پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جناب ابوبكر كى حديث

جناب ابوبکر کى حدیث

حضرت زہراء (ع) کے مقابلے میں جناب ابوبکر دعوى کرتے تھے کہ تمام پیغمبر (ص) وراثت کے کلى قوانین سے مستثنى اور خارج ہیں اور وہ میراث نہیں چھوڑتے اپنے اس ادعا کے لئے جناب ابوبکر نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس کے راوى خود آپ ہیں اور یہ روایت کتابوں میں مختلف عبارات سے نقل ہوئی ہے:

"قال ابوبکر لفاطمہ فانى سمعت رسول اللہ یقول انا معاشر الانبیاء لانورث ذہبا و لا فضّة و لا ارضا و لا دار او لکنا نورث الایمان و الحکمة و العلم و السنة فقد عملت بما امرنى و نصحت لہ " (1)

یعنى ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے کہا کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین، مکان ارث میں نہیں چھوڑتے ہمارا ارث ایمان، حکمت، دانش، شریعت ہوا کرتا ہے میں رسول خدا (ص) کے دستور پر عمل کرتا ہوں اور ان کى مصلحت کے مطابق عمل کرتا ہوں_

دوسرى جگہ روایت اس طرح ہے کہ جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے کسى کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ آپ ان سے رسول خدا (ص) کى میراث طلب کرتى تھیں اور آپ وہ چیزیں طلب کرتى تھیں جو رسول اللہ نے مدینہ میں چھوڑى تھیں_

اور فدک اور جو خیبر کا خمس بچا ہوا تھا، جناب ابوبکر نے کہا رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو چھوڑجاتے ہیں وہ صدقہ (یعنى وقف) ہوتا ہے، آل محمد(ص) تو اس سے صرف کھاسکتے ہیں (2)_

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر سے گفتگو کى تو جناب ابوبکر رودیئےور کہا کہ اے دختر رسول اللہ (ص) آپ کے والد نے نہ دینا اور نہ درہم چھوڑا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے (3)_

ایک اور حدیث یوں ہے کہ جناب ام ہانى کہتى ہیں کہ جناب فاطمہ نے جناب ابوبکر سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا اس نے جواب دیا کہ میرى اولاد اور اہل، آپ نے فرمایا پھر تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو رسول اللہ کا وارث بن بیٹھا ہے اور ہم نہیں؟ اس نے کہا اے دختر رسول (ص) آپ کے والد نے گھر، مال اور سونا اور چاندى وراثت میں نہیں چھوڑی، جب جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ ہمارا وہ حصہ جو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اور ہمارا فئی تمہارے ہاتھ میں ہے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ یہ ایک طعمہ ہے کہ جس سے اللہ نے ہم اہلبیت کو کھانے کے لئے دیا ہے، جب میں مرجاؤں تو یہ مسلمانوں کے لئے ہوجائے گا (4)_

ایک اور روایت یوں ہے کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرى میراث رسول اللہ (ص) سے جو بنتى ہے وہ مجھے دو_ جناب ابوبکر نے کہا کہ انبیاء ارث نہیں چھوڑتے جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ (یعنى وقف) ہوتا ہے (5)_

جناب ابوبکر نے اس قسم کى حدیث سے استدلال کر کے جناب فاطمہ (ع) کو والد کى میراث سے محروم کردیا لیکن یہ حدیث کئی لحاظ سے حجت نہیں کہ جس سے استدلال کیا جاسکے_
قرآن کى مخالفت

یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) بھى دوسرے مردوں کى طرح میراث چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن کى مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتى اسے دیوار پر دے مارو، ان آیات میں سے کہ جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتى ہیں ایک یہ ہے:

"ذکر رحمة ربک عبدہ ذکر یا اذ نادى ربہ خفیا خفیا " تا " فہب لى من لدنک ولیاً یرثنى و یرث من آل یعقوب و اجعلہ رب رضیاً " (6)_

لکھا ہے کہ جناب زکریا کے چچازاد بھائی بہت برے لوگ تھے اگر جناب زکریا کے فرزند پیدا نہ ہوتا تو آپ کا تمام مال چچازاد بھائیوں کو ملنا آپ کو ڈر تھا کہ میرى میراث چچازاد بھائیوں کو مل گئی تو اس مال کو برائیوں اور گناہ پر خرچ کریں گے اسى لئے اللہ تعالى سے دعا مانگى تھى کہ خدایا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائیوں سے خوف ہے اور میرى بیوى بانجھ ہے، خداوندا مجھے ایک فرزند عطا فرما جو میرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب کى دعا قبول فرمائی اور خدا نے جناب یحیى کو انہیں عطا کیا_ اس آیت سے اچھى واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر(ص) بھى دوسرے لوگوں کى طرف میراث چھوڑتے ہیں ورنہ حضرت زکریا کى دعا اور خواہش بے معنى ہوتی_

یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شاید جناب زکریا کى وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالى سے خواہش کى ہو کہ انہیں فرزند عنایت فرمائے کہ جو ان کے علوم کا وارث ہو اور دین کى ترویج کى کوشش کرے، لیکن تھوڑاسا غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ احتمال درست نہیں ہے اس لئے کہ وراثت کا لفظ مال کى وراثت میں ظہور رکھتا ہے نہ علم کى وراثت میں اور جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہى محمول کیا جائے گا_ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال کى وراثت ہو تو جناب زکریا کا خوف یا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمى وراثت ہو تو پھر اس آیت کے معنى کسى طرح درست نہیں قرار پاتے کیوں کہ اگر مراد علمى وراثت سے علمى کتابیں ہیں تو یہ در حقیقت مالى وراثت ہوجائے گى اس لئے کہ کتابوں کا شمار اموال میں ہوتا ہے نہ علم میں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا کو اس کا خوف تھا کہ علوم اور معارف اور قوانین شریعت ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو بھى جناب زکریا کا یہ خوف درست نہ تھا کیوں کہ جناب زکریا کا وظیفہ یہ تھا کہ قوانین اور احکام شریعت کو عام لوگوں کے سپرد کریں اور ان کے چچازاد بھائی بھى عموم ملّت میں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زکریا کے فرزند بھى ہوجاتا تب بھى آپ کے چچازاد بھائی قوانین کے عالم ہونے کى وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سکتے تھے اور اگر جناب زکریا کو اس کا خوف تھا کہ وہ مخصوص علوم جو انبیاء کے ہوتے ہیں وہ ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں تو بھى آنجناب کا یہ خوف بلا وجہ تھا کیون کہ وہ مخصوص علوم آپ ہى کے اختیار میں تھے اور بات آپ کى قدرت میں تھى کہ ان علوم کى اپنے چچازاد بھائیوں کو اطلاع ہى نہ کریں تا کہ وہ اسرار آپ ہى کے پاس محفوظ رہیں اور آپ جانتے تھے کہ خداوند عالم نبوت کے علوم کا مالک بدکار لوگوں کو نہیں بتاتا_ بہرحال وراثت سے علمى وراثت مراد ہو تو جناب زکریا کا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا_

ممکن ہے یہاں کوئی یہ کہے کہ جناب زکریا کو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا کہ آپ کے چچازاد بھائی برے آدمى اور خدا کے دین اور دیانت کے دشمن تھے آپ کے بعد اس کے دین کو بدلنے کے درپے ہوتے اور آپ کى زحمات کو ختم کر کے رکھ دیتے لہذا جناب زکریا نے خدا سے دعا کى کہ مجھے ایک ایسا فرزند عنایت فرما کہ جو مقام نبوت تک پہنچے اور خدا کے دین کے لئے کوشش کرے اور اسے باقى رکھے پس اس آیت میں وراثت سے مراد علم اورحکمت کى وراثت ہوگى نہ مال اور ثروت کی_

لیکن یہ کہنا بھى درست نہیں ہے، کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خدا کبھى بھى زمین کو پیغمبر یا امام کے وجود سے خالى نہیں رکھتا، لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جناب زکریا کو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا کہ شاید خداوند عالم دین اور شریعت کو بغیر کسى حامى کے چھوڑ دے اور اگر جناب زکریا ایسا فرزند چاہتے تھے کہ جو پیغمبر اور دین کا حامى ہو تو آپ کو اس طرح نہ کہنا چاہیئے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عنایت فرما جو میرى وراثت کے مالک ہو اور اسے صالح قرار دے_ بلکہ ان کو اس صورت میں اس طرح دعا کرنى چاہیئے تھى کہ خدایا مجھے خوف ہے کہ میرے بعد دین کى اساس کو ختم کردیا جائے گا میں تجھ سے تمنا کرتا ہوں کہ میرے بعد دین کى حمایت کے لئے ایک پیغمبر بھیجنا اور میں دوست رکھتا ہوں کہ وہ پیغمبر میرى اولاد سے ہو اور مجھے ایک فرزند عنایت فرما جو پیغمبر ہو اور پھر اگر میراث سے مراد علم کى میراث ہو تو پھر دعا میں اس جملے کى کیا ضرورت تھى خدا اسے محبوب اور پسندیدہ قرار دے کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خداوند عالم غیر صالح اور غیر اہل افراد کو پیغمبرى کے لئے منتخب نہیں کرے گا تو پھر اس جملے

