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں_ اے وہ ذات کہ جس نے ہیبت کا لباس اپنے اولیاء کو پہنایا ہے کہ وہ تیرے سامنے کھڑے ہوں اور استغفار کریں_

خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' ان سے کہہ دو کہ اگر واقعى خدا کودوست رکھتے ہو تو میرى پیروى کرو تا کہ خدا بھى تمہیں دوست رکھے_[3]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص واقعى خدا کا ذکر کرنے والا ہوگا تو وہ ذات الہى کا فرمانبردار اور مطیع بھى ہوگا اور جو شخض غافل ہوگا وہ گنہگار ہوگا_[4]


2. خضوع اور عاجزی

جو انسان خدا کى عظمت اور قدرت کا مشاہدہ کرے گا تو وہ مجبوراً اس کے سامنے خضوع کرے گا اور اپنے قصور اور ناتوانى سے شرمندہ اور شرمسار ہوگا_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تیرا یہ جان لینا کہ تو خدا کا مورد توجہہ ہے تو یہ تیرے خضوع اور حیا اور شرمندگى کا باعث بنے گا_[5]

 

3. عشق اور محبت

مقام شہود کى ایک علامت اور اثر عبادت سے زیادہ علاقہ اور اس سے لذت حاصل کرنا ہوتا ہے کیونکہ جس نے لذت الہى کى عظمت اور قدرت کو پالیا ہو اور اپنے آپ کو اس کے حضور میں سمجھتا ہو اور عظمت اور کمال الہى کا مشاہدہ کرلیا ہو تو پھر وہ مناجات اور انس اور راز و نیاز کى لذت کو ہر دو سرى لذت پر ترجیح دے گا_ جو لوگ معنوى لذات سے محروم ہیں وہ مجازى لذات اور جلدى ختم ہوجانے والى لذات سے جو در حقیقت سوائے الم اور غم کے ختم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں اپنا دل لگا لیتے ہیں_ لیکن جنہوں نے حقیقى لذات اور پروردگار کى مناجات اور عبادت کو چکھ لیا ہو تو وہ اپنى خوش حالى او رزیبائی کو کسى دوسرى لذت سے معاملہ نہیں کرتے_ یہى وہ اللہ کے خالص بندے ہیں کہ جو خدا کى عبادت اس لحاظ سے کرتے کہ وہ عبادت کا سزاوار ہے نہ ثواب کى امید رکھتے ہیں اور نہ سزا کا خوف_

پیغمبر علیہ السلام اور حضرت على علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کى عبادات اور سوز و گداز کو آپ نے سناہى ہے_

 

4. اطمینان اور آرام

دنیا مصائب اور گرفتارى رنج و بلا کا گھر ہے_ دنیا کے ابتلات اور گرفتاریوں کو تین قسم پر تقسیم کیا جاسکتا ہے_

1_ کئی طرح کى مصیبتیں جیسے اپنى اور اپنے رشتہ داروں کى بیماریاں_ خود مرنا اور لواحقین کى موت_ ظلم اور تجاوز دوسروں کى حق کشى اور ایک دوسرے سے مزاحمت اور لڑائی جھگڑنے_

2_ دنیاوى امور کے نہ ہونے کہ جنہیں حاصل نہیں کرسکتا_

3_ اس کا خوف کہ جو ہاتھ میں وہ نہ نکل جائے اپنے مال کے چورى ہوجانے یا تلف ہوجانے کا ڈریا زمانے کے حوادث کیوجہ سے اولاد نہ چلى جائے اپنے بیمار ہونے یا اپنى موت کا خوف اور ڈر اور اس طرح کے د وسرے امور کے اکثر انسان کے آرام اور سکون کو ختم کردیتے ہیں ان تمام کى اصل وجہ دنیا سے علاقمندى اور محبت اور خدا کے ذکر سے غافل رہنا ہوا کرتا ہے_

قرآن مجید میں ہے کہ '' جو ہمارے ذکر سے روگردانى کرتا ہے_ اس کى زندگى سخت ہوگی_[6]

 

لیکن اللہ کے خالص بندے جو کمالات اور خیرات کے مقامات تک پہنچ چکے ہیں اور اللہ تعالى کے بے نہایت کمال اور جمال کا مشاہدہ کرلیا ہے اور اللہ تعالى کے ذکر اور اس کى ذات کى محبت میں خوش ہیں اور کوئی غم اور غصہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ جب خدا کو رکھتے ہیں تو سب چیزیں رکھتے ہیں دنیاوى امور سے لگاؤ نہیں لگا رکھا تا کہ ا ن کے نہ ہونے سے خوف اور ڈر رکھتے ہوں_ کمالات اور خیرات کے منبع اور مرکز سے دل لگا رکھا ہے اور خود بھى صاحب کمال ہیں_

