پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 21 پيغمبر خدا (ص) كى ہجرت (1)


پیغمبر(ص) خدا کى ہجرت (1)


اللہ تعالى کفّار کے منحوس ارادوں سے آگاہ تھا اس نے کفّار کے حیلے سے پیغمبر(ص) کو آگہ کردیا اور ان کے برے ارادے کو پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر کردیا_
خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو خبر دى کہ مشرکوں نے تمہارے قتل پر کمر باندھ رکھى ہے لہذا نہایت خاموشى کے ساتھ چھپ کر اس شہر سے مدینہ کى جانب ہجرت کر جاؤ کہ یہ ہجرت، دین اسلام کى بنیاد کو مضبوط بنانے اور محروم لوگوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کا موجب ہوگی_
تم اللہ کى رضا اور مخلوق خدا کى ہدایت کے لئے اپنے اپنے گھر بار کى محبت کو پس پشت ڈال کر ہجرت کرجاؤ کیونکہ اللہ تعالى اپنى راہ میں جہاد کرنے والوں او رمہاجرین کى مدد کرتا ہے، ان کى حمایت کرتا ہے اور انھیں سعادت و کامیابى کا راستہ بتاتا ہے_ اللہ کا دین ہمیشہ ہجرت و جہاد اور ایثار وقربانى سے وابستہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا_
پیغمبر خدا(ص) نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا پکّا ارادہ کرلیا_
لیکن ہجرت اور یہ ارادہ نہایت پر خطر تھا_ پیغمبر(ص) اور ان کا گھر مکمّل طور پر دشمنوں کى توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا_ آمد و رفت کى معمولى سى علامت اور گھر میں ہونے والى غیر معمولى حرکات و سکنات پیغمبر(ص) کے ارادے کو ظاہر کردیتیں اور آپ(ص) کى ہجرت کے پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتى تھیں_


کفّار نے آپ(ص) کے گھر اور سونے اور بیٹھنے کى جگہ تک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلى تھیں تا کہ اس حملہ کى کامیابى کى تکمیل میں کہ جس کو انجام دیتے کے طریقے اور وقت کا تعین ہوچکا تھا کوئی رکاوٹ کھڑى نہ ہوسکے_
رات کے وقت پیغمبر(ص) کى آمد و رفت کے معمولات سے یہ لوگ آگاہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے پیغمبر کے سونے کى جگہ تک ان کى نگاہوں سے اوجھل نہ تھی_
یہاں تک کہ شب ہجرت آپہنچی_
پیغمبر نے ہجرت کے موضوع پر حضرت على (ع) سے کہ جنہوں نے ابتداء بعثت سے ہى آپ(ص) کى مدد و نصرت کا پیمان باندھ رکھا تھا مشورہ کیا اور پوچھا:
اے على (ع) کیا تم خدا کے اس حکم کى تعمیل میں میرى مدد کرو گے؟
یا رسول اللہ(ص) میں کس طرح سے آپ(ص) کى مدد کروں؟''
حضرت على (ع) نے کہا:
کام بہت مشکل ہے_ چالیس کے قریب مشرک چاہتے ہیں کہ رات کے وقت سب مل کر مجھ پر حملہ کردیں اور مجھے بستر ہى پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ خدا نے مجھے ان کے اس ارادے سے آگاہ کردیا ہے او رہجرت کر جانے کا حکم دیا ہے_ لیکن اگر میں رات کے وقت مکّہ چھوڑدوں ت6و یہ میرے بستر کو خالى پا کر اس طرف متوجہ ہوجائیں گے اور میرا پیچھا کریں گے اور مجھے تلاش کر کے اپنا کام انجام دیں گے اب اس کے تدارک کى ایک ہى صورت ہے اور وہ یہ کہ میرى جگہ کوئی اور بستر پر آج کى رات سوجائے_ اس طرح مشرکین یہ گمان کریں گے کہ میں اپنے بستر پر موجود ہوں_ اے على (ع) کیا تم تیار ہو کہ آج کى رات میرے بستر پر سوجاؤ اگر چہ یہ کام بہت خطرناک ہے کیونکہ چالیس مشرکین تلواریں سونتے ہوئے آدھى رات کے وقت گھر پر حملہ آور ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ میرى جگہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں؟''
حضرت محمد(ص) کا یہ بیان سن کر على (ع) نے سوال کیا کیا اس صورت میں آپ(ص) محفوظ رہیں گے؟
ہاں میں محفوظ رہوں گا اور اگر اس طرح تم نے میرى مدد کى تو خدا کے فضل سے میں کامیاب ہوجاؤں گا'' حضرت محمد(ص) نے جواب دیا_
حضرت على (ع) نے فرمایا:
ہاں میں ضرور آپ کى مدد کروں گا:
حضرت على (ع) کا یہ محکم اور قطعى جواب ایسا تھا کہ جس کى نظر تاریخ اسلام میں نہیں لائی جاسکتی_
ہاں یہ جذبہ ایثار و قربانى ہى تھا جو اس بات کى بنیاد بنا کہ

