پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كس طرح حساب كريں

کس طرح حساب کریں

نفس پر کنٹرول کرنا سادہ اور آسان کام نہیں ہوتا بلکہ سوچ اور فکر اور سیاست بردبارى اور حتمى ارادے کا محتاج ہوتا ہے_ کیا نفس امارہ اتنى آسانى سے رام اور مطیع ہوسکتا ہے؟ کیا اتنى سادگى سے فیصلے اور حساب کے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ کیا اتنى آسانى سے حساب دے دیتا ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جس نے اپنے نفس کو اپنى تدبیر اور سیاست کے کنٹرول میں نہ دیا تو اس نے اسے ضائع کردیا ہے_ [1]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہ جس شخص نے اپنے نفس کا فریب اور دھوکہ دینا مول لے لیا تو وہ اس کو ہلاک میں ڈال دے گا_[2]

آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ''جس شخص کے نفس میں بیدارى اورآگاہى ہو تو خداوند عالم کى طرف سے اس کے لئے نگاہ بان معین کیا جائیگا_[3]

نیز آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے کہ ''پے در پے جہاد سے اپنے نفس کے مالک بنو اور اپنے کنٹرول میں رکھو_[4] نفس کے حساب کو تین مرحلوں میں انجام دیا جائے تا کہ تدریجاً وہ اس کى عادت کرے اور مطیع ہوجائے_


1_ مشارطہ اور عہد لینا

نفس کے حساب کو اس طرح شروع کریں دن کى پہلى گھڑى میں ہر روز کے کاموں کے انجام دینے سے پہلے ایک وقت مشارطہ کے لئے معین کرلیں مثال کے طور پر صبح کى نماز کے بعد ایک گوشہ میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ سے گفتگو کریں اور یوں کہیں_ ابھى میںزندہ ہوں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کب تک زندہ رہوں گا_ شاید ایک گھنٹہ یا اس کم اور زیادہ زندہ رہونگا_ عمر کا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگیا ہے لیکن عمر کا باقى وقت ابھى میرے پاس موجود ہے اور یہى میرا سرمایہ بن سکتا ہے بقیہ عمر کے ہر وقت میں آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرسکتا ہوں اور اگر ابھى میرى موت آگئی اور حضرت عزرائیل علیہ السلام میرى جان قبض کرنے کے لئے آگئے تو ان سے کتنى خواہش اور تمنا کرتا کہ ایک دن یاایک گھڑى اور میرى عمر میں زیادہ کیا جائے؟

اے بیچارے نفس اگر تو اسى حالت میں ہو اور تیرى یہ تمنا اور خواہش پورى کر دى جائے اور دوبارہ مجھے دنیا میں لٹا دیا گیا تو سوچ کہ تو کیا کرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور میرے اوپر رحم کر اور ان گھڑیوں کو بے فائدہ ضائع نہ کر سستى نہ کر کہ قیامت کے دن پشیمان ہوگا_

