پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پہنچنے كے راستے

پہنچنے کے راستے

ایمان کے کامل کرنے اور مقام ذکر اور شہود تک پہنچنے کے لئے مندرجہ ذیل امور سے استفادہ کیا جا سکتا ہے_


1_ فکر اور دلیل

وہ دلائل اور استدلالات جو توحید اور وجود خدا کے ثابت کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں وہ ایمان کو کامل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں یا وہ دلیلیں جو فلسفہ اور علم کلام اور علم عرفان کى کتابوں میں بیان کى گئی ہیں ان سے ثابت کیا جاتا ہے کہ تمام موجودات عالم ذات کے لحاظ سے محتاج اور فقیر بلکہ عین احتیاج اور فقر ہیں وہ اپنے وجود کو باقى رکھنے میں اور تمام افعال اور حرکات میں ایک ایسى ذات کے محتاج ہیں جو بے نیاز اور غنى ہو بلکہ اسى ذات سے ان کا ربط اور اتصال ہے_ تمام موجودات عالم محتاج اور محدود ہیں صرف ایک ذات ہے جو اپنے وجود میں مستفنى بالذات ہے اور کمال غیر متناہى رکھتى ہے اور وہ ذات واجب الوجود ہے کہ جس میں کوئی نقص اور احتیاج نہیں اور اسکے وجود میں کوئی احتیاج نہیں ہے_ وہ ذات تمام کمالات کى مالک ہے_ اس کے علم اور قدرت اور حیات اورتمام کمالات کى کوئی حد اور انتہا نہیں ہے ہر جگہ حاضر اور ناظر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپى ہوئی نہیں ہے_ تمام موجودات سے نزدیک ہے یہاں تک کہ وہ شاہ رگ سے خود انسان سے زیادہ نزدیک ہے_ بہت سى آیات اور احادیث خدا کى انہى صفات کو بیان کرتى ہیں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' مشرق اور مغرب خدا کى ملکیت ہے پس تم جس طرف توجہ کرو گے خدا وہاں موجود ہے_[1] نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا تمہارے ساتھ ہے جہاں بھى تم ہو اور تمہارے کاموں کو جانتا ہے اور ان سے باخبر ہے_[2]

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' ہم انسان سے اس کى شاہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں_[3]

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' خدا ہر چیز کو دیکھنے والا اور حاضر ہے_[4]

خدا کے پہچاننے میں غور اور فکر کرنا انسان کو کفر کى تاریکى سے نکال کر خدا پر ایمان لے آنے کى طرف لے جاتا ہے اور تکامل اور کمال تک پہنچنے کا راستہ کھول دیتا ہے اور عمل کى طرف جو ایمان کا لازمہ ہے دعوت دیتا ہے_


