پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

امام جعفر صادق(ع) كا حكم

امام جعفر صادق(ع) کا حکم

عنوان بصرى چورا نوے سال کا کہتا ہے کہ میں علم حاصل کرنے کے لئے مالک بن انس کے پاس آتا جاتا تھا_ جب جعفر صادق علیہ السلام ہمارى شہر آئے تو میں آپ کى خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا کیونکہ میں دوست رکھتا تھا کہ میں آپ سے بھى کسب فیض کروں ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ جو مورد نظر اور توجہہ قرار پاچکا ہوں یعنى میرے پاس لوگوں کى زیادہ آمد و رفت ہوتى ہے لیکن اس کے باوجود میں دن او رات میں خاص ورد اور ذکر بجا لاتا ہوں تم میرے اس کام میں مزاحم اور رکاوٹ بنتے ہو تم علوم کے حاصل کرنے کے لئے پہلے کى طرح مالک بن انس کے پاس جایا کرو_ میں آپ کى اس طرح کى گفتگو سے غمگین اور افسردہ خاطر ہوا اور آپ کے ہاں سے چلا گیا اور اپنے دل میں کہا کہ اگر امام مجھ میں کوئی خیر دیکھتے تو مجھے اپنے پاس آنے سے محروم نہ کرتے میں رسول خدا کى مسجد میں گیا اور آپ پر سلام کیا دوسرے دن بھى رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ میں گیا اور دو رکعت نماز پڑھى اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ تعالى میرے لئے جعفر صادق علیہ اسلام کا دل نرم کردے اور اس علم سے مجھے وہ عطا کر کہ جس کے ذریعے میں صراط مستقیم کى ہدایت پاؤں_ اس کے بعد غمگین اور اندوہناک حالت میں گھر لوٹ آیا اور مالک بن انس کے ہاں نہ گیا کیونکہ میرے دل میں جعفر صادق علیہ السلا کى محبت اور عشق پیدا ہو چکا تھا بہت مدت تک سوائے نماز کے میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا یہاں تک میرا صبر ختم ہوچکا اور ایک دن جعفر صادق کے دروازے پر گیا اور اندر جانے کى اجازت طلب کى آپ کا خادم باہر آیا اور کہا کہ تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ میں امام کى خدمت میں مشرف ہونا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں خادم نے جواب دیا کہ آقا محراب میں نماز میں مشغول ہیں اور وہ واپس گھر کے اندر چلا گیا اور میں آپ کے دروازے پر بیٹھ گیا_ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیا اور کہا کہ اندر آجاؤ میں گھر میں داخل ہوا آور آنحضرت پر سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ خدا تجھے مورد مغفرت قرار دے_ میں آپ کى خدمت میں بیٹھ گیا آپ نے اپنا سر مبارک جھکا دیا اور بہت دیر کے بعد اپنا سر بلند کیا اور فرمایا تمہارى کنیت کونسى ہے؟ میں نے عرض کى کہ ابوعبداللہ آپ نے فرمایا کہ خدا تجھے اس کنیت پر ثابت رکھے اور توفیق عنایت فرمائے_ تم کیا چاہتے ہو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اس ملاقات میں سوائے اس دعا کہ جو آپ نے فرمائی ہے اور کچھ بھى فائدہ حاصل نہ ہو تو یہ بھى میرے لئے بہت قیمتى اور ارزشمند ہے_ میں نے عرض کى کہ میں نے خدا سے طلب کیا ہے کہ خدا آپ کے دل کو میرے بارے میں مہربان کردے اور میں آپ کے علم سے فائدہ حاصل کروں_ امیدوار ہوں کہ خداوند عالم نے میرى یہ دعا قبول کر لى ہوگی_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا _ اے عبداللہ _ علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم ایک نور ہے_ جو اس انسان کے دل میں کہ خدا جس کى ہدایت چاہتا ہے روشنى ڈالتا ہے پس اگر تو طالب علم ہے تو پہلے اپنے دل پر حقیقى بندگى پیدا کر اور علم کو عمل کے وسیلے سے طلب کر اور خدا سے سمجھنے کى طلب کرتا کہ خدا تجھے سمجھائے_ میں نے کہا_ اے شریف_ اپ نے فرمایا اے ابوعبداللہ_ کہہ میں نے کہا کہ بندگى کى حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بندگى کى حقیقت تین چیزوں میں ہے_ پہلى بندہ کسى چیز کے مالک نہیں ہوا کرتا بلکہ مال کو اللہ تعالى کا مال سمجھے اور اسى راستے میں کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے خرچ کرے_ دوسری_ اپنے امور کى تدبیر میں اپنے آپ کو ناتواں اور ضعیف سمجھے_ تیسرى _ اپنے آپ کو اللہ تعالى کے اوامر اور نواہى کے بجالانے میں مشغول رکھے اگر بندہ اپنے آپ کو مال کا مالک نہ سمجھے تو پھر اس کے لئے اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر اپنے کاموں اور امور کى تدبیر اور نگاہ دارى اللہ تعالى کے سپرد کردے تو اس کے لئے مصائب کا تحمل کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر وہ اللہ تعالى کے احکام کى بجا آورى میں مشغول رہے تو اپنے قیمتى اور گران قدر وقت کو فخر اورمباہات اور ریاکارى میں خرچ نہیں کرے گا اگر خدا اپنے بندے کو ان تین چیزوں سے نواز دے تو اس کے لئے دنیا اور شیطن اور مخلوق آسان ہوجائے گى اور وہ اس صورت میں مال کو زیادہ کرنے اور فخر اور مباہات کے لئے طلب نہیں کرے گا اور جو چیز لوگوں کے نزدیک عزت اور برترى شمار ہوتى ہے اسے طلب نہیںکرے گا اور اپنے قیمتى وقت کو سستى اور بطالت میں خرچ نہیں کرے گا اور یہ تقوى کا پہلا درجہ ہے اور خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ہم اس کے لئے قرار دیں گے کہ جو دنیا میں علو اور فساد برپا نہیں کریں گے اور عاقبت اور انجام تو متقیوں کیلیئے ہے_

