پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دنيا كى حقيقت

دنیا کى حقیقت

اس مطلب کى وضاحت کے لئے پہلے دنیا کى اسلام کى رو سے حقیقت اور ماہیت کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد جو اس سے نتیجہ ظاہر ہوگا اسے بیان کریں گے اسلام دو جہان کاعقیدہ رکھتا ہے ایک تو یہى مادى جہان کہ جس میں ہم زندگى کر رہے ہیں اور جسے دنیا کہا اور نام دیا جاتا ہے_ دوسرا اس کے بعد آنے والا جہان کہ جہاں مرنے کے بعد جائیں گے اسے آخرت اور عقبى کا جہان کہا اور نام دیا جاتا ہے_ اسلام عقیدہ رکھتا ہے کہ انسان کى زندگى اس جہان میں مرنے سے ختم نہیں ہوجاتى بلکہ مرنے کے بعد انسان آخرت کے جہاں کى طرف منتقل ہوجائیگا_ اسلام اس جہان کو گذر گاہ اور فانى مکان قرار دیتا ہے جو آخرت کے جہان جانے کے لئے ایک وقتى ٹھہرنے کى جگہ ہے_ اور آخرت کے جہان کو دائمى اور ابدى رہنے کى جگہ قرار دیتا ہے_ انسان اس دنیا میں اس طرح نہیں آیا کہ کئی دن زندگى کرے اور اس کے بعد مرجائے اور ختم اور نابود ہوجائے بلکہ انسان اس جہان میں اس لئے آیا ہے کہ یہاں علم او رعمل کے ذریعے اپنے نفس کى تربیت اور تکمیل کرے اور آخرت کے جہاں میں ہمیشہ کے لئے خوش اور آرام سے زندگى بسر کرے لہذا دنیا کا جہان آخرت کے جہاں کے لئے کھیتى اور تجارت کرنے اور زاد راہ کے حاصل کرنے کى جگہ ہے گرچہ انسان اس جہان میں زندہ رہنے اور زندگى کرنے کے لئے مجبور ہے کہ ان نعمتوں سے جون خدا نے اس جہان میں خلق کى ہیں استفادہ کرے لیکن ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنا انسان کى زندگى کى غرض اور ہدف نہیں ہے بلکہ یہ مقدمہ اور تمہید ہے انسان اور اس جہاں کے خلق کرنے کى غرض اور ہدف یہ نہیں کہ انسان یہاں کى زندگى کو خوب مرتب اور مرفح الحال بنائے اور مختلف لذائز اور تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے بلکہ انسان کے خلق کرنے کى غرض ایک بہت بلند اور عالى تر غرض ہے یعنى انسان اپنے انسانى شریف جوہر کى یہاں پر پرورش اور تربیت کرے اور اس کى نگاہ اللہ تعالى کى طرف سیر و سلوک اور تقرب کو حاصل کرنا ہو_ جیسے