امام حسین علیہ السلام عرفہ کى دعا میں فرماتے ہیں_ '' خدایا تیرى ذات ہے کہ جس نے اجنبیوں کو اپنے اولیاء کے دلوں سے باہر نکال دیا ہے کہ جس کى وجہ سے وہ تیرے سوا کسى کو دوست نہیںرکھتے اور تیرے غیر سے پناہ نہیں مانگتے وہ خوفناک مصائب میں تجھ سے انس اور محبت رکھتے ہیں اگر ان میں معرفت اور شناسائی حاصل ہوئی ہے تو وہ بھى تیرى ہدایت کى وجہ سے ہے_ جو تجھے نہیں پاتا وہ کس چیز کو پاسکتا ہے؟ جو تجھے رکھتا ہو وہ کس چیز کو نہیں رکھتا؟ کتنا نقصان میں ہے وہ انسان جو تیرے عوض کسى دوسرے کو اختیار کرے؟ کتنا بدبخت ہے وہ انسان جو تیرے سوا کسى دوسرے کى طرف رجوع کرے_ کس طرح انسان کسى دوسرے سے امید رکھے جب کہ تیرے احسان اس سے قطع اور ختم نہیں ہوئے؟ کس طرح انسان اپنى حاجات کو دوسرے سے طلب کرے جب کہ تیرے احسان کرنے کى عادت نہیں بدلی؟[7]

خلاصہ مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کى ایک علامت اور اثر انسان میں آرام اور سکون اور اطمینان قطب ہے اور سوائے خدا کے کوئی اور نہیں جو دل کى کشتى کو زندگى کى متلاطم امواج سے آرام اور سکون دے سکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان کے دل اللہ تعالى کے ذکر سے آرام اور اطمینان میں ہیں اور یاد رکھو کہ دل کو تو صرف خدا کے ذکر سے ہى آرام اور اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے_[8]

 

5. خدا کى بندے کى طر توجہ

جب بندہ خدا کو یاد کرتا ہے تو خدا بھى اس کے عوض بندے کو مورد عنایت اور توجہ قرار دیتا ہے_ یہ مطلب آیات اور روایات سے مستفاد ہوتا ہے_

خدا فرماتا ہے ''مجھے یاد کرو تا کہ میں تمہیں یاد کروں_[9]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے فرمایا ہے_ اے ادم کے فرزند مجھے اپنے دل میں یاد کر تا کہ میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں_ اے آدم کے فرزند مجھے خلوت اور تنہایى میں یاد کر تا کہ میں تجھے خلوت میں یاد کروں_ اے آدم زاد مجھے مجمع میں یاد کر تا کہ میں تیرے مجمع سے مجمع میں یاد کروں آپ نے فرمایا کہ جو انسان خدا کو لوگوں کے درمیان یاد کرے خدا اسے ملائکہ کے درمیان یاد کرتا ہے_[10]

اللہ تعالى کا بندے کى طرف متوجہ ہونا اور لطف و کرم کرنا ایک اعتبارى اور تشریفاتى چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت اور واقعیت ہے اس کى دو میں سے ایک سے توجیہ کى جا سکتى ہے_

1_ جب بندہ خدا کو یاد کرنا ہے تو اس کے ذریعے فیض الہى کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے خداوند عالم بھى اس پر کمال کو نازل کرتا ہے اور اس کے درجات کو بلند کر دیتا ہے_

2_ جب اللہ تعالى کا ذکر کرنے والا انسان خدا کو یاد کرتا ہے تو وہ اللہ تعالى کى طرف حرکت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالى کے لطف اور کرم کا مورد قرار پاتا ہے_ اسے خدا عالى مرتبہ کے لئے جلب اور جذب کر دیتا ہے اور اس کے دل کے کنٹرول کرنے کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے_

پیغمبر گرامى نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ جب میں بندے کو اپنے میں مشغول اور متوجہ پاتا ہوں تو اسے سوال اور مناجات کرنے کا علاقمند بنا دیتا ہوں اور اگر بھى اس پر غفلت طارى ہو جائے تو اس کے عارض ہونے سے رکاوٹ کھڑى کر دیتا ہوں_ یہ یندے میرے حقیقى اولیاء ہیں یہ واقعى بہادر اور شجاع ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ زمین والوں کو ہلاک کردں تو ان کے وجود کى برکت سے زمین والوں سے عذاب کو دور کردیتاہوں_[11]