حضرت على ابن ابى طالب(ع) ، راہ خدا اور پیغمبر خدا کى حفاظت کے لئے اپنى جان کى بازى لگانے پر آمادہ ہوئے اور اس عہد و پیمان پر استقامت و پائیدارى کا مظاہرہ کیا جو آپ(ع) نے پیغمبر خدا(ص) سے کر رکھا تھا_
ہاں، على (ع) اپنى جان کو خطرے میں ڈال رہے تھے تا کہ پیغمبر(ص) خدا کى جان سلامت رہ سکے_ اور آپ(ص) اللہ کے دین کى تبلیغ کرتے رہیں_ لوگوں کو خداپرستى کى دعوت دیتے رہیں اور ظلم و ستم اور فسق و فجور کو جڑسمیت اکھاڑ پھینکیں_
یوں حضرت محمد(ص) نے اپنى عظیم الشّان ہجرت کا آغاز فرمایا_ ایک مناسب و موزوں وقت پر مکہ سے مدینہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے_
اس رات کہ جس کا مشرکین کو شدت سے انتظار تھا مشرکین آہستہ آہستہ پیغمبر(ص) کے گھر کے نزدیک جمع ہوئے اور ابھى رات کا زیادہ حصّہ نہیں گزارا تھا کہ چالیس طاقتور اور جنگجو آدمیوں نے تلواریں نیام سے نکال کر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کرلیا_
دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے گھر کے اندر دیکھا رات کى دھیمى روشنى میں انھیں نظر آیا کہ محمد(ص) معمول کے مطابق سبز رنگ کى چادر اپنے اوپر ڈالے کبھى اس پہلو کبھى اس پہلو کروٹیں بدل رہے ہیں وہ مطمئن ہوگئے کہ آپ(ص) گھر میں موجود ہیں اور ان کا منصوبہ کامیابى سے ہمکنار ہونے والا ہے_


ان میں سے کچھ نے چاہا کہ آدھى رات کے وقت گھر پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں_ لیکن بعض نے کہا کہ گھر میں عورتیں اور بچے بھى سوئے ہوئے ہیں یہ انصاف نہیں کہ رات کى تاریکى میں انہیں پریشان کیا جائے پورا گھر ہمارے محاصرہ میں ہے_ محمد(ص) بھى بستر پر سوئے ہوئے اور ان کے لئے کوئی فرار کا راستہ بھى نہیں ہے تو کیوں جلد بازى دکھائیں_ __؟ بہتر ہے صبر کریں اور صح کے وقت حملہ کریں تا کہ سب دیکھ لیں کہ مختلف قبیلوں کے افراد اس قتل میں شریک ہیں_
انہوں نے صبح تک صبر کیا بعض وہیں پر سوگئے اور بعض پہرہ دیتے رہے کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلنے پائے_ سحر کے وقت تلواریں برہنہ کئے دروازے او ردیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر (ص) خدا کے حجرے کے پاس آکر جمع ہوگئے_
حضرت على علیہ السلام کى رعب دار آواز سن کر اور ان کے غضب ناک چہرے کو دیکھ کر وہ بے اختیار مبہوت اور حیران و پریشان ہوکر اپنى اپنى جگہ رک گئے_ اور پوچھا:


محمد(ص) کہاں ہیں؟
کیا انہیں میرے سپرد کیا تھا؟ حضرت على (ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں جواب دیا_ مشرکین اپنے پروگرام کى ناکامى اور دن رات کى محنت کے ضائع ہوجانے پر سخت مایوس ہوئے اور فوراً ہى حضرت محمد(ص) کى تلاش میں نکل کھڑے ہوئے_
انہوں نے خیال کیا کہ یا تو محمد(ص) مکّہ میں چھپے ہوئے ہیں یا پھر مدینہ کى طرف چلے گئے ہیں دونوں صورتوں میں انھیں تلاش کیا جاسکتا ہے اور گرفتار کر کے قتل کیا جاسکتا ہے_


مختلف گروہوں کو مکّہ کى طرف روانہ کیا تا کہ مکّہ سے باہر نکلنے کے راستوں کو کنٹرول میں لے لیں_ ان لوگوں کو جو پیروں کے نشان پہنچاننے میں مہارت رکھتے تھے حکم دیا کہ محمد(ص) کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ اس راستے کو دریافت کریں جہاں سے وہ گزر گئے ہیں_ اس کے علاوہ عام اعلان کردیا گیا کہ جو بھى محمد(ص) کو گرفتار کرے گا یا ان کى پناہ گاہ کے متعلق بتائے گا اسے ایک 110 سو اونٹ انعام میں دئے جائیں گے_
لوگوں کى بڑى تعداد انعام کے لالچ میں حضرت محمد(ص) کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑى ہوئی_ سب نے بہت تلاش کیا، تمام جگہوں کو دیکھا بالآخر حضرت محمد(ص) کے پیروںکے نشانات انہیں نظر آئی گئے_
پیغمبر(ص) کے پیروں کے نشانات کو جو مٹی، ریت اور پتھروں پر بن گئے تھے پہچان لیا گیا اور ان کى وساطت وہ غارتک پہنچ گئے اور آپس میں کہنے لگے_
یقینا محمد(ص) اس غار میں چھپے ہوئے ہیں_
جناب رسول(ص) خدا اور ابوبکر ان کى آوازوں کو غار میں سن رہے تھے او رانہیں دیکھ رہے تھے، لیکن مکڑى کے جالے نے جو غار کے مہ پر بنا ہوا تھا اور جس پر ایک کبوتر انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا ان کو غار کے اندر جانے سے روک دیا انہوں نے کہا:
کیسے ممکن ہے کہ کوئی غار میں داخل ہو؟ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑى کا جالا ٹوٹا ہوا ہوتا اور کبوتر کا گھونسلہ نیچے گرجاتا اور اس کے انڈے ٹوٹ چکے ہوتے_


لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ تمام زمین اور آسمان کے موجودات اللہ کى فوج ہیں، اس کا لشکر ہیں، اور چونکہ خداوند علیم و حکیم ہے_ وہ اس قسم کے لشکر کو بھیج کر اپنے بندوں کى مدد کرتا ہے_ خصوصاً ان بندوں کى جو اس کى راہ میں جہاد و ہجرت اور کوشش کرتے ہیں اور مشرکوں کے مکر و فریب سے خوف نہیں کھاتے اور اپنى تمام کوشش کو اللہ کى رضا جوئی میں اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے مشغول رہتے ہیں مکڑى و کبوتر او رخارک خاشاک تمام کے تمام خدا کى فوج ہیں، نظر آنے والى اور نظر نہ آنے والی_ اور پیغمبران فوجوں کى پناہ میں غار کى تہہ میں ابوبکر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور بہت آرام سے باہر دیکھ رہے تھے اور ابوبکر کو تسلّى دے رہے تھے اور فرما رہے تھے_
ڈور نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور مشرکوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا_
کفّار نے کافى دیر تک آپ(ص) کو تلاش کیا اور آخر کار مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے_ ہم نے پہلے سے اپنے بندوں اور رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے اور تاکید کى ہے کہ ہمارا لشکر ہى کامیاب ہوگا سلام ہو تمام پیغمبروں پر اور حمد و سپاس تمام جہانوں کے لئے'' (القرآن)
اور یوں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کى مدد فرمائی اور کافروں کے وقار کو ختم اور نیچا رکر دکھایا اور اپنے کلمے کو باوقار و بالاتر کردیا کیونکہ خدا ہمیشہ کامیاب اور حکیم ہے اور کافروں کا مکر اسى طرح ختم ہوجاتا ہے اگر چہ ان کا مکر و فریب اپنى قدرت کى زیادتى سے پہاڑوں کو ہى کیوں نہ گرادینے والا ہو_
ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالى نے اپنے پیغمبر(ص) کى کس طرح مددد کى اور یہ بھى دیکھا کہ خدا کے کیسے لشکر پوشیدہ ہیں_ پس کتنا اچھا ہے کہ ہم بھى اس کى مدد پر اعتماد کریں، اس پر توکل کریں اور اپنى جان و مال سے اس کى راہ میں ہجرت و جہاد کریں کہ یہ طریقہ زندگى کا بہترین اور نیک ترین طریقہ ہے سب سے بہتر ہجرت گناہ سے ہجرت کرنا ہے اور سب سے بڑا جہاد اپنى خواہشات اور شہوت سے جہاد کرنا ہے اور جو بھى خدا کى راہ میں جہاد کرے خدا اس کے لئے کامیابى کے ایسے راستے کھول دیتا ہے جس کا انہیں علم بھى نہیں ہوتا_
خدا کے خالص بندے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اس سے صبر و ثابت قدمى طلب کریں تو جان لیں کہ کامیابى اسى ذات کى طرف سے ہوتى ہے اور تمام قدرت اسى کے ہاتھ میں ہے_ خداوند عالم اس قسم کے بندوں کے لئے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے تا کہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور یقینا خدا وعدہ خلافى نہیں کرتا_
کون جانتا تھا کہ خدا اپنے پیغمبر کى مکڑى کے باریک جالے اور ایک کبوتر سے مدد کرے گا؟ پیغمبر(ص) نے لطف خداوندى پر اعتماد کرتے ہوئے ہجرت کے لئے قدم اٹھایا اور کبھى نہ سوچا کہ لوگ مجھے تلاش کریں گے اور مجھے ڈھونڈ نکالیں گے تم پھر کیا ہوگا؟ وہ اللہ کى نصرت کے وعدے پر ایمان و اطمینان رکھتے تھے اور اسى کى مدد سے ہجرت کى طرف اپنا قدم بڑھایا خدا نے بھى آپ کى مدد کى اور یہ خدا کا پکا وعدہ ہے کہ اس کے دین کى مدد کرنے والے کى وہ خود مدد کرتا ہے_

 

آیت قرآن


'' وللہ جنود السّموت و الارض و کان اللہ عزیزاً حکیماً''
زمین و آسمان کا تمام لشکر اللہ کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے'' (سورہ فتح 48 آیت 7)

 

سوچئے اور جواب دیجیے


1)___ پیغمبر(ص) خدا نے اپنى ہجرت کا ذکر کس کے سامنے کیا؟ اور کیا فرمایا؟ انہوں نے پیغمبر(ص) سے کیا پوچھا؟ اور آخر میں کیا جواب دیا؟
2) ___جب کفّار پرہنہ تلواروں کے ساتھ پیغمبر(ص) کے گھر پر جمع ہوئے تو کیا دیکھا؟ اور کیا سنا؟
3)___ پیغمبر(ص) کو تلاش کرنے کے لئے کیا تدبیر کی؟ کتنا انعام مقرّر کیا گیا؟
4)___ جس وقت پیغمبر(ص) خدا کے پیروں کے نشان تلاش کئے اور غار تک جا پہنچے تو کیا دیکھا؟
5)___ پیغمبر(ص) اور ابوبکر کو غار سے باہر کیا نظر آیا ؟ پیغمبر(ص) ابوبکر سے کیا فرما رہے تھے؟
6)___ خدا کا لشکر کیا چیزیں ہیں؟ اور خدا اپنے مہاجر اور مجاہد بندوں کى اس لشکر سے کس طرح مدد کرتا ہے؟
7)___ سب سے بہترین ہجرت کون سى ہے اور سب سے بہترین جہاد کیا ہے؟
8)___ خداوند عالم نے اپنے نہ نظر آنے والے لشکر سے جو کفّار کى آنکھوں میں معمولى معلوم ہوتا تھا اس ہجرت میں کس طرح مدد کى ؟