پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

فدك

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانى کے چشمے تھے کہ جس سے پانى ابلتا تھا ہم نے پہلے بھى ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولى اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_

یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 سنہ ہجرى کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسى آدمى کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کى خواہش کی_

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کى دعوت دى لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کى خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کى خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا اس صلح کى وجہ سے فدک کے یہودى اسلام کى حفاظت اور حمایت میں آگئے_

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کى آدھى زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_

تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کى قرارداد کى رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھى تمام آراضى اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنى یہ مال خالص پیغمبر(ص) کى ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کى رو سے جو علاقہ بھى بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_

یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھى یہى حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

" وما افاء اللہ على رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل و لارکاب و لکن اللہ یسلط رسلہ على من یشاء و اللہ على کل شیء قدیر، ما افاء اللہ على رسولہ من اہل القوى فللہ و للرسول " (1)_

یعنى وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_

لہذا اس میں کسى کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھى مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھى خرچ کرتے تھے اور اگر کبھى اسلام کے اعلى مصالح اور حکومت اسلامى کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسى کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنى سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسى کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھى دے دیں اور آپ یہ بھى کرسکتے تھے کہ کسى کى اسلامى خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھى کرسکتے تھے کہ فدک کى آمدنى سے کچھ حکومت اسلامى اور عمومى ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھى حق رکھتے تھے کہ اپنى اور اپنے خاندان کى ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگى کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کى بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_

ابن ابى الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسى نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_ جب کبھى فدک جناب فاطمہ (ع) کى اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور حاجى حضرات تبرّک کے طور پر لے کر ان پر کافى احسان کیا کرتے تھے_ جب یہى عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشر ان بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گئے اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا_ (2)

پیغمبر(ص) کى عادت یہ تھى کہ فدک کى آمدنى سے اپنى اور اپنے خاندان کى ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقى بچ جاتا تھا وہ بنى ہا شم کے فقراء اور ابن سبیل کو دے دیا کرتے تھے اور بنى ہاشم کے فقراء کى شادى کرانے کے اسباب بھى اسى سے مہیا کرتے تھے_


فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ (ع) او رجناب ابوبکر کے درمیان پیا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا، حضرت فاطمہ (ع) مدعى تھیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے، ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادى امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کى صورت اختیار کرلى کہ جس کے آثار اور تنائج جامعہ اسلامى کے سالوں تک دامن گیر ہوگئے اور اب بھى ہیں اس نزاع میں جو بھى حق ہے وہ اچھى طرح واضح اور روشن ہوجائے لہذا چند مطالب کى تحقیق ضرورى ہے_

پہلا مطلب: کیا پیغمبر(ص) :کو دولت او رحکومت کے اموال اپنى بیٹى کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں_ (واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فى اور خمس و غیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامى کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامى صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتى مال نہیں ہوتا، اسى نظریئے کے صاحب کتاب بھى معلوم ہوتے ہیں گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کى اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھى یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھى اسى نظریئے کى تردید ہوتى ہے کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص) اور امام کا شخصى اور ذاتى مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ منصب اور حکومت کا لیکن صاحب کتاب اپنے نظریئے کے مطابق فدک کے قبضئے کو حل کر رہے ہیں ''مترجم''')

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کى زمین کو حکومت کى ملکیت میں ہى رہنا چاہیئے، لیکن ان کى آمدنى کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہیئے لہذا پیغمبر(ص) کے لئے جوہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہى نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اپنى بیٹى زہراء کو بخش دیتے_

لیکن اس اعتراض کا جواب اس طر ح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کى بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کى جاسکتی، لیکن اسے مختصر اور نتیجہ اخذ کرنے کے لئے یہاں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھى کرلیں کہ فدک بھى غنائم اور عمومى اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنى اسلامى حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامى کے مطابق اور پیغمبر(ص) کى سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص) کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھى یہ کہا جائے کہ آپ کا شخص مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھى حاکم اسلامى اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھى اس قسم کے مال کا ان عمومى اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص) کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنى مصلحت اندیى اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومى مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھى سکتے ہیں تا کہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں_ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبى اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا (ص) نے اپنى آراضى خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دیئے تھے کہ جس اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے_

