پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

موانع (ركاوٹيں)

موانع (رکاوٹیں)

کمالات اور مقامات عالیہ تک پہنچنا اتنا سادہ اور آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے اس راستے میں کئی ایک موانع اور رکاوٹیں موجود ہیں اور جو انسان کمال حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے ان کو دور کرنا ہوگا ورنہ وہ کبھى کمال تک نہیں پہنچ سکے گا_


پہلى رکاوٹ

قرب الہى حاصل کرنے اور سر و سلوک الى اللہ کى سب سے بڑى رکاوٹ انسان کى قابلیت کا نہ ہونا ہے_ جو روح اور دل گناہوں کے ارتکاب کرنے کى وجہ سے تاریک اور آلودہ ہوچکا ہو وہ انوار الہى کى تابش کا مرکز قرار نہیں پا سکتا_ جب انسان کا دل گناہوں کى وجہ سے شیطن کى حکومت کا مرکز پا چکا ہو وہاں کس طرح اللہ کے مقرب فرشتے داخل ہو سکے ہیں ؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان کسى گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے اگر تو اس نے توبہ کر لى تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے_ اور اگر وہ اسى طرح گناہ بجالاتا رہا تو و سیاہ نقطہ تدریجاً بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ت مام دل کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں وہ کبھى کامیابى اور چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے گا_[1]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میرے والد فرمایا ہے کہ انسان کے دل اور روح کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہوا کرتى کیونکہ گناہ انسان کى روح اور قلب سے جنگ کرنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس پر قابو اور غلبہ حاصل کر لیتا ہے اس صورت میں اس کا دل الٹا اور سرنگوں ہو جاتا ہے_[2]

گناہ گار انسان کى روح سرنگوں اورالہى ہوجاتى ہے اور وہ الٹے راستے چلتى ہے تو پھر وہ کس طرح قرب الہى کے رساتے کى طرف حرکت کر سکى گى اور اللہ تعالى کے فیوضات اور اشراقات کو قبول کرے گی؟ لہذا کمال تک رسائی حاصل کرنے والے انسان کے لئے ضرورى اور واجب ہوجاتا ہے کہ وہ ابتداء ہى سے اپنے نفس اور روح کو گناہوں سے پاک اور صاف کرے اور پھر ریاضت اور ذکر الہى میں داخل ہو ور نہ اس کا ذکر اور عبادت میں کوشش کرنا اس کو قرب الہى تک نہیں پہنچا سکے گا_


دوسرى رکاوٹ

کمال حاصل حاصل کرنے سے ایک بڑى رکاوٹ مادى اور دنیاوى تعلقات ہیں جیسے مال اور دولت سے اہل و عیال سے یا مکان اور زندگى کے اسباب سے جاہ و جلال مقام اور منصب سے مال باپ سے بہن بھائی سے یہاں تک کہ علم اور دانش سے اور اس طرح کى دوسرى چیزوں سے علاقہ اور تعلق یہ وہ تعلقات ہیں کہ انسان کو اللہ تعالى کے قرب حاصل کرنے اور اس کے طرف حرکت اور ہجرت کرنے سے روک دیتے ہیں_

جس دل نے محسوسات سے محبت اور انس کر رکھا ہو اور اس کا فریفتہ اور عاشق ہو کس طرح وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر عالم بالا کى طرف حرکت کرے گا جو دل دنیاوی امور کا مرکز اور مکان بن چکا ہو وہ کب انوار الہى کى تابش کا مرکز قرار پاسکتا ہے؟ بہت سى روایات کے مطابق دنیا کى محبت تمام گناہوں کى جڑ ہے_ گناہ گار انسان اللہ تعالى سے قرب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کى محبت ہر ایک گناہ کى جڑ ہے_[3]

رسولخدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' سب سے پہلى چیز کہ جن سے اللہ تعالى کى نافرمانى کى گئی وہ چھ تھیں دنیا سے محبت حکومت اور مقام منصب سے محبت_ عورت سے محبت_ خوراک سے محبت نیند سے محبت اور آرام اور سکون سے محبت_[4]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اللہ تعالى سے اس حکومت میں زیادہ دور ہوتا ہے جب اس کى غرص و غایت صرف پیٹ کا بھرنا اور شہوات حیوانى کا پورا کرنا ہو_[5]