2_ آیات ا لہى میں غور کرنا

خدا اس دنیا کى ہر ایک چیز کو خدا کى نشانى قرار دیتا ہے_ خدا متعدد آیات میں تاکید فرماتا ہے کہ خدا کى نشانیوں اور آیات میں خوب غور اور فکر کرو تا کہ ان کى رعنائیوں اور حسن سے اور ان کے نظم اور حساب سے ہونے کیوجہ سے جو تمام عالم پر برقرار ہے ایک دانا اور قادر اور علیم اور حکیم خدا کو معلوم کرلوگے_ انسان سے اس کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنى خلقت اور وہ اسرار اور رموز اور حیرت انگیز قدرت جو اس کے جسم اور روح میں رکھ دیئے گئے ہیں اور اسى طرح مختلف زبانوں اور رنگوں اور شکلوں اور ہمسر کے وجود کو خوب غور سے سوچو اور فکر کرو_ اسى طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سورج اور ستاروں کى خلقت اور ان کى منظم حرکت اور حسن اور زیبائی میں غور اور فکر کرے اسى طرح انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ زمین اور پہاڑوں اور درخت نباتات اور مختلف سمندرى اور خشکى کے حیوانات میں غور اور فکر کرے_ قرآن مجید میں اس طرح کے مطالبے کے بہت سے نمونوں کى طرف اشارہ کیا گیا ہے بہت ہى صحیح اور درست ہے کہ یہ جہان حسن اور تعجب میں ڈالنے والى چیزوں سے ہے_ جس شى کو دیکھیں اس میں سینکڑوں مصلحتیں تعجب آور موجود ہیں_ سورج ستارے کہکشاں بادل حیرت انگیز ایٹم زمین آسمان، پہاڑ، درخت، نباتات، مختلف دریائی اور خشکى کے حیوانات معدنیات، سمندر دریا، بڑے بڑے جنگل، چھوٹے بڑے، درخت اور نباتات، بڑے حیوانات، ہاتھی، اونٹ یہاں تک کہ چیونٹیوں اور مچھر بلکہ حیوانات جو دور بین سے دیکھے جاتے ہیں جیسے ویرس اور جراثیم و غیرہ انسان ان کى زیبائی اور ظرافت کو جب مشاہدے کرے اور موجودات جہاں میں جو رموز اور مصالح، ہیں اور اس جہاں کے نظم اور ضبط اور اس میں ربط اور اتصال کو جو ان پر حاکم ہے دیکھے تو ان تمام چیزوں سے ایک ایسے خالق اور پیدا کرنے والے کا جو عظیم اور صاحب قدرت اور بے انتہا علم اور حکمت رکھنے والا ہے کا علم پیدا کریگا_ اور حیرت اور تعجب میں غرق ہوجائیگا او ر تہ دل سے کہے گا اے میرے رب تو نے ان چیزوں کو بیہودہ اور لغعو پیدا نہیں کیا_ ربنا ما خلقت ہدا باطلا_ آسمان کو جو ستاروں سے اوپر ہے اسے دیکھے اور ان میں خوب غور اور فکر کرے جنگل کے پاس بیٹھ جائے اور اللہ تعالى کى عظمت اور قدت کا نظارہ کرے کہ کتنا عمدہ اور زیبا اور خوشمنا جہان ہے_


3_ عبادت

ایمان اور معرفت کے بعد انسان کو نیک اعمال اور اپنے فرائض کے بجالانے میں سعى اور کوشش کرنى چاہئے اس واسطے کے عمل کے ذریعے ہى ایمان کامل سے کاملتر ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالى کے قرب کے مقام تک پہنچتا ہے_ یہ صحیح ہے کہ ایمان اور معرفت اور توحید بلندى کى طرف لے جاتى ہے لیکن نیک عمل اس میں اس کى مدد کرتے ہیں_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ تمام عزت خدا کے ہاں ہوتى ہے توحید کا نیک کلمہ خدا کیطرف جاتا ہے اور نیک عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_[5]

نیک عمل کى نسبت ایمان اور معرفت کے لئے پٹرول کى ہے جو ہوائی جہاز میں ڈالا جاتا ہے جب تک ہوائی جہاز میں پٹرول ہو گا وہ بلندى کى طرف پرواز کرتا جائیگا اور جب بھى اس کا پٹرول ختم ہوجائیگا وہ تمام کا تمام گر جائیگا اسى طرح ایمان اور معرفت جب تک اس کے ساتھ نیک عمل انجام پاتا رہے گا وہ انسان کو اعلى مقامات کى طرف لے جاتا رہے گا لیکن جب اس کى نیک عمل مدد کرنا چھوڑ دے گا ایمان ختم ہوجائیگا_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' اپنے پروردگار کى عبادت کرتا کہ تجھے یقیقن کا مقام حاصل ہوجائے_[6]

 

نفس کى تکمیل اور اس کى تربیت اور مقام یقین تک پہنچنے کا تنہا ایک راستہ ہے اور وہ ہے خدا کى عبادت اور بندگى اور اپنے فرائض کى بجا آوری_ اگر کوئی خیال کرے کہ عبادت کے علاوہ کسى اور راستے سے اعلى مقامات پر فائز ہو سکتا ہے تو وہ بہت ہى سخت اشتباہ کر رہا ہے_