بلاذرى نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے چند قطعات___ بنى نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبدالرحمان بن عوف اور جناب ابو دجانہ و غیرہ کو عنایت فرما دیئے تھے (3)_

ایک جگہ اور اسى بلاذرى نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے بنى نضیر کى زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دے دیا تھا (4)_

بلاذرى لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دے دیا (5) _

بلاذرى لکھتے ہیں کے رسول خدا(ص) نے زمین کے چار قطعے على ابن ابى طالب(ع) کو عنایت فرما دیا دیئے تھے (6)_

پس اس میں کسى کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ حاکم شرع اسلامى کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسى معین آدمى کو بخش دے تا کہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے_ پیغمبر(ص) نے بھى بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے_ حضرت على (ع) او رجناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کى بخشش سے نوازے گئے تھے_

بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص) فدک کى آراضى کو جناب زہراء (ع) کو بخش دیں، صرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخشا بھى تھا یا نہیں، تو اس کے اثبات کے لئے وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پیغمبر(ص) کى پہنچى ہیں کافى ہیں کہ آپ نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، نمونے کے طور پر ابوسعید خدرى روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربى حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے (7)_

عطیہ نے روایت کى ہے کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربى حقہ'' نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا (8)_

على (ع) بن حسین (ع) بن على (ع) بن ابى طالب (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا(9)_

جناب امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت ''وَ ات ذالقربى حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ ''ذالقربى '' کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کى یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالى نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسى لئے فدک تم کو دیتا ہوں (10)_

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کى خدمت میں عرض کى کہ آیا رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ فدک تو خدا کى طرف سے جناب فاطمہ (ع) کے لئے معین ہوا تھا (11)_

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا_

جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لئے گواہ لاؤ، جناب ام ایمن گواہى کے لئے حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز گواہى دیتى ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہى دیتى ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کى کہ اللہ تعالیى فرماتا ہے ''وَ ات ذالقربى حقہ'' پیغمبر(ص) نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذى القربى کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کى کہ فاطمہ (ع) ذوالقربى ہیں پس رسول خا(ص) نے فدک کو دے دیا (11)_

ابن عباس نے روایت کى ہے کہ جب آیت ''وَ ات ذالقربى حقہ'' نازل ہوئی، جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا (12)_

اس قسم کى روایات سے جو اس آیت کى شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) اللہ تعالى کى طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربى فاطمہ (ع) زہراء (ع) کے اختیار میں دے دیں تا کہ اس ذریعے سے حضرت على (ع) کى اقتصادى حالت ''کہ جس نے اسلام کے راستے میں _ جہاد اور فداکارى کى ہے '' مضبوط رہے _

ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذالقربى والى آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں ہوا ہے سورہ اسراء کى آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکّى سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کى فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں دو مطلب میں سے ایک کو اختیار کیا جائے گا اور کہا جائے گا گر چہ سورہ اسرى مکّى ہے مگر پانچ آیتیں اس کى مدینہ میں نازل ہوئی ہیں_

آیت ''و لا تقتلوا النفس'' اور آیت ''و لا تقربوا الزنا'' اور آیت '' اولئک الذین یدعون'' اور آیت ''اقم الصلوة'' اور آیت ''ذى القربى '' (13)_

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذى القربى کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا _


فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دو طریقوں میں سے ایک سے دیا ہو_ پہلا فدک کى آراضى کو آپ کا شخصى مال قرار دے دیا ہو_ دوسرا یہ کہ اسے على (ع) اور فاطمہ (ع) کے___ خانوادے پر جو مسلمانوں کى رہبرى اور امامت کا__ _ گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھى ایک دائمى صدقہ اور وقف ہوجو کہ ان کے اختیار میں ___س دے دیا ہو_

