پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 25 ہمت مردان


ہمّت مرداں مدد خدا


اسلامى لغت میں ''سوال'' کے دو معنى بیان کئے جاتے ہیں ایک معنى پوچھنے کے ہیں_ یعنى نہ جاننے والا کسى جاننے والے سے سوال کرتا ہے، تا کہ اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرسکے اس لحاظ سے سوال کرنا بہت اچھا اور پسندیدہ فعل ہے_ جو شخص نہیں جانتا اسے چاہئے کہ وہ جاننے والوں سے سوال کرے تا کہ اس کے علم و آگاہى میں اضافہ ہوجائے دین اسلام کے پیشواؤں کے کلام میں ملتا ہے کہ علم و دانش کے بند دروازوں کى چابى ''سوال'' کرنا ہے''
سوال کے دوسرے معنى کسى سے مدد طلب کرنے اور بلامعاوضہ کوئی چیز مانگنے کے ہیں ان معنوں میں کسى سے سوال کرنا اسلامى نقطہ نگاہ سے بہت ہى برا اور ناپسندیدہ عمل ہے_ ایک شخص نے پیغمبر(ص) سے پوچھا کہ:


یا رسول اللہ(ص) مجھے کوئی ایسا عمل بتایئےہ مجھے اس کے بجالانے کے بعد یقین ہوجائے کہ میں اہل جنّت میں سے ہوں''
پیغمبر(ص) نے اس کے جواب میں تین چیزوں کے متعلق فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آخرت میں جنتیوں کے زمرے میں شامل ہوجاؤ تو ان تین چیزوں کى ہمیشہ پابندى کرو:


1)___ بلاوجہ غصہ نہ کرو
2)___ کبھى لوگوں سے سوال نہ کرو
3)___ لوگوں کے لئے وہى چیز پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو_


نیز پیغمبر(ص) نے فرمایا:
جو شخص ایک دو دن کى روزى رکھنے کے باوجود لوگوں سے سوال کرے تو خداوند عالم اسے قیامت کے دن برے چہرے سے محشور کرے گا''
پیغمبر(ص) خدا مسلمانوں کى غیرت و شرافت انسانى کے اتنے قائل تھے کہ آپ کو پسند نہ تھا کہ کوئی مسلمان اپنى عزت و آبرو کو اس کے اور اس کے سامنے رسوا کرے اور بغیر ضرورت اور لاچارى کے سوال کے لئے لب کشائی کرے اور خدا کے سوا اور کسى سے حاجت طلب کرے_
آپ(ص) فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرتا پھرے حالانکہ آپ(ص) ضرورت کے وقت محتاجوں اور ضرورت مندوں کى مدد و نصرت بھى کیا کرتے تھے لیکن پسند نہیں کرتے کہ مومن اپنى عزّت و شرافت اور آبرو کو کسى کے سامنے رسوا کرے یہاں تک کہ خود پیغمبر(ص) کے سامنے بھى اظہار حاجت اور نیازمندى کرے اور آپ(ص) تاکید فرماتے تھے کہ:
ہر وہ شخص جو بے نیازى کا مظاہرہ کرے اور کسى سے سوال نہ کرے اور اپنے دل کے راز کو فقط اپنے خدا سے کہے تو خدا اسے بے نیاز کردے گا لیکن جو شخص بلاوجہ اس سے اور اس سے سوال کرے اور اپنى عزّت نفس کو مجروح کرے، خداوند عالم بھى اس کے لئے فقر و نیازمندى کے دروازے کھول دیتا ہے''
اس مطلب کو بہتر طور پر سمجھنے اور پیغمبر خدا(ص) کى انسان ساز اور عزّت آفرین سنّت کو اچھى طرح سمجھنے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمایئےور اس میں حضرت رسول خدا(ص) کے اس شخص سے برتاؤ پر توجّہ دیجئے_
ایک شخص مدّت سے بے کار تھا اور بے کارى نے اسے فقیر و تہى دست کردیا تھا اس کے سامنے فقر سے نجات اور ضروریات پورى کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے اور اس کا کوئی علاج دکھائی نہ دیتا تھا ایک دن اس شخص نے اس مسئلہ کو اپنى بیوى کے سامنے بیان کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا،
اس کى بیوى نے کہا کہ رسو ل خدا(ص) ایک مہربان اور کریم و سخى انسان ہیں بہتر ہے کہ ان کى خدمت میں جاؤ اور اپنى حالت کو بیان کرو اور ان سے مدد طلب کرو_

