پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خودپسندى اور خودخواہى تمام مفساد كى جڑ ہے

خودپسندى اور خودخواہى

تمام مفساد کى جڑ ہے

علماء اخلاق نے خودپسندى اور خودخواہى کى صفت کو ام الفساد یعنى فساد کى جڑى قرار دیا ہے اور تمام گناہوں اور تمام برى صفات کا سبب خودپسندى بتلایا ہے_ لہذا نفس کو اس سے پاک کرنے میں بہت ہى زیادہ کوشش کرنى چاہئے_ ہم کو پہلے خودپسندى اور خودخواہى کے معنى بیان کرنے چاہئیں اس کے بعد اس برى صفات کے برے اثرات اور اس سے مقابلہ کرنے کى تشریح کرنى چاہئے اور یہ بھى معلوم ہونا چاہئے کہ ہر زندہ شے کو اپنى ذات اور صفات کمالات اور افعال اور آثار سے محبت اور علاقمندى ہوا کرتى ہے یعنى فطرت اور طبیعت میں خودپسند اور خودخواہ ہوا کرتے ہیں لہذا یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ خودپسند کو بطور کلى برا جانا جائے بلکہ یہ توضیح اور تشریح کا محتاج ہے_ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انسان دو وجود اور دو خود اور دو میں رکھتا ہے ایک حیوانى وجود اور میں اور دوسرا انسانى وجود اور میں _ اس کا انسانى وجود اور میں اللہ تعالى کى ایک خاص عنایت ہے جو عالم ملکوت سے نازل ہوا ہے تا کہ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہو_ اس لحاظ سے وہ علم اور حیات قدرت اور رحمت احسان اور اچھائی اور کمال کے اظہار سے سنخیت رکھتا ہے اور انہیں کا چاہنے والا ہے لہذا اگر انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنے وجود کى قیمت کو جانے اور اسے محترم رکھے تو وہ تمام خوبیوں اور کمالات کے سرچشمہ کے نزدیک ہو گا اور مکارم اخلاق اور فضائل اور اچھائیوں کواپنے آپ میں زندہ کرے گا لہذا اس طرح کى خودپسندى اور خودخواہى کو برا نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس قسم کى خودپسندى اور خودخواہى قاتل مدح ہوا کرتى ہے کیونکہ در حقیقت یہ خودخواہى والى صفت نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ خدا خواہى اور خدا طلبى والى صفت ہے جیسے کہ پہلے بھى تجھے معلوم ہو چکا ہے اور آئندہ بھى تجھے زیادہ بحث کر کے بتلایا جائیگا_ انسان کا دوسرا وجود اور مرتبہ حیوانى ہے اس وجود کے لحاظ سے انسان ایک تھیک تھاک حیوان ہے اور تمام حیوانى خواہشات اور تمایلات اور غرائز رکھتا ہے اس واسطے کہ اس جہان میں زندہ رہے اور زندگى کرتے تو اسے حیوانى خواہشات کو ایک معقول حد تک پورا کرنا ہوگا_ اتنى حد تک ایسى خودخواہى اور خودپسندى بھى ممنوع اور قاتل مذمت نہیں ہے لیکن سب سے اہم اور سرنوشت ساز بات یہ ہے کہ جسم کى حکومت عقل اور ملکوتى روح کے اختیار میں رہے یا جسم نفس امارہ اور حیوانى میں کا تابع اور محکوم رہے_