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کى تائید کرتا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھى بعید قرار نہیں دیاگیا بلکہ بعض روایات میں اس پر نص بھى موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے فدک وقف کیا اور پھر آپ ذى القربى کے مطابق وہ آپ(ع) کے اختیار میں دے دیا میں نے عرض کى کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ (ع) کو دیا (14)_

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول(ص) نے فاطمہ (ع) کو فدک بطور قطعہ دیا (15) _

ام ہانى نے روایت کى ہے کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا؟ جناب ابوبکر نے کہا میرى آل و اولاد، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگئے ہو، جناب ابوبکر نے کہا، اے رسول کى بیٹى خدا کى قسم میں رسول اللہ (ص) کا سونے، چاندى و غیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں_ جناب فاطمہ (ع) نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول (ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(16)_

جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق (ع) تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسرى حدیث میں امام زین العابدین نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنى صرف منافع کا اسلامى او رحکومتى زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے_

ایک اور حدیث میں جو پہلے گزرچکى ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں دے دیا_ اس قسم کى احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک کو خانوادہ فاطمہ (ع) و على (ع) پر جو ولایت اور رہبرى کا خانوادہ تھا اور اس کے منافع کو انہیں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا_

''لیکن جن روایات میں وقف و غیرہ کى تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولى بلکہ ضعیف بھى شمار کى جاتى ہیں لہذا صحیح نظریہ یہى ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کى شخصى اور ذاتى ملک تھا جو بعد میں ان کى اولاد کا ارث تھا_ صاحب کتاب اس قسم کى کوشش صرف ایک غرض کے ماتحت فرما رہے ہیں اور یہ غرض اہل علم پر کہ جنہوں نے نہج البلاغہ کى موجودہ زمانے میں جو شرح کى گئی ہے کا مطالعہ کیا ہے مخفى نہیں ہے لیکن شارح بھى حق پر نہیں ہے اور ان کى تصحیح کى کوشش بھى درست نہیں ہے '' مترجم


فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس واقعہ میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے یا جناب ابوبکر کے ساتھ؟ مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کى وفات کے دس دن بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمى بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا (17)_

جب اس کى اطلاع جناب فاطمہ (ع) کو ہوئی تو آپ جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا کہ کیوں تیرے آدمیوں نے میرے فدک پر قبضہ کیا ہے؟ حکم دو کہ وہ فدک مجھے واپس کردیں، جناب ابوبکر نے کہا_ اے پیغمبر(ص) کى بیٹى آپ کے والد نے درہم اور دینار میراث میں نہیں چھوڑٹے آپ نے خود فرمایا ہے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑا کرتے، جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ میرے بابا نے فدک اپنى زندگى میں مجھے بحش دیا تھا_ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ کو اپنے اس مدعا پر گواہ لانے چاہئیں پس على (ع) ابن ابى طالب اور جناب امّ ایمن حاضر ہوء اور گواہى دى کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، لیکن جناب عمر اور عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ ہم گواہى دیتے ہیں کہ رسول خدا (ص) فدک کى آمدنى کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے پس ابوبکر نے کہا اے رسول(ص) کى بیٹى تم سچ کہتى ہو اور على (ع) اور امّ ایمن بھى سچ کہتے ہیں اور عمر اور عبدالرحمن بھى سچ کہتے ہیں اس واسطے کہ آپ کا مال آپ کے والد تھا_ رسول خدا (ص) آپ کا آذوقہ فدک کى آمدنى سے دیا کرتے تھے اور باقى کو تقسیم کردیتے تھے اور راہ خدا میں صرف کیا کرتے تھے (18)_

بلاذرى کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پا س گئیں اور فرمایا کہ فدک میرے والد نے میرے سپرد کیا تھا وہ کیوں نہیں؟ جناب ابوبکر سنے گواہوں کا مضالبہ کیا پس على ابن ابى طالب اور جناب ام ایمن حاضر ہوئے اور گواہى دى جناب ابوبکر نے کہا تمہارے گواہوں کا نصاب ناقص ہے چاہیئے کہ دو مرد گواہى یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہى دیں (19)

على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہیں کہ فا طمہ (ع) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرے والد نے فدک میرے سپرد کیا تھا على (ع) اور امّ ایمن نے گواہى بھى دى تم کیوں مجھے میرے حق سے محروم کرتے ہو_