انشاء اللہ بعد میں نیک عمل کے متعلق بھى بحث کریں گے_


4_ اذکار اور دعائیں_

اسلام دعاؤں کے ہمیشہ پڑھنے رہنے کو بہت اہمیت دیتا ہے_ اذکار اور دعائیں پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان کے پڑھنے پر ثواب بھى بتلائے گئے ہیں_ ذکر اذکار در حقیقت عبادت کى ایک قسم ہے جو نفس کى تکمیل اور قرب الہى کا سبب ہوتے ہے جیسے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' پانچ چیزیں ہیں جو انسان کے میزان عمل کو بھارى کر دیتى ہیں_ سبحان اللہ _ الحمد اللہ اور لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اور نیک بیٹے کى موت پر صبر کرنا_[7]

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' جب مجھے معراج پر لے جایا گیا اور میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے ملائکہ کو دیکھا کہ وہ سونے چاندى کا محل بنانے میں مشغول تھے لیکن کبھى کام کرنا چھوڑ دیتے تھے اور کبھى کام کرنا شروع کر دیتے تھے_ میں نے ان سے کہا کہ کیوں کام کرنے لگ جاتے ہو اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا جب محل تعمیر کرنے کا میٹریل آجاتا ہے تو کام کرتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_ میں نے پوچھا کہ تمہارے کام کرنے میٹریل کونسا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ و الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ہے_  جب مومن دنیا میں یہ ذکر کرتا رہتا ہے ہمیں میٹریل ملتا رہتا ہے اور ہم بھى کام کرتے رہتے ہیں اور جب وہ اس ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو ہم بھى کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں_[8]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص سبحان اللہ کہے تو اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگا دیا جاتا ہے اور جو شخص الحمد اللہ کہے تو خدا اس کے لئے بہشت میں درخت لگا دیتا ہے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے خدا بہشت میں درخت لگا دیتا ہے_ اس وقت قریشى مرد نے عرض کى _ یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر تو ہمارے لئے بہشت میں بہت ہى درخت ہونگے؟ آپ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں اسى طرح ہى ہوگا لیکن خیال رکھنا کہ کوئی آگ نہ بھیجنا کہ جو ان درختوں کو جلا دے کیونکہ خداوند قرآن میں فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو تم خدا اور اس کے رسول کى اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو_[9]

جو کلام بھى انسان کو خدا کى یاد دلائے اور اس میں اللہ تعالى کى تعریف اور تسبیح اور تمجید ہو تو وہ کلام ذکر کہلائیگا لیکن احادیث میں خاص خاص دعاؤں اور اذکار کا ذکر ہوا ہے اور ان کے پڑھنے کے اثرات اور ثواب بھى بتلایا گیا ہے کہ جن میں سے زیادہ اہم لا الہ الا اللہ سبحان اللہ _ الحمد اللہ _ اللہ اکبر_ لا حول و لا قوة الا باللہ_ حسبنا اللہ و نعم الوکیل _ لا الہ الا اللہ سبحانک انى کنت من الظالمین_ یا حى یا قیوم یا من لا الہ الا انت افوض امرى الى اللہ ان اللہ بصیر بالعباد_ لا حول و لا قوة الا باللہ العلى العظیم _ یا اللہ_ یا رب_ یا رحمن_ یا ارحم الراحمین_ یا ذالجلال و الاکرام_ یا غنى یا مغنى اسى طرح اور دوسرے اسماء حسنى کے جو دعاوں اور احادیث میں نقل ہوئے ہیں_ یہ تمام کے تمام ذکر ہیں اور انسان کو خدا کى یاد دلاتے ہیں اور اللہ تعالى کے ہاں تقرب کا وسیلہ بنتے ہیں_ اللہ کى طرف رجوع کرنے والا انسان ان میں سے کسى ایک کو انتخاب کر کے اسے ہمیشہ پڑھتا رہے لیکن بعض اہل معرفت ان میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہیں_ بعض لا الہ الا اللہ کے پڑھنے کى سفارش کرتے ہیں اور دوسرے بعض نے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کو انتخاب کیا ہے اور بعض نے دوسرے بعض کلمات کو ترجیح دى ہے لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب پر لا الہ الا اللہ ترجیح رکھتا ہے_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین عبادت لا الہ الا اللہ کہا ہے_[10]