''خدایا میرے فرزند کو پسندیدہ اور صالح قرار دے'' کى ضرورت ہى نہ تھی_ اس پورى گفتگو سے یہ مطلب واضح ہوگیا ہ کہ جناب یحیى کى میراث جناب زکریا سے مال کى میراث تھى نہ کہ علم کى اور یہى آیت اس مطلب پر کہ پیغمبر(ص) بھى دوسرے لوگوں کى طرح میراث لینے ہیں اور میراث چھوڑتے ہیں بہت اچھى طرح دلالت کر رہى ہے لہذا جو حدیث ابوبکر نے اپنے استدلال کے لئے بیان کى وہ قرآن کے مخالف ہوگى اور حدیث شناسى کے علم میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتى اور اسے دیوار پر دے مارنا چاہیئے اسى لئے تو جناب زہراء (ع) نے ''جو قوانین اور احکام شریعت اور حدیث شناسى اور تفسیر قرآن کو اپنے والد اور شوہر سے حاصل کرچکى تھیں'' اس حدیث کے رد کرنے کے لئے اسى سابقہ آیت کو اس کے مقابلے میں پڑھا اور بتلایا کہ یہ حدیث اس آیت کى مخالف ہے کہ جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا_

ایک اور آیت کہ جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ پیغمبر(ص) بھى میراث لیتے ور میراث چھوڑتے ہیں یہ آیت ہے ''و ورث سلیمان داؤد'' (7)_

اس آیت میں خداوند عالم___ سلیمان کے بارے میں فرماتے ہے کہ آپ جناب داؤد کے وارث ہوئے اور کلمہ وارث کا ظہور مال کى وراثت میں ہے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعى دلیل موجود نہ ہو تب تک اس سے مراد مال کى وراثت ہى ہوگی_ اسى لئے تو حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر کے مقابلے میں اس آیت سے استدلال کیا جب کہ حضرت زہراء (ع) قرآن کے نازل ہونے والے گھر میں تربیت پاچکى تھی_


ایک اشکال

اگر جناب ابوبکر کى نقل شدہ حدیث صحیح ہوتى تو ضرورى تھا کہ رسول خدا(ص) کے تمام اموال کو لے لیا جاتا لہذا وارثوں کو آپ کے لباس، زرہ، تلوار، سوارى کے حیوانات، دودھ دینے والے حیوانات، گھر کے اساس سے بھى محروم کردیا جاتا اور انہیں بھى بیت المال کا جزو قرار دے دیا جاتا حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کے اس قسم کے اموال ان کے وارثوں کے پاس ہى رہے اور کوئی تاریخ بھى گواہى نہیں دیتى اور کسى مورخ نے نہیں لکھا کہ جناب ابوبکر نے رسول خدا (ص) کا لباس، تلوار، زرہ، فرش، برتن و غیرہ اموال عمومى میں شامل کر کے ضبط کر لئے ہوں بلکہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ کے مکان کے کمرے آپ کى بیویوں کے پاس ہى رہے اور اس کے علاوہ جو باقى مذکورہ مال تھا آپ کے ورثاء میں تقسیم کردیا گیا_ یہ بات بھى ایک دلیل ہے کہ جناب ابوبکر کى حدیث ضعیف تھى اور معلوم ہوتا ہے کہ خود جناب ابوبکر کو بھى اپنى بیان کردہ حدیث کے متعلق اعتبار نہ تھا کیونکہ اگر وہ حدیث ان کے نزدیک درست ہوتى تو پھر رسول خدا (ص) کے اموال میں فرق نہ کرتے_

جب کہ جناب ابوبکر مدعى تھے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ میں میراث نہیں چھوڑتا میرا مال صدقہ ہوتا ہے اسى لئے تو پیغمبر(ص) کى بیٹى اور اسلام کى مثالى خاتون کو رنجیدہ خاطر بھى کردیا تو پھر کیوں پیغمبر (ص) کے حجروں کو آپ کى ازواج سے واپس نہ لیا؟ اور پھر کیوں دوسرے مذکورہ اموال کا مطالبہ نہ کیا ؟