جناب ابوبکر نے فرمایا کہ آپ سوائے حق کے اور کچھ نہیں فرماتیں فدک آپ کو دیتا ہوں پس فدک کو جناب فاطمہ (ع) کے لئے تحریر کردیا اور قبالہ آپ کے ہاتھ میں دے دیا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط لیا اور باہر آگئیں راستے میں جناب عمر نے آپ کو دیکھا اور پوچھا کہ کہاں سے آرہى ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کے یہاں گئی تھى اور میں نے کہا کہ میرے والد نے فدک مجھے بخشا تھا اور ام ایمن نے گواہى دى تھى لہذا انہوں نے فدک مجھے واپس کردیا ہے اور یہ اس کى تحریر ہے جناب عمر نے وہ تحریر لى اور جناب ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے فدک تحریر کرکے فاطمہ (ع) کو واپس کردیا ہے؟ انہوں نے کہا ہان، عمر نے کہا کہ على (ع) نے اپنے نفع کے لئے گواہى دى ہے اور امّ ایمن ایک عورت ہے اس کے بعد اس تحریر کو پھاڑ ڈالا (20)_

جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے کہا کہ امّ ایمن گواہى دیتى ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا_ ابوبکر نے کہا اے دختر رسول (ص) ، خدا کى قسم میرے نزدیک رسول خدا(ص) سے زیادہ محبوب کوئی بھى نہیں ہے جب آپ وفات پاگئے تو میرا دل چاہتا تھا کہ آسمان زمین پر گرپڑے، خدا کى قسم عائشےہ فقیر ہو تو بہتر ہے کہ تم محتاج ہو_ کیا آپ خیال کرتى ہیں کہ میں سرخ و سفید کا حق تو ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو آپ کے حق سے محروم کرتا ہوں؟ فدک پیغمبر(ص) کا شخصى مال نہ تھا بلکہ مسلمانوں کا عمومى مال تھا آپ کے والد اس کى آمدنى سے فوج تیار کرتے تھے اور خدا کى راہ میں خرچ کرتے تھے، جب آپ(ص) دنیا سے چلے گئے تو اس کى تولیت اور سرپرستى میرے ہاتھ میں آئی ہے (21)_

اس قسم کى گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبکر کے درمیان ہوئی لیکن جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کى بات تسلیم نہیں کى اور جناب زہراء (ع) کو ان کے حق سے محروم کردیا_

اہل علم و دانش اور منصف مزاج لوگوں پر مخفى نہیں کہ جناب ابوبکر کا عمل اور کردار قضاوت اور شہادت کے قوانین کے خلاف تھا اور آپ پر کئی جہات سے اعتراض وارد کئے جاسکتے ہیں_


پہلا اعتراض:

فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامى کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسى گواہ اور بیّنہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب کى ذى الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہى کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقى رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذى الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

اول: جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہى دى تھى کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ''وَ ات ذالقربى حقہ'' فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطى کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى میں فدک حتمى طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا_ دوسرے: حضرت على (ع) نے تصریح فرمائی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ ہاں ہمارے پاس اس میں سے کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہے صرف فدک تھا، ایک گروہ نے اس پر بخل کیا اور دوسرا گروہ راضى ہوگیا اور اللہ ہى بہترین قضاوت کرنے والا ہے (22)_

تیسرے: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ فدک سے جناب فاطمہ (ع) کے آدمیوں اور کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے تو حضرت على (ع) ان کے پا س گئے اور فرمایا اے ابوبکر، اس جائداد کو کہ جو رسول خدا (ص) نے فاطمہ (ع) کو بخش دى تھى اور ایک مدت تک جناب فاطمہ (ع) کا نمائندہ پر قابض رہا آپ نے کیوں لے لى ہے؟ (23)_