خلاصہ خدا کو اپنى بندے کى طرف توجہہ کرنا ایک اعتبارى اور تشریفاتى کام نہیں ہے بلکہ اس کى ایک حقیقت ہے جو ان دو میں سے ایک توجیہہ کى جا سکتى ہے اگر چہ دونوں کو بھى اکٹھا کیا جا سکتا ہے_


6. خدا کا بندے سے محبت کرنا_

ذکر خدا کى آثار میں سے ایک اثر اور علامت خدا کا ایسے بندے سے محبت کا ہو جانا ہوتا ہے_ آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ خدا کى یاد میں ہو اور خدا اور اس کے پیغمبر علیہ السلام کے احکام پر عمل کرنے والا ہو تو خدا بھى اس کے عوض ایسے بندے کو دوست رکھتا ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے '' اے لوگو اگر واقعاً خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرى پیروى کرو تا کہ خدا بھى تمہیں دوست رکھے_[12]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالى کا بہت زیادہ ذکر کرے تو وہ اللہ تعالى کا مورد محبت قرار پائیگا_ جو شخص اللہ تعالى کى یاد میں بہت زیادہ ہو گا اس کے لئے دو برات کے نامے لکھ دیئے جائیں گے ایک دوزخ سے برات اور دوسرے نفاق سے برات_[13]

اللہ تعالى کى بندے سے محبت کوئی اعتبار اور تشریفاتى امر نہیں ہوتا اور یہ اس معنى میں بھى نہیں ہوتى جو محبت بندے کو خدا سے ہوتى ہے_ انسان میں محبت کے ہونے کے معنى اس کا کسى چیز سے کہ جس کا وہ محتاج ہے ولى لگاؤ اور علاقمندى ہوا کرتى ہے لیکن خدا کے محبت کرنے کے ایسے معنى مراد نہیں ہوا کرتے اور نہ ہى اللہ تعالى میں یہ معنى صحیح ہے_ خدا کے محبت کرنے کى یوں وضاحت کى جائے کہ خدا بندے پر اپنا لطف و کرم زیادہ کرتا ہے اور اسے عبادت اور توجہہ اور اخلاص کى زیادہ توفیق عنایت فرماتا ہے ک جس ذریعے کمالات اور قرب کے درجات کى طرف اسے جذب اور جلب کرتا ہے اور چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ راز اور نیاز کو سنے تو اسے دعا نماز ذکر اور مناجات کرنے کى توفیق عطا کرتا ہے اور چونکہ اس کے تقرب کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لئے کمال تک رسائی کا وسیلہ فراہم کر دیتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ خدا اپنے بندے کو دوست رکھتا ہے لہذا اس کے دل کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے اور توفیق دیتا ہے کہ وہ بہتر اور سریع تر اس کے مقام قرب کى طرف حرکت کرے_


7. اہم اثر:

اس مقام ذکر میں اس کے حاصل کرنیوالے کو بہت عالى فوائد حاصل ہو جاتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے کے لئے قلم اور زبان عاجز اور ناتوان ہے اور سوائے اس مقام تک پہنچنے والوں کے اور کوئی بھى اس سے مطلع نہیں ہو سکتا_

عارف اپنے نفس کے صاف اور پاک اور اپنے باطن کو تصفیہ کرنے عبادت اور ریاضت تفکر اور دائمى ذکر کرنے کے ذریعے اسے ایسے مقام تک پہنچتا ہے کہ وہ اپنى باطنى آنکھ اور کان کے ذریعے حقائق اور واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہیں سنتا ہے کہ جو ظاہرى آنکھ اور کان کے ذریعے دیکھنے اور سننے کے قابل نہیں ہوتے_ کبھى کبھى وہ موجودات کى تسبیح اور تقدیس بلکہ ملائکہ کى تسبیح کو بھى سنتا ہے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہو جاتا ہے جب کہ وہ اسى دنیا میں زندگى کر رہا ہوتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے ساتھ معاشرت کر رہا ہو تا ہے لیکن اپنے اندر میں ایک اعلى نقطہ کو دیکھتا ہے اور کسى دوسرے جہان میں اس طرح زندگى کر رہا ہوتا ہے کہ گویا وہ اس جہان میں زندہ نہیں ہے دوسرے جہان کى دوزخ اور بہشت کا مشاہدہ کرتا ہے_ اور نیک اور صالح افراد اور فرشتوں سے ربط رکھتا ہے_ دوسرے جہان سے مانوس اور دوسرى طرح کى نعمتوں کو پا رہا ہے لیکن وہ ان چیزوں کے بارے میں غالباً کسى سے ذکر نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کے افراد راز کو چھپانے والے ہوتے ہیں اور اس طرح کى شہرت کو پسند نہیں کرتے_

