پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 19 پيغمبر اكرم كى بيعت


پیغمبر اکرم(ص) کى بیعت


حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسى دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کى دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_
اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانى آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کى ان آیات کى تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستى کى تائید اور شرک و بت پرستى کى نفى کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_
ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کى جاتى ہیں جن کا تعلق سورہ نحل سے ہے''
خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانى ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کى خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزى حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کى مکّھى کو وحى کى ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کى مکھى سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانى موجود ہے خدا ہى ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہى ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفى اور بڑھا پے کى عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھى نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے ...
پس کیوں غیر خدا کى پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کى روزى نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہى ان کے ذمہ کوئی کام ہے ...


قرآن مجید کى آیات کے معنى اور پیغمبر(ص) کى حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھرى گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسى (ع) نے اپنى آسمان کتاب میں خبر دى ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستى کى ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کى اس تمہیدى گفتگو ان کى روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسى مجلس میں اسلام قبول کرلیا،
جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:
ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جارى ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کى طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانى دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_
یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کى تبلیغ نے اسلام کى نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردى اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافى تعداد میں لوگ اسلام کى طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھى کرلیا_
تھوڑا ہى عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمى مکّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنى خدمات وقف کردیں_
ان افراد کى پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنى آسان نہ تھى کیونکہ مکّہ کى حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہى تھى اور شہر مکّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکى کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسى جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کى نظروں سے دور تھى یہ ملاقات آدھى رات کو عقبہ نامى جگہ پر رکھى گئی_

 

عقبہ کا معاہدہ


آدھى رات کے وقت چاند کى معمولى روشنى میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمى پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کى خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھى مکّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _
تمام گفتگو بہت رازدارى کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدى صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنى اپنى راہ لی_ اور خوش بختى سے مکّہ کے مشرکوں میں سے کسى کو بھى اس جلسہ کى خبر نہ ہوئی_ مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسى رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟
انہوں نے جواب میں کہا کہ:
ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چورى نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنى اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کى مدد کریں گے اور آپ کى نافرمانى نہیں کریں گے''

 

مدینہ میں تبلیغ اسلام


ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمى ہمارى طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کى تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_
پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامى ان کى طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانى کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھى آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،
لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن کى تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کى اعلى تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:
جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کى باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''
اسلام کى طرف اس طرح مائل ہونے کى خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑى تیزى کے ساتھ اس کى طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنى تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کى تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟
مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمى اور محبت سے کہا:
کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑى دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میرى باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کى تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''
تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہارى بات کو سننا چاہئے،تمہارى دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئے''
اس سردار نے اپنى شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کى چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''


اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسرى آیات کو سمجھنے کى کوشش کریں جو تقریباً وہى معنى رکھتى ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کى دعوت دى ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''
آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟
اگر تم اللہ کى نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،
یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھى خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسى کے بنائے ہوئے ہیں''
تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''
خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھى بھى دوست نہیں رکھتا قرآن کے نورانى حقائق اور آیات کى جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلى پیدا کردی، اس کى سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کى سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردبارى سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:
اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟
مصعب نے جواب دیا:
کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کى وحدانیت اور محمد(ص) کى رسالت کى گواہى دى جائے، کپڑوں اور جسم کو پانى سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کى راہ کھول دى جائے اور نماز پڑھى جائے_

 

عقبہ میں دوسرا معاہدہ


مدینہ کے لوگ دین اسلام کى حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہى کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنى مدد اور خدمت کرنے کا اعلان کریں''
آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مکّہ کى طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھى موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھى تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمى طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کى مدد کا اعلان کریں''
13/ ذى الحجہ کى آدھى رات کو منى میں ایک پہاڑى کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،
وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کى طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کى سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،
انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کى کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کى کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کى اور اسکى تشریح بیان کى اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنى خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:
کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کى طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگى بسر کروں؟''
سبھى نے پیغمبر(ص) کى اس خواہش پر اپنى رضامندى کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا
خدا کى قسم میں پورى صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنى جان کى بازى لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہى میرے دل میں بھى ہے''


دوسرے نے کہا:
میں آپ(ص) کى بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کى حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کى بھى کروں گا:
تیسرے نے کہا:
ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کى ہے اور جان کى حد تک پیغمبر خدا(ص) کى خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''
یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کى بات کہى لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مکّہ میں اور مشرکوں کى ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،
پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمى آواز میں جو کہ مشکل سے سنى جا رہى تھیں کہا:
مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمى تعینات نہ کیا ہو ...''
اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:
ابھى دن کى سفیدى بھى نمودار نہیں ہوئی تھى کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے'' لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مکّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کى خبر مل چکى ہے اور اہل مدینہ کى پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کى گفتگو کا کافى حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مکّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟
لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختى کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کى جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسى عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن


'' انّ الّذین قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقاموا فلا خوف علیہم و لا ہم یحزنون''
سورہ احقاف آیت 13/''
البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہى وہ محزون ہوں گے''

 

سوچئے اور جواب دیجئے

1)___ سورہ نحل کى جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنى قدرت کی_
واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتى ہیں _
2)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کى وہ خبر کس اصول کو بیان کرتى ہے؟
3) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟
4)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمى کو مدینہ کى طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کى تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سى چیزیں بیان کرتا تھا؟
5)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