پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

وہ كام جو نفس كے پاك كرنے ميں

وہ کام جو نفس کے پاک کرنے میں

مدد دیتے ہیں


1_ فکر کرنا_

نفس کے پاک کرنیکا ایک اہم مانع غفلت ہوا کرتى ہے اگر ہم دن رات دنیا کى زندگى میں غرق رہیں اور موت کى یاد سے غافل رہیں اور ایک گھڑى بھى مرنے کے بعد کے بارے میں سوچنے پر حاضر نہ ہوں اور اگر کبھى مرنے کى فکر آئی بھى تو اسے فوراًء بھلادیں ہیں اور اگر برے اخلاف کے نتائج سے غافل ہیں اور اگر گناہوں کى اخروى سزا اور عذاب کا فکر نہیں کرتے خلاصہ خدا اور آخرت پر ایمان ہمارے دل کى گہرائیوں میں راسخ نہیں ہوا اور خدا صرف ایک ذہنى مفہوم سے آگے نہیں بڑھا تو پھر ایسى غفلت کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح اپنے نفس کو پاک کرنے کا عزم بالجزم کرسکتے ہیں؟ کس طرح نفس کو اس کى خواہشات پر کنٹرول کرسکتے ہیں؟ کیا اس سادگى سے نفس امارہ کے ساتھ جہاد کیا جاسکتا ہے؟ غفلت خود ایک نفس کى بڑى بیماریوں میں سے ایک بیمارى ہے اور یہ دوسرى بیماریوں کے لئے جڑ واقع ہوتى ہے_ اس بیمارى اور درد کا علاج صرف فکر کرنا عاقبت اندیشى اور ایمان کى قوت کو مضبوط اور قوى کرنا ہے_ انسان کے لئے ضرورى ہے کہ ہمیشہ اپنے نفس کا محافظ اور مراتب رہے_ کسى وقت بھى اسے فراموش نہ کرے اور نفسانى بیماریوں کے بدانجام اور گناہوں کى سزا اور دوزخ کى سخت عذاب کو سوچنا رہے_ قیامت کے حساب اور کتاب کو ہمیشہ نگاہ میں رکھے اس صورت میں نفس کو پاک کرنے کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے اور حتمى فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنے نفس کو برے اخلاق اور گناہوں سے پاک کرسکتا ہے_

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے دل کو دائمى فکر سے آباد کرے گا اس کے ظاہرى اور باطنى کام اچھے ہونگے_ [1]


2_ تادیب و مجازات_

اگر ہم نفس کے پاک کرنے پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہم تنبیہہ اور ادب دیئےانے اور جزائے اخروى سے استفادہ کرسکتے ہیں_ ابتداء میں ہم نفس کو خطاب کرتے ہوئے تہدید اور ڈرائیں کہ میں نے حتمى ارادہ کرلیا ہے کہ گناہوں کو ترک کردوں اور اگر اے نفس تو میرى اس میں مدد نہیں کرے گا اور گناہ کا ارتکاب کرے گا تو میں فلاں سزا تیرے بارے میں جارى کردونگا مثلاً اگر تو نے کسى کى غیبت کى تو میں ایک دن روزہ رکھ لوں گا یا ایک ہفتے تک صرف لازمى گفتگو کروں گا یا اتنا روپیہ صدقے کے طور پر دے دونگا یا ایک دن پانى نہیں پیونگا یا صرف ایک وقت غذا سے تجھے محروم کردونگا یا کئی گھنٹے گرمیوں میں دھوپ میں بیٹھا رہونگا تا کہ تو جہنم کى حرارت کو نہ بھلاسکے یا اس طرح اور سزائیں اپنے نفس کو سنائیں_

اس کے بعد اپنے نفس پر اچھى طرح نگاہ رکھیں کہ وہ بعد میں غیبت نہ کرنے لگے اور اگر اس سے غیبت صادر ہوجائے تو حتمى ارادے سے بغیر کسى نرمى اور سستى کے اس کے مقابلے میں اڑجائیں اور وہ سزا جاسکا نفس سے وعدہ کیا ہوا تھا اس پر جارى کردیں جب نفس امارہ کو احساس ہوجائیگا کہ ہم گناہ کے نہ کرنے پر مصر ہیں اور بغیر کسى نرمى کے اسے سزادیں گے تو پھر وہ ہمارى شرعى چاہت کوماننے لگے جائے گا_

