پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 15 ايمان و استقامت

ایمان و استقامت


عمّار کا خاندان (گھرانہ) قرآنى آیات اور پیغمبر (ص) کى دل نشیں گفتار سن کر اور آپ کے کردار کو دیکھتے ہى پیغمبر اسلام(ص) کى نبوت اور دعوت بر حق پر ایمان لے آیا تھا اور دعوت اسلام کے ابتدائی مراحل میں مسلمان ہوچکا تھا
ابوجہل، جو کہ مکّہ کے بار سوخ اور مستکبرین میں شمار ہوتا تھا جب اسے عمّار کے خاندان کے مسلمان ہوجانے کى اطلاع ملى تو وہ بہت غضبناک ہوا اور جب عمار کو دیکھا تو انہیں بہت ملامت اور سرزنش کى اور ان سے کہا کہ
میں نے سنا ہے کہ تم بت پرستى کو ترک کر کے مسلمان ہوگئے ہو؟''
عمّار نے جواب دیا ''
ہاں میں نے، میرے ماں باپ اور بھائیوں نے حضرت محمد مصطفى صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى گفتگو سنی_ ان آیات میں جو وہ خدا کى طرف سے لائے ہیں، غور کیا ان کى دعوت کو حق جانا اور اسے قبول کرلیا ہے_
ابوجہل نے چلّاکر کہا: تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ مکّہ کے بزرگوں اور سرداروں کى اجازت کے بغیر محمد(ص) کے دین کو قبول کر لو تم عقل اور فکر سے عارى ہو تمہیں چاہیئے کہ بزرگوں اور سرداروں کے تابع بنو وہ تم سے بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں ...
ہم مزدور اور محنتى لوگ بھى عقل و شعور رکھتے ہیں اور تم سے بہتر سمجھتے ہیں مال اور مقام نے تمہیں اندھا کردیا ہے کہ اتنے واضح حق کو نہیں دیکھ رہے ہو لیکن ہم نے اچھى طرح جان لیا ہے کہ محمد(ص) خدا کے پیغمبر(ص) ہیں اور وہ اللہ تعالى کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور ہمارى ہدایت اور نجات کے لئے آئے ہیں خدا اور اس کا پیغمبر ہمارى بھلائی کو تم سے بہتر طور پر سمجھتا ہیں، ہمارا ہمدرد تو پیغمبر(ص) ہے تم مالدار اور ظالم لوگ نہیں_
تم پہلے کى طرح ہم سے بے گارلینا چاہتے ہو اور ہمارے ہاتھ کى محنت ہڑپ کرنا چاہتے ہو لیکن اب وہ زمانہ گیا خداوند عالم نے ہمارے لئے دل سوز اور مہربان رہبر بھیجا ہے تا کہ تم جیسے ظالموں اور غارتگروں سے نجات دلائے