جناب جابر فرماتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السلام کى خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمایا اے جابر_ میں محزون اور مشغول دل والا ہوں_ میں نے عرض کى کہ میں آپ پر قربان جاؤں آپ کا محزون اور غمگین ہونا اور مشغول ہونا کس سبب اور وجہہ سے ہے_ آپ نے فرمایا کہ جس کے دل میں خالص اور صاف دین داخل ہو چکا ہو اس کا دل غیر خدا سے خالى ہوجاتا ہے_ اے جابر_ دنیا کیا ہے اور کیا قیمت رکھتى ہے؟ کیا وہ صرف لقمہ نہیں ہے کہ جسے تو کھاتا ہے اور لباس ہے کہ جسے تو پہنتا ہے یا عورت ہے کہ جس سے شادى کرتا ہے کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اے جابر_ مومنین دنیا اور زندگى پر بھروسہ نہیں کرتے اور آخرت کے جہاں میں جانے سے اپنے آپ کو امان میں نہیں دیکھتے_ اے جابر_ آخرت ہمیشہ رہنے والى منزل اور مکان ہے اور دنیا مرنے اور چلے جانے کا محل اور مکان ہے_ لیکن دنیا والے اس مطلب سے غافل ہیں صرف مومنین جو فکر او رعبرت اور سمجھ رکھتے ہیں انہیں جوان کے کانوں پر پڑتا ہے اللہ تعالى کے ذکر سے نہیں روکتا_ زرو جواہرات کا دیکھنا انہیں اللہ تعالى کے ذکر سے غافل نہیں کرتا وہ آخرت کے ثواب کو پالیتے ہیں گویا کہ انہوں نے اس کے علم حاصل کرلیا ہے_[6]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' انسان ایمان کى شرینى کو نہیں چکھ سکتا مگر جب وہ جسے کھاتا ہے اس سے لاپرواہى نہ برتے_[7]

لہذا عارف انسان کے لئے ضرورى ہے کہ اس طرح کا علاقہ اور محبت اپنے دل سے نکال دے تا کہ اللہ تعالى کى قرب اور مقامات عالیہ کى طرف اس کا حرکت اور ہجرت کرنا ممکن ہوسکے_ دنیا کے اور اور فکر کو اپنے دل سے باہر نکال دے تا کہ اللہ کى یاد اس کے دل میں جگہ پاسکے_ یہ جاننا بھى ضرورى ہے کہ دنیاورى امور سے علاقہ مندى اور دل دے دنیا صرف قابل خدمت ہے نہ کہ خود دنیا مذموم ہے کیونکہ عارف انسان دوسرے انسانوں کى طرح زندگى کو باقى رکھنے میں غذا اور لباس اور مکان اور بیوى کا محتاج ہے اور ان کے حاصل کرنے کے لئے اسے ضرور کام کرنا ہوگا_ نسل کى بقاء کے لئے اسے شادى ضرور کرنى ہوگی_ اجتماعى زندگى بسر کرنے کے لئے اسے اجتماعى ذمہ داریاں قبول کرنى ہونگیں اسلامى شرعیت میں ان میں کسى کى مذمت نہیں کى گئی بلکہ ان کے بجالانے میں اگر قصد قربت کرلے تو وہ عبادت بھى ہوجائیں گى اور اللہ سے تقرب کا موجب ہونگیں خود یہ چیزیں اللہ تعالى کے قرب حاصل کرنے کى مانع نہیں ہوا کرتیں وہ جو مانع ہے ان امور سے وابستگى اور محبت ہے_

اگر یہى امور زندگى کى غرض اور غایت قرار پائیں اور اللہ تعالى کے ذکر اور فکر سے غافل بنادیں تو اس کا لازمى نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان خدا سے غافل ہوجائے اور پیسہ او رعورت مقام اور منصب اور علم پرست ہوجائے جو قابل مذمت ہے اور انسان کو اللہ تعالى کى طرف حرکت کرنے سے روک دیتا ہے ورنہ خود پیسہ اور زن علم اور مقام منصب اور ریاست قابل مذمت نہیں ہیں_ کیا پیغمبر اسلام امام سجاد اور امیرالمومنین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار کام اور کوشش نہیں کیا کتے تھے اور اللہ تعالى کى نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا کرتے تھے، اسلام کى سب سے بزرگ خصوصیت یہ ہے کہ دنیاوى اور اخروى امور کے لئے کسى خاص حد اور مرز کا قائل نہیں ہے_