اگر کافى مدت تک بغیر چشم پوشى کے اس طریقے پر عمل کرتے رہیں تو پھر ہم شیطن کے راستے کو روک سکیں گے اور نفس امارہ پر پورى طرح سے مسلط ہوجائیں گے لیکن اس کى عمدہ شرط یہ ہے کہ ہم حتمى ارادہ کرلیں اور بغیر کسى معمولى نرمى کے سرکش نفس کو سزا دے دیں_ بہت تعجب کا مقام ہے کہ ہم دنیاوى امور میں معمولى غلطى کرنے والے کو سزا اور تنبیہہ کرتے ہیں لیکن اپنے نفس کے پاک کرنے میں اس روش پر عمل نہیں کرتے حالانکہ اخروى سعادت اور نجات نفس کے پاک ہونے پر موقوف ہوتى ہے_

اللہ تعالى کے بہت سے بندوں نے اپنے نفس کے پاک کرنے اور بہتر بنانے اور نفس پر قابو پانے میں اس طریقے پر عمل کرنے کى توفیق حاصل کى ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کو اپنا قیدى بنانے اور اس کى عادات کو ختم کرنے میں بھوک بہت ہى زیادہ مددگار ہوتى ہے_[2]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جو شخص اپنے نفس کو ریاضت اور تکلیف میں زیادہ رکھے گا وہ اس سے فائدہ اٹھائیگا_[3]

ایک صحابى فرماتے ہیں کہ سخت گرمى کے زمانے میں رسول خدا (ص) ایک دن ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اسى دوران ایک آدمى ایا اس نے اپنا لباس اتارا اور گرم ریت پر لیٹ گیا اور ریت پر لوٹنا پوٹنا شروع کردیا کبھى اپنى پیٹھ کو گرم ریت پر رکھ کر گرم کرتا اور کبھى اپنے پیٹ اور کبھى اپنے چہرے کو اور کہتا اے نفس امارہ اس ریت کى گرمایش کو چکھ اور جان لے کہ دوزخ کى آگ کى گرمى اس سے زیادہ اور سخت تر ہے_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کاخوب نظارہ کر رہے تھے_ جب اس آدمى نے اپنا لباس پہنا اور چاہا کہ وہاں سے چلا جائے تو رسول خدا(ص) نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ دیا_ اس آدمى نے آنحضرت صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم بجا لایا اور آپ(ص) کى خدمت میں حاضر ہوا آپ(ص) نے اس سے فرمایا کہ میں نے تجھے ایسا کام کرتے دیکھا ہے کہ اسے دوسرے لوگ نہیں کرتے تمہارى اس کام سے کیا غرض تھی؟ اس نے جواب میں عرض کى یا رسول اللہ (ص) مجھے خدا کے خوف نے اس کام کے کرنے پر آمادہ کیا ہے_ میں یہ کام انجام دیتا تھا اور اپنے نفس سے کہتا تھا کہ اس گرمى کو چکھ اور جان لے کہ دوزخ کى آگ کى گرمى اس سے زیادہ شدید اور دردناک ہے_ رسول خدا(ص) نے فرمایا واقعى تو خدا سے خوف زدہ ہوا ہے اور اللہ تعالى نے تیرے اس عمل سے آسمان کے فرشتوں پر فخر کیا ہے_ آنحضرت(ص) نے اس کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا کہ'' اس آدمى کے نزدیک جائو اور الس سے خواہش کرو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے اصحاب اس کے نزدیک گئے اور اس سے دعا کى خواہش کى اس آدمى نے دعا کے لئے ہاتھ ااٹعائے اور کہا الہم اجمع امرنا على الہدى و اجعل التقوى زادنا و الجنتہ مابنا[4]

یعنى اے اللہ ہمیں ہدایت پر جمع کردے اور تقوى کو ہمارا زاد راہ قرار دے اور جنت ہمارا ٹھکانا بنا امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنے نفس کو با ادب بنانے کے لئے کوشش کرو اور اسے سخت عادت سے روکو_[5]