عارف کے قلب پر علوم اور معارف وارد ہوتے ہیں اور بعض ایسے کشف اور شہود رکھتا ہے جو متعارف علوم جیسے نہیں ہوتے_ عارف ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ تمام چیزوں سے یہاں تک کہ اپنے نفس سے بھى غافل ہوتا ہے اور سوائے ذات الہى کے اسماء اور صفات کے اور کسى طرف متوجہ نہیں ہوتا اللہ تعالى کى ذات کو ہر جگہ حاضر اور ناظر دیکھتا ہے کہ خود اس نے فرمایا کہ وہى اول ہے اور وہى آخر ہے اور وہى ظاہر ہے اور وہى باطن ہے_ ہو الاول و الاخر و الظاہر و الباطن_

تمام دنیا کو اللہ تعالى کى صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسى ذلت سے جانتا ہے_

تمام دنیا کو اللہ کى صفات کا مظہر اور تمام کمال اور جمال کو اسى ذات سے جانتا ہے _ تمام موجودات کو ذات کے لحاظ سے فقیر اور محتاج سمجھتا ہے اور صرف غنى مطلق بے نیاز اللہ تعالى کى ذات کو دیکھتا ہے_ اور ذات الہى کے جمال اور کمال مطلق کے مشاہدے میں غرق رہتا ہے_ اور یہ بھى معلوم رہے کہ خود مقام فناء کے کئی درجات اور مقامات ہیں کہ بہتر یہى ہے کہ یہ مولف ان سے محروم ان مقامات کے بیان کرنے سے احتراز ہى کرے_ خدا ان کو مبارک کرے جو ان مقامات کے اہل ہیں_

 

[1]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام:( فى حدیث الى ان قال) و لکن اذا ورد علیک شى‏ء امر اللّه به اخذت به و اذا ورد علیک شى‏ء نهى عنه ترکته- بحار/ ج 93 ص 155.
[2]- یا من اذاق احبائه حلاوة المؤانسة فقاموا بین یدیه متملقین و یا من البس اولیائه ملابس هیبته فقاموا بین یدیه مستغفرین- اقبال الاعمال/ دعاء عرفة.
[3]- قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ- آل عمران/ 31.
[4]- قال الصادق علیه السّلام: من کان ذاکر للّه على الحقیقة فهو مطیع و من کان غافلا عنه فهو عاص- بحار/ ج 93 ص 158.
[5]- قال الصادق علیه السّلام( فى حدیث الى قال) و معرفتک بذکره لک یورثک الخضوع و الاستحیاء و الانکسار- بحار/ ج 93 ص 158.
[6]- وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنْکاً- طه/ 124.
[7]- و انت الذى ازلت الاغیار عن قلوب احبّائک حتى لم یحبّوا سواک و لم یلجؤا الى غیرک، انت المونس لهم حیث او حشتهم العوالم و انت الذى هدیتهم حیث استبانت لهم المعالم ما ذا وجد من فقدک؟ و ما الذى فقد من وجدک؟ لقد خاب من رضى دونک بدلا و لقد خسر من بغى عنک متحولا کیف یرجى سواک و انت ما قطعت الاحسان و کیف یطلب من غیرک و انت ما بدلت عادة الامتنان- اقبال الاعمال/ دعاء عرفه.
[8]- الَّذِینَ آمَنُوا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِکْرِ اللَّهِ أَلا بِذِکْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ- رعد/ 27.
[9]- فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ- بقره/ 152.
[10]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام: قال اللّه عزّ و جلّ: یا بن آدم! اذکرنى فى نفسک اذکرک فى نفسى، یا بن آدم! اذکرنى فى خلأ اذکرک فى خلأ، یا بن آدم! اذکرنى فى ملأ اذکرک فى ملأ خیر من ملأک. و قال: ما من عبد ذکر اللّه فى ملأ من الناس الّا ذکره اللّه فى ملأ من الملائکة- وسائل/ ج 4 ص 1185.
[11]- عن النبى صلّى اللّه علیه و آله قال: قال اللّه تعالى: اذا علمت ان الغالب على عبدى الاشتغال بى نقلت شهوته فى مسألتى و مناجاتى فاذا کان عبدى کذالک فاراد ان یسهو حلت بینه و بین ان یسهو. اولئک اولیائى حقا، اولئک الابطال حقا، اولئک الذین اذا اردت ان اهلک اهل الارض عقوبة زویتها عنهم من اجل اولئک الابطال- بحار/ ج 93 ص 162.
[12]- قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ- آل عمران/ 31.
[13]- عن ابی عبد اللّه علیه السّلام: قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: من اکثر ذکر اللّه احبّه اللّه و من ذکر اللّه کثیرا کتبت له برائتان برائة من النار و برائة من النفاق- وسائل/ ج 4 ص 1181.