آپ(ص) نے فرمایا کہ '' لا الہ الا اللہ اذکار کا سردار اور ان سے بڑا ہے_[11]

 

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرائیل(ع) سے نقل کیا ہے کہ '' خداوند عالم فرماتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ میرى پناہ گاہ اور قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوجائے وہ عذاب دیئے جانے سے امان میں ہوگا_[12]

لیکن ذکر کرنے کى غرض اللہ تعالى کى طرف توجہ کرنا ہوتا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ جو کلام بھى اللہ تعالى کى طرف زیادہ توجہہ دلائے اس کا ذکر کرنا زیادہ مناسب ہوگا_ حالات اور افراد اور مقامات مختلف ہوتے ہیں_ لہذا ہو سکتا ہے کہ یا اللہ کا کلمہ بعض افراد کے لئے یا بعض حالات میں زیادہ مناسب افراد کے لئے لا الہ الا اللہ کا کلمہ اور دوسرے بعض افراد کے لئے یا غفار یا ستار مناسب ہو اسى طرح دوسرے اذکار_ اسلئے اگر کوئی انسان کسى استاد یا کامل مربى تک رسائل رکھتا ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ و اس سے مدد طلب کرے اور اگر اسے کسى تک رسائی نہ ہو تو وہ دعاؤں اور احادیث کى کتابوں اور پیغمبر اکرم اور ائمہ علیہم السلام کے فرامین سے استفادہ کرے تمام اذکار اور عبادات اچھى ہیں جب کہ ان کو صحیح بجا لایا جائے تو وہ ان کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کر سکتا ہے اور مقامات عالیہ تک رسائل حاصل کر لے گا_ انسان ان تمام سے یا ان میں سے بعض سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن مشائخ اور ماہرین استادوں نے مقام ذکر اور شہود تک پہنچے کے لئے بعض مخصوص اذکار کا انتخاب کیا ہوا ہے کہ جنہیں خاص کیفیت اور خاص عدد کے ساتھ ہمیشہ پڑھنے رہنے کى سفارش کى ہے تا کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر سکے_

لیکن اس نقطہ کى طرف بہت زیادہ توجہہ دینے کى ضرورت ہے کہ جو دعائیں اور اذکار شرعیت میں وارد ہوئی ہیں گرچہ سب عبادت ہیں اور اجمالا تقرب کا موجب بھى ہوتى ہیں لیکن ان کى اصلى غرض غیر خدا سے بالکل اور کامل طور سے قطع قطع کرنا اور حضور قلب سے ذات الہى کى طرف توجہ کرنا ہے_ لہذا ہمیں صرف اذکار کے الفاظ کے تکرار پر ہى اکتفاء کرنى چاہیئے اور نہ ہى اصلى ا على غرض و غایت اور معنى کى طرف توجہہ کرنے سے غافل ہو جائیں کیونکہ الفاظ کا تکرار بلکہ انہیں ہمیشہ پڑھتے رہنا اتنا مشکل نہیں ہے اس واسطے کہ الفاظ کے ذکر کرتے وقت کئی قسم کے افکار اور مختلف طرح کے خیالات انسان پر ہجوم کرتے رہتے ہیں اور اسے خدا کى یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک خیالات اور افکار کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک نفس افاضات اور اشراقات الہى کے قبول کرنے کى لیاقت پیدا نہیں کر سکتا_