اگر تو جسم پر عقل اور انسانى خود اور میں حاکم ہوئی تو وہ حیوانى خود اور خواہشات کو اعتدال میں رکھے گا اور تمام انسانى مکارم اور فضائل اور سیر و سلوک الى اللہ کو زندہ رکھے گا_ اس صورت میں انسانى خود جو اللہ تعالى کے وجود سے مربوط ہے اصالت پیدا کرلے گى اور اس کا ہدف اور غرض مکارم اخلاق اور فضائل اور قرب الہى اور تکامل کا زندہ اور باقى رکھنا ہوجائیگا اور حیوانى خواہشات کو پورا کرنا طفیلى اور ثانوى حیثیت بن جائیگا لہذا خود پسندى اور خودخواہى اور حب ذات کو محترم شمار کرنا قاتل مذہب نہیں رہے گا ہو گیا تو وہ عقل اور انسانى خود اور میں کو مغلوب کرکے _ اسے جدا کر دیگا اور سراسر جسم ہى منظور نظر ہوجائیگا اس صورت میں انسان آہستہ آہستہ خدا اور کمالات انسانى سے دور ہوتا جائیگا اور حیوانى تاریک وادى میں جاگرے گا اور اپنے انسانى خود اور میں کو فراموش کر بیٹھے گا اور حیوانیت کے وجود کو انسانى وجود کى جگہ قرار دے دیگا یہى وہ خودپسندى اور خودخواہى ہے جو اقابل مدمت ہے اور جو تمام برائیوں کى جڑ ہوتى ہے خود خواہ انسان صرف حیوانى خود کو چاہتا ہے اور بس _ اس کے تمام افعال اور حرکات کردار اور گفتار کا مرکز حیوانى خواہشات کا چاہنا اور حاصل کرنا ہوتا ہے_ مقام عمل میں وہ اپنے آپ کو حیوان سمجھتا ہے_ اور زندگى میں سوائے حیوانى خواہشات اور ہوس کے اور کسى ہدف اور غرض کو نہیں پہچانتا_ حیوانى پست خواہشات کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو آزاد جانتا ہے اور ہر کام کو جائز سمجھتا ہے اس کے نزدیک صرف ایک چیز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس کا حیوانى نفس اور وجود_ تمام چیزوں کو یہاں تک کہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار دیتا ہے اور بس _ وہ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس کى خواہشات کو پورا کرے اسے چاہتا ہے اور اگر عدالت اسے ضرر پہنچائے تو وہ ایسى عدالت کو نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے لئے صحیح سمجھتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ قوانین اور احکام کى اپنى پسند کے مطابق تاویل کرتا ہے یعنى اس کے نزدیک اپنے افکار اور نظریات اصالت اور حقیقت رکھتے ہیں اور دین اور احکام اور قوانین کو ان پر منطبق کرتا ہے_
خودپسند اور خودخواہ انسان چونکہ فضائل اور کمالات اور اخلاق حقیقى سے محروم ہوتا ہے لہذا وہ اپنے آپ کو :جھوٹے کام اور مرہوم اور بے فائدہ اور شہوت طلبى مقام اور منصب حرص اور طمع تکبر اور حکومت کھانا پینا اور سنا اور لذات جنسى و غیرہ میں مشغول رکھتا ہے اور اسى میں خوشحال اور سرگرم رہتا ہے اور اللہ کى یاد اور اس کو کمالات تک پہنچانے کے لئے کوشش کرنے سے غافل رہتا ہے_

خودخواہ اور خودپسند انسان چونکہ نفس امارہ کا مطیع اور گروید ہوتاہ ے لہذا زندگى میں سوائے نفس کى خواہشات کى حاصل کرنے اور اسے جتنا ہو سکے خوش رکھنے کے علاوہ اس کى کوئی اور غرض نہیں ہوتى اور ان حیوانى خواہشات کے حاصل کرنے میں کسى بھى برے کام کے انجام دینے سے گریز نہیں کرتا اور ہر برے کام کى تاویل کرکے اسے جائز قرار دے دیتا ہے وہ صرف حیوانى خواہشات تک پہنچانا چاہتا ہے اور اس تک پہنچنے میں ظلم کرنے جھوٹ بولنے تہمت لگانے وعدہ خلافى کرنے دھوکا دینے خیانت کرنے اور اس طرح کے دوسرے گناہوں کے بجالانے کو جائز اور صحیح قرار دیتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر گناہ در حقیقت ایک قسم کى خودخواہ یا ور خودپسند ہے کہ جو اس طرح اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے مثال کے طور پر ظلم اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا خودخواہى اور خودپسندى کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے_
اسى طرح جھوٹ غیبت بد زبانى عیب جوئی حسد انتقام لینا یہ سب پستیاں خود اور خودپسندى شمار ہوتى ہیں جو ان صورتوں میں نمایاں ہو کر سامنے اتى ہیں اسى لئے تمام برائیوں کى جڑ خودپسندى کو قرار دیا جاتا ہے_

خودخواہى اور خودپسندى کے کئی مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے زیادہ مرتبہ خود پرستى اور اپنے آپ کى عبادت کرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس برى صفت سے مقابلہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پیدا کرلیتى ہے اور ایک ایسے درجہ تک پہنچ جاتى ہے کہ پھر اپنے نفس امارہ کو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے دیتى ہے اور عبادت کرنے اور خواہشات کے بجالانے میں اطاعت گذار بنا دیتى ہے_ خداوند عالم ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے اپنى خواہشات کو اپنا خدا قرار دے رکھا ہے اسے تو نے دیکھا ہے؟ _[1]
کیا عبادت سوائے اس کے کوئی اور معنى رکھتى ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے معبود کے سامنے تواضع اور فروتنى کرتا ہے اور بغیر چون و چرا کے اس کے احکام اور فرمایشات کو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھى ایسا ہى ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو واجب الاطائمہ قرار دیتا ہے اور اس کے سامنے تواضع اور فروتنى اور عبادت کرتا ہے بغیر چون و چرا کے اس کى فرمایشات کو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ کبھى موحد نہیں ہو سکتا_

 

[1]- أَ فَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ- فرقان/ 43.