پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 20 مشركوں كا مكر و فريب

مشرکوں کا مکر و فریب


جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کى اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کى بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟
رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کى آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کى طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبرى دى کہ:
جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتى جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالى کى راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہى مہربان اور بخشنے والا ہے''
لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟
اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزارى ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟
کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کى طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبى ہے؟
کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_
اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگى گزارى جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام ... نہ کوئی آمدنى اور نہ ہى گھر ... یہ
یہ تمام مشکلات ان کى آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_
لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کى مدد سے ان فداکار مسلمانوں نے مدینہ کى طرف ہجرت کا آغاز کیا''
مشرکوں کو جب اس کى اطلاع ملى تو اس وقت تک کافى زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کى ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھى آدھى رات کے وقت جب نگرانى کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمى پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''
اس قسم کى ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کى وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کى تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_
اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کى ابتداء ان الفاظ سے کی:
'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کى آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کى طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہى کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعى فیصلہ نہ کیا گیا تو باقى ماندہ فرصت بھى ہاتھ سے نکل جائے گى اور بہت جلد محمد(ص) بھى مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_
جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہى ایک راستہ باقى ہے_ ایک بہادر آدمى کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنى ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہى ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگى بسر کرنے کی''
ایک بوڑھا آدمى جو ابھى ابھى اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

نہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بنى ہاشم یقینا خونبہا لینے پر راضى نہیں ہوں کے جس طرح بھى ہوگا وہ قاتل کو پتہ لگا کر اسے قتل کردیں گے کس طرح ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اس کام کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کیا کوئی تیار ہے؟
کسى نے جواب نہ دیا،
دوسرے نے کہا:
کیسا رہے گا کہ اگر محمد (ص) کو پکڑ کر قید کردیں؟ کسى کو ان سے ملنے نہ دیں اس طرح لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور لوگ ان کو اور ان کى دعوت کو بھول جائیں گے''
اس بوڑھے نے کہا:
نہیں: یہ اسکیم بھى قابل عمل نہیں ہے، کیا بنى ہاشم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور تم آسانى کے ساتھ محمد(ص) کو گرفتار کرلوگے؟ اور اگر بالفرض ان کو پکڑ بھى لو تو بنى ہاشم تم سے جنگ کریں گے اور انہیں آزاد کرالیں گے''
ایک اور آدمى بولا:
محمد(ص) کو اغوا کر کے ایک دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں انہیں خفیہ طریقے سے گرفتار کر کے ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر ان کے پاؤں اونٹ کى پیٹھ کے نیچے مضبوطى سے باندھ دیں اور اس اونٹ کو کسى دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں تا کہ بیابان کى بھوک و پیاس سے محمد(ص) ہلاک ہوجائیں_ اور اس صورت میں قبائل میں سے انہیں کوئی بچا بھى لے تو وہ مجبوراً اپنى دعوت سے دستبردار ہوجائیں گے کیونکہ اس حالت میں انہیں کون پہنچانے گا اور کون ان کى باتوں اور ان کى دعوت پر کان دھرے گا یہ ایک بہترین طریقہ ہے اے ضعیف مرد''
وہ بوڑھا تھوڑى دیر خاموش رہا جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے_ کچھ توقف کے بعد اس نے سکوت کو توڑا اور گفتگو شروع کی:
نہیں ... ... یہ کام بھى قابل عمل نہیں ہے_ اول تو یہ کہ تم اتنى آسانى سے محمد کو گرفتار نہ کرسکوں گے، دوسرے یہ کہ تم نہیں جانتے کہ اگر انہیں بیابان میں چھوڑ آؤ اور وہ کسى قبیلے میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ اپنى عمدہ اور دلنشین گفتگو سے کہ جسے وہ قرآن کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگوں کو اپنى طرف بلائیں گے اور یوں تمہارے ساتھ جنگ کرنے اور تم سے اور تمہارے بتوں اور رسم و رواج سے لڑنے اور تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط مرکز پالیں گے''
عجیب بوڑھا ہے؟ جو کچھ کہتے ہیں ان کى مخالفت کرتا ہے؟
اے ضعیف مرد تم بتاؤ تمہارى تجویز کیا ہے؟
وہ بوڑھا کچھ دیر تک اور خاموش رہا، سب اس کى طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے تھوڑى دیر سوچنے کے بعد دھیمى آواز میں بولا، جانتے ہو کہ اس کا قابل عمل علاج کیا ہے؟
علاج یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک آدمى منتخب کرو اور انہیں اس بات پر مامور کرو ہ وہ سب مل کر رات کى تاریکى میں محمد(ص) پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ان کے بستر پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں اس طرح سے بنى ہاشم بھى قاتل کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ ہى ایک ساتھ سب سے جنگ کرسکیں کے لہذا وہ خونبہا لے کر خاموش اور راضى ہوجائیں گے اجلاس میں شامل لوگوں نے بحث و گفتگو کے بعد اسى طریقہ کار کى تائید کى اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرلیا لیکن خداوند عالم کى ذات ان کى باتوں اور ان کے برے ارادوں سے غافل نہ تھی_

خداوند عالم فرماتا ہے:
ہرگز گمان مت کرو کہ خدا ظالموں کے کردار سے غافل ہے نہیں: ان کے اعمال کى تمات تر سزا کو اس دن تک کہ جس دن سخت عذاب سے آنکھیں بند اور خیرہ ہوں گى اور گردش کرنے سے رک جائیں گى ٹال دیا ہے اس دن یہ جلدى (دوڑتے ہوئے) اور سرجھکائے حاضر ہوں گے لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ جسکا عذاب ان کو گھیرے گا اور ظالم کہیں گے کہ پروردگار ہمارى موت کو کچھ دن کے لئے ٹال دے تا کہ ہم تیرى دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے پیغمبروں کى پیروى کریں کیا تم ہى نہیں تھے کہ قسم کھاتے تھے کہ ہم پر موت اور زوال نہیں آئے گا؟''


آیت قرآن


'' و مکروا و مکر اللہ و اللہ خیر الماکرین''
سورہ آل عمران آیت 54
انہوں نے مکر و فریب کیا اور اللہ نے ان کا جواب دیا اور اللہ بہترین نقشہ کشى کرنے والا ہے_

سوچئے او رجواب دیجئے


1) ___ جب مسلمانوں نے پیغمبر(ص) سے مصائب اور سختیوں کى روک تھام کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کیا جواب دیا؟ اور خداوند عالم کى جانب سے کون سى خوشخبرى دی؟
2)___ ہجرت کى مشکلات کیا تھیں؟ اور مسلمان کس طرح ان مشکلات پر غالب آتے تھے؟
3)___ مسلمان کس طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچا کرتے تھے؟
4)___ مسلمانوں کى ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفار پر کى اثر ڈالا؟
5)___ کفّار نے کس مسئلہ کے بارے میں اجلاس منعقد کى اور کس بات پر ان کا اتفاق ہوا تھا؟
6)___ خداوند عالم ظالموں کى سزا کے متعلق قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے؟ اور ظالم اپنے پروردگار سے کیا کہیں گے اور کیا خواہش کریں گے اور خدا انہیں کى جواب دے گا؟