امیرالمومنین على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا اس لئے خلق نہیں ہوئی کہ وہ تیرا ہمیشہ کے لئے گھر ہو بلکہ دنیا گذر نے کى جگہ ہے تا کہ نیک عمل کے ذریعے تو اپنى ہمیشہ رہنے والى جگہ کے لئے زاد راہ حاصل کرے لہذا تم دنیا سے چلے جانے کے لئے جلدى کرو اور یہاں سے جانے کے لئے اپنے لئے سوارى کو آمادہ اور مہیا کرو_[1]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اے دنیا کے لوگو دنیا گذر جانے کى جگہ ہے اور آخرت باقى رہنے کا محل ہے لہذا گزرنے والى جگہ سے ہمیشہ رہنے والے مکان کے لئے سامان اور زاد راہ حاصل کرو_ اور اپنے رازوں کے پردے کو اس کے سامنے جو تمہارے رازوں سے واقف ہے پارہ نہ کرو اپنے دلوں کو دنیا سے خالى کرو اس سے پہلے کہ تمہارے بدن اس دنیا سے خارج ہوجائیں_ تم اس دنیا میں امتحان میں واقع کئے جائو گے اور تم اس دنیا کے علاوہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو جب انسان مرجاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ کیا چھوڑ کرگیا ہے اور فرشتوں کہتے ہیں کہ کیا لے کرایا ہے اور کیا اپنے لئے یہاں کے لئے بھیجا ہے؟ خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے کہ تم اپنے مال سے کچھ آئندہ کے لئے روانہ کرو تا کہ خدا کے نزدیک تمہارے لئے بطور قرض کے باقى ہو اور تمام مال دنیا میں چھوڑ کرنہ رو کہ اس مال کے حقوق تمہارى گردن پر باقى رہ جائیں_[2]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خبردار رہو کہ یہ دنیا کہ جس کى تم امید رکھتے ہو اور اس سے محبت اور علاقہ مند ہو کبھى تمہیں غضب میں لاتى ہے اور کبھى تمہیں خوش کرتى ہے یہ نہ تمہارا گھر ہے اور نہ ہى تمہارى ٹھہرنے کى جگہ ہے کہ جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو اور نہ ہى یہ تمہارے لئے مکان ہے کہ جس کى طرف تم بلائے گئے ہو یہ جان لو کہ نہ ہى یہ دنیا تمہارے لئے ہمیشہ رہے گى اور نہ تم اس میں ہمیشہ کے لئے باقى رہو گے گرچہ دنیا تمہیں اپنى زینت اور خوبصورتى کى وجہ سے دھوکا دیتى ہے_ لیکن برائیوں اور شر کے ہونے سے بھى تمہیں ڈراتى ہے لہذا ان ڈرانے والى چیزوں کو جو یہ رکھتى ہے اس کے غرور اور دھوکے میں نہ آئو اور اس سے دست بردار ہوجائو اس کى ڈرائی جانے والى چیزوں کى وجہ سے اس کے طمع دلانے سے دست بردار ہو جائو اور اس گھر کى طرف جلدى کرو کہ جس کى طرف تمہیں دعوت دى گئی ہے اور اپنے دلوں کو دنیا سے خالى اور منصرف کرو_[3]

آپ نے دیکھ لیا کہ اس حدیث میں دنیا کى حقیقت کس طرح بتلائی گئی ہے کہ یہ فناء ہونے والى اور سفر کى جگہ ہے یہ گذرنے اور سفر کر جانے کے لئے ٹھہرنے کا ایک مقام ہے_ یہ دھوکے اور غرور اور چالبازى کا گھر ہے_ انسان اس کے لئے خلق نہیں ہوا بلکہ آخرت کے جہان کے لئے خلق کیا گیا ہے انسان اس جہاں میں آیا ہے تا کہ اپنے علم اور عمل اور انسانیت کى تربیت اور پرورش کرے اور آخرت کے جہان کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کرے_


[1]- فان الدنیا لم تخلق لکم دار مقام. بل خلقت لکم مجازا لتزوّدوا منها الاعمال الى دار القرار فکونوا منها على اوفاز و قرّبوا الظهور للزیال- نهج البلاغه/ خطبه 1323.
[2]- ایّها الناس انّما الدنیا دار مجاز و الاخرة دار قرار فخذوا من ممرّکم لمقرّکم و لا تهتکوا استارکم عند من یعلم اسرارکم، و اخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم، ففیها اختبرتم و لغیرها خلقتم. ان المرء اذا هلک قال الناس: ما ترک؟ و قالت الملائکة: ما قدّم؟ للّه آبائکم! فقدّموا بعضا یکن لکم قرضا، و لا تخلفوا کلّا فیکون فرضا علیکم- نهج البلاغه/ 203.
[3]- الا و ان هذه الدنیا التى اصبحتم تتمنّونها و ترغبون فیها و اصبحت تغضبکم و ترضیکم لیست بدارکم و لا منزلکم الذى خلقتم له و لا الذى دعیتم الیه. الا و انها لیست بباقیة لکم و لا تبقون علیها و هى و ان غرتکم منها فقد حذرتکم شرّها. فدعوا غرورها لتحذیرها و اطماعها لتخویفها و سابقوا فیها الى الدار التى دعیتم الیها و انصرفوا قلوبکم عنها- نهج البلاغه/ خ 173.