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان نفس کى خواہشات سے زیادہ تاریک اور وحشت ناک پردہ نہیں ہوا کرتا اور اسے ختم کرنے کے لئے خدا کى طرف احتیاج اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع اور دن میں بھوک اور پیاس اور رات کى بیدارى سے کوئی بہتر ہتھیار نہیں ہے اگر انسان ایسى حالت میں مرجائے تو شہید دنیا سے جائے گا اور اگر زندہ رہے تو بالاخرہ اللہ تعالى کے رضوان اکبر کو حاصل کر لے گا خدا قرآن میں فرماتا ہے '' جو ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کى ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_[6]


3_ اللہ تعالى کى کرامت کى طرف توجہہ کرنا اور انسانى اقدار کو قوى بنانا

بیان ہوچکا ہے کہ انسانى روح اور نفس ایک گران بہا موتى ہے جو حیات و کمال و جمال و رحمت و احسان کے عالم سے وجود میں آیا ہے اور بطور فطرت انہیں امور سے سنخیت رکھتا ہے اگر یہ اپنے بلند مقام اور منزلت اور قیمتى وجود کى طرف توجہ رکھے ہوئے ہو تو گناہوں کا ارتکاب اور برے اخلاق کو اپنى شان سے پست تر شمار کرے گا اور فطرتا ان سے متنفر ہوگا جب اس نے سمجھ لیا کہ وہ انسان ہے اور انسان ذات الہى کے خاص لطف و کرم سے عالم بالا سے اس دنیا میں آیا ہے تو پھر اس کى نگاہ میں حیوانى خواہشات اور ہوى اور ہوس بے قیمت جلوہ گر ہوں گى اور اپنے وجود میں مکارم اخلاق کو زندہ رکھنے کى طرف مائل ہوگا_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اپنے نفس کى عزت کرتا ہو اس کے لئے شہوات بہت معمولى اور بے ارزش ہوں گی_[7]

امام سجاد علیہ السلام کى خدمت میں عرض کیا گیا کہ معزز اور گراں قدر انسان کون ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا '' جو دنیا کو اپنے وجود کى قیمت قرار نہ دے _[8]

لہذا روح کے انسانى شرافت اور اس کے وجود کے قیمتى ہونے اور اس کے مقام و مرتبت کے بلند و بالا کى طرف توجہہ سے نفس کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کرنے میں مدد لى جا سکتى ہے _ اگر ہم اپنى روح سے مخاطب ہوں اور اسے کہیں کہ اے روح تو علم و حیات کمال و جمال احسان و رحمت اور قدس کے عالم سے آئی ہے تو اللہ تعالى کا خلیفہ ہے تو ایسا انسان ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے اور اللہ تعالى کے قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو حیوان سے بلند و بالا ہے_ تیرے وجود کى قیمت حیوانى خواہشات کى پیروى کرنا نہیں ہے اگر انسان اس طرح سوچے تو پھر گناہوں کے ترک کر دینے اور روح کو پاک کرنے میں بہت آسانى ہوجائیگى اسى طرح نفس کو پاک کرنے کے لئے ہر برى صفت کى ضد کو قوى کرنا چاہئے تا کہ برى صفت آہستہ آہستہ دور ہو جائے نیک صفت کو اس کى جگہ لئے چاہئے تا کہ اس کى ثانوى عادت ہو جائے مثلا اگر کسى انسان سے حسد کرتے ہیں اور اس پر نعمت او رخوشى سے ہمیں تکلیف ہوتى ہے اور اس کى برائی اور اذیت اور توہین اور لاپروراہى کرنے اور اس کے کاموں میں روڑا اٹکانے سے ہم اپنے اندرونى بغض کو خوش کرتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں اس کى تعریف اور ثنا احترام اور احسان اور خیرخواہى اور مدد کرنے میں کوشش کرنى چاہئے جب ہمارے کام حسد کے اقتضا کے خلاف ہونگے تو پھر آہستہ آہستہ یہ برى صفت زائل ہوجائیگى اور خیرخواہى کى صفت اس کى جگہ لے لے گی_ اور اگر ہم کنجوسى اور بخل کى بیمارى میں مبتلا ہوئے تو پھر اپنے مال کو شرعى امور میں خرچ کردینے کو اپنے نفس پر لازم قرار دے دیں تا کہ تدریجا بخالت کى صفت زائل ہوجائے اور احسان اور خرچ کرنے کى عادت ہوجائے_ اور اگر حقوق اللہ خمس و زکوة و غیرہ کے ادا کرنے میں بخل کرتے ہیں تو پھر حتمى طور سے نفس کے مقابلے پر آجائیں اور اس کے وسوسے پر کان نہ دھریں اور مالى حقوق کو ادا کردیں اور اگر ہم اپنے مال کو اپنے اہل و عیال اور زندگى کے مصارف میں خرچ کرنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان میں خرچ کرنے کے لئے اپنے نفس پر زور دیں تا کہ اس کى عادت ہوجائے اور اگر بخالت کیوجہ سے نیکى کے کاموں میں شریک نہیں ہوتے تو پھر جیسے بھى ہو ان امور میں شرکت کرتے رہیں اور کچھ اپنے مال کو اللہ تعالى کے راستے اور غریبوں کى اعانت کے لئے خرچ کرتے رہیں تا کہ آہستہ آہستہ اس کام کى عادت پڑ جائے معلوم ہے کہ یہ کام ابتداء میں بہت حد تک مشکل ہونگے لیکن اگر پائیدارى اور کر گزرنا ہوجائے تو پھر یہ آسان ہوجائیں گے_