لیکن اس دن پشیمانى اور حسرت کوئی فائدہ نہیں دے گی_ اے نفس تیرى عمر کى ہر گھڑى کے لئے خداوند عالم نے ایک خزانہ برقرار کر رکھا ہے کہ اس میں تیرے اچھے اور برے عمل محفوظ کئے جاتے ہیں اور تو ان کا نتیجہ اور انجام قیامت کو دیکھے گا اے نفس کوشش کر کہ ان خزانوں کو نیک اعمال سے پر کردے اور متوجہ رہ کر ان خزانوں کو گناہ اور نافرمانى سے پر نہ کرے_ اسى طرح اپنے جسم کے ہر ہر عضو کو مخاطب کر کے ان سے عہد اور پیمان لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں مثلاً زبان سے کہیں جھوٹ، غیبت، چغلخوری، عیب جوئی، گالیاں، بیودہ گفتگو، توہین، ذلیل کرنا، اپنى تعریف کرنا، لڑائی، جھگڑا، جھوٹى گواہى یہ سب کے سب برے اخلاق اور اللہ کى طرف سے حرام کئے گئے ہیں اور انسان کى اخروى زندگى کو تباہ کردینے والے ہیں اے زبان میں تجھے اجازت نہیں دیتا کہ تو ان کو بجالائے_ اے زبان اپنے اور میرے اوپر رحم کر اور نافرمانى سے ہاتھ اٹھالے کیونکہ تیرے سب کہے ہوئے اعمال کو خزانہ اور دفتر میں لکھا جاتا ہے اور قیامت کے دن ان کا مجھے جواب دینا ہوگا_ اس ذریعے سے زبان سے وعدہ لیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے_ اس کے بعد اسے وہ نیک اعمال جو زبان بجالاسکتى ہے_ بتلائے جائیں اور اسے مجبور کریں کہ وہ ان کو سارے دن میں بجالائے مثلاً اس سے کہیں کہ تو فلان ذکر اور کام سے اپنے اعمال کے دفتر اور خزانے کو نور اور سرور سے پر کردے اور آخرت کے جہاں میں اس کا نتیجہ حاصل کر اور اس سے غفلت نہ کر کہ پیشمان ہوجائیگی_ اسى طرح سے یہ ہر ایک عضو سے گفتگو کرے اور وعدہ لے کہ گناہوں کا ارتکاب نہ کریں اور نیک اعمال انجام دیں_

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جب رات ہوتى ہے تو رات اس طرح کى آواز دیتى ہے کہ جسے سوائے جن اور انسان کے تمام موجودات اس کى آواز کو سنتے ہیں وہ آواز یوں دیتى ہے_ اے آدم کے فرزند میں نئی مخلوق ہوں جو کام مجھ میں انجام دیئے جاتے ہیں_ میں اس کى گواہى دونگى مجھ سے فائدہ اٹھاؤ میں سورج نکلنے کے بعد پھر اس دنیا میں نہیں آؤنگى تو پھر مجھ سے اپنى نیکیوں میں اضافہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہى اپنے گناہوں سے توبہ کرسکے گا اور جب رات چلى جاتى ہے اور دن نکل آتا ہے تو دن بھى اسى طرح کى آواز دیتا ہے_[5]

ممکن ہے کہ نفس امارہ اور شیطان ہمیں یہ کہے کہ تو اس قسم کے پروگرام پرتو عمل نہیں کرسکتا مگر ان قیود اور حدود کے ہوتے ہوئے زندگى کى جاسکتى ہے؟ کیا ہر روز ایک گھڑى اس طرح کے حساب کے لئے معین کیا جاسکتى ہے؟ نفس امارہ اور شیطن اس طرح کے وسوسے سے ہمیں فریب دینا چاہتا ہے اور ہمیں حتمى ارادہ سے روکنا چاہتاہے_ ضرورى ہے کہ اس کے مقابلے کے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے کہیں کہ اس طرح کا پروگرام پورى طرح سے قابل عمل ہے اور یہ روزمرہ کى زندگى سے کوئی منافات نہیں رکھتا اور چونکہ یہ میرے نفس کے پاک کرنے اور اخروى سعادت کے لئے ضرورى ہے لہذا مجھے یہ انجام دینا ہوگا اور اتنا مشکل بھى نہیں ہے _ تو اے نفس ارادہ کر لے اور عزم کر لے یہ کام آسان ہوجائیگا اور اگر ابتداء میں کچھ مشکل ہو تو آہستہ آہستہ عمل کرنے سے آسان ہوجائیگا_