اس شخص کو یہ تجویز پسند آئی وہ اٹھا اور رسول(ص) کى خدمت میں حاضر ہوا، سلام کیا اور شرم کے مارے ایک کونے میں بیٹھ گیا_
رسول اکرم(ص) نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالى اور ایک ہى نگاہ میں تمام معاملے کو سمجھ گئے اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنى مصیبت اور تنگدستى کے متعلق کچھ کہتا اور سوال کے لئے لب کشائی کرتا پیغمبر(ص) نے گفتگو کے لئے اپنے لب کھولے اور وہاں موجود افراد سے ان الفاظ میں خطاب فرمایا:


ہم ہر سائل کى مدد کریں گے لیکن اگر وہ بے نیازى اختیار کرے اور اپنا ہاتھ مخلوق کے سامنے نہ پھیلائے اور کام میں زیادہ محنت و کوشش کرے تو خدا اس کى احتیاج کو پورا کرے گا_
خدا کے رسول(ص) کى مختصر و پر معنى گفتگو اس محتاج انسان کے دل پر اثر کر گئی_ آپ کے مقصد کو اس شخص نے سمجھ لیا اپنى جگہ سے اٹھا آپ کو خداحافظ کہا اور اپنے گھر لوٹ آیا_ بیوى جو اس کے انتظار میں تھى اس نے ماجرا دریافت کیا_
مرد نے جواب دیا کہ:
میں رسول خدا(ص) کى خدمت میں گیا تھا اس سے پہلے کہ کچھ کہتا، رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص چاہے ہم اس کى مدد کریں گے لیکن اگر بے نیازى اختیار کے اور اپنا ہاتھ کسى کے سامنے نہ پھیلائے تو خدا اس کى احتیاج کو دور کردے گا میں سوچتا ہوں کہ آپ(ص) کى نظر میری حالت پر تھى اسى لئے میں نے کچھ نہ کہا اور گھر واپس لوٹ آیا ہوں لہذا پیغمبر(ص) کے ارشاد کے مطابق ہمیں خود ہى کوئی علاج سوچنا چاہئے_


اس نے ایک دودن مزید مشکل اور پریشانى میں کاٹے اور غور و فکر کرتا رہا لیکن تمام سوچ بچار کے باوجود کوئی مناسب کام اور کوئی ایسا علاج جو اسکے بند دروازے کو کھول دیتا اس کے ذہن میں یہ آیا مجبوراً اس نے دوبارہ ارادہ کیا کہ پیغمبر(ص) خدا کى خدمت میں جائے اور اپنى حالت کو بیان کرے اور آپ سے امداد طلب کرے_


دوبارہ خدمت رسول(ص) میں پہنچا، سلام کیا اور شرمسارى کے ساتھ آپ(ص) کے سامنے بیٹھ گیا منتظر تھا کہ موقع ملے اور اپنے مقصد کو پیغمبر(ص) کے سامنے بیان کرے لیکن رسول (ص) خدا جن کے نزدیک ایک انسان کى عزّت و آبرو کى بہت قیمت تھی، آپ(ص) نے اسے موقع نہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو شرمندہ کرے اور پیغمبر(ص) کے سامنے اپنى حاجت کا اظہار کرے اس سے پہلے کہ وہ اس بات کے لئے لب کشائی کرے آپ(ص) نے دوبارہ وہى جملہ دہرایا:
ہم ہر سائل کى مدد کریں گے لیکن اگر وہ بے نیازى اختیار کرے اور اپنا ہاتھ مخلوق کے سامنے درازنہ کرے اور اپنے کام میں زیادہ محنت و کوشش کرے تو خدا اس کى ضروریات پورى کردے گا_
پیغمبر خدا(ص) کى گفتگو نے اس شخص کے ایمان قلبى کو راسخ و قوى کردیا اور عزت نفس، آبرو اور شرافت کى اہمیت کو اس کے سامنے واضح

