پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چوتھا وسيلہ جہاد اور شہادت

چوتھا وسیلہ
جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کى شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کى علمدارى اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدى سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کى حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑى عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہى سے تقرب اور رجوع الى اللہ کا سبب ہے_ جہاد کى فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لى ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہى نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنى رحمت اور رضوان اور بہشت کى کہ جس میں دائمى نعمتیں موجود ہیں خوشخبرى اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالى کے نزدیک یہ ایک بہت بڑى جزا اور ثواب ہے_[1]

اللہ تعالى فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالى نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برترى اور بلندى دى ہوئی ہے_[2]

 

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کى طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنى تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_[3]

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکى کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکى موجود نہیں ہے_[4]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_[5]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ 1_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ 2_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتى ہیں اور کہتى ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھى ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ 3_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ 4_ بہشت کے خزانچى اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

5_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنى جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ 6_ شہادت کے بعد اس کى روح کى خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ 7_ شہید اللہ تعالى کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_[6]

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھى قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے اللہ تعالى کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالى نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالى سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑى سعادت ہے_[7]

قرآن مجید کى یہ آیت ایک بڑى لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتى ہے _ ابتداء میں کہتى ہے _ کہ اللہ تعالى نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالى جو غنى مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنى تین آسمانى بڑى کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالى سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبرى دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑى نیک بختى اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالى کے ہاں روزى پاتے ہیں_[8] لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کى طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کى روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کى خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزى دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزى دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوى اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالى کے راستے میں شہادت بہت بڑى قیمت اور بڑى عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالى مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسرى عبادت سے دو چیزوں کى وجہ سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کى غرض اور غایت اپنے ذاتى مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کى ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعى عدالت کے جارى ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلى درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_


دوسرى _ ایثار کى مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالى سے تقرب اور اس کى ذات کى طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتى چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنى جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنى تمام ہستى کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالى کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنى جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پورى عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کى عظیم او رنورانى روح کے لئے مادیات اور مادى جہان تنگ ہوتا ہے اسى واسطے وہ شیر کى طرح مادى جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کى طرح وسیع عالم اور رضایت الہى کى طرف پرواز کرتا ہے اور اعلى مقامات اور مراتب تک اللہ تعالى کى طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا سارى عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختى اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنى جان کى قربانى دے کر اللہ تعالى کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کى نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازى لے جانے اور ہمیشگى زندگى کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کى نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتى ہے_

 

[1]- الَّذِینَ آمَنُوا وَ هاجَرُوا وَ جاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَ أُولئِکَ هُمُ الْفائِزُونَ. یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَ رِضْوانٍ وَ جَنَّاتٍ لَهُمْ فِیها نَعِیمٌ مُقِیمٌ. خالِدِینَ فِیها أَبَداً إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِیمٌ- توبه/ 20.
[2]- وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِینَ عَلَى الْقاعِدِینَ أَجْراً عَظِیماً- نساء/ 95.
[3]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: للجنّة باب یقال له باب المجاهدین یمضون الیه فاذا هو مفتوح و هم متقلّدون بسیوفهم و الجمع فى الموقف و الملائکة ترحب بهم- وسائل/ ج 11 ص 5.
[4]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: فوق کل ذى برّ برّ حتى یقتل فى سبیل اللّه، فاذا قتل فى سبیل اللّه فلیس فوقه برّ- وسائل/ ج 11 ص 10.
[5]- قال ابو عبد اللّه( ع): من قتل فى سبیل اللّه لم یعرفه اللّه شیئا من سیّئاته- وسائل/ ج 11 ص 9.
[6]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: للشهید سبع خصال من اللّه: اول قطرة من دمه مغفور له کل ذنب. و الثانیة یقع رأسه فى حجر زوجته من الحور العین و تمسحان الغبار عن وجهه-- و تقولان مرحبا بک و یقول هو مثل ذالک لهما. و الثالثة یکسى من کسوة الجنة. و الرابعة تبتدره خزنة الجنة بکل ریح طیّبه ایّهم یأخذه معه. و الخامسة ان یرى منزله. و السادسه یقال لروحه اسرح فى الجنة حیث شئت. و السابعة ان ینظر فى وجه اللّه و انّها لراحة لکل نبىّ و شهید- وسائل/ ج 11 ص 9.
[7]- إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ. یُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیَقْتُلُونَ وَ یُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْراةِ وَ الْإِنْجِیلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بایَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ- توبه/ 111.
[8]- وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ- آل عمران/ 169.