پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جہاد اور تائيد الہي

جہاد اور تائید الہی

یہ ٹھیک ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشکل ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کرنا استقامت اور پائیدارى اور ہوشیارى اور حفاظت کا محتاج ہے لیکن پھر بھى ایک ممکن کام ہے اور انسان کو تکامل کے لئے یہ ضرورى ہے اگر انسان ارادہ کرلے اور نفس کے جہاد میں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھى اس کى تائید کرتا ہے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالى کى راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے کى ہدایت کرتے ہیں_[1]

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مبارک ہو اس انسان کے لئے جو اللہ تعالى کى رضا کى خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس کے ساتھ جہاد کرے _ جو شخص خواہشات نفس کے لئے لشکر پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ اللہ تعالى کى رضایت حاصل کر لیگا_ جو شخص اللہ تعالى کے سامنے عاجزى اور فروتنى سے پیش آئے اور اپنى عقل کو نفس کا ہمسایہ قرار دے تو وہ ایک بہت بڑى سعادت حاصل کرلیگا_  انسان اور پروردگار کے درمیان نفس امارہ اور اس کى خواہشات کے تاریک اور وحشت ناک پردے ہوا کرتے ان پردوں کے ختم کرنے کیلئے خدا کى طرف احتیاج خضوع اور خشوع بھوک اور روزہ رکھنا اور شب بیدارى سے بہتر کوئی اسلحہ نہیں ہوا کرتا اس طرح کرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنیا سے شہید ہو کر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالى کے رضوان اکبر کو جا پہنچتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کى راہنمائی کردیتے ہیں_ اور خدا نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے_ اگر کسى کو تو اپنے نفس کو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس کى حفاظت کرنے میں زیادہ شوق دلا_ اللہ تعالى کے اوامر او رنواہى کو اس کے لئے لگام بنا کر اسے نیکیوں کى طرف لے جا جس طرح کہ کوئی اپنے ناپختہ غلام کى تربیت کرتا ہے اور اس کے کان پکڑ کر اسے ٹھیک کرتا ہے_

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنى نماز پڑھتے کہ آپ(ص) کے پائوں مبارک ورم کر جاتے تھے اور لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہیں یوں جواب دیتے تھے کہ کیا میں شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پیغمبر اکرم عبادت کرکے اپنى امت کو درس دے رہے تھے_ اے انسان تو بھى کبھى عبادت اور اس کى برکات کے مٹھاس کو محسوس کر لیا اور اپنے نفس کو اللہ تعالى کے انوار سے نورانى کر لیا تو پھر تو ایسا ہوجائیگا کہ ایک گھڑى بھى عبادت سے نہیں رک سکے گا گرچہ تجھے تکڑے ٹکڑے ہى کیوں نہ کردیا جائے_ عبادت سے روگردانى اور اعراض کى وجہ سے انسان عبادت کے فوائد اور گناہ اور معصیت سے محفوظ رہنے اور توفیقات الہى سے محروم ہوجاتا ہے_[2]

نفس کى ساتھ جہاد بالکل جنگ والے جہاد کى طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر کریگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح کرے گا اسى مقدار اس کا دشمن کمزور اور ضعیف ہوتا جائیگا اور فتح کرنے والى فوج طاقت ور ہوتى جائیگی_

اور دوبارہ حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیگی_ اللہ تعالى کا طریق کار اور سنت یوں ہى ہے اللہ تعالى فرماتا ہے کہ ان تنصر و اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم_

نفس کے ساتھ جہاد کرنا بھى اسى طرح ہوتا ہے_ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس کى غیر شرعى خواہشات اور ھوى و ہوس کى مخالفت کى جائیگى اتنى ہى مقدار نفس کمزور ہوجائیگا اور تم قوى ہوجائو گے اور دوسرى فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو گے برعکس جتنى سستى کرو گے اور نفس کے مطیع اور تسلیم ہوتے جائوگے تم ضعیف ہوتے جائو گے اور نفس قوى ہوتا جاے گا اور تمہیں فتح کرنے کے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائیگا اگر ہم نفس کے پاک کرنے میں اقدام کریں تو خداوند عالم کى طرف سے تائید کئے جائیں گے اور ہر روز زیادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائیں گے لیکن اگر خواہشات نفس اور اس کى فوج کے لئے میدان خالى کردیں تو وہ قوى ہوتا جائیگا اور ہم پر زیادہ مسلط ہوجائیگا_


[1]- وَ الَّذِینَ جاهَدُوا فِینا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنا- عنکبوت/ 69.
[2]- قال الصادق علیه السّلام: طوبى لعبد جاهد للّه نفسه و هواه و من هزم جند هواه ظفر برضا اللّه و من جاور عقله نفس الامّارة بالسوء با الجهد و الاستکانة و الخضوع على بساط خدمة اللّه تعالى‏ فَقَدْ فازَ فَوْزاً عَظِیماً، و لا حجاب اظلم و اوحش بین العبد و بین الرب من النفس و الهوى و لیس لقتلهما فى قطعهما سلاح و آلة مثل الافتقار الى اللّه و الخشوع و الجوع و الظماء بالنهار و السهر باللّیل. فان مات صاحبه مات شهیدا، و ان عاش و استقام ادّاه عاقبته الى الرضوان الاکبر. قال اللّه تعالى:« وَ الَّذِینَ جاهَدُوا فِینا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ» و اذا رأیت مجتهدا ابلغ منک فى الاجتهاد فوبّخ نفسک و لمّها و عیّرها و حثّها على الازدیاد علیه. و اجعل لها زماما من الامر و عنانا من النهى و سقها کاالرائض للفاره الذى لا یذهب علیه خطوة الّا و قد صحّح اولها و آخرها. و کان رسول اللّه یصلّى حتى یتورّم قدماه و یقول: افلا اکون عبدا شکورا؟ اراد ان یعتبر به امته. فلا تغفلوا عن الاجتهاد و التعبد و الریاضة بحال. الا و انک لو وجدت حلاوة عبادة اللّه و رأیت برکاتها و استضأت بنورها لم تصبر عنها ساعة واحدة، و لو قطعت اربا اربا، فما اعرض من اعرض عنها الّا بحرمان فوائد السبق من العصمة و التوفیق- بحار/ ج 70 ص 69.