کردیا اس نے سوال کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور گھر واپس لوٹ آیا جہاں اس کى بیوى فقر و فاقہ سے عاجز، رسول(ص) خدا کى طرف سے مدد کے انتظار میں بیٹھى تھی_ شوہر نے پیغمبر(ص) سے ملاقات کى تفصیل کو بیوى کے سامنے بیان کیا اور دونوں ایک بار پھر فقر و فاقہ کے تدارک کى فکر کرنے لگے مگر نتیجہ وہى ڈھاک کے تین پات آخر کار انہوں نے پکا ارادہ کرلیا کہ رسول(ص) خدا کى خدمت میں جائیں اور ہر حال میں اپنے مقصد کو بیان کریں اور مدد طلب کریں_


اب تیسرى دفعہ وہ پیغمبر(ص) کى خدمت میں شرف یاب ہوا وہ قطعى فیصلہ کرچکا تھا کہ اپنے رنج و مصیبت اور پریشانى کو آپ(ص) کے سامنے تفصیل سے بیان کرے گا اور آپ(ص) سے مدد طلب کرے گا لیکن جو نہى اس کى نگاہ پیغمبر(ص) کے چہرہ مبارک پر پڑى اس کے تمام وجود کو شرم و حیا نے گھیرلیا اور کافى دیر تک آرام سے ایک گوشہ میں بیٹھا رہا اور سورچ رہا تھا کہ کیا کہے_ اسى دوران رسول(ص) خدا کى عزّت آفرین کلام کو سنا، آپ(ص) یقین و امید کے لہجے میں فرما رہے تھے: جو شخص مدد طلب کریگا ہم اس کى مدد کریں گے لیکن اگر وہ زیادہ محنت کرے تو خدا اس کى ضرورت و حاجت کو دور کردے گا_ وہ اپنى جگہ سے اٹھا اور محبت آمیز نگاہ رسول(ص) چہرے پر ڈالى گویا وہ محسوس کرچکا تھا کہ رسول(ص) اس کى عزت و آبرو کى حفاظت کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اور آپ نہیں چاہتے کہ وہ اپنى عزّت و آبرو کو اس آسانى کے ساتھ کھو بیٹھے اس نے رسول کو خداحافظ کہا اور گھر واپس لوٹ آیا_
خدا کے رسول(ص) کى باتوں نے اس کے دل سے سستی، شک و شبہ اور ناامیدى کو پورى طرح دور کردیا اور اس کى جگہ طاقت اور یقین نے لے لی اور اللہ پر اعتماد کے ساتھ اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ سخت محنت و کوشش کرے گا اور ہر حال میں کوئی نہ کوئی کام شروع کرے گا اور اس طرح اپنى محتاج اور بے سر و سامانى کو دور کرنے کى کوشش کرے گا_
ایک بار پھر وہ خالى ہاتھوں لیکن عزم و امید سے لبریز دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور اپنى بیوى کے سامنے پورا قصہ اور اپنا فیصلہ بیان کیا_


دوسرے دن صبح ہى صبح وہ گھر سے نکلا اور صحرا کى جانب چل پڑا صبح سے شام تک سخت محنت اور مستقل مزاجى کے ساتھ لکڑیوں کا ایک ڈھیر اکٹھا کیا اور اسے کاندھے پر اٹھا کر شہر کى جانب چل دیا لکڑیوں کو بیچ کر تھوڑى سى غذا کا انتظام کیا اور خوش و خرم گھر کى طرف روانہ ہوا اس کى بیوى جو اس کے انتظار میں بیٹھى ہوئی تھى اس کے استقبال کے لئے خوش خوشى دوڑى ہوئی آئی دونوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور محنت کوشش اور خدا پر اعتماد کے پھل کى لذّت کو چکھا''
دوسرے دن بھى صبح ہى صبح پکے ارادے کے ساتھ صحرا کى طرف روانہ ہوا اور خوب تلاش و کوشش کے بعد لکڑیوں کا ایک ڈھیر اکٹھا کرلیا_ کندھے پر ڈآلا اور شہر کى طرف چل پڑایوں یہ شخص ایک مدّت تک اسى طرح کام کرتا رہا_
آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے اس نے لکڑى کاٹنے کے لئے ایک کلہاڑى اور سامان اٹھانے کے لئے ایک جانور خرید لیا اس کاکام دن بدن بہتر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اپنے مال کے ایک حصّہ سے غریبوں اور سکینوں کى مدد کرنے لگا وہ لذّت اور خوشى جو اسے اپنى کوشش اور