ایک اور اشکال

اگر یہ بات درست ہوتى کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے تو ضرورى تھا کہ پیغمبر(ص) اس مسئلے کو حضرت زہراء (ع) اور حضرت على (ع) سے ضرور بیان فرماتے اور فرماتے کہ میرا مال اور جو کچھ چھوڑ جاؤں یہ عمومى صدقہ ہوگا اور وراثت کے عنوان سے تمہیں نہیں مل سکتا خبردار میرے بعد میراث کا مطالبہ نہ کرنا اور اختلاف اور نزاع کا سبب نہ بننا_ کیا رسول خدا(ص) کو علم نہ تھا کہ وراثت کے کلى قانون اور عمومى قاعدے کے ماتحت میرے وارث میرے مال کو تقسیم کرنا چاہیں گے اور ان کے درمیان اور خلیفہ وقت کے درمیان نزاع اور جھگڑا رونما ہوجائے گا؟ یا رسول اللہ (ص) کو اس بات کا علم نہ تھا لیکن آپ نے احکام کى تبلیغ میں کوتاہى کى ہوگی؟ ہم تو اس قسم کى بات پیغمبر(ص) کے حق میں باور نہیں کرسکتے_

بعض نے کہا ہے کہ رسول خدا(ص) پر اپنے ورثاء کو یہ مطلب بیان کرنا ضروری نہ تھا بلکہ صرف اتنا کافى تھا کہ اس مسئلے کو اپنے خلیفہ جناب ابوبکر جو مسلمانوں کے امام تھے بتلادیں اور خلیفہ پر ضرورى ہے کہ وہ احکام الہى کو نافذ کرے چنانچہ پیغمبر(ص) نے جناب ابوبکر کو یہ مسئلہ بتلادیا تھا لیکن یہ فرمائشے بھى درست معلوم نہیں ہوتى ___ اوّل تو یہ کہ جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کے زمانے میں آپ کے خلیفہ معین نہیں ہوئے تھے کہ کہا جاسکے کہ پیغمبر(ص) نے انہیں اس کا حکم اور دستور دے دیا تھا دوسرے میراث کے مسئلہ کا تعلق پہلے اور بالذات آپ کے ورثاء سے تھا انہیں وراثت میں اپنا وظیفہ معلوم ہونا چاہیئے تھا تا کہ حق کے خلاف میراث کا مطالبہ نہ کریں اور امت میں اختلاف اور جدائی کے اسباب فراہم نہ کریں_

آیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت على (ع) جو مدینہ علم کا دروازہ اور جناب فاطمہ (ع) جو نبوت اور ولایت کے گھر کى تربیت یافتہ تھیں ایک اس قسم کے مہم مسئلے سے کہ جس کا تعلق ان کى ذات سے تھا بے خبر تھیں، لیکن جناب ابوبکر کہ جو بعض اوقات عام اور عادى مسائل کو بھى نہ جانتے تھے اس وراثت کے مسئلے کا حکم جانتے ہوں؟ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس مسئلے کا حکم تو جانتى تھیں لیکن اپنى عصمت اور طہارت کے باوجود اپنے والد کے دستور اور حکم کے خلاف جناب ابوبکر سے میراث کا مطالبہ کر رہى تھیں؟ کیا حضرت على (ع) کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مسئلہ تو جانتے تھے لیکن اس مقام زہد اور تقوى اور عصمت و طہارت کے باوجود اور اس کے باوجود کہ آپ ہمیشہ قوانین اسلام کے اجراء میں بہت زیادہ علاقمندى ظاہر کرتے تھے پھر بھى اپنى بیوى کو پیغمبر(ص) کے بیان کردہ مسئلہ کے خلاف اجازت دے رہے ہیں کہ وہ جائیں اور وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کریں اور پھر مسجد میں وہ مفصل عوام الناس کے سامنے خطاب کریں؟ ہم گمان نہیں کرتے کہ کوئی بھى با انصاف انسان اس قسم کے مطالب کا یقین کرے گا_

 

ایک اور اشکال

جناب ابوبکر نے مرتے وقت وصیت کى کہ اسے پیغمبر(ص) کے حجرے میں دفن کیا جائے اور اس بارے میں اپنى بیٹى جناب عائشےہ سے اجازت لی؟ اگر وہ حدیث جو پیغمبر(ص) کى وراثت کى نفى کرتى ہو درست ہو تو پیغمبر(ص) کا یہ حجرہ مسلمانوں کا عمومى مال ہوگا تو پھر جناب ابوبکر کو تمام مسلمانوں سے دفن کى اجازت لینا چاہیئے تھی؟