رسول خدا(ص) کا فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دینا اور جناب فاطمہ (ع) کا اس پر قابض ہونا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسى لئے جب عبداللہ بن ہارون الرشید کو مامون کى طرف سے حکم ملا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کى اولاد کو واپس کردیا جائے تو اس نے ایک خط میں مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ رسول خدا (ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا اور یہ بات آل رسول (ص) میں واضح اور معروف ہے اور کسى کو اس بارے میں شک نہیں ہے اب امیرالمومنین (مامون) نے مصلحت اسى میں دیکھى ہے کہ فدک فاطمہ (ع) کے وارثوں کو واپس کردیا جائے (24)_

ان شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک جناب رسول خدا(ص) کے زمانے میں حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کے قبضے میں تھا اس قسم کے موضوع میں گواہوں کا طلب کرنا اسلامى قضا اور شہادت کے قانوں کے خلاف ہے_


دوسرا اعتراض:

جناب ابوبکر اس نزاع میں جانتے تھے کہ حق جناب فاطمہ (ع) کے ساتھ اور خود_ انہیں جناب زہراء (ع) کى صداقت اور راست گوئی کا نہ صرف____ اعتراف تھا بلکہ تمام مسلمان اس کا اعتراف کرتے تھے کوئی بھى مسلمان آپ کے بارے میں جھوٹ اور افتراء کا احتمال نہ دیتا تھا کیوں کہ آپ اہل کساء میں سے ایک فرد تھیں کہ جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے کہ جس میں خداوند عالم نے آپ کى عصمت اور پاکیزگى کى تصدیق کى ہے_

دوسرى طرف اگر دیکھا جائے تو یہ مطلب کتاب قضا اور شہادت میں ثابت ہے کہ اموال اور دیوں کے معاملے میں اگر قاضى کو واقعہ کا علم ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرسکتا ہے او روہ گواہ اور بینہ کا محتاج نہ ہوگا، بنابراین جناب ابوبکر جب جانتے تھے کہ حضرت زہراء (ع) ، سچى ہیں اور رسول خدا(ص) نے فدک انہیں عطا کیا ہے تو آپ کو چاہیئے تھا کہ فوراً جناب زہراء (ع) کى بات تسلیم کرلیتے اور آپ سے گواہوں کا مطالبہ نہ کرتے_

جى ہاں مطلب تو یوں ہى ہے کہ جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق حضرت زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور رسول خدا(ص) نے فدک میں انہیں دے دیا ہے شاید ابوبکر پیغمبر(ص) کے اس عمل سے ناراض تھے اسى لئے جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں کہا کہ یہ مال پیغمبر اسلام کا نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا مال تھا کہ جس سے پیغمبر (ص) فوج تیار کرتے تھے اور جب آپ فوت ہوگئے تو اب میں اس مال کا متولى ہوں جیسے کہ پیغمبر(ص) متولى تھے (25)_

ایک اور جگہ جناب ابوبکر نے اپنے آپ کو دوبڑے خطروں میں دیکھا ایک طرف جناب زہراء (ع) مدعى تھیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک انہیں بخشا ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے دو گواہ على (ع) اور ام ایمن کو حاضر کیا اور جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور انہیں اور ان کے گواہوں کو نہیں چھٹلا سکتے تھے اور دوسرى طرف سیاست وقت کے لحاظ سے جناب عمر اور عبدالرحمن کو بھى نہیں جھٹلاسکتے تھے تو آپ نے ایک عمدہ چال سے جناب عمر کے قول کو ترجیح دى اور تمام گواہوں کے اقوال کى تصدیق کردى اور ان کے اقوال میں جمع کى راہ نکالى اور فرمایا کہ اے دختر رسول (ص) آپ سچى ہیں على (ع) سچے ہیں اور ام ایمن سچى ہیں اور جناب عمر اور عبدالرحمن بھى سچے ہیں، اس لئے کہ جناب رسول خدا(ص) فدک سے آپ کے آذوقہ کى مقدار نکال کر باقى کو تقسیم کردیتے تھے اور اسے خدا کى راہ میں خرچ کرتے تھے اور آپ اس مال میں کیا کریں گی؟ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہى کروں گى جو میرے والد کرتے تھے، جناب ابوبکر نے کہا کہ میں قسم کھا کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھى وہى کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے (26)_

