پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 22 پيغمبر خدا (ص) كى ہجرت (2)


پیغمبر خدا کى ہجرت (2)


پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلّم مسلسل تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے آپ(ص) کا دل خدا کى یاد سے مطمئن اور خدا پر توکل و اعتماد سے پر امید و روشن تھا آپ(ص) موقع کى تلاش میں تھے کہ حکم کى تعمیل کرتے ہوئے اپنے سفر ہجرت کو دوبارہ شروع کریں او رمدینہ پہنچ جائیں_
اس ہجرت کے عظیم الشان اثرات اور تنائج کسى کے وہم و گمان میں بھى نہیں تھے اور اس ہجرت کا عظیم اور پر وقار مستقبل کسى ذہن میں نہ تھا_ کوئی سوچ بھى نہ سکتا تھا کہ یہ ہجرت تاریخ میں تمام حق پسند اور حق کے متلاشى انسانوں کو اپنى تحریک کى بقا اور اس کے پھیلاؤ کے لئے ہجرت اختیار کرنے کا سبق دے گی_
اس وقت مکّہ کى تمام بدبخت طاقتیں چاہتى تھیں کہ راستے میں ہجرت کرنے والے کو تلاش کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں لیکن مرضى الہى تھى کہ یہ راہیان عشق خیریت کے ساتھ اپنے اس سفر کو طے کریں اور مدینہ پہنچ کر پہلى مسجد کى بنیاد ڈالیں اور اس مسجد سے اٹھنے والى صدائیں بندگان خدا کو عبادت و تقوى اور خدا کى مدد کے لئے جہاد اور ہجرت کے لئے بلائیں اور ____ یقینا اللہ اپنے حکم کے نافذ کرنے او راپنے ارادے کو پورا کرنے پر قادر ہے_
کبھى کبھى آپ(ص) کے ہم سفر اور سا تھی، مشرکوں کى سنگدلى او ردشمنی، ان کى طاقت و قدرت اور آپ کى تلاش میں ان کى کوششوں اور بعض اوقات غار کے نزدیک ہى سے آنے والى ان مشرکوں کے قدموں کى آوازوں اور چیخ و پکار سے خوف و اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے_ ایسے میں پیغمبر(ص) ان کى ہمت بندھاتے اور دل جوئی کرتے تھے اور فرماتے تھے_
خوف نہ کرو، غم نہ کھاؤ، خدا ہمارے ساتھ ہے''
غار ثور مکّہ کے جنوب میں واقع ہے جبکہ مدینہ کا راستہ مکّہ کے شمال میں ہے لہذا مشرکین زیادہ تر آپ کو شمال ہى کى جانب تلاش کر رہے تھے جنوب کى سمت ان کا دھیاں زیادہ نہ تھا_ اس بناپر آپ(ص) کے ازلى باوفا اور مددگار حضرت على (ع) رات کى تاریکى میں جب مشرکین کى آنکھیں نیند میں ڈوب جاتیں، آپ(ص) کے لئے کھانا اور پانى لے جاتے مکڑى کے تانے ہوئے جالے کے پیچھے سے آپ(ص) کى خدمت میں کھانا پانى پیش کرتے اور آپ(ص) کو مکّہ حالات اور مشرکوں کے ارادوں سے آگاہ کرتے کبھى کبھى ابوبکر کے فرزند عبداللہ بھى غار میں کھانا اور پانى لے کر آتے تھے_
ایک رات پیغمبر(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کى جو امانتیں میرے پاس موجود تھیں انھیں ان کے مالکوں تک پہنچا دو اور دو اونٹ ہمارے لئے لے آؤ کہ ہم مدینہ کى طرف روانہ ہوں اور تم میرى بیٹى فاطمہ (ع) اور دوسرى عورتوں کو ساتھ لے کر ہم سے آملنا_
آپ کى یہ بات سن کر ابوبکر نے کہا کہ میں نے اونٹ تیار کر رکھے ہیں پیغمبر(ص) نے ان اونٹوں کو منگوانا اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ابوبکر ان کى ا جرت لے لیں_
ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کو پیغمبر اکرم(ص) پر حد سے زیادہ اعتماد تھا_ انہوں نے اپنى بہت سى قیمتى چیزیں آپ(ص) کے پاس بطور امانت رکھى تھیں تا کہ وہ محفوظ رہیں_ اسى اعتماد کى بناپر آپ کو امین کا لقب دیا گیا تھا_
یہ جاننا بھى ضرورى ہے کہ ''امانت'' اور اس کى حفاظت اور مالکوں تک لوٹا دینا اسلام کے ان احکام و قوانین میں شامل ہے جن کى بہت زیادہ تاکید کى گئی ہے_ یہاں تک کہ امانت میں خیانت کرنا گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے_ مومن ہرگز امانت میں خیانت نہیں کرتا اور بات کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا اور جو وعدہ کرتا ہے اس کى خلاف ورزى نہیں کرتا_
چوتھى رات، جب مکمل اندھیرا چھاگیا تو نحیف و کمزور جسم کے تین اونٹ تھوڑے سے پانى اور غذا کے ساتھ غار کے دہانے کے قریب تیار کھڑے تھے، ان کے ساتھ راستہ جاننے والا ایک شخص بھى تھا_
خدا کا آخرى اور عظیم پیغمبر(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے ایک عظیمہجرت کے لئے آمادہ و تیار ہے___اہل مکّہ کو بیدار کرنے کے لئے 13/ سال تک شدید محنت و کوشش کرنے کے بعد اب اپنا شہر اور اپنا گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہے___ اپنے آپ کو سفر کى صعوبتوں اور مشکلات میں ڈالنے کے لئے تیار ہے___ اس شہر کو کہ جو ظل و شرک اور بت پرستى کى غلاظتوں سے پر ہے ترک کرنے کو تیار ہے___ صحرا و پہاڑوں کى طرف راہ پیما ہونے کو تیار ہے_ لیکن خداوند عالم آپ(ص) سے واضح الفاظ میں وعدہ کرتا ہے_