اور دنیا و آخرت کى عزت اور سعادت تک پہنچائے ہم نے اس کى رہبرى کو قبول کرلیا ہے اور تمام وجود سے اس کے مطیع ہیں اور ہم ہى کامیاب رہیں گے_
ابوجہل کو اس قسم کے جواب کى توقع نہیں تھى اس لئے سخت غصّے میں آیا اور جناب عمّار کو مارنا شروع کردیا_ ابوجہل کے غلاموں نے بھى اس کى مدد شروع کردى اور ڈنڈوں اور کوڈوں سے مار مار کر عمّار کے جسم کو نیلا کردیا_ جناب عمّار اس حالت میں بھى خدا کو یاد کرتے اور اللہ اکبر کہتے رہے_
جناب عمّار کا گھرانہ ایک غریب اور مستضعف گھرانا تھا بلکہ میں آپ کے کوئی عزیز و اقارب بھى نہیں تھے کہ جن کى مدد و حمایت حاصل کرتے اسى وجہ سے قریش کے سرداروں اور مکّہ کے متکبرو نے پکّا ارادہ کرلیا تھا کہ اس گھرانے کے بے یار و مددگار افراد کو اتنى ایذا پہنچائیں کہ وہ اسلام سے دستبردار ہوجائیں یا جان سے جائیں_
قریش کے سرداروں نے انہیں ڈرانا، دھمکانہ، مارنا، پیٹنا، اور برا بھلا کہناشروع کردیا_ عمار کے والد یاسر اور والدہ ''سمیہ'' کو وقتاً فوقتاً مارا پیٹا کرتے تھے اور ان سے چاہتے تھے کہ وہ دین اسلام سے دستبردار ہوجائیں اور پیغمبر اسلام(ص) کو برا بھلا کہیں اور گالیاں دیں (نعوذ باللہ)
مگر کیا عمار جیسے لوگ پیغمبر خدا کو گالیاں دے سکتے تھے؟ اور کیا ایمان سے دستبردار ہوسکتے تھے؟
آیئےپ کو بتائیں کہ اس وقت جب ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے تو وہ کیا کہتے تھے وہ کہتے تھے،
کس طرح ممکن ہے کہ ہم اللہ کے راستے کو چھوڑ دیں جب کہ اسى نے ہمیں حق کا راستہ دکھایا ہے ہم تمہارے ظلم و ایذا و سختى پر صبر کریں گے خدا ہمارے صبر و استقامت کو دیکھ رہا ہے اور وہ صبر کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا_''
''سورہ ابراہیم 14 آیت سورہ نحل 16 آیت''
ابوجہل ان کے قریب آیا اور عمار اور ان کے والد یاسر، ماں سمیہ اور بھائی عبداللہ سے کہا کہ:
اسلام سے دستبرد ار ہوجاؤ اور محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو ورنہ تم اسى جگہ ختم کردیئے جاؤگے_
ابوجہل کے حکم پر وحشى اور بھیڑ یا صفت انسانوں نے اس ایماندار اور بے یار و مددگار گھرانہ پر حملہ کردیا اور تا زیانوں، مکوں اور لاتوں سے انہیں مارنا شروع کردیا اتنا مارا کہ ان کا بدن لہو لہان ہوگیا اور وہ نڈھال و بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے لیکن اس کے باوجود جب انہیں ہوش آیا تو ''اللہ اکبر'' کا کلمہ ان کى زبان پر جارى تھا اور زخمى و خون آلود چہرے سے کہہ رہے تھے_


اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ


پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں کو باندھ دیا گیا اور ان کے بدن تپتے ہوے پتھروں اور گرم ریت پر ڈال کر ان کے سنیوں پر بڑے اور بھارى پتھر رکھ دئے گئے ان پیاروں کے بدن گرم ریت اور حجاز کى جلتى دھوپ میں جل رہے تھے، پگھلے جا رہے تھے لیکن ان کى تکبیر اور شہادت کى آواز اسى طرح سنى جارہى تھی:
تم سے جتنا ہوسکتا ہے ہمیں آزار و تکلیف پہنچاؤ ہم نے اللہ تعالى کا راستہ دلائل سے پالیا ہے اور اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں اور کبھى بھى اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تم ہمارے ایمان تک پہنچ نہیں سکتے صرف ہمارے بدن کو ایذا پہنچا سکتے ہو ہم خدا پر ایمان لے آئے ہیں تا کہ وہ گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آخرت کے بلند درجات میں جگہ عنایت فرمائے اور آخرت کا اجر و ثواب ہمیشہ رہنے والا ہے_
عمّار کے وال اسى ظلم و تشدد کے سبب شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئے اور مسلمانوں کو اپنے صبر و استقامت سے دیندارى اور صبر کا درس دے گئے_
سمیّہ سے جو اپنے شوہر کى شہادت کو دیکھ رہى تھیں کہا گیا کہ محمد(ص) کو برا بھلا کہو اور گالیاں دو سمیّہ نے جواب دیا:
ہم نے اپنا راستہ پالیا ہے اور حضرت محمد(ص) پر ایمان لے آئے ہیں اور آپ کى رہبرى کو قبول کرلیا ہے ہم ہرگز اپنے مقصد سے دستبردار نہیں ہوں گے