ایک طرف تو جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے اس ادعا ''کہ فدک میرا مال ہے'' کى تصدیق کرتے ہیں اور حضرت على (ع) اور ام ایمن کى گواہوں کى بھى تصدیق کرتے ہیں اور دوسرى طرف جناب عمر اور عبدالرحمن کے قول کی بھى انہوں نے کہا کہ رسول خدا فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے تصدیق کرتے ہیں اور اس وقت اپنے اجتہاد کے مطابق ان اقوال (توافق) جمع کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کى وجہ یہ تھى کہ آپ کا مال آپ کے والد کا مال تھا کہ جس سے آپ کا آذوقہ لے لیتے تھے اور باقى کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور خدا کى راہ میں خرچ کردیتے تھے اس کے بعد جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) سے پوچھتے ہیں کہ اگر فدک آپ کو دے دیا جائے تو آپ کیا کریں گی، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کى طرح خرچ کروں گى تو فوراً جناب ابوبکر نے قسم کھا کر جواب دیا کہ میں بھى وہى کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے اور میں آپ(ص) کى سیرت سے تجاوز نہ کروں گا_

لیکن کوئی نہ تھا کہ جناب ابوبکر سے سوال کرتا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ فدک جناب زہراء (ع) کى ملک ہے اور آپ جناب فاطمہ (ع) اور ان کے گواہوں کى تصدیق بھى کر رہے ہیں تو پھر ان کى ملکیت ان کو واپس کیوں نہیں کردیتے؟ جناب عمر اور عبدالرحمن کى گواہوں صرف یہى بتلانى ہے کہ پیغمبر(ص) فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے، اس سے جناب زہراء (ع) کى ملکیت کى نفى تو نہیں ہوتى کیونکہ پیغمبر(ص) جناب زہراء (ع) کى طرف سے ماذون تھے کہ فدک کى زائد آمدنى کو راہ خدا میں خرچ کردیں، لیکن اس قسم کى اجازت جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر کو تو نہیں دے رکھى تھى بلکہ اس کى اجازت ہى نہیں دى تو پھر ابوبکر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ میں بھى آپ کے والد کى سیرت سے تجاوز نہ کروں گا، مالک تو کہتا ہے کہ میرى ملکیت مجھے واپس کردو اور آپ اس سے انکار کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ میں بھى آپ کے والد کى طرح عمل کروں گا، سبحان اللہ اور آفرین اس قضاوت اور فیصلے پر_

 

تیسرا اعتراض:

فرض کیجئے کہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے گواہوں کے نصاب کو ناقص سمجھتے تھے اور ان کى حقانیت پر یقین بھى نہیں رکھتے تھے تو پھر بھى ان کا وظیفہ تھا کہ حضرت زہراء (ع) سے قسم کھانے کا مطالبہ کرتے اور ایک گواہ اور قسم کے ساتھ قضاوت کرتے کیوں کہ کتاب قضا اور شہادت میں یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ ام وال اور دیون کے واقعات میں قاضى ایک گواہ کے ساتھ مدعى سے قسم لے کر حکم لگا سکتا ہے، روایت میں موجود ہے کہ رسول خدا (ص) ایک گواہ کے ساتھ قسم ملا کر قضاوت اور فیصلہ کردیا کرتے تھے (27)_


چوتھا اعتراض:

اگر ہم ان سابقہ تمام اعتراضات سے صرف نظر کرلیں تو اس نزاع میں جناب فاطمہ (ع) مدعى تھیں کہ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ نے فدک انہیں بخش دیا ہے اور جناب ابوبکر منکر تھے اور کتب فقہى میں یہ مطلب مسلم ہے کہ اگر مدعى کا ثبوت ناقص ہو تو قاضى کے لئے ضرورى ہوجاتا ہے کہ مدعى کو اطلاع دے کہ تمہارے گواہ ناقص ہیں اور تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تم منکر سے قسم اٹھانے کا مطالبہ کرو، لہذا جناب ابوبکر پر لازم تھا کہ وہ جناب زہراء (ع) کو تذکر دیتے کہ چونکہ آپ کے گواہ ناقص ہیں اگر آپ چاہیں تو چونکہ میں منکر ہوں آپ مجھ سے قسم اٹھوا سکتى ہیں، لیکن جناب ابوبکر نے قضاوت کے اس قانون کو بھى نظرانداز کیا اور صرف گواہ کے ناقص ہونے کے ادعا کو نزاع کے خاتمہ کا اعلان کر کے رد کردیا_