2_ مراقبت

جب انسان اپنے نفس سے مشارطہ یعنى عہد لے چکے تو پھر اس کے بعد ان عہد پر عمل کرنے کا مرحلہ آتا ہے کہ جسے مراقبت کہا جاتا ہے لہذا تمام دن میں تمام حالات میں اپنے نفس کى مراقبت اور محافظت کرتے رہیں کہ وہ وعدہ اور عہد جو کر رکھا ہے اس پر عمل کریں_ انسان کو تمام حالات میں بیدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا کو ہمیشہ حاضر اور ناظر جانے اور کئے ہوئے وعدے کو یاد رکھے کہ اگر اس نے ایک لحظہ بھى غفلت کى تو ممکن ہے کہ شیطن اور نفس امارہ اس کے ارادے میں رخنہ اندازى کرے اور کئے وعدہ پر عمل کرنے سے روک دے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عاقل وہ ہے جو ہمیشہ نفس کے ساتھ جہاد میں مشغول رہے اور اس کى اصلاح کى کوشش کرتارہے اور اس ذریعے اسے اپنے ملکیت میں قرار دے عقلمند انسان نفس کو دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے مشغول رکھنے سے پرہیز کرنے والا ہوتا ہے_[6]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر اعتماد کرنا اور نفس سے خوش بین ہونا شیطن کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے_[7] نیز آنحضرت صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص نفس کے اندر سے روکنے والا رکھتا ہو تو خداوند عالم کى طرف سے بھى اسکے لئے محافظت کرنے والا معین کیا جاتا ہے_[8]

جو انسان اپنے نفس کا مراقب ہے وہ ہمیشہ بیدار اور خدا کى یاد میں ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ذات الہى کے سامنے حاضر دیکھتا ہے کسى کام کو بغیر سوچے سمجھے انجام نہیں دیتا اگر کوئی گناہ یا نافرمانى اس کے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قیامت کے حساب و کتاب کى یاد آجاتى ہے اور وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اپنے کئے ہوئے عہد اور پیمان کو نہیں بھلاتا اسى ذریعے سے اپنے نفس کو ہمیشہ اپنى ملکیت اور کنٹرول میں رکھتا ہے اور اپنے نفس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے روکے رکھتا ہے ایسا کرنا نفس کو پاک کرنے کا ایک بہترین وسیلہ ہے اس کے علاوہ جو انسان مراقبت رکھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات کى یاد میں رہتا ہے اور نیک کام اور خیرات کے بجالانے میں مشغول رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ نماز کو فضیلت کے وقت میں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے کہ گویا اس کے عمر کى آخرى نماز ہے_ ہر حالت اور ہر کام میں اللہ کى یاد میں ہوتا ہے فارغ وقت بیہودہ اور لغویات میں نہیں کاٹتا اور آخرت کے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت کى قدر کو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس کے کام کرنے میں سعى اور کوشش کرتا ہے اور جتنى طاقت رکھتا سے مستحبات کے بجا لانے میں بھى کوشش کرتا ہے کتنا ہى اچھا ہے کہ انسان بعض اہم مستحب کے بجالانے کى عادت ڈالے _ اللہ تعالى کا ذکر اور اس کى یاد تو انسان کے لئے ہر حالت میں ممکن ہوا کرتى ہے_ سب سے مہم یہ ہے کہ انسان اپنے روز مرہ کے تمام کاموں کو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سیر و سلوک الى اللہ کے لئے قرار دے دے یہاں تک کہ خورد و نوش اور کسب کار اور سونا اور جاگنا نکاح اور ازدواج اور باقى تمام مباح کاموں کو نیت اور اخلاص کے ساتھ عبادت کى جزو بنا سکتا ہے_ کار و بار اگر حلال روزى کمانے اور مخلوق خدا کى خدمت کى نیت سے ہو تو پھر یہ بھى عبادت ہے_ اسى طرح کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ کى بندگى کے لئے قرا ردے تو یہ بھى عبادت ہیں_ اللہ کے مخصوص بندے اسى طرح تھے اور ہیں_

 