ابوجہل نے جو اس بزرگ خاتوں کے منہ توڑ جواب سے ناچار ہوگیا تھا اور غصّہ کى شدّت میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اپنے نیزے کو اس طرح اسلام کى اس بزرگ خاتون پر مارا کہ وہ زمین پر گر گئیں اور اسى حالت میں ''اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے خالق حقیقى سے جاملیں اور شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوگئیں، سمیّہ اسلام کى پہلى خاتون ہیں جو اسلام کے راستے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں_
عمّار کے ماں باپ شہد ہوگئے لیکن پھر بھى گا ہے بگا ہے آپ کو ایذا پہنچائی جاتى تھى برسوں تکلیفیں و ایذائیں سہنے کے بعد وہ مدینہ کى طرف ہجرت کر گئے وہاں رہ کر مجاہدین اسلام کى صفوں میں شامل ہوکر دشمنوں سے جنگ کرتے تھے_ پیغمبر خدا(ص) کى وفات کے بعد جناب عمّار امیرالمومنین (ع) کے باوفا دوستوں میں شمار ہوتے تھے آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے تھے یہاں تک کہ صفنین کى جنگ میں بہادرى کے ساتھ لڑتے ہوئے شہاد ت پر فائز ہوگئے_
بے شمار درود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے ماں باپ پر اور اسلام کے تمام شہداء پر کہ جو خدائے واحد پر ایمان کے راستے میں پائیدار اور ثابت قدم رہے اور ذلت و خوادرى کو قبلو نہ کیا اور جاہلیت کے طور طریقوں کى طرف نہ پلٹے اور ظلم و ستم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا اور ظالموں کى حکومت اور ولایت پر خدا کى حکومت اور ولایت کو ترجیح دی_


آیت قرآن


'' و لنصبرنّ على ما اذیتمونا و على اللہ فلیتوکّل المتوکّلون''
سورہ ابراہیم آیت 14
پیغمبروں اور مومنین نے متکبرین سے یوں کہا کہ ہراس اذیت پر جو تم ہم پر روا رکھتے ہو صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو خدا ہى پر توکل کرنا چاہیئے_

سوچئے اور جواب دیجئے


1)___ متکبرین، اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کو کیوں اذیت دیتے تھے؟ اور آج کل متکبرین مسلمانوں کو کس طرح تکلیف پہنچا رہے تھے؟
2)___ عمار اور ان کے والدین متکبرین کے تازیانوں کے باوجود اللہ کے ذکر کے علاوہ اپنے صبر و استقامت کے متعلق کیا کہا کرتے تھے؟ اور اب ہمارا فریضہ متکبرین جہان کے بارے میں کیا ہے؟
3)___ جب پیغمبر (ص) یاسر اور سمیّہ کے گھرانے کو دیکھتے تھے توان سے کیا سفارش کیا کرتے تھے اور کیا خوشبخرى دیتے تھے اور پیغمبر کى سفارش پورى امت اسلام کے لئے کیا ہے اس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لئے مراجع دین کى طرف رجوع کریں
4)___ سمیّہ کس طرح شہید ہوئیں؟ اپنى زندگى کے آخرى لمحات میں کیا کہتى تھیں؟
5)___ سمیہ جب اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھ رہى تھیں تو کفّار نے اس سے کیا مطالبہ کیا تھا؟ اور انہوں نے جواب میں کیا کہا مسلمانوں کا جواب ان مشکلات کے مقابل جو آج کل مشرق و مغرب والے امت اسلامى پر وارد کر رہے ہیں کیا ہونا چاہیئے_
6)___ اسلام کے سبب متکبرین کو کیا نقصان پہنچتا تا ہے کہ وہ اس کى مخالفت کرتے ہیں؟
7)___ عمّار کے ماں باپ جیسے مومنین نے کس کى حکومت کو قبول کیا ہے؟ اور ظالم انہیں کس کى حکومت کى طرف بلاتے ہیں؟
8)___ عمّار نے مکّہ سے کس طرف ہجرت کى ؟ پیغمبر خدا(ص) کى وفات کے بعد کن کے انصار میں داخل ہوئے؟ پھر کہاں شہید ہوئے کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے عمار کے قاتلوں کے متعلق کیا فرمایا ہے؟