تیسرى رکاوٹ

خواہشات نفس اور اس کى ہوى اور ہوس سے پیروى کرنا قرب الہى حاصل کرنے کا بہت بڑا مانع ہے_ نفسانى خواہشات دل کے گھر کو سیاہ دھوئیں کى طرح سیاہ کر دیتے ہیں اس طرح کا دل اللہ تعالى کے انوار کى تابش کى قابلیت نہیں رکھتا_ نفسانى خواہشات انسان کے دل کو ادھر ادھر کھینچتے رہتے ہیں اور اسے مہلت نہیں دیتے کہ وہ خداوند عالم سے خلوت کرسکے اور اس ذات سے انس اور محبت کرسکے_ وہ دن رات نفسانى خواہشات کے پورا کرنے کى تلاش اور کوشش میں لگا رہتا ہے_ وہ کب دنیا کو چھوڑسکتا ہے تا کہ بارگاہ الہى کى طرف پرواز کرسکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے_ '' ہوى او رہوس کى پیروى نہ کر کیونکہ وہ تجھے خدا کے راستے سے دور کئے رکھیں گے_[8] امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سب سے بہادر انسان وہ ہے جو خواہشات نفس پر غلبہ حاصل کرے _[9]


چوتھى رکاوٹ

خدا کى یادسے ایک رکاوٹ او رمانع شکم پرستى ہے_ جو شخص دن رات کوشش کرتا رہتا ہے کہ اچھى اور لذیذ غذا مہیا کرے اور اپنے پیٹ کو مختلف قسم کى غذاؤں سے پر کرے وہ کس طرح اپنے خدا سے خلوت اور راز و نیاز اور انس کرسکتا ہے_ غذا سے بھرا ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالى کى عبادت اور دعا کرنے کى حالت پیدا کرسکتا ہے_ غذا سے بھر ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالى کى عبادت اور دعا کرنے کى حالت پیدا کرسکتا ہے_ جو انسان کھانے اور پینے میں لذت سمجھتا ہے وہ کس طرح اللہ تعالى سے مناجات کى لذت کو محسوس کرسکتا ہے؟ اسى لئے تو اسلام نے شکم پرستى کى مذمت کى ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا ہے کہ '' انسان کا پیٹ بھر جانے سے طغیان کرتا ہے اللہ تعالى سے زیادہ نزدیک ہونے کى حالت انسان کے لئے اس وقت ہوتى ہے جب کہ اس کا پیٹ خالى ہو اور بدترین حالت اس وقت ہوتى ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو_[10]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کے دل کے لئے پرخورى سے اور کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہے_ پرخورى قساوت قلب کا سبب ہوا کرتى ہے او رشہوت کو تحریک کرتى ہے_ بھوک مومن کا سالن اور روح کى غذا اور طعام ہے اور بدن کى صحت ہے[11]

 

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب اللہ تعالى کسى بندے کى مصلحت دیکھتا ہے تو اسے کم غذا کم کلام اور کم خواب کا الہام کرتا ہے_[12]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر کنٹرول کرنے اور عادت کے ختم کرنے کے لئے بھوک بہترین مددگار ہے[13] امیرالمومنین علیہ السلام نے روایت کى ہے کہ '' خداوند عالم نے معراج کى رات رسول خدا سے فرمایا_ اے احمد_ کاش تم بھوک اور ساکت رہنے اور تنہائی اور اس کے آثار کى شیرینى کو چکھتے_

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کى اے میرے خدا_ بھوک کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ تعالى نے فرمایا _ دا_نائی دل کى حفاظت میرا تقرب ہمیشگى حزن تھوڑا خرچ_ حق گوئی اور آسائشے اور تنگى میں بے خوف _[14]

درست ہے کہ عارف انسان بھى دوسرے انسانوں کى طرح زندہ رہنے اور عبادت کى طاقت کے لئے غذا کا محتاج ہے اسے اتنى مقدار جو بدن کى ضرورت کو پورا کرے کھانا کھانا چاہئے اور شکم پرى سے پرہیز کرنا چاہئے_ کیونکہ شکم پرى سستى بے میلى اور عبادت کى طرف بے رغبتى قساوت قلب اور اللہ تعالى کى یاد سے غفلت کا سبب ہوا کرتى ہے اور اگر تھوڑا کھائے اور بھوکا رہے تو عبادت کے لئے آمادگى اور خداوند عالم کى ذات کى طرف توجہہ کرنے کا سبب ہوا کرتى ہے_ اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے انسان بھوک کى حالت میں با نورانیت روح با صفا اور ہلکا پھکا رہتا ہے لیکن پیٹ بھرى ہوئی حالت میں ایسا نہیں ہوا کرتا لہذا ایک عارف انسان کے لئے ضرورى ہے کہ جتنى بدن کو غذا کى ضرورت ہے اتناہى کھائے بالخصوص جب عبادت اور دعا اور ذکر میں مشغول ہو تو بھوکا ہى رہے_


