پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

توبہ يا نفس كو پاك و صاف كرنا

توبہ یا نفس کو پاک و صاف کرنا

نفس کو پاک اور صاف کرنے کا بہتریں راستہ گناہوں کا نہ کرنا اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے اگر کوئی شخص گناہوں سے بالکل آلودہ نہ ہو اور نفس کى ذاتى پاکى اور صفا پر باقى رہے تو یہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کر لے_ جس شخص نے گناہ کا مزہ نہیں چکھا اور اس کى عادت نہیں ڈالى یہ اس شخص کى نسبت سے جو گناہوں میں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ گناہوں کو ترک کردے بہت آسانى سے اور بہتر طریقے سے گناہوں سے چشم پوشى کر سکتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''گناہ کا ترک کردینا توبہ کے طلب کرنے سے زیادہ آسان ہے_[1]

لیکن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائیں انہیں بھى اللہ تعالى کى رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالى کى طرف رجوع کرنے کا راستہ کسى وقت بھى بند نہیں ہوتا بلکہ مہربان اللہ تعالى نے گناہگاروں کے لئے توبہ کا راسنہ ہمیشہ لے لئے کھلا رکھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے کہ وہ اللہ تعالى کى طرف پلٹ آئیں اور توبہ کے پانى سے نفس کو گناہوں کى گندگى اور پلیدى سے دھوڈالیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' میرے ان بندوں سے کہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے کہہ دو کہ وہ اللہ تعالى کى رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا تمام گناہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_[2]

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' جب مومن تیرے پاس آئیں تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانى لازم قرار دے دى ہے_ تم میں سے جس نے جہالت کى وجہ سے برے کام انجام دیئے اور توبہ کرلیں اور خدا کى طرف پلٹ آئیں اور اصلاح کرلیں تو یقینا خدا بخشنے والا مہربان ہے_ [3]


توبہ کى ضرورت

گمان نہیں کیا جا سکتا کہ گناہگاروں کے لئے توبہ کرنے سے کوئی اور چیز لازمى اور ضرورى ہو جو شخص خدا پیغمبر قیامت ثواب عقاب حساب کتاب بہشت دوزخ پر ایمان رکھتا ہو وہ توبہ کے ضرورى اور فورى ہونے میں شک و تردید نہیں کرسکتا_

ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہیں اور اپنے گناہوں کو جانتے ہیں تو پھر توبہ کرنے سے کیوں غفلت کریں؟ کیا ہم قیامت اور حساب اور کتاب اور دوزخ کے عذاب کا یقین نہیں رکھتے؟ کیا ہم اللہ کہ اس وعدے میں کہ گناہگاروں کو جہنم کى سزا دونگا شک اور تردید رکھتے ہیں؟ انسان کا نفس گناہ کے ذریعے تاریک اور سیاہ اور پلید ہوجاتا ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ انسان کى شکل حیوان کى شکل میں تبدیل ہوجائے پس کس طرح جرت رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نفس کے ساتھ خدا کے حضور جائیں گے اور بہشت میں خدا کے اولیا' کے ساتھ بیٹھیں گے؟ ہم گناہوں کے ارتکاب کرنے کى وجہ سے اللہ تعالى کے صراط مستقیم کو چھوڑ چکے ہیں اور حیوانیت کى وادى میں گر چکے ہیں_ خدا سے دور ہوگئے ہیں اور شیطن کے نزدیک ہوچکے ہیں اور پھر بھى توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میں سعادتمند اور نجات یافتہ ہونگے اور اللہ کى بہشت میں اللہ تعالى کى نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں گے یہ کتنى لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنى سعادت کى فکر رکھتا ہے اس کے لئے سوائے توبہ اور خدا کى طرف پلٹ جانے کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے_

یہ بھى اللہ تعالى کى ایک بہت بڑى مہربانى اور لطف اور کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہوا ہے زہر کھلایا ہوا انسان جو اپنى صحت کے بارے میں فکر مند ہے کسى بھى وقت زہر کے نکالے جانے اور اس کے علاج میں تاخیر اور تردید کو جائز قرا ر نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے دیر کى تو وہ ہلاک ہوجائیگا جب کہ انسان کے لئے گناہ ہر زہر سے زیادہ ہلاک کرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان کى دنیاوى چند روزہ زندگى کو خطرے میں ڈالتى ہے تو گناہ انسان کو ہمیشہ کى ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور انسان کى آخرت کى سعادت کو ختم کر دیتا ہے اگر زہر انسان کو دنیا سے جدائی دیتى ہے تو گناہ انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے_ اور اللہ تعالى سے قرب اور لقاء کے فیض سے محروم کر دیتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ایک چیز سے توبہ اور انابہ زیادہ ضرورى اور فورى ہے کیونکہ ہمارى معنوى سعادت اور زندگى اس سے وابستہ ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالى کى طرف توبہ کرو_ شاید نجات حاصل کر لو_[4]

خدا ایک اور مقام میں فرماتا ہے ''مومنو خدا کى طرف توبہ نصوح کرو شاید خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے اور تمہیں بہشت میں داخل کردے کہ جس کے درختوں کے نیچے نہریں جارى ہیں_[5]

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ '' ہر درد کے لئے دوا ہوتى ہے_ گناہوں کے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_[6]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کے دل یعنى روح میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سفید نقطہ میں سیاہى وجود میں آجاتى ہے اگر اس نے توبہ کر لى تو وہ سیاہى مٹ جاتى ہے اور اگر گناہ کو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سیاہ نقطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سارے سفید نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نیکى کى طرف نہیں پلٹتا یہى مراد اللہ تعالى کے اس فرمان میں کلا بل ران عن قلوبہم بما کانوا یکسبون_[7] یعنى ان کے دلوں پر اس کى وجہ سے کہ انہوں نے انجام دیا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _ '' توبہ کو دیر میں کرنا ایک قسم کا غرور اور دھوکہ ہے اور توبہ میں تاخیر کرنا ایک طرح کى پریشانى اور حیرت ہوتى ہے_ خدا کے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاکت ہے_ گناہ پر اصرار کرنا اللہ تعالى کے عذاب اور سزا سے مامون ہونے کا احساس ہے جب کہ اللہ تعالى کے عذاب سے مامون ہونے کا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہى کرتے ہیں_[8]

بہتر ہے کہ ہم ذرا اپنے آپ میں فکر کریں گذرے ہوئے گناہوں کو یاد کریں اور اپنى عاقبت کے بارے میں خوب سوچیں اور اپنے سامنے حساب و کتاب کے موقف میزان اعمال خدا قہار کے سامنے شرمندگى فرشتوں اور مخلوق کے سامنے رسوائی قیامت کى سختى دوزخ کے عذاب اللہ تعالى کى لقاء سے محرومیت کو مجسم کریں اور ایک اندرونى انقلاب کے ذریعے اللہ تعالى کى طرف لوٹ آئیں اور توبہ کے زندگى دینے والے پانى سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں کو دھوئیں اور نفس کى پلیدى اور گندگى کو دور کریں اور حتمى ارادہ کر لیں کہ گناہوں سے کنارہ کشى کریں گے_ اور آخرت کے سفر اور ذات الہى کى ملاقات کے لئے مہیا ہوجائیں گے لیکن اتنى سادگى سے شیطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہیں ہے؟ کیا وہ توبہ اور خدا کى طرف لوٹ جانے کى اجازت دے دیگا؟

وہى شیطن جو ہمیں گناہوں کے ارتکاب کرنے پر ابھارتا ہے وہ ہمیں توبہ کرنے سے بھى مانھ ہوگا گناہوں کو معمولى اور کمتر بتلائے گا وہ گناہوں کو ہمارے ذہن سے ایسے نکل دیتا ہے کہ ہم ان تمام کو فراموش کردیتے ہیں_ مرنے اور حساب اور کتاب اور سزاى فکر کو ہمارے مغز سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ہمیں دنیا میں مشغول کردیتا ہے کہ کبھى توبہ نور استغفار کى فکر ہى نہیں کرتے اور اچانک موت سرپر آجائے گى اور پلید اور کثیف نفس کے ساتھ اس دنیا سے چلے جائیں گے_

 

توبہ کا قبول ہونا

اگر درست توبہ کى جائے تو وہ یقینا حق تعالى کے ہاں قبول واقع ہوتى ہے اور یہ بھى اللہ تعالى کے لطف و کرم میں سے ایک لطف اور مہربانى ہے_ خداوند عالم نے ہمیں دوزخ اور جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا_ بلکہ بہشت اور سعادت کے لئے خلق فرمایا ہے پیغمبروں کو بھیجا ہے تا کہ لوگوں کو ہدایت اور سعادت کے راستے کى رہنمائی کریں اور گناہگار بندوں کو توبہ اور اللہ تعالى کى طرف رجوع کرنے کى دعوت دیں توبہ اور استغفار کا دروازہ تمام بندوں کے لئے کھلا رکھا ہوا ہ ے پیغمبر ہمیشہ ان کو اس کى طرف دعوت دیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اور اولیاء خدا ہمیشہ لوگوں کو توبہ کى طرف بلاتے ہیں_ خداوند عالم نے بہت سى آیات میں گناہگار بندوں کو اپنى طرف بلایا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کى توبہ کو قبول کرے گا اور اللہ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سینکٹروں احادیث میں لوگوں کو خدا کى طرف پلٹ آنے اور توبہ کرنے کى طرف بلایا ہے اور انہیں امید دلائی ہے_ جیسے_

اللہ تعالى فرماتا ہے کہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کى توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس سے آگاہ ہے_[9]

اللہ تعالى فرماتا ہے کہ '' میں بہت زیادہ انہیں بخشنے والا ہوں جو توبہ کریں اور ایمان لے آئیں اور نیک اعمال بجالائیں اور ہدایت پالیں_[10]

اگر خدا کو یاد کریں اور گناہوں سے توبہ کریں_ خدا کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے کاموں پر اصرار نہیں کرتے اور گناہوں کى برائی سے آگاہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال کى جزا بخشا جانا اور ایسے باغات ہیں کہ جن کے درمیان نہریں جارى ہیں اور ہمیشہ کے لئے وہاں زندگى کریں گے اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسے جزا کتنى ہى اچھى ہے_[11]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے کہ جسنے کوئی گناہ ہى نہ کیا ہو اور جو گناہوں کو بجالانے پر اصرار کرتا ہے اور زبان پر استغفار کے کلمات جارى کرتا ہے یہ مسخرہ کرنے والا ہوتا ہے_[12] اس طرح کى آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں لہذا توبہ کے قبول کئے جائے میں کوئی شک اور تردید نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداوند عالم توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_ قرآن مجید میں فرماتا ہے '' یقینا خدا توبہ کرنے والے اور اپنے آپکو پاک کرنے والے کو دوست رکھتا ہے_[13]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالى کا اس بندہ سے جو توبہ کرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زیادہ ہوتا ہے کہ جو تاریک رات میں اپنے سوارى کے حیوان اور زاد راہ اور توشہ کو گم کرنے کے بعد پیدا کر لے_[14]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب کوئی بندہ خالص توبہ اور ہمیشہ کے لئے کرے تو خداوند عالم اسے دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالى اس کے گناہوں کو چھپا دیتا ہے_ راوى نے عرض کى _ اے فرزند رسول صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالى کس طرح گناہوں کو چھپا دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ دو فرشتے جو اس کے اعمال کو لکھتے ہیں اس کے گناہ کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالى اس کے اعضاء اور جوارح زمین کے نقاط کو حکم دیتا ہے کہ توبہ کرنے والے بندے کے گناہوں کو چھپا دیں ایسا شخص خدا کے سامنے جائیگا جب کہ کوئی شخص اور کوئی چیز اس کے گناہوں کى گواہ نہ ہوگی_[15]

 

توبہ کیا ہے؟

گذرے ہوئے اعمال اور کردار پر ندامت اور پشیمانى کا نام توبہ ہے اور ایسے اس شخص کو توبہ کرنے والا کہا جا سکتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ پشیمان اور ندامت توبہ ہے_[16]

یہ صحیح اور درست ہے کہ خداوند عالم توبہ کو قبول کرتا اور گناہوں کو بخش دیتا ہے لیکن صرف زبان سے استغفراللہ کا لفظ کہہ دینا یا صرف پشیمانى کا اظہار کر دینا یا گریہ کر لینا دلیل نہیں ہے کہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ کر چکا ہے بلکہ تین علامتوں کے ہونے سے حقیقى اور واقعى توبہ جانى جاتى ہے_

پہلے تو تہہ دل سے دل میں گذرے گناہوں سے بیزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس میں غمگین اور پشیمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمى ارادہ رکھتا ہو کہ پھر آئندہ گناہوں کو بجا نہیں لائے گا_

تیسرے اگر گناہ کے نتیجے میں ایسے کام انجام دیئے ہوں کہ جن کا جبران اور تدارک کیا جا سکتا ہے تو یہ حتمى ارادہ کرے کہ اس کا تدارک اور جبران کرے گا اگر اس کى گردن پر لوگوں کا حق ہو اگر کسى کا مال غضب کیا ہے یا چورى کى ہے یا تلف کر دیا ہے تو پہلى فرصت میں اس کے ادا کرنے کا حتمى ارادہ کرے اور اگر اس کے ادا کرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھى ہو سکے صاحب حق کو راضى کرے اور اگر کسى کى غیبت اور بدگوئی کى ہے تو اس سے حلیت اور معافى طلب کرے اور اگر کسى پر تجاوز اور ظلم و ستم کیا ہے تو اس مظلوم کو راضى کرے اور اگر مال کے حق زکواة خمس و غیرہ کو نہ دیا و تو اسے ادا کرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان کى قضا بجالائے اس طرح کرنے والے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہوگیا اور اس کى توبہ قبول ہوجائیگی_ لیکن جو لوگ توبہ اور استغفار کے کلمات اور الفاظ تو زبان پر جارى کرتے ہیں لیکن دل میں گناہ سے پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوتے اور آئندہ گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ بھى نہیں رکھے یا ان گناہوں کو کہ جن کا تدارک اور تلافى کى جانى ہوتى ہے ان کى تلافى نہیں کرتے اس طرح کے انسانوں نے توبہ نہیں کى اور نہ ہى انہیں اپنى توبہ کے قبول ہوجانے کى امید رکھنى چاہئے گرچہ وہ دعا کى مجالس او رمحافل میں شریک ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت کیوجہ سے متاثر ہو کر آہ و نالہ گریہ و بکاء بھى کر لیتے ہوں_

ایک شخص نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے استغفار کے کلمات زبان پر جارى کئے تو آنحضرت نے فرمایا '' تیرى ماں تیرى عزاء میں بیٹھے کیا جانتے ہو کہ استغفار او توبہ کیا ہے؟ توبہ کرنا بلند لوگوں کا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چیزوں کا نام ہے_ 1_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشیمانى ہونا_ 2_ ہمیشہ کے لئے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا_3_ لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا کہ جب تو خدا کے سامنے جائے تو تیرى گردن پر لوگوں کا کوئی حق نہ ہو_ 4_ پورى طرح سے متوجہ ہو کہ جس واجب کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے_ 5_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناک ہو کہ وہ گوشت جو حرام کے کھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تیرى چمڑى تیرى ہڈیوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نکل آئے گا_ 6_ اپنے نفس کو اطاعت کرنے کى سختى اور مشقت میں ڈالے جیسے پہلے اسے نافرمانى کى لذت اور شیرینى سے لطف اندوز کیا تھا ان کاموں کے بعد تو یہ کہے کہ استغفر اللہ[17] 

تو گویا یہ پھر توبہ حقیق ہے_ گناہ شیطن اتنا مکار اور فریبى ہے کہ کبھى انسان کو توبہ کے بارے میں بھى دھوکا دے دیتا ہے_ ممکن ہے کہ کسى گنہگار نے وعظ و نصیحت یا دعا کى مجلس میں شرکت کى اور مجلس یا دعا سے متاثر ہوا اور اس کے آنسو بہنے لگے یا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شیطن کہتا ہے کہ سبحان اللہ کیا کہنا تم میں کیسى حالت پیدا ہوئی_ بس یہى تو نے توبہ کرلى اور تو گناہوں سے پاک ہوگیا حالانکہ نہ اس کا دل گناہوں پر پشیمان ہوا ہے اور نہ اس کا آئندہ کے لئے گناہوں کے ترک کردینے کا ارادہ ہے اور نہ ہى اس نے ارادہ کیا ہے کہ لوگوں اور خدا کے حقوق کو ادا کرے گا اس طرح کا تحت تاثیر ہوجانا توبہ نہیں ہوا کرتى اور نہ ہى نفس کے پاک ہوجانے اور آخرت کى سعادت کا سبب بنتا ہے اس طرح کا کا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہى خدا کى طرف پلٹا ہے_


جن چیزوں سے توبہ کى جانى چاہئے

گناہ کیا ہے اور کس گناہ سے توبہ کرنى چاہئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالى کى طرف جانے اور سیر و سلوک سے مانع ہو اور دنیا سے علاقمند کر دے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور نفس

کو اس سے پاک کرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہیں_ 1_ اخلاقى گناہ_ 2_ عملى گناہ_


1 _ اخلاقى گناہ

برے اخلاق اور صفات نفس کو پلید اور کثیف کر دیتے ہیں اور انسانیت کے صراط مستقیم کے راستے پر چلنے اور قرب الہى تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں_ برى صفات اگر نفس میں رسوخ کر لیں اور بطور عادت اور ملکہ کے بن جائیں تو ذات کے اندر کو تبدیل اور تغیر کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کے کس درج پر رہے اسے بھى متاثر کردیتے ہیں_ اخلاقى گناہوں کو اس لحاظ سے کہ اخلاقى گناہ ہیں معمولى اور چھوٹا اور غیر اہم شمار نہیں کرنا چاہئے اور ان سے توبہ کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ نفس کو ان سے پاک کرنا ایک ضرورى اور زندگى ساز کام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ریائ، نفاق، غضب، تکبر، خودبینی، خودپسندی، ظلم، مکر و فریب و غیبت، تہمت نگانا، چغلخوری، عیب نکالنا، وعدہ خلافی، جھوٹ حب دنیا حرص اور لالچ، بخیل ہونا حقوق والدین ادا نہ کرنا، قطع رحمی_ کفر ان نعمت ناشکری، اسراف، حسد، بدزبانى گالیاں دینا اور اس طرح کى دوسرى برى صفات اور عادات سینکٹروں روایات اور آیات ان کى مذمت اور ان سے رکنے اور ان کے آثار سے علاج کرنے اور ان کى دنیاوى اور اخرى سزا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ اخلاقى کتابوں میں ان کى تشریح اور ان کے بارے میں بحث کى گئی ہے_ یہاں پر ان کے بارے میں بحث نہیں کى جا سکتی_ اخلاقى کتابوں اور احادیث میں ان کے بارے میں رجوع کیا جا سکتا ہے_


2_ عملى گناہ

عملى گناہوں میں سے ایک چورى کرنا_ کسى کو قتل کرنا_ زناکاری، لواطت، لوگوں کا مال غصب کرنا، معاملات میں تقلب کرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_ امانت میں خیانت کرنا، شراب اور نشہ آور چیز کا پینا، مردار گوشت کھانا، خنزیر اور دوسرے حرام گوشت کھانا، قمار بازی، جھوٹى گواہى دینا، بے گناہوں لوگوں پر زنا کى تہمت لگانا، واجب نمازوں کو ترک کرنا، واجب روزے نہ رکھنا، حج نہ کرنا، امر بہ معروف اور نہى منکر کو ترک کرنا، نجس غذا کھانا، اور دوسرے حرام کام جو مفصل کتابوں میں موجود ہیں کہ جن کى تشریح اور وضاحت یہاں ممکن نہیں ہے_ یہ تو مشہور گناہ ہیں کہ جن سے انسان کو اجتناب کرنا چاہئے اور اگر بجالایا ہو تو ان سے توبہ کرے اور اللہ کى طرف رجوع کرے لیکن کچھ گناہ ایسے بھى ہیں جو مشہور نہیں ہیں اور انہیں گناہوں کے طور پر نہیں بتلایا گیا لیکن وہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولیاء خدا کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں جیسے مستحبات کا ترک کر دینا یا مکروہات کا بجالانا بلکہ گناہ کے تصور کو او رذات الہى سے کسى غیر کى طرف توجہہ کرنے کو اور شیطانى وسوسوں کو جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتے ہیں_ یہ تمام اولیاء خدا اور اس کى صفات اور افعال کى پورى اور کامل معرفت نہ رکھنے کو جو ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالى کے خاص منتخب بندوں کے لئے گناہ شمار ہوتے ہیں اور ان سے وہ توبہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس سے بالا تر ذات الہى اور اس کى صفات اور افعال کى پورى اور کامل معرفت نہ رکھنے کو ج و ہر ایک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اللہ تعالى اور اس طرح کے نقص کے احساس سے ان کے جسم پر لرزہ طارى ہوجاتا تھا اور گریہ نالہ و زارى سے خدا کى طرف رجوع کرتے تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے_ پیغمبروں اور ائمہ اطہار کے توبہ کرنے کو اسى معنى میں لیا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسو ل خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتے تھے جبکہ آپ پر کوئی گناہ بھى نہیں تھا_[18] رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ '' کبھى میرے دل پر تاریکى عارض ہوتى تھى تو اس کے لئے میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کیا کرتا تھا_[19]

 


[1]- قال على علیه السّلام: ترک الذنب اهون من طلب التوبه- بحار/ ج 73 ص 364.
[2]- قُلْ یا عِبادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ- زمر/ 53.
[3]- وَ إِذا جاءَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیاتِنا فَقُلْ سَلامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلى‏ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوءاً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تابَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ- انعام/ 54.
[4]- وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِیعاً أَیُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ- نور/ 31.
[5]- یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسى‏ رَبُّکُمْ أَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ- تحریم/ 8.
[6]- قال رسول اللّه( ص): لکل داء دواء و دواء الذنوب الاستغفار- وسائل/ ج 11 ص 354.
[7]- قال ابو جعفر( ع): ما من عبد الّا و فى قلبه نکتة بیضاء فاذا اذنب خرج فى النکتة نکتة سوداء، فان تاب ذهب تلک السواد و ان تمادى فى الذنوب زاد ذالک السواد حتى یغطّى الیباض فاذا غطّى البیاض لم یرجع صاحبه الى خیر ابدا و هو قول اللّه: کلّا بل ران على قلوبهم ما کانوا یکسبون- بحار/ ج 73 ص 332.
[8]- قال الصادق علیه السّلام: تأخیر التوبة اغترار، و طول التسویف حیرة و الاعتلال على اللّه هلکة و الاصرار على الذنب امن لمکر اللّه و لا یأمن مکر اللّه الّا القوم الخاسرون- بحار/ ج 73 ص 365.
[9]- وَ هُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ وَ یَعْفُوا عَنِ السَّیِّئاتِ وَ یَعْلَمُ ما تَفْعَلُونَ- شورى/ 25.
[10]- وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى‏- طه/ 82.
[11]- وَ الَّذِینَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَ مَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَ لَمْ یُصِرُّوا عَلى‏ ما فَعَلُوا وَ هُمْ یَعْلَمُونَ. أُولئِکَ جَزاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِینَ فِیها وَ نِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِینَ- آل عمران/ 135.
[12]- قال ابو جعفر علیه السّلام: التائب من الذنب کمن لا ذنب له و المقیم على الذنب و هو مستغفر منه کالمستهزء- کافى/ ج 2 ص 435.
[13]- إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِینَ- بقره/ 222.
[14]- قال ابو جعفر علیه السّلام: انّ اللّه اشدّ فرحا بتوبة عبده من رجل اضلّ راحلته و زاده فى لیلة ظلماء فوجدها فاللّه اشدّ فرحا بتوبة عبده من ذلک الرجل براحلته حین وجدها- کافى/ ج 2 ص 436.
[15]- قال ابو عبد اللّه( ع): اذا تاب العبد توبة نصوحا احبّه اللّه فستر علیه، فقلت و کیف یستر علیه؟ قال ینسى ملکیه ما کانا یکتبان علیه و یوحى اللّه الى جوارحه و الى بقاع الارض ان اکتمى علیه ذنوبه، فیلقى اللّه عزّ و جلّ حین یلقاه و لیس شى‏ء یشهد علیه بشى‏ء من الذنوب- کافى/ ج 2 ص 436.
[16]- حقائق/ ص 286.
[17]- عن امیر المؤمنین علیه السّلام: انّ قائلا قال بحضرته: استغفر اللّه، فقال: ثکلتک امک اتدرى ما الاستغفار؟ الاستغفار درجة العلّیین و هو اسم واقع على ستة معان اولها الندم على ما مضى و الثانى العزم على ترک العود الیه ابدا و الثالث ان تؤدى الى المخلوقین حقوقهم حتى تلقى اللّه املس لیس علیک تبعة. و الرابع ان تعمد الى کل فریضة علیک ضیّعتها فتؤدى حقها و الخامس ان تعمد الى اللحم الذى نبت على السحت فتذیبه بالاحزان حتى یلصق الجلد بالعظم و ینشأ بینهما لحم جدید و السادس ان تذیق الجسم الم الطاعة کما اذقته حلاوة المعصیة، فعند ذالک تقول: استغفر اللّه- وسائل/ ج 11 ص 361.
[18]- قال الصادق علیه السّلام: ان رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله کان یتوب الى اللّه فى کل یوم سبعین مرة من غیر ذنب- کافى/ ج 2 ص 450.
[19]- قال النبى( ص): انّه لیغان على قلبى حتى استغفر اللّه فى الیوم و اللیلة سبعین مرة- محجة/ ج 7 ص 17.