قاعدتا اپنے نفس کو پاک کرنے اور برے اخلاق سے جہاد کرنے کے لئے دو کاموں کو ہمیں انجام دینا ہوگا_

1_ برے اخلاق اور نفس کى خواہش کا کبھى اثبات میں جواب نہ دیں یعنى جو نفس چاہتا جائے ہم اسے بجالاتے جائیں ایسا نہ کریں تا کہ اس کا بیج اور جڑ آہستہ آہستہ خشک ہو جائے_

2_ نیک صفت جو برى صفت کى ضد ہے اسے قوى بنائیں اور نفس کو اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں تا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کى عادت ڈال لے اور وہ اس کى عادت اور ملکہ بن جائے اور برى صفت کو بیخ سے اکھاڑ ڈالے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہ اپنے نفس کو فضائل اور اچھے کام بجا لانے پر مجبور کر کیونکہ برى صفات تیرے اندر رکھ دى گئی ہیں_[9]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' اپنے نفس کو اچھے کام انجام دیے اور سختى کا بوجھ اٹھانے کى عادت ڈال تا کہ تیرا نفس شریف ہو جائے اور تیرى آخرت آباد ہو جائے اور تیرى تعریف کرنے والے زیادہ ہوجائیں_[10]

نیز آن حضرت(ع) نے فرمایا ہے کہ '' نفسانى خواہشات قتل کردینے والى بیماریاں ہیں ان کا بہترین علاج اور دواء صبر اور خوددارى ہے_[11]

 

4_ برے دستوں سے قطع تعلق_

انسان ایک موجود ہے جو دوسروں سے اثر قبول کرتا ہے اور دوسروں کى تقلید اور پیروى کرتا ہے_ بہت سى صفات اور اداب اور کردار اور رفتار کو دوسرے ان انسانوں سے لیتا ہے کہ جن کے ساتھ بود و باش اور ارتباط رکھتا ہے_ در حقیقت ان کے رنگ میں رنگا جاتا ہے بالخصوص دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے زیادہ اثر لیتا ہے جو اس کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں_ بداخلاق اور فاسد لوگوں کے ساتھ دوستى انسان کو فساد اور بداخلاقى کى طرف لے جاتى ہے _ انسان کى ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کى طرح بناتا ہے اگر کسى کے ہم نشین بداخلاق اور گناہگاروں تو وہ ان کے برے اخلاق اور گناہ سے انس پیدا کر لیتا ہے اور صرف ان کى برائی کو برائی نہیںسمجھتا بلکہ وہ اس کى نگاہ میں اچھائی بھى معلوم ہونے لگتى ہے اس کے برعکس اگر ہم نشین خوش اخلاق اور نیک ہوں تو انسان ان کے اچھے اخلاق اور کردار سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود بھى اپنے آپ کو انہیں کى طرح بنائے لہذا اچھا دوست اللہ تعالى کى ایک بہت بڑى نعمت ہے اور انسان کى ترقى اور کمال تک پہنچنے کا بہت اچھا کارآمد اور سعادت آور شمار ہوتا ہے_ اس کے برعکس برا دوست انسان کى بدبختى اور راستے سے ہٹنے اور مصائب کا موجب ہوتا ہے لہذا دوست کے انتخاب اور اختیار کرنے کو ایک معمولى کام اور بے اہمیت شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے ایک اہم اور عاقبت ساز کام شمار کرنا چاہئے کیونکہ برا گناہگار دوست برے کاموں کو بھى اچھا بتلایا ہے اورچاہتا ہے کہ اس کے دوست بھى اسى کى طرح ہوجائیں برا دوست نہ دنیا میں کسى کى مدد کرتا ہے اور نہ آخرت کے امور میں مدد کرتا ہے اس کے پاس آنا جانا بے عزتى اور رسوائی کا موجب ہوتا ہے_[12]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسى مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ فاسق احمق دروغ گو سے دوستى کرے_[13]