پانچویں رکاوٹ

عارف اور سالک انسان کو اس کے قرب الہى کے مقصد اور حضور قلب اور خدا کى طرف توجہہ سے ایک رکاوٹ غیر ضرورى اور بے فائدہ گفتگو کرنا ہوا کرتى ہے_ خداوند عالم نے انسان ضرورت کى مقدار تک گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑى نعمت سے صحیح فائدہ حاصل کیا ہوگا اور اگر بیہودہ اور غیر ضرورى گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑى نعمت کو ضائع اور بردبار کر دیا ہوگا اس کے علاوہ زیادہ اور ادھر ادھر کى گفتگو اور باتیں کرنا انسان کى فکر کو پریشان کر دیتى ہیں اور پھر وہ پورى طرح سے اللہ تعالى کى طرف حضور قلب اور توجہہ پیدا نہیں کر سکتا_ اسى لئے احادیث میں زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کى مذمت وارد ہوئی ہے_

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سوائے اللہ تعالى کے ذکر کرنے کے زیادہ کلام کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اللہ تعالى کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں کرنا قساوت قلب کا سبب ہوتا ہے اللہ تعالى سے سب سے زیادہ دور انسان وہ ہے کہ جس کا دل تاریک ہو_[15]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنى زبان کى حفاظت کر اور اپنى گفتگو کو شمار کرتا رہے تا کہ تیرى گفتگو امر خیر کے علاوہ کمتر ہوجائے_[16]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' گفتگو تین قسم کى ہوا کرتى ہے _ مفید _ سالم _ شاحب یعنى بیہودہ_ مفید گفتگو ذکر خدا_ سالم گفتگو وہ ہے کہ جسے خدا دوست رکھے_ شاحب گفتگو وہ ہے جو لوگوں کے متعلق بیہودہ بات کى جائے_[17]

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنى زبان کو قابو اور اس کى حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقى ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنى زبان کى نگاہ دارى اور حفاظت کرے_[18]

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کى علامت ہیں تحمل اور بردبارى _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکى کى دلیل ہے_[19]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتى ہے تو گفتگو ہو جاتى ہے_[20]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھى عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کى طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_[21]

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کى سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کى حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_[22]

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضرورى ہے کہ وہ اپنى زبان پر پورى طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوى امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگى کرنے کے لئے ضرورى ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالى کا ذکر اور ورد اور علمى مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانى استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضرورى کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

 

چھٹى رکاوٹ

اپنى ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لى ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑى رکاوٹ سامنے آتى ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنى اپنى ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کى عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنى ذات کى محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کى اجزاء آخرت میں دى جائے گرچہ اس طرح کى عبادت کرنا بھى انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتى ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتى جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالى کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھى ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہى کا مرکز بننے کى قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضرورى ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کى حدود سے باہر نکالے اپنى ذات کى محبت کو خدا کى محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالى کى رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضرورى قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہى ہى عبادت اور پرستش کى سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھى نہیں ہوتا اور سوائے حقیقى معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنى شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقى کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_


ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑى رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھى زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمى فیصلے کرنے کى قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتى ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ى ذمہ دارى اور وظائف شرعى کى بجالانے کو کافى قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھى ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعى وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھى انسان اس کى فکر کرنے بھى لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھى اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضرورى ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کى کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کى کتنى ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کى اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنى ابدى سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمى طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسى اور ناامیدى کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروى سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالى فرماتا ہے جو ہمارے راستے میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کى راہنمائی کر دیتے ہی_ '' و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا_[23]

ہمارى یہ سارى بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہى کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھى یعنى اللہ تعالى کے ذکر میں تھى _ بحث کى طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

 