تنبیہہ

جو اموال پیغمبر خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تصرف اور قبضے میں تھے وہ دو قسم کے تھے_
پہلى قسم :

یہ وہ مال تھا کہ جس کا تعلق ملت اسلامى سے ہوتا ہے اور بیت المال کا عمومى مال شمار ہوتا ہے جس کو یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ حکومت کا مال ہے رسول خدا(ص) چونکہ مسلمانوں کے حاکم تھے آپ اس قسم کے مال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے تمام مسلمانوں کے مصالح اور مفاد کے لئے خرچ کیا کرتے تھے ایسا مال نبوت اور امامت اور حکومت اسلامى کا مال ہوتا ہے ایسے مال ہیں قانون وراثت جارى نہیں ہوتا بلکہ اس منصب دار کى موت کے بعد اس کے جانشین شرعى کى طرف بطور منصب منتقل ہوجاتا ہے_

حضرت زہراء (ع) نے اس قسم کے اموال میں وراثت کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور اگر کبھى آپ نے اس قسم کے مال میں بطور اشارہ بھى مطالبہ کیا ہو تو وہ اس لئے تھا کہ آپ جناب ابوبکر کى حکوت کو قانونى اور رسمى حکومت تسلیم نہیں کرتى تھیں بلکہ اپنے شوہر حضرت على (ع) کو قانونى اور شرعى خلیفہ جانتى تھیں تو گویا آپ اس قسم کے مال کا مطالبہ کر کے اپنے شوہر کى خلافت کا دفاع کرتى تھیں اور جناب ابوبکر کى حدیث کو اگر بالفرض تسلیم بھى کرلیں تو وہ بھى اس قسم کے مال کى وراثت کى نفى کر رہى ہے نہ پیغمبر(ص) کے ہر قسم کے مال کو شامل ہے_


دوسرى قسم:

وہ مال تھا جو آپ کا شخصى اور ذاتى مال تھا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) بھى تو انسانوں کے افراد میں سے ایک فرد تھے کہ جنہیں مالکیت کا حق تھا آپ بھى کسب اور تجارت اور دوسرے جائز ذرائع سے مال کمانے تھے ایسا مال آپ کى شخصى ملکیت ہوجاتا تھا، ایسے مال پر ملکیت کے تمام قوانین اور احکام یہاں تک کہ وراثت کے قوانین بھى مرتب ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں آپ بلاشک اور تردید اس قسم کے اموال رکھتے تھے اور آپ کو بھى غنیمت میں سے حصہ ملتا تھا اس قسم کے مال میں رسول خدا(ص) اور دوسرے مسلمان برابر اور مساوى ہیں اس پر اسلام کے تمام احکام یہاں تک کہ وراثت کے احکام بھى دوسرے مسلمانوں کى طرح مرتب ہوتے ہیں_ جناب زہراء (ع) نے ایسے اموال کى وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا_

ابن ابى الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کسى کو جناب ابوبکر کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ تم رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ہو یا ان کے اہلبیت؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے اہلبیت_ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا پس رسول خدا(ص)

کا حصہ کہاں گیا (8)_

اس قسم کے مال میں جناب رسول خدا(ص) کو جناب ابوبکر کے ساتھ کوئی فرق نہ تھا، جناب ابوبکر باوجودیکہ اپنے آپ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ جانتے تھے وہ بھى اپنے شخصى اموال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے اپنے بعد اپنے وارثوںکى ملک جانتے تھے پس ابوبکر پر ضرورى تھا کہ رسول خدا (ص) کے شخصى مال کو بھى آپ کے وارثوں کى ملک جانتے؟ اسى لئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا تھا کہ تیرى بیٹیاں تو تم سے وراثت لیں لیکن رسول خدا(ص) کى بیٹى اپنے باپ سے وراثت نہ لے؟ جناب ابوبکر نے بھى جواب دیا کہ ہاں ایسا ہى ہے یعنى ان کى بیٹى اپنے باپ سے وراثت نہ لے (9)_


ختم شد

الحمدللہ على اتمامہ و صلى اللہ على محمد و آلہ

1) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 214_
2) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 117_
3)شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 116_
4) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 118_
5) کشف الغمہ، ج 2 ص 103_
6) سورہ مریم آیت 4_
7) سورہ نحل آیت 16_
8) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 219_
9) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 219_