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اپنے دوست اور ہم نشین کے دین پر ہوتا ہے_[14]

حضرت علیہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' فاسق انسان سے دوستى کرنے میں حتمى طور سے اجتناب کرو اس واسطے کہ شر شر سے جا ملتا ہے_ [15]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے اور شریر لوگوں سے میل جول رکھنے سے حتمى طور سے پرہیز کر کیونکہ برا دوست آگ کى طرح ہوتاہے کہ جو بھى اس کى نزدیک جائیگا جل جائیگا_[16]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برے دوست کے ساتھ میل جول سے حتما پرہیز کر کیونکہ وہ اپنے ہم نشین کو ہلاک کردیتا اور اس کى آبرو کو ضرر پہنچاتا ہے_[17]

لہذا جو انسان اپنے نفس کو پاک کرنا چاہتا ہے اگر اس کے برے دوست ہیں تو ان سے میل جول فورا ترک کردے کیونکہ برے دوست رکھتے ہوئے گناہوں کا چھوڑنا بہت مشکل ہے برے دوست انسان کے اپنے نفس کو پاک کرنے کے ارادے کو سست کردیتے ہیں اور اسے گناہ اور فساد کى طرف راغب کرتے ہیں گناہ کرنا بھى ایک عادت ہے اور یہ اس صورت میں چھوڑى جا سکتى ہے جب دوسرے عادت رکھنے والوں سے میل جول ترک کردے_

 

5_ لغزش کے مقامات سے دور رہنا_

نفس کو پاک کرنا اور گناہ کا چھوڑ دینا اور وہ بھى ہمیشہ کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت مشکل کام ہے_ انسان ہر وقت لغزش اور گناہ کے میدان میں رہتا ہے_ نفس امارہ برائیوں کى دعوت دیتا رہتا ہے اور نفس جو جسم کے حکم ماننے کا مرکز ہے وہ ہمیشہ بدلتا اور دگرگون ہوتا رہتا ہے_ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے متاثر ہوتا ہے اور اسى کے مطابق فرمان جارى کرتا اور پھر وہ اسے کیسے سنتا اور دیکھتا اور کن شرائط میں قرار پاتا ہے_ انسان مجالس اور محافل معنوى اور عبادات اور احسان نیک کاموں کے ماحول میں جانے سے اچھے کاموں کے بجالانے کى طرف مائل ہوتا ہے برعکس فسق و فجور اور گناہ کے مراکز اور محافل میں جانے سے انسان گناہ کى طرف لے جایا جاتا ہے_