وہى ذات جس نے تم پر قرآن نازل کیا اور اس کى پیروى تم پر فرض کردى تمہیں اس شہر میں واپس لائے گا''
اس جانے کا انجام لوٹ کرآنا ہے تم اس شہر میں لوٹ کر آؤ گے اور توحید کے گھر سے بتوں کو توڑ پھینکو گے_
پیغمبر اسلام(ص) نہایت آہستگى کے ساتھ غار کى تاریکى سے باہر آگئے اونٹوں پر سوار ہوئے اور مدینہ کى طرف اپنے سفر کا آغاز کردیا رات کو سفر کرتے اور ستاروں کى چمک سے راستہ معلوم کرتے اور دن میں پہاڑوں کے درّوں اور پتّھروں کے سائے میں پناہ لیتے اور آرام کیا کرتے اور رات کو پھر سفر پر چل پڑتے اور راہ خدا میں سراپا تسلیم ہوتے ہوئے ذوق و امید سے راستہ طے کرنے لگتے_
غیرمانوس راستے سے تیزى کے ساتھ گزرتے تھے_ یہ ایک طویل و خطرناک اور دشوار سفر تھا_ لیکن راستے کى دورى کو خدا سے امید نزدیک کردیتى تھى اور راہ کى سختى کو ''اللہ کے حسن و ثواب کے اعتماد'' نے آ سان کردیا تھا اور سفر کے خطروں کا بدل ''اللہ تعالى '' کا فتح و نصرت کا وعدہ تھا''
سفر کے دوران ایک روز جبکہ آپ ایک بڑے پتھر کے سایہ میں آرام فرما رہے تھے آپ(ص) نے دیکھا کہ کفار کا ایک سوار تیزى کے ساتھ آپ(ص) کى جانب آرہا ہے_ اگر یہ سوار نزدیک آجاتا اور آپ(ص) کا راستہ روک لیتا تو دوسرے کفار بھى پہنچ جاتے اور آپ(ص) کى ہجرت ناکام ہوجاتى لیکن پیغمبر(ص) خدا کو اپنے پروردگار کے لطف و کرم پر کامل یقین تھا_ آپ(ص) نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور فرمایا_
اے خدا اے رحمن جو بندوں پر عنایت کرتا ہے اے رحیم جو مومنوں پر مہربانى کرتا ہے تیرے سوا کسى کى تعریف نہیں کرتے کیونکہ تو ہى حمد و ثنا کے لائق ہے اور حمد و ثنا تیرے لئے ہى مخصوص ہے تیرے سوا کسى کو اپنا رب نہیں جانتا کیونکہ تو ہى میرا پروردگار ہے صرف تو ہى میرا معبود ہے_ اے میرے مددگار میرى مدد کر کہ میں نے تیرى طرف ہجرت کى ہے اور ہمیں اس کافر دشمن کے شر سے محفوظ رکھ اور توہى ہر ایک کام پر قادر ہے_
فوراً ہى پیغمبر(ص) کى دعا قبول ہوئی اور سوار کے تیز رفتار گھوڑے نے اچانک اپنى لگام سوار کے ہاتھوں سے چھڑائی اور دونوں پچھلے پیروں کے بل کھڑا ہوگیا اور چکّر لگا کر جھٹکے کے ساتھ سوار کو زمین پر گرادیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا_ سوار اٹھا اور سخت تکلیف اور غصّہ کے عالم میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا_ چند قدم چلنے کے بعد گھوڑے نے پھر اسى طرح سے زمین پر گرادیا_