کام کرنے سے حاصل ہوئی تھى دوسروں سے اس کا تذکرہ کرتا اور انہیں بھى محنت کرنے کى طرف راغب کرتا،
ایک دن اس کى رسول (ص) خدا سے ملاقات ہوئی اسے وہ سختیوں کے دن اور پیغمبر(ص) کى وہ حوصلہ افزا گفتگو یاد آگئی کہ کس طرح خدا کے رسول(ص) نے اس کى عزت و آبرو کى حفاظت کى تھی، کہنے لگا:
یا رسول(ص) خدا میرا کام بہت اچھا چل رہا ہے_ اور میرے حالات زندگى بھى اچھے ہوگئے ہیں''
رسول خدا(ص) مسکراے اور فرمایا:
میں نے نہیں کہا تھا کہ جو بے نیازى کا اظہار کرے خدا اسے محتاجى سے نجات دیتا ہے_ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ سچا ہوتا ہے البتہ اس کے ساتھ ا جر و ثواب اور نیک انجام بھى عطا فرماتا ہے_
آپ نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) کى نگاہ میں انسان کى عزّت و شرافت کى کتنى قدر و قیمت ہے اور آپ(ص) سوال کرنا کتنا ناپسند فرماتے تھے؟
کام اور کام کرنے والا اسلام کى نظر میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے بالخصوص وہ کام جس کے ذریعہ کوئی چیز پیدا کى جائے ان کى اتنى قدر و قیمت ہے کہ عبادت میں بلکہ بہترین عبادات میں شمار ہوتے ہیں_
پیغمبر (ص) اکرم نے فرمایا ہے کہ:
عبادات کے ستّر اجزاء ہیں اور ان میں سب سے بہترین کام کرنا ہے وہ کام کہ جس سے حلال روزی حاصل ہو''
امام محمد(ص) باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص کام کرے اور محنت کرے تا کہ لوگوں سے سوال نہ کرنا پڑے اور اپنے خاندان کے اخراجاتن میں وسعت دے سکے اور اپنے ہمسایوں کى مدد کرے جب وہ آخرت میں محشور ہوگا تو اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کى طرح چمکتا ہوگا،
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
جو شخص اپنے خاندان کے لئے روزى حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کى طرح ہے جو اللہ کى راہ میں جہاد کرتا ہے''

 

آیت قرآن


فاذا قضیت الصّلوة فانتشروا فى الارض وابتغوا من فضل اللہ''
جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل کى تلاش کرو''


سوچئے اور جواب دیجئے

1)___ سوال کرنے سے کیا مراد ہے؟ ان دونوں معنى کو جو سبق میں بیان کئے گئے ہیں تحریر کیجئے؟
2)___ علم کے بند دروازے کى چابى کیا ہے؟ وضاحت کیجئے کہ کس طرح؟
3)___ پیغمبر(ص) نے اس مرد کى درخواست کے جواب میں کیا کہا جس نے کہا تھا کہ اسے کچھ کام سکھائیں؟
4)___ جس شخص کے پاس ایک دودن کى روزى موجود ہو اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا پھرے قیامت میں کس طرح محشور ہوگا؟
5)___ پیغمبر(ص) نے اس مرد سے کیا فرمایا جو آپ(ص) سے سوال کرنے آیا تھا؟
6)___ پیغمبر(ص) کى امید افزا گفتگو نے کس طرح ا س مرد کو کام کرنے پر آمادہ کیا؟
7)___ رسول اکرم(ص) کام کرنے اور حلال روزى کمانے کے بارے میں کیا قول ہے؟
8)___ امام محمد باقر (ع) کا قول محنت و کوشش کے متعلق کیا ہے؟ اس کے مفہوم کى وضاحت کیجئے؟
9)___ امام جعفر صادق (ع) نے کن افراد کو جہاد کرنے والوں میں شمار کیا ہے؟