3_ اعمال کا حساب

تیسرا مرحلہ اپنے ہر روز کے اعمال کا حساب کرنا ہے ضرورى ہے انسان دن میں ایک وقت اپنے سارے دن کے اعمال کے حساب کرنے کے لئے معین کرلے اور کتنا ہى اچھا ہے کہ یہ وقت رات کے سونے کے وقت ہو جب کہ انسان تمام دن کے کاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائی میں بیٹھ جائے اور خوب فکر کرے کہ آج سارا دن اس نے کیا کیا ہے ترتیب سے دن کى پہلى گھڑى سے شروع کرے اور آخر غروب تک ایک ایک چیز کا دقیق حساب کرے جس وقت میں اچھے کاموں اور عبادت میں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم کا اس توفیق دینے پر شکریہ ادا کرے اور ارادہ کر لے کہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس میں وقت گناہ اور معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو اپنے نفس کو سرزنش کرے اور نفس سے کہے کہ اے بدبخت اور شقى تو نے کیا کیا ہے؟ کیوں تو نے اپنے نامہ اعمال کو گناہ سے سیاہ کیا ہے؟ قیامت کے دن خدا کا کیا جواب دے گا؟ خدا کے آخرت میں دردناک عذاب سے کیا کرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتى اور موقع دیا تھا تا کہ آخرت کے لئے زاد راہ مہیا کرے تو اس نے اس کى عوض اپنے نامہ اعمال کوگناہ سے پر کر دیا ہے_ کیا یہ احتمال نہیں دیتا تھا کہ اس وقت تیرى موت آپہنچے؟ تو اس صورت میں کیا کرتا؟ اے بے حیا نفس _ کیوں تو نے خدا سے شرم نہیں کی؟

اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قیامت پر ایمان رکھنے کا ادعا کرتا تھا کیوں تو کردار میں ایسا نہیں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ کرے اور ارادہ کر لے کہ پھر اس طرح کے گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا اور کزرے ہوئے گناہوں کا تدارک کرے گا_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کو گناہوں اور عیوب پر سرزنش کرے تو وہ گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کر لے گا_[9]

اگر انسان محسوس کرے کہ نفس سرکش اور نافرمانى کر رہا ہے اور گناہ کے ترک کرنے اور توبہ کرنے پر حاضر نہیں ہو رہا تو پھر انسان کو بھى نفس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس پر سختى سے پیش آنا چاہئے اس صورت میں ایک مناسب کام کو وسیلہ بنائے مثلا اگر اس نے حرام مال کھایا ہے یا کسى دوسرى نافرمانى کو بجالایا ہے تو اس کے عوض کچھ مال خدا کى راہ میں دے دے یا ایک دن یا کئی دن روزہ رکھ لے_ تھوڑے دنوں کے لئے لذیز غذا یا ٹھنڈا، پانی، پینا، چھوڑدے، یا دوسرے لذائذ کے جسے نفس چاہتا ہے اس کے بجالانے سے ایک جائے یا تھوڑے سے وقت کے لئے سورج کى گرمى میں کھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ کے سامنے سستى اور کمزورى نہ دکھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائیگا اور انسان کو ہلاکت کى وادى میں جا پھینکے گا اور اگر تم اس کے سامنے سختى اور مقابلہ کے ساتھ پیش آئے تو وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائیگا اگر کسى وقت میں نہ کوئی اچھا کام انجام دیا ہو اور نہ کسى گناہ کا ارتکاب کیا ہو تو پھر بھى نفس کو سرزنش اور ملامت کرے اور اسے کہے کہ کس طرح تم نے عمر کے سرمایہ کو ضایع کیا ہے؟ تو اس وقت نیک عمل بجالا سکتا تھا اور آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کر سکتا تھا کیوں نہیں ایسا کیا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے کیوں ایسى گران قدر فرصت کو ہاتھ سے جانے دیا ہے_ اس دن جس دن پشیمانى اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگى پشیمان ہوگا_ اس طریقے سے پورے وقت جیسے ایک شریک دوسرے شریک سے کرتا ہے اپنے دن رات کے کاموں کو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سکے تو اپنے ان تمام کے نتائج کو کسى کاپى میں لکھ کے_ بہرحال نفس کے پاک و پاکیزہ بنانے کے لئے مراقبت اور حساب ایک بہت ضرورى اور فائدہ مند کام شمار ہوتا ہے جو شخص بھى سعادت کا طالب ہے اسے اس کو اہمیت دینى چاہئے گرچہ یہ کام ابتداء میں مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ارادہ اور پائیدارى کر لے تو یہ جلدى آسان اور سہل ہوجائیگا اور نفس امارہ کنٹرول اور زیر نظر ہوجائیگا_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں عقلمندوں کا عقلمند اور احمقوں کا حق نہ بتلاؤں؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہ(ص) _ فرمایئے آپ نے فرمایا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا حساب کرے اور مرنے کے بعد کے لئے نیک عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے کہ جو خواہشات نفس کى پیروى کرے اور دور دراز خواہشوں میں سرگرم ہے_ اس آدمى نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) _ کہ