[1]- عن ابى بصیر قال سمعت ابا عبد اللّه علیه السّلام یقول: اذا اذنب الرجل خرج فى قلبه نکتة سوداء فان تاب انمحت و ان زاد زادت حتى تغلب على قلبه فلا یفلح بعدها ابدا- بحار/ ج 73 ص 327.
[2]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال کان ابى یقول: ما من شى‏ء افسد للقلب من خطیئته ان القلب لیواقع الخطیئة فلا تزال به حتى تغلب علیه فیصیر اعلاه اسفله- بحار/ ج 73 ص 312.
[3]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: حبّ الدنیا رأس کلّ خطیئة- بحار/ ج 73 ص 90.
[4]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: اول ما عصى اللّه تبارک و تعالى بستّ خصال: حبّ الدنیا و حبّ الریاسة و حبّ الطعام و حبّ الراحة- بحار/ 73 ص 94.
[5]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: ابعد ما یکون العبد من اللّه عزّ و جلّ اذ الم یهمّه الّا بطنه و فرجه بحار/ ج 73 ص 18.
[6]- عن جابر قال: دخلت على ابن جعفر علیه السّلام فقال: یا جابر! و اللّه انى لمحزون و انى لمشغول القلب، قلت: جعلت فداک، و ما شغلک و ما حزن قلبک؟ فقال یا جابر! انّه من دخل قلبه صافى خالص دین اللّه شغل قلبه عمّا سواه. یا جابر! ما الدنیا و ما عسى ان تکون الدنیا؟ هل هى الّا طعام اکلته او ثوب لبسته او امرأة اصبتها؟ یا جابر! انّ المؤمنین لم یطمئنّوا الى الدنیا ببقائهم فیها و لم یأمنوا قدومهم الآخرة یا جابر! الآخرة دار قرار و الدنیا دار فناء و زوال، و لکن اهل الدنیا اهل غفلة، و کأنّ المؤمنین هم الفقهاء، اهل فکرة و عبرة لم یصمّهم عن ذکر اللّه ما سمعوا بآذانهم و لم یعمهم عن ذکر اللّه ما رؤا من الزینة ففازوا بثواب الآخرة کما فازوا بذلک العلم- بحار/ ج 73 ص 36.
[7]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: لا یجد المؤمن حلاوة الایمان فى قلبه حتى لا یبالى من اکل الدنیا- بحار/ ج 73 ص 49.
[8]- وَ لا تَتَّبِعِ الْهَوى‏ فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ- ص/ 26.
[9]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: اشجع الناس من غلب هواه- بحار/ ج 70 ص 76.
[10]- ابو بصیر عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: قال لى: یا ابا محمد! ان البطن لیطغى من اکله، و اقرب ما یکون العبد من اللّه اذا خفّ بطنه و ابغض ما یکون العبد الى اللّه اذا امتلأ بطنه- وسائل ج 16 ص 405.
[11]- قال الصادق علیه السّلام: لیس شى‏ء اضرّ لقلب المؤمن من کثرة الاکل و هى مورثة شیئین:
قسوة القلب و هیجان الشهوة، و الجوع ادام للمؤمنین و غذاء للروح و طعام للقلب و صحة للبدن- مستدرک/ ج 3 ص 80.
[12]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: اذا اراد اللّه صلاح عبده الهمه قلّة الکلام و قلّة الطعام و قلّة المنام- مستدرک/ ج 3 ص 81.
[13]- قال على علیه السّلام: نعم العون على اسر النفس و کسر عادتها التجوع- مستدرک/ 3 ص 81.
[14]- قال على علیه السّلام: قال اللّه تبارک و تعالى لیلة المعراج: یا احمد! لو ذقت حلاوة الجوع و الصمت و الخلوة و ما ورثوا منها. قال یا ربّ! ما میراث الجوع؟ قال: الحکمة و حفظ القلب و التقرب الىّ و الحزن الدائم و خفّة بین الناس و قول الحق، و لا یبالى عاش بیسر او بعسر- مستدرک/ ج 3 ص 82.
[15]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: لا تکثروا الکلام بغیر ذکر اللّه فانّ کثرة الکلام بغیر ذکر اللّه تقسوا لقلب. انّ ابعد الناس من اللّه القلب القاسى- بحار/ 71 ص 281.
[16]- قال على علیه السّلام: اخزن لسانک و عدّ کلامک یقلّ کلامک الّا بخیر- بحار/ ج 71 ص 281.
[17]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: الکلام ثلاثة: فرابح و سالم و شاحب. فاما الرابح فالّذى یذکر اللّه، و اما السالم فالذى یقول ما احبّ اللّه، و اما الشاحب فالّذى یخوض فى الناس- بحار/ ج 71 ص 289.
[18]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: امسک لسانک فانّها صدقة تصدّق بها على نفسک، ثم قال:
و لا یعرف حقیقه الایمان حتى یخزن من لسانه- بحار/ ج 71 ص 298.
[19]- قال ابو الحسن الرضا علیه السّلام: من علامات الفقه: الحلم و العلم و الصمت. انّ الصمت باب من ابواب الحکمة انّ الصمت یکسب المحبة، انه دلیل على کل خیر- بحار/ ج 71 ص 294.
[20]- قال على علیه السّلام: اذا تمّ العقل نقص الکلام- بحار/ ج 71 ص 290.
[21]- عن ابى عبد اللّه علیه السّلام قال: ما عبد اللّه بشى‏ء افضل من الصمت و المشى الى بیته- بحار/ ج 71 ص 278.
[22]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: علیک بطول الصمت فانه مطردة للشیطان و عون لک على امر دینک- بحار/ ج 71 ص 279.
[23]- عنکبوت/ 69.