غرض دو تین مرتبہ ایسا ہى ہوا تو سوار سمجھ گیا کہ گھوڑے کى اس ناراض کى گیا وجہ ہے_ سوار نے اپنے ارادے کو بدلا و معذرت خواہى کے لئے خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوا اور معافى چاہی_
رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا کہ اب جب کہ تجھے حقیقت کا علم ہوگیا ہے جلدى سے واپس لوٹ جا اور ہمارے تعاقب میں جو بھى اس طرف آرہا ہے اسے واپس لوٹا دے_
کافر واپس چلاجاتا ہے اور پیغمبر(ص) خدا تیز رفتارى سے مدینہ کى جانب چل پڑتے ہیں یہاں تک کہ آپ(ص) مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے_
مسلمانان مدینہ، انصار و مہاجر، عورت مرد، بچّے بوڑھے سب کے سب آپ(ص) کے شوق دیدار میں منتظر نگاہوں کے ساتھ بیرون مدینہ آپ(ص) کے استقبال کے لئے موجود تھے_
یکایک ان لوگوں نے دور سے رسول خدا(ص) کو آتے ہوئے دیکھا اور عالم شوق میں بے اختیار صدائے تکبیر بلند کرتے ہوئے اور صلوات و سلام بھیجتے ہوئے آپ(ص) کى سمت دوڑے _ رسول خدا(ص) مدینہ سے نزدیک ایک قبانامى دیہات میں قیام پذیر ہوئے تا کہ حضرت على (ع) اور ان کے ہمراہى بھى پہنچ جائیں _


ہجرت پیغمبر اکرم (ص) اتنا عظیم اور اہم واقعہ ہے کہ اسلامى تاریخ کى ابتداء سى سے ہوئی_ ہجرت کے ذریعہ ہمیں سبق دیا گیا کہ ہر زمانہ کے لوگ پیغمبر(ص) کى اس سیرت پر عمل کریں اور ہمیشہ اپنا رخ خدا کى جانب اور اپنے قدم ہجرت کى راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہیں_ اور مسلسل کہیں کہ ...
پروردگار ہم نے ایمان کى ندا دینے والے کى پکار کو سنا_ وہ کہہ رہا تھا کہ پروردگار پر ایمان لے آؤ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، ہمارى خطاؤں کى پردہ پوشى کر اور ہمیں نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ اس دنیا سے اٹھا_ خدایا: جو کچھ تو نے اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے ہمیں عنایت فرما اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل و خوار نہ کرنا کہ تو کبھى وعدہ خلافى نہیں کرتا_
اس طرح اپنے پروردگار سے راز و نیاز کریں اور اس سے یوں جواب سنیں کہ:
خداوند عالم نے تمہارى دعا کو قبول کرلیا کہ میں ہرگز تمہارے (خواہ مردہوں یا عورت) کسى عمل کو ضائع اور بغیر اجر کے نہ چھوڑوں گا جن لوگوں نے ہجرت کى ہے اور اپنے گھر بار کو چھوڑ دیا ہے، خدا کى راہ میں تکالیف اور اذیتوں سے دوچار ہوئے ہیں اوراللہ تعالى کے راستے میںجنگ و جہاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ قتل ہوجائیں، خدا ان کى خطاؤں اور گناہوں کو چھپائے گا اور انہیں بخش دے گا اور اس بہشت میں کہ جس کے گھنے درختوں کے نیچے نہریں جارى ہیں داخل کرے گا_ یہ اللہ کا ثواب و تحفہ ہے اور یقینا اچھا ثواب تو اللہ ہى کے پاس ہے_ خبردار کافروں کے چند دن تمہارے شہر میں آمد ور فت تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ تھوڑے دن کچھ فائدہ دیکھیں گے پھر ان کا مقام و ٹھکانہ جہنم میں ہوگا جو بہت برى جگہ ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ تعالى کى ذات سے تقوى اختیار کیا ان کے لئے وسیع و کشادہ بہشت ہے کہ جس کے درختوں او رباغوں کے نیچے پانى سے بھرى نہریں جارى ہیں_ وہ اس پر امن اور خوبصورت جگہ میں زندگى بسر کیں گے یہ ہدیہ ہے ان کے لئے خداوند عالم کى طرف سے البتہ وہ جو اللہ کے نزدیک ہے ابرار لوگوں کے لئے وہ بہت ہى بہتر ہے_

ابرار و نیک لوگ اللہ تعالى کى عوت کو دل و جان سے سنتے ہیں اور اللہ کى راہ میں ہجرت کرتے ہیں زمین کى فضا کو بہت وسیع پاتے ہیں اور ابرار تو ہمیشہ ہجرت میں زندگى بسر کرتے ہیں_ ظلم و ستم او رجہاد کى زمین سے عدل و علم کى سرزمین کى طرف او ربدى سے نیکى کى طرف اور برائی سے اچھائیوں کى طرف ہمیشہ ہجرت کرتے ہیں_ حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو برائیوں سے ہجرت کر کے اور انھیں ترک کرے_

آیت قرآن


''اذ ہما فى الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن انّ اللہ معنا فانزل اللہ سکینتہ علیہ و ایّدہ بجنود لّم تروہا و جعل کلمة الّذین کفروا السّفلى و کلمة اللہ ہى العلیا و اللہ
جب وہ دو غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھى سے کہہ رہے تھغ کہ رنج و ملال نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے_ اللہ نے اس پر اطمینان اور سکون قلب نازل فرمایا اور اس کى ایسے لشکروں سے مدد کى کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے اور اللہ نے کافروں کا بوں نیچا کردیا اور اللہ کابوں تو اونچا ہى ہے اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے''_ ( سورہ توبہ آیت 40)


سوچئے اور جواب دیجئے


1)___ پیغمبر خدا(ص) کتنے دن غارثور میں پوشیدہ رہے؟
2)___ جب پیغمبر(ص) کے ساتھى کافروں کى آواز سن کر خوفزدہ ہوئے تو پیغمبر(ص) نے کن الفاظ میں انھیں تسلّى دی؟
3)___ آپ(ص) کے غار میں پوشیدہ رہنے کے دوران کون لوگ آپ(ص) کے لئے غذا اور پانى لے کر آتے تھے؟
4)___ امانت اور اسے اس کے مالکوں کو لوٹا نے کے سلسلہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
5)___ چند سوال خود سے بناؤ؟