پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تمام گناہوں كى جڑ دنيا طلبى ہے

تمام گناہوں کى جڑ دنیا طلبى ہے

آیات قرآنى اور روایات اہل بیت علیہم السلام میں دنیا کى بہت زیادہ مذمت وارد ہوئی ہے اور اسے لہو اور لعب یعنى کھیل اور کود غرور و تکبر کا سرمایہ قرار دیا گیا ہے کہ جس میں مشغول ہو جانا مومنین کى شان نہیں ہے اور اس سے بہت زیادہ پرہیز کیا جائے_ جیسے قرآن میں آیا ہے''تھوڑى دنیا بھى دھوکے دینے والے سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں_[1]

نیز خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' دنیا سوائے کھیل اور ہوسرانى کے اور کچھ نہیں آخرت کا گھر نیکو کاروں کے لئے بہتر ہے کیا سوچ اور فکر نہیں رکھتے؟_[2]

نیز اللہ تعالى فرماتا ہے کہ '' جان لو کہ دنیا کى زندگى سوائے کھیل ہو سرانى زینت اور تفاخر اور اولاد کے زیا دہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس کى مثال اس بارش کى ہے جو وقت پر برسے اور سبزہ زمین سے نکلے کہ جو بڑوں کو تعجب میں ڈال دے اس کے بعد دیکھے گا کہ وہ زرد اور خشک اور خراب ہوجائے گی_ آخرت میں اس کے پیچھے سخت عذاب آ پہنچے گا_[3]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ دنیا شیریں اور خوشمنا ہوا کرتى ہے شہوات اور ھوى اور ہوس سے مخلوط ہے وہ اپنے آپ کو دل پسند جلدى ختم ہو جانے والى چیزوں کے ذریعے محبوب بناتى ہے اور معمولى چیزوں سے تعجب میں ڈالتى ہے_ امیدوں اور دھوکے دہى سے زینت کرتى ہے اس کى خوشى کو دوام حاصل نہیں اور اس کى مصیبتوں اور گرفتاریوں سے امان نہیں ہوتى بہت فریب دینى والى اور نقصان وہ ہے متغیر اور زوال پذیر ہے فنا اور ہلاک ہوجانے والى ہے انسانوں کو کھا جانے اور ہلاکت کردینى والى ہوا کرتى ہے_[4]

نیز آنحضرت نے فرمایا'' دنیا آرزو اور تمنا کا گھر ہے اور فنا ہوجائیگى اس کے رہنے والے وہاں سے چلے جائیں گے شیرین اور خوشمنا ظاہر ہوتى ہے بہت جلدى دنیا کے طلب کرنے والوں کے پاس جاتى ہے اور ان کے دلوں میں جو اس سے علاقمندى ظاہر کرتے ہیں گھر کر جاتى ہے_[5]

اس طرح کى آیات اور روایات بہت زیادہ موجود ہیں جو دنیا کى مذمت بیان کرتی ہیں اور لوگوں کو اس سے ڈراتى ہیں بالخصوص نہج البلاغہ جیسے گران بہا کتاب میں دنیا اور اہل دنیا کى بہت زیادہ مذمت وارد ہوئی ہے_ حضرت على علیہ السلام لوگوں سے چاہتے ہیں کہ دنیا کو ترک کریں اور آخرت کى فکر کریں آنحضرت لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک اہل دنیا اور دوسرا اہل آخرت اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص پروگرام ہوا کرتا ہے_

قرآن میں آیا ہے کہ '' جو شخص دنیا مال و متاع کا خواہش مند ہو ہم اسے اس سے بہرہ مند کرتے ہیں اور جو آخرت کے ثواب کا طالب ہوگا ہم اسے وہ عنایت کرتے ہیں_[6]

خدا فرماتا ہے کہ '' مال و متاع اور اولاد دنیا کى زینت ہیں لیکن نیک عمل باقى رہ جاتا اور وہى تیرے پروردگار کے نزدیک بہتر اور نیک آرزو اور تمنا ہے_ [7]


[1]- وَ مَا الْحَیاةُ الدُّنْیا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ- آل عمران/ 185.
[2]- وَ مَا الْحَیاةُ الدُّنْیا إِلَّا لَعِبٌ وَ لَهْوٌ وَ لَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ- انعام/ 32.
[3]- اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیاةُ الدُّنْیا لَعِبٌ وَ لَهْوٌ وَ زِینَةٌ وَ تَفاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَ تَکاثُرٌ فِی الْأَمْوالِ وَ الْأَوْلادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَباتُهُ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُونُ حُطاماً وَ فِی الْآخِرَةِ عَذابٌ شَدِیدٌ- حدید/ 20.
[4]- اما بعد فانّى احذّرکم الدنیا فانها حلوة خضرة حفت بالشهوات و تحببت بالعاجلة و راقت بالقلیل و تحلّت بالآمال و تزینت بالغرور. لا تدوم حبرتها و لا تؤمن فجعتها، غرّارة ضرّارة حائلة زائلة نافذة بائدة اکّالة غوّالة- نهج البلاغه/ خ 111.
[5]- و الدنیا دار منى لها الفناء و لاهلها منها الجلاء و هى حلوة خضراء و قد عجبت للطالب و التبست بقلب الناظر- نهج البلاغه/ خ 45.
[6]- وَ مَنْ یُرِدْ ثَوابَ الدُّنْیا نُؤْتِهِ مِنْها وَ مَنْ یُرِدْ ثَوابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْها- آل عمران/ 145.
[7]- الْمالُ وَ الْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ الْباقِیاتُ الصَّالِحاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَواباً وَ خَیْرٌ أَمَلًا- کهف/ 46.