 

پانچواں اعتراض:

اگر فرض کرلیں کہ جناب زہراء (ع) کى حقانیت اس جگھڑے میں جناب ابوبکر کے نزدیک ثابت نہیں ہوسکى تھى لیکن پھر بھى فدک کى آراضى حکومت اسلامى کے مال میں تھی، مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کو حق پہنچتا تھا کہ وہ عمومى مصلحت کا خیال کرتے، جب کہ آپ اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ تصور کرتے تھے، فدک کو بعنوان اقطاع جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اس عمل سے ایک بہت بڑا اختلاف جو سالہا سال تک مسلمانوں کے درمیان چلنے والا تھا اس کے تلخ نتائج کا سد باب کردیتے_

کیا رسول خدا(ص) نے بنى نضیر کى زمینیں جناب ابوبکر اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو دجانہ کو نہیں دے دى تھیں (28) _

کیا بنى نضیر کى زمین مع درختوں کے زبیر بن عوام کو پیغمبر(ص) اسلام نے نہیں دے دى تھیں (29)_

کیا معاویہ نے اسى فدک کا تہائی حصہ کے عنوان سے مروان بن الحکم اور ایک تہائی جناب عمر بن عثمان کو اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو نہیں دے دیا تھا (30)_

کیا یہ بہتر نہ تھا کہ جناب ابوبکر بھى اسى طرح دختر پیغمبر(ص) کو دے دیتے اور اتنے بڑے خطرے اور نزاع کو ختم کردیتے؟

 

چھٹا اعتراض:

اصلاً جناب ابوبکر کا اس نزاع میں فیصلہ اور قضاوت کرنا ہى ازروئے قانون قضاء اسلام درست نہ تھا کیونکہ جناب زہراء (ع) اس واقعہ میں مدعى تھیں اور جناب ابوبکر منکر تھے، اس قسم کے موارد میں یہ فیصلہ کسى تیسر آدمى سے _ کرانا چاہیئے تھا، جیسے کہ پیغمبر(ص) اور حضرت على (ع) اپنے نزاعات میں اپنے علاوہ کسى اور قاضى سے فیصلہ کرایا کرتے تھے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جناب ابوبکر خود ہى منکر ہوں او رخود ہى قاضى بن کر اپنے مخالف سے گواہ طلب کریں اور اپنى پسند کا فیصلہ اور قضاوت خود ہى کرلیں_

ان تمام مطالب سے یہ امر مستفاد ہوتا ہے کہ فدک کے معاملے میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ تھا اور جناب ابوبکر نے عدل اور انصاف کے راستے سے عدول کر کے ان کے حق میں تعدى اور تجاوز سے کام لیا تھا_

 

1) سورہ حشر آیت 6_
2) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 217_
3) فتوح البلدان، ص 21_
4) فتوح البلدان، ص 34_
5، 6) فتوح البلدان، ص 27
7) کشف الغمہ، ج 2 ص 102_ در منثور، ج 4 ص 177_
8،9) کشف الغمہ ج 2 ص 102_
10، 11) تفسیر عیاشى ج 2 ص 270_
11) تفسیر عیاشی، ج 2 ص 287_
12) در منثور، ج 4 ص 177_
13) تفسیر المیزان تالیف استاد بزرگ علامہ طباطبائی ج 13 ص 2_
14) بحار الانوار، ج 96 ص 213_
15) کشف الغمہ، ج 2 ص 102_
16) فتوح البلدان، ص 44_
17) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 263_
18) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 216_
19) فتوح البلدان، ص 44_
20) شرح ابن ابى الحدید، ص 16 ص 274_
21) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 214_
22) نہج البلاغہ باب المختار من الکتاب، کتاب 45_
23) نورالثقلین، ج 4 ص 272_
24) فتوح البلدان، ص 46_
25) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 214_
26) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 216_
27) مجمع الزوائد، ج 3 ص 202 _
28) فتوح البلدان، ص 31_
29) فتوح البلدان، ص 34_
30) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 216_