صرف یہى کام انسان کو اصلى غرض تک نہیں پہنچا سکتا وہ جو مفید اور فائدہ مند ہے وہ ذات الہى کى طرف حضور قلب اور خیالات کا دور کرنا اور فکر کا ایک مرکز پر برقرار رکھنا ہوتا ہے اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے اس واسطے کہ ذکر کرتے وقت کئی طرح کے فکر اور مختلف خیالات انسان پر ہجوم اور ہوتے ہیں اور اس کو خدا کى یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور جب تک دل سے خیالات کو دور نہ کرے اس وقت تک انسانى نفس اللہ تعالى کے فیض اور اشراق کى لیاقت پیدا نہیں کرتا وہ دل اللہ تعالى کے انوار کا محل بنتا ہے کہ جو اغیار سے خالى ہو_ خیالات کا دور کرنا اور فکر کو ایک جگہ جمع کرنا ایک حتمى ارادے اور جہاد اور محافظ اور پائیدارى کا محتاج ہوتا ہے اور اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک دفعہ بغیر کسى ممارست اور دوام کے ایسا ممکن ہو جائے نفس کے ساتھ نرمى بر تنى چاہئے اور آہستہ آہستہ اسے اس کى عادت دى جانى چاہئے_

 


[1]- وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَیْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ- بقره/ 115.
[2]- وَ هُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ ما کُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ- حدید/ 4.
[3]- وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ- ق/ 16.
[4]- إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ کُلِّ شَیْ‏ءٍ شَهِیدٌ- حج/ 17.
[5]- مَنْ کانَ یُرِیدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعاً إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ- فاطر/ 10.
[6]- وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّى یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ- حجر/ 99.
[7]- عن ابى سلام قال: سمعت رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله یقول: خمس ما اثقلن فى المیزان:
سبحان اللّه، و الحمد للّه، و لا اله الا اللّه، و اللّه اکبر و الولد الصالح یتوفى لمسلم فیصبر و یحتسب- بحار/ ج 93 ص 169.
[8]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: لما اسرى بى الى السماء دخلت الجنة فرأیت ملائکة یبنون لبنة من ذهب و لبنة من فضة و ربما امسکوا فقلت لهم: ما لکم ربما بنیتم و ربما امسکتم؟ فقالوا حتى تجیئنا النفقة فقلت لهم: و ما نفقتکم؟ فقالوا: قول المؤمن فى الدنیا: سبحان اللّه، و الحمد للّه، و لا اله الّا اللّه، و اللّه اکبر. فاذا- قال بنینا و اذا امسک امسکنا- بحار/ ج 93 ص 169.
[9]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: من قال سبحان اللّه غرس اللّه بها شجرة فى الجنة و من قال الحمد للّه غرس اللّه بها شجرة فى الجنة و من قال: لا اله الا اللّه غرس اللّه له بها شجرة فى الجنة و من قال: اللّه اکبر غرس اللّه له بها شجرة فى الجنة: فقال رجل من قریش: یا رسول اللّه! انّ شجرنا فى الجنة لکثیر. قال: نعم. و لکن ایّاکم ان ترسلوا علیها نیرانا فتحرقوها. و ذالک انّ اللّه عزّ و جلّ یقول:
یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَ أَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ لا تُبْطِلُوا أَعْمالَکُمْ- بحار/ ج 93 ص 168.
[10]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: خیر العبادة قول لا اله الّا اللّه- بحار/ ج 93 ص 195.
[11]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: سیّد القول لا اله الّا اللّه- بحار/ ج 93 ص 204.
[12]- عن النبى صلّى اللّه علیه و آله عن جبرئیل قال اللّه عز و جلّ: کلمة لا اله الّا اللّه حصنى فمن دخل حصنى امن من عذابى- بحار/ ج 93 ص 192.