معنوى ماحول دیکھنے سے انسان معنویات کى طرف رغبت کرتا ہے اور شہوت انگیزى ماحول دیکھنے سے انسان شہوت رانى کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اگر کسى عیش و نوش کى مجلس میں جائے تو عیاشى کى طرف مائل ہوتا ہے اور اگر کسى دعا و نیائشے کى مجلس میں حاضر ہو تو خدا کى طرف توجہ پیدا کرتا ہے_ اگر دنیا داروں اورمتاع کے عاشقوں کے ساتھ بیٹھے تو حیوانى لذت کى طرف جایا جاتا ہے اور اگر خدا کے نیک اور صالح بندوں کے پاس بیٹھے نیکى اور خوبى کى طرف رغبت کرتا ہے_ لہذا جو لوگ اپنے نفس کو پاک کرنے اور گناہوں کے ترک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کے لئے ضرورى ہے کہ وہ اپنى آنکھوں کانوں کوشہوت انگیز اور خرابى و فساد اور گناہوں کے محافل اور مراکز سے دور رکھیں اور اس طرح کى محافل اور اجتماع میں شریک نہ ہوں اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور دوستى نہ رکھیں اگر انسان نہیں کریں گے تو پھر ہمیشہ کے لئے گناہ اور خطا اور لغزش کے میدان میں واقع ہوتے رہیں گے اس لئے تو اسلام نے حرام کے اجتماع اور محافل جیسے جوئے بازى شراب و غیرہ میں شریک ہونے سے روکا ہے_ نامحرم کو دیکھنا اور غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا اور اس سے مصافحہ کرنا اور اس سے ہنسى اور مزاح کرنے سے منع کیا ہے_ اسلام میں پردے کے لئے سب بڑى حکمت اور مصلحت یہى چیز ہے_ اسلام چاہتا ہے کہ ماحول گناہوں کے ترک کردینے اور نفس کو پاک کرنے کے لئے سازگار ہو اس کے علاوہ کسى اور صورت میں نفس امارہ پر کنٹرول کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ فاسد ماحول انسان کو فساد کى طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ صرف گناہ کى فکر اور سوچ بھى انسان کو گناہ کى طرف بلاتى ہے لہذا اسلام ہمیں کہتا ہے کہ گناہ کى فکر اور سوچ کو بھى اپنے دماغ میں راستہ نہ دو_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب آنکھ کسى شہوت کو دیکھ لے تو پھر اس کى روح اس کے انجام کے سوچنے سے اندھى ہوجاتى _[18] حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' گناہ کا سوچنا اور فکر کرنا تجھے گناہ کرنے کا شوق دلائے گا_[19]

 


[1]- قال على علیه السّلام: من عمّر قلبه بدوام الفکر حسنت افعاله فى السرّ و الجهر- غرر الحکم/ ص 690.
[2]- قال على علیه السّلام: نعم العون على اسر النفس و کسر عادتها الجوع- غرر الحکم/ ص 773.
[3]- قال على علیه السّلام: من استدام ریاضة نفسه انتفع- غرر الحکم/ ص 647.
[4]- محجة البیضاء/ ج 7 ص 308.
[5]- قال على( ع): تولوا من انفسکم تأدیبها و اعدلوا بها عن ضراوة عاداتها- غرر الحکم/ ص 350.
[6]- محجة البیضاء/ ج 8 ص 170.
[7]- قال على علیه السّلام: من کرمت علیه نفسه هانت علیه شهواته- نهج البلاغه/ قصار 449.
[8]- قیل لعلى بن الحسین علیه السّلام: من اعظم الناس خطرا؟ قال: من لم یر الدنیا خطرا لنفسه- تحف العقول/ ص 285.
[9]- قال على علیه السّلام: اکره نفسک على الفضائل فان الرذائل انت مطبوع علیها- غرر الحکم/ ج 1 ص 130.
[10]- قال على علیه السّلام: عوّد نفسک فعل المکارم و تحمّل اعباء المغارم تشرف نفسک و تعمر آخرتک و یکثر حامدوک- غرر الحکم/ ص 492.
[11]- قال على علیه السّلام: الشهوات اعلال قاتلات و افضل دوائها اقتناء الصبر عنها- غرر الحکم/ ص 72.
[12]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: لا ینبغى للمرء المسلم ان یواخى الفاجر فانه یزین له فعله و یحب ان یکون مثله و لا یعینه على امر دنیاه و لا امر معاده، و مدخله و مخرجه من عنده شین علیه- کافى/ ج 2 ص 640.
[13]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: لا ینبغى للمرء المسلم ان یواخى الفاجر و لا الاحمق و لا الکذاب- کافى/ ج 2 ص 640.
[14]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: المرء على دین خلیله و قرینه- کافى/ ج 2 ص 642.
[15]- قال على علیه السّلام: ایاک و مصاحبة الفساق فان الشر بالشر یلحق- غرر الحکم/ ص 147.
[16]- قال على( ع): ایاک و معاشرة الاشرار فانهم کالنار مباشرتها تحرق- غرر الحکم/ ص 147.
[17]- قال على علیه السّلام: احذر مجالسة قرین السوء فانه یهلک مقارنه و یردى مصاحبه- غرر الحکم/ ص 12.
[18]- قال على علیه السّلام: اذا ابصرت العین الشهوة عمى القلب عن العاقبة- غرر الحکم/ ص 315.
[19]- قال على علیه السّلام: فکرک فى المعصیة یحدوک على الوقوع فیها- غرر الحکم/ ص 518.