 

انسان کس طرح اپنے نفس کا حساب کرے؟ آپ (ص) نے فرمایا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس کى طرف رجوع کرے اور اسے کہے اے نفس آج کا دن بھى چلا گیا اور یہ پھر لوٹ کے نہیں آئیگا خداوند عالم تجھ سے اس دن کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس دن کو کن چیزوں میں گذرا ہے اور کونسا عمل انجام دیا ہے؟ کیا اللہ کا ذکر اور اس کى یاد کى ہے؟ کیا کسى مومن بھائی کا حق ادا کیا ہے؟ کیا کسى مومن بھائی کا غم دور کیا ہے؟ کیا اس کى غیر حاضرى میں اس کے اہل و عیال کى سرپرستى کى ہے؟ کیا کسى مومن بھائی کى غیبت سے دفاع کیا ہے؟ کیا کسى مسلمان کى مدد کى ہے؟ آج کے دن کیا کیا ہے_ اس دن جو کچھ انجام دیا ہوا ایک ایک کو یاد کرے اگر وہ دیکھے کہ اس نے نیک کام انجام دیئے ہیں تو خداوند عالم کا اس نعمت اور توفیق پر شکریہ ادا کرے اور اگر دیکھے کہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور نافرمانى بجالایا ہے تو توبہ کرے اور ارادہ کرلے کہ اس کے بعد گناہوں کا ارتکاب نہیں کرے گا_ اور پیغمبر اور اس کى آل پر درود بھیج کر اپنے نفس کى کثافتوں کو اس سے دور کرے اور امیرالمومنین علیہ السلام کى ولایت اور بیعت کو اپنے نفس کے سامنے پیش کرے اور آپ کے دشمنوں پر لعنت بھیجے اگر اس نے ایسا کرلیا تو خدا اس سے کہے گا کہ '' میں تم سے قیامت کے دن حساب لینے سے سختى نہیں کرونگا کیونکہ تو میرے اولیاء کیساتھ محبت رکھتا تھا اور ان کے د شمنوں سے دشمنى رکھتا تھا_[10]

امام موسى کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے نفس کا ہر روز حساب نہیں کرتا اگر وہ اچھے کام انجام دے تو خداوند عالم سے زیادہ توفیق دینے کو طلب کرے اور اگر نافرمانى اور معصیت کا ارتکاب کیا ہو تو استعفا اور توبہ کرے_[11]

پیغمبر علیہ السلام نے ابوذر سے فرمایا کہ '' غقلمند انسان کو اپنا وقت تقسیم کرنا چاہیئے ایک وقت خداوند عالم کے ساتھ مناجات کرنے کے لئے مخصوص کرے_ اور ایک وقت اپنے نفس کے حساب لینے کے لئے مختص کرلے اور ایک وقت ان چیزوں میں غور کرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنایت کى ہیں مخصوص کردے_[12]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے اس کے کردار اور اعمال کے بارے میں حساب لیا کرو اس سے واجبات کے ادا کرنے کا مطالبہ کرو اور اس سے چاہو کہ اس دنیا فانى سے استفادہ کرے اور آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ بھیجے اور اس سفر کے لئے قبل اس کے کہ اس کے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_[13]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایاکہ '' انسان کے لئے کتنا ضرورى ہے کہ ایک وقت اپنے لئے معین کرلے جب کہ تمام کاموں سے فارغ ہوچکا ہو_ اس میں اپنے نفس کا حساب کرے اور سوچے کہ گذرے ہوئے دن اور رات میں کونسے اچھے اور فائدہ مند کام انجام دیئے ہیں اور کونسے برے نقصان دینے والوں کاموں کو بجالایا ہے_[14]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس سے جہاد کر اور اس سے ایک شریک کے مانند حساب کتاب لے اور ایک قرض خواہ کى طرح اس سے حقوق الہى کے ادا کرنے کا مطالبہ کرے کیونکہ سب سے زیادہ سعادتمند انسان وہ ہے کہ جو اپنے نفس کے حساب کے لئے آمادہ ہو_[15]

على علیہ السلام نے فرمایا کہ '' کہ جو شخص اپنے نفس کا حساب کرے تو وہ اپنے عیبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں کو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ کرتا ہے اور اپنے عیبوں کى اصلاح کرتا ہے_[16]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اس سے پہلے کہ قیامت کے دن تمہارا حساب لیا جائے تم اس دنیا میں اپنا حساب خود کرلو کیونکہ قیامت کے دن پچاس مقامات پر بندوں کا حساب لیا جائیگا اور ہر ایک مقام میں ہزار سال تک اس کا حساب لیا جاتا رہیگا_ آپ نے اس کے بعد یہ آیت پڑھى وہ دن کہ جس کى مقدار پچاس ہزار سال ہوگی_[17]

اس بات کى یاد دھانى بہت ضرورى ہے کہ انسان نفس کے حساب کے وقت خود  نفس پر اعتماد نہ کرے اور اس کى بابت خوش عقیدہ نہ ہو کیونکہ نفس بہت ہى مکار اور امارہ سو ہے_ سینکڑوں حیلے بہانے سے اچھے کام کو برا اور برے کو اچھا ظاہر کرتا ہے_ انسان کو اپنے بارے اپنى ذمہ دارى کو نہیں سوچنے دیتا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہو سکے_ گناہ کے ارتکاب اور عبادت کے ترک کرنے کى کوئی نہ کوئی توجیہ کرے گا_ گناہوں کو فراموشى میں ڈال دے گا اور معمولى بتلائے گا_ چھوٹى عبادت کو بہت بڑا ظاہر کرے گا اور انسان کو مغرور کردے گا_ موت اور قیامت کو بھلا دے گا اور دور دراز امیدوں کو قوى قرار دے گا_ حساب کرنے کو سخت اور عمل نہ کئے جانے والى چیز بلکہ غیر ضرورى ظاہر کردے گا اسى لئے انسان کو اپنے نفس کى بارے میں بدگمانى رکھتے ہوئے اس کا حساب کرنا چائے_ حساب کرنے میں بہت وقت کرنى چاہئے اور نفس اور شیطن کے تاویلات اور ہیرا پھیرى کى طرف کان نہیں دھرنے چائیں_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالى کى یاد کے لئے کچھ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ تعالى کے ذکر کو دنیا کے عوض قرار دے رکھا ہے لہذا ان کو کار و بار اللہ تعالى کے ذکر سے نہیں روکتا_ اپنى زندگى کو اللہ تعالى کے ذکر کے ساتھ گزارتے ہیں_ گناہوں کے بارے قرآن کى آیات اور احادیث غافل انسانوں کو سناتے ہیں اور عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خود بھى اس پر عمل کرتے ہیں_ منکرات سے روکتے ہیں اور خودبھى ان سے رکتے ہیں گویا کہ انہوں نے دنیا کو طے کرلیا ہے اور آخرت میں پہنچ چکے ہیں_ انہوں نے اس دنیا کے علاوہ اور دنیا کو دیکھ لیا ہے اور گویا برزخ کے لوگوں کے حالات جو غائب ہیں ان سے آگاہ ہوچکے ہیں_ قیامت اور اس کے بارے میں جو وعدے دیئے گئے ہیں گویا ان کے سامنے صحیح موجود ہوچکے ہیں_ دنیا والوں کے لئے غیبى پردے اس طرح ہٹا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایسى چیزوں کو دیکھ رہے ہوں کہ جن کو دنیا والے نہیں دیکھ رہے ہوتے اور ایسى چیزوں کو سن رہے ہیں کہ جنہیں دنیا والے نہیں سن رہے_ اگر تو ان کے مقامات عالیہ اور ان کى مجالس کو اپنى عقل کے سامنے مجسم کرے تو گویا وہ یوں نظر آئیں گے کہ انہوں نے اپنے روز کے اعمال نامہ کو کھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال کے حساب کرلینے سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے کاموں سے کہ جن کاانہیں حکم دیا گیا ہے اور ان کے بجالانے میں انہوں نے کوتاہى برتى ہے یا جن سے انہیں روکا گیا ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کریا ہے ان تمام کى ذمہ دارى اپنى گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے بجالانے اور اطاعت کرنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور زار زار گریہ و بکاء کرتے ہیں اور گریہ اور بکاء سے اللہ کى بارگاہ میں اپنى پشیمانى کا اظہار کرتے ہیں_ ان کو تم ہدایت کرنے ولا اور اندھیروں کے چراغ پاؤگے کہ جن کے ارد گرد ملا مکہ نے گھیرا ہوا ہے اور اللہ تعالى کى مہربانى ان پر نازل ہوچکى ہے_ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھول دیئےئے ہیں اور ان کے لئے محترم اور مکرم جگہ حاضر کى جاچکى ہے_[18]

 


[1]- قال على علیه السّلام: من لم یسس نفسه اضاعها- غرر الحکم/ ص 640.
[2]- قال على علیه السّلام: من اغترّ بنفسه سلّمته الى المعاطب- غرر الحکم/ ص 685.
[3]- قال على علیه السّلام: من کان له من نفسه یقظة کان علیه من اللّه حفظة- غرر الحکم/ ص 679.
[4]- قال على علیه السّلام: املکوا انفسکم بدوام جهادها- غرر الحکم/ ص 131.
[5]- عن الصادق علیه السّلام قال: اللیل اذا اقبل نادى مناد بصوت یسمعه الخلائق الّا الثقلین یا بن آدم! انّى خلق جدید، انّى على ما فىّ شهید فخذ منّى فانى لو طلعت الشمس لم ارجع الى الدنیا و لم تزوّد فىّ من حسنة و لم تستعتب فىّ من سیئة و کذالک یقول النهار اذا ادبر اللیل- وسائل/ ج 11 ص 380.
[6]- قال على علیه السّلام: ان الحازم من شغل نفسه بجهاد نفسه فاصلحها و حبسها عن اهویتها و لذاتها فملکها و ان العاقل بنفسه عن الدنیا و ما فیها و اهلها شغلا- غرر الحکم/ ص 237.
[7]- قال على علیه السّلام: من کان له من نفسه زاجر کان علیه من اللّه حافظ- غرر الحکم/ ص 698.
[8]- قال على علیه السّلام: الثقة بالنفس من اوثق فرص الشیطان- غرر الحکم/ ص 54.
[9]- قال على( ع): من وبّخ نفسه على العیوب ارتدعت عن کثرة الذنوب- غرر الحکم/ ص 696.
[10]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: الا انبئکم باکیس الکیّسین و احمق الحمقاء؟. قالوا: بلى یا رسول اللّه! قال: اکیس الکیّسین من حاسب نفسه و عمل لما بعد الموت. و احمق الحمقاء من اتّبع نفسه هواه و تمنّى على اللّه الامانىّ. فقال الرجل: یا رسول اللّه و کیف یحاسب الرجل نفسه؟
قال: اذا اصبح ثم امسى رجع الى نفسه و قال: یا نفس! انّ هذا یوم مضى علیک لا یعود الیک ابدا و اللّه سائلک عنه فیما افنیته، فما الذى عملت فیه؟ اذکرت اللّه ام حمدته؟ اقضیت حق اخ مؤمن؟
انفست عنه کربته؟ احفظته بظهر الغیب فى اهله و ولده؟ احفظته بعد الموت فى مخلفیه؟
اکففت عن غیبة اخ بفضل جاهک؟ اأعنت مسلما؟ ما الذى صنعت فیه؟ فیذکر ما کان منه فان ذکر انه جرى منه خیر حمد اللّه عزّ و جلّ و کبّره على توفیقه. و ان ذکر معصیة او تقصیرا استغفر اللّه و- عزم على ترک معاودته و محاذا لک عن نفسه بتجدید الصلاة على محمد و آله الطیّبین و عرض بیعة امیر المؤمنین على نفسه و قبولها و اعاد للّه لعن شائنیه و اعدائه و دافعیه عن حقوقه.
فاذا فعل ذالک قال اللّه: لست اناقشک فى شى‏ء من الذنوب مع موالاتک اولیائى و معاداتک اعدائى- بحار الانوار/ ج 70 ص 69.
[11]- عن الکاظم علیه السّلام قال: لیس منّا من لم یحاسب نفسه فى کلّ یوم فان عمل حسنا استزاد اللّه و ان عمل سیئا استغفر اللّه و تاب الیه- کافى/ ج 1 ص 453.
[12]- فى وصیّة ابى ذر قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: على العاقل ان یکون له ساعات: ساعة یناجى فیها ربّه و ساعة یحاسب فیها نفسه و ساعة یتفکر فیما صنع اللّه عزّ و جلّ الیه- بحار/ ج 70 ص 64.
[13]- قال على علیه السّلام: حاسبوا انفسکم باعمالها و طالبوها باداء المفروض علیها و الاخذ من فنائها لبقائها و تزودوا و تأهبوا قبل ان تبعثوا- غرر الحکم/ ص 385.
[14]- قال على علیه السّلام: ما احق الانسان ان یکون له ساعة لا یشغله عنها شاغل یحاسب فیها نفسه فینظر فیما اکتسب بها و علیها فى لیلها و نهارها- غرر الحکم/ ص 753.
[15]- قال على علیه السّلام: جاهد نفسک و حاسبها محاسبة الشریک شریکه و طالبها بحقوق اللّه مطالبة الخصم خصمه فان اسعد الناس من انتدب لمحاسبة نفسه- غرر الحکم/ ص 371.
[16]- قال على علیه السّلام: من حاسب نفسه وقف على عیوبه و احاط بذنوبه فاستقال الذنوب و اصلح العیوب غرر الحکم/ ص 696.
[17]- عن ابیعبد اللّه( ص) قال: فحاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا فان فى القیامة خمسین موقفا کل موقف مقام الف سنة ثم تلاهذه الآیة فِی یَوْمٍ کانَ مِقْدارُهُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ- بحار/ ج 70 ص 64.
[18]- قال على علیه السّلام: و انّ للذکر لاهلا اخذوه من الدنیا بدلا فلم تشغلهم تجارة و لا بیع عنه یقطعون به ایام الحیاة و یهتفون بالزواجر عن محارم اللّه فى اسماع الغافلین، و یأمرون به، و ینهون عن المنکر و یتناهون عنه. فکانّما قطعوا الدنیا الى الآخرة و هم فیها، فشاهدوا ما وراء ذالک فکانّما اطلعوا غیوب اهل البرزخ فى طول الاقامة فیه و حقّقت القیامة علیهم عداتها فکشفوا غطاء ذالک لاهل الدنیا حتى کانّهم یرون ما لا یرى الناس و یسمعون ما لا یسمعون فلو مثّلتهم لعقلک فى مقاومهم المحمودة و مجالسهم المشهودة و قد نشروا دواوین اعمالهم و فرغوا-- لمحاسبة انفسهم على کل صغیره و کبیرة امروا بها فقصّروا عنها و نهوا عنها ففرّطوا فیها و حملوا ثقل اوزارهم ظهورهم فضعفوا عن الاستقلال بها فنشجوا نشیجا و تجاوبوا نحیبا یعجّون الى ربّهم من مقام ندم و اعتراف، لرأیت اعلام هدى و مصابیح دجى، قد حفّت بهم الملائکة و تنزلت علیهم السکینة و فتحت لهم ابواب السماء و اعدّت لهم مقاعد الکرامات- نهج البلاغه/ کلام 222.