پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تقليد

تقلید

خداوند عالم نے ھماری سعادت اور دنیا و آخرت میں نجات کے لئے تمام احکام و قوانین کو اپنے نبی (ص) کے ذریعہ لوگوں تک پھنچایا اور آپ (ص) نے اس امانت عظمیٰ کو ائمہ طاھرین (ع) کوودیعت اعطا فرمایا ھے اور حضرت کے جانشین اور خلفائے برحق نے اپنی عمر کے تمام نشیب و فراز میں اس ذمہ داری کو پھنچانے کی کوشش فرمائی ھے جو آج تک ان تمام ادوار کو طے کرتا ھوا ھمارے سامنے حدیثوں اور روایتوں کی کتابوں میں موجود ھے ۔

اس زمانہ میں چونکہ امام زمانہ (ع) تک ھماری رسائی ممکن نھیں ھے کہ ھم اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو حضرت (ع) سے دریافت کر سکیں، لہذا مجبور ھیں کہ حدیثوں اور قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کریں اور اگر اس پر بھی قادر اور دست رسی نھیں رکھتے تو ضروری ھے کہ کسی مجتھد اعلم (سب سے زیادہ علم رکھنے والا) کی تقلید کریں ۔

ان روایات و احادیث میں کھری کھوٹى، صحیح و غلط وضعی جعلی وغیرہ کے سمندر سے گوھر کا الگ کرنا ھر ایک کے بس کا میں نھیں ھے اس لئے ضروری ھے کہ ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اس بحر بیکراں میں غواصی کر رھے ھوں، جو اس سمندر کی طغیان اور طوفان سے خوب واقف ھوں جنھوں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے رات و دن نہ دیکھا، عمر کے لمحات کو نہ شمار کیا ھو، علوم کے سمندر کی تہہ میں بیٹھے ھوں اس کی راھوں سے خوب واقف ھوں اس میں سے گوھر و موتی نکالنے میں ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ ھو، ایسے افراد کو مجتھد کھتے ھیں ۔

لہذا ھم مجبور ھیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو طے کرنے کے لئے ان کے دامن کو تھامیں کیونکہ اس کام کے ماھر وھی ھیں، مریض ڈاکٹر ھی کے پاس تو جائے گا، یہ ایک عقلی قاعدہ ھے جس چیز کے متعلق معلوم نھیں اس علمکے ماھر و متخصص سے پوچھو اور حضرات ائمہ طاھرین علیھم السلام نے بھی دور دراز رھنے والوں کے لئے قریب کے عالم کی طرف راھنمائی فرمائی ھے ۔

البتہ تقلید میں یہ چیز ذھن نشین رھے، کہ ایسے مجتھد کی تقلید کی جائے جو تمام مجتھدین میں اعلم (جو احکام خدا کو سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والا ھو) عادل و پرھیز گار ھو پس اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا ضروری ھے، مجتھدین اکثر موارد میں اتفاق نظر رکھتے ھیں، سوائے بعض جزئیات کے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ھے، ھو سکتا ھے کہ ان جزئیات میں ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دیں ۔

اس مقام پر یہ بھی ذکر کرنا ضروری ھے کہ خداوند عالم کے پاس فقط ایک حکم موجود ھے اس کے علاوہ کوئی حکم نھیں پایا جاتا وھی حق ھے، اور حکم حقیقی و واقعی فتویٰ کے بدلنے سے تبدیل نھیں ھوتا ھے، مجتھدین بھی نھیں کھتے ھیں کہ خدا کے نظریات و احکام ھمارے نظریات و خیالات کے تابع ھیں یا ھمارے حکم کی تبدیلی سے خدا کا حکم بدل جاتا ھے۔

پھر آپ ھم سے یہ سوال کرنے پر مجبور ھوجائیں گے: فتویٰ میں اختلاف کی نوعیت کیا ھے؟ فقھاآپس میں اختلاف کیوں رکھتے ھیں؟

ایسی صورت میں آپ کے سوال کا جواب یہ ھوگا کہ: فتویٰ میں اختلاف ان وجوہ میںسے کسی ایک کی بنا پر ممکن ھے ۔

پھلا: کبھی ایک مجتھد حکم واقعی کو سمجھنے میں شک کرتا ھے تو اس حال میں قطعی حکم دینا ممکن نھیں ھوتا لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ھوئے مطابق احتیاط فتویٰ دیتا ھے تاکہ حکم الٰھی محفوظ رھے، اور مصلحت واقعی بھی نہ نکلنے پائے ۔

دوسرا: کبھی اختلاف اس جھت سے ھوتا ھے، کہ دو مجتھدین جس روایت کو دلیل بنا کر فتویٰ دیتے ھیں وہ روایت کو سمجھنے میں اختلاف نظر رکھتے ھیں، ایک کھتا ھے امام اس روایت میں یہ کھنا چاھتے ھیں اور دوسرا کھتا ھے امام کا مقصود دوسری چیز ھے، اس وجہ سے ھر ایک اپنی سمجھ کے مطابق فتویٰ دیتا ھے ۔

تیسرا: حدیث کی کتابوں میں کسی مسئلہ کے اوپر کئی حدیثیں موجود ھیں جو باھم تعارض رکھتی ھیں ہاں فقیہ کو چاھیے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دے اور اس کے مطابق فتویٰ دے۔

یہاں ممکن ھے کہ مجتھدین کا نظریہ مختلف ھو ایک کھے فلاں اور فلاں جھت سے یہ روایت اس روایت پر مقدم ھے اور دوسرا کھے، فلاں و فلاں جھت سے یہ روایت اس روایت پر ترجیح رکھتی ھے پس ھر ایک اپنے مد نظر روایت کے مطابق فتویٰ دیتا ھے ۔

البتہ اس طرح کے جزئی اختلافات کھیں پر ضرر نھیں پھونچاتے بلکہ محققین اور متخصصین و ماھرین کے نزدیک ایسے اختلافی مسائل پائے جاتے ھیں آپ کئی انجینیر، اور مہارت رکھنے والے کو نھیں پا سکتے جو تمام چیزوں میں ھم عقیدہ و اتفاق رای رکھتے ھوں ۔

ھم مذکورہ مطالب سے یہ نتیجہ نکالتے ھیں:

1) تقلید کرنا کوئی نئی بات نھیں، بلکہ ھر شخص جس فن میں مہارت نھیں رکھتا ھے اس فن میں اس کے متخصص وماھر کے پاس رجوع کرتا ھے، جیسے گھر وغیرہ بنوانے کے معاملہ میں انجینیراور بیماری میں ