پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اخلاص

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلى ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کى کى وجہ سے انسان کى روح اور دل انوار الہى کا مرکز بن جاتا ہے اور اس کى زبان سے علم اور حکمت جارى ہوتے ہیں رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جارى ہوجاتے ہیں_([1]

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالى کى وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_[2]

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالى کى طرف بھیجے اللہ تعالى بھى بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_[3]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالى کى نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالى کا مورد نظر قرار پائیگا_ [4]

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالى سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_[5]

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنى عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کى اتنى مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کى شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہى حاصل نہیں ہوتا عمل کى قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہارى شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_[6]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالى فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسى دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _[7]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کى نیت کے مطابق محشور کرے گا_[8]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنى آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کى وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالى کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دى گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_[9]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کى علامتوں میں سے ایک علامت ہے_[10]

اللہ تعالى کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتى ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتى ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندى اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دى جائے عمل کى قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہى عمل کامل تر اور قیمتى ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالى کے عذاب اور جہنم کى آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کى نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہى کى اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھى ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کى ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کى نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_ تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالى کى نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالى کى پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافى نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسى واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کى ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالى کى نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کى وجہ سے اللہ تعالى کے احکام کى اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالى کى عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کى عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسرى قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالى کى عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والى ہے_ تیسرى قسم وہ ہے جو اللہ تعالى کى نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والى عبادت ہے_[11]

چوتھى قسم ان لوگوں کى ہے جو نفس کى تکمیل اور روح کى تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھى اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کى ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھى طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کى عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کى بے انتہا قدرت اور عظمت کى طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسى اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسى ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسى لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کى قدرت اور عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلى ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کى امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کى ہے کہ جن کى غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کى عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسى لئے اس کى پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کى ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالى فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے '' قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونى یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم_[12]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیرى عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیرى عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_[13]

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کى عبادت قبول واقع ہوگى لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلى ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلى مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھى رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلى درجے کو بھى رکھتے ہیں_ اللہ تعالى کے مخلص اور صدیقین بندے بھى اللہ تعالى سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کى امید رکھتے ہیں اللہ تعالى کى نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوى تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کى عبادت کا سبب فقط یہى نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کى سب سے اعلى ترین معرفت رکھتے ہیں اسى لئے اس کى عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالى کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلى درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھى طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالى کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالى کى رضایت کے کوئی کام بھى انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسى سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسى پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کى کسى سے دوستى اور دشمنى صرف خدا کے لئے ہوا کرتى ہے اور یہ اخلاص کا اعلى ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_[14]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کى محبت اور دشمنى خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_[15] امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالى نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھى ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_[16]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالى کو بخش دیا گیا ہو اور اس کى اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_[17]

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھى اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنى تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالى کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کى یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_[18]

قرآن کریم حضرت موسى علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_[19]

اللہ تعالى کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کى زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیرى عزت کى قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_[20]

بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کى ضرورت ہوتى ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_[21]

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنى نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنى مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

 


[1]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: ما اخلص عبد اربعین صباحا الّا جرت ینابیع الحکمة-- من قلبه على لسانه- بحار/ ج 70 ص 242.
[2]- قال على علیه السّلام: این الذین اخلصوا اعمالهم للّه و طهّروا قلوبهم لمواضع نظر اللّه- غرر الحکم/ ص 172.
[3]- قالت سیدة النساء صلوات اللّه علیها: من اصعد الى اللّه خالص عبادته اهبط اللّه الیه افضل مصلحته- بحار/ ج 70 ص 249.
[4]- قال على علیه السّلام: قلوب العباد الطاهرة مواضع نظر اللّه سبحانه فمن طهّر قلبه نظر اللّه الیه غرر الحکم/ ص 538.
[5]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: مخبرا عن جبرئیل عن اللّه عزّ و جلّ انّه قال: الاخلاص سرّ من اسرارى استودعته قلب من احببت من عبادى- بحار/ ج 70 ص 249.
[6]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: انّ اللّه لا ینظر الى صورکم و اعمالکم و انّما ینظر الى قلوبکم- بحار/ ج 70 ص 248.
[7]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: یقول اللّه: انا خیر شریک، من اشرک معى غیرى فى عمله لم اقبله الّا ما کان خالصا- بحار/ ج 70 ص 243.
[8]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: انّ اللّه یحشر الناس على نیّاتهم یوم القیامة- بحار/ ج 70 ص 209.
[9]- قال على علیه السّلام: طوبى لمن اخلص للّه العبادة و الدعاء و لم یشغل قلبه بما ترى عیناه و لم ینس ذکر اللّه بما تسمع اذناه و لم یحزن صدره بما اعطى غیره- بحار/ ج 70 ص 229.
[10]- قال على علیه السّلام: امارات السعادة اخلاص العمل- غرر الحکم/ ص 43.
[11]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: ان قوما عبدوا اللّه رغبة فتلک عبادة التجار و ان قوما عبدوا اللّه رهبة فتلک عبادة العبید و ان قوما عبدوا اللّه شکرا فتلک عبادة الاحرار- بحار/ ج 70 ص 196.
[12]- قال الصادق علیه السّلام: ان الناس یعبدون اللّه على ثلاثة اوجه: فطبقة یعبدونه رغبة فى ثوابه فتلک عبادة الحرصاء و هوا لطمع، و آخرون یعبدونه فرقا من النار فتلک عبادة العبید و هى رهبة، و لکنّى اعبده حبّا له عزّ و جلّ فتلک عبادة الکرام، و هو الا من لقوله عزّ و جلّ‏« وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ یَوْمَئِذٍ آمِنُونَ» و بقوله‏« قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ» فمن احبّ اللّه احبّه اللّه و من احبّه اللّه کان من الآمنین- بحار/ ج 70 ص 197.
[13]- قال على علیه السّلام: ما عبدتک خوفا من نارک و لا طمعا فى جنتک و لکن وجدتک اهلا للعبادة فعبدتک- بحار/ ج 70 ص 197.
[14]- قال على علیه السّلام: طوبى لمن اخلص للّه عمله و علمه و حبّه و بغضه و اخذه و ترکه و کلامه و صمته- غرر الحکم/ ص 462.
[15]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: من احب للّه و ابغض للّه و اعطى للّه و منع للّه فهو ممن یکمل ایمانه- بحار/ ج 70 ص 248.
[16]- قال الصادق علیه السّلام: ما انعم اللّه على عبد اجلّ من ان لا یکون فى قلبه مع اللّه غیره- بحار/ ج 70 ص 249.
[17]- قال على علیه السّلام: این القلوب التى و هبت للّه و عوقدت على طاعة اللّه- غرر الحکم/ ص 172.
[18]- إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ- ص/ 46.
[19]- وَ اذْکُرْ فِی الْکِتابِ مُوسى‏ إِنَّهُ کانَ مُخْلَصاً وَ کانَ رَسُولًا نَبِیًّا- مریم/ 51.
[20]- قال: فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ إِلَّا عِبادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ- صافات/ 83.
[21]- قال على علیه السّلام: الاخلاص ثمرة العبادة- غرر الحکم/ ص 17.