تلک الدار الاخرة نجعلہا للذین لا یریدون علوا فى الارض و لا فسادا و العاقبتہ للمتقین_

میں نے عرض کیا کہ اے امام(ع) _ مجھے کوئی وظیفہ اور دستور عنایت فرمایئےآپ نے فرمایا کہ میں تجھے نو چیزوں کى وصیت کرتا ہوں اور یہ میرى وصیت اور دستورالعمل ہر اس شخص کے لئے ہے جو حق کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے اور میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ خدا تجھے ان پر عمل کرنے کى توفیق دے_ تین چیزیں اور دستور العمل نفس کى ریاضت کے لئے ہیں اور تین دستور العمل حلم اور بردبارى کے لئے ہیں اور تین دستور العمل علم کے بارے میں ہیں_ تم انہیں حفظ کر لو اور خبردار کہ ان کے بارے میں سستى کرو_ عنوان بصرى کہتا ہے کہ میرى تمام توجہ آپ کى فرمایشات کى طرف تھى آپ نے فرمایا کہ وہ تین دستور العمل جو نفس کى ریاضت کے لئے ہیں وہ یہ ہیں_

1_ خبردار ہو کہ جس چیز کى طلب اور اشتہاء نہ ہو اسے مت کھاؤ_ 2_ اور جب تک بھوک نہ لگے کھانا مت کھاؤ_ 3_ جب کھانا کھاؤ تو حلال کھانا کھاؤ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو_ آپ نے اس کے بعد رسول اللہ کى حدیث نقل کى اور فرمایا کہ انسان بر تن کویر نہیں کرتا مگر شکم کا پر کرنا اس سے بدتر ہوتا ہے اور اگر کھانے کى ضرورت ہو تو شکم کا ایک حصہ کھانے کے لئے اور ایک حصہ پانى کے لئے اور ایک حصہ سانس لینے کے لئے قرار دے_

وہ تین دستور العمل جو حلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

1_ جو شخص تجھ سے کہے کہ اگر تو نے ایک کلمہ مجھ سے کہا تو میں تیرے جواب میں دس کلمے کہونگا تو اس کے جواب میں کہے کہ اگر تو نے دس کلمے مجھے کہے تو اس کے جواب میں مجھ سے ایک کلمہ بھى نہیں سنے گا_

2_ جو شخص تجھے برا بھلا کہے تو اس کے جواب میں کہہ دے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو خدا مجھے معاف کردے اور اگر تم جھوٹ کہہ رہے تو خدا تجھے معاف کردے_

3_ جو شخص تجھے گالیاں دینے کى دھمکى دے تو تو اسے نصیحت اور دعا کا وعدہ کرے وہ تین دستور العمل جو علم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

1_ جو کچھ نہیں جانتا اس کا علماء سے سوال کر لیکن ملتفت رہے کہ تیرا سوال کرنا امتحان اور اذیت دینے کے لئے نہیں ہونا چاہئے_ 2_ اپنى رائے پر عمل کرنے سے پرہیز کر اور جتنا کر سکتا ہے احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دے_ 3_ اپنى رائے سے (بغیر کسى مدرک شرعی) کے فتوى دینے سے پرہیز کر اور اس سے اس طرح بچ کے جیسے پھاڑ دینے والے شیر سے بچتا ہے_ اپنى گردن کو لوگوں کے لئے پل قرار نہ دے اس کے بعد اپ نے مجھ سے فرمایا کہ اب یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ_ بہت کافى مقدار میں نے تجھ نصیحت کى ہے اور میرے ذکر اور اذکار کے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور رکاوٹ نہ بنو کیونکہ میں اپنى جان کى قیمت اور ارزش کا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کى پیروی کرتا ہے_

''و السلام على من اتبع الہدی''_[1]

 

[1]- کشکول شیخ بهائى/ ج 2 ص 184 چاپ فراهانى، بحار الانوار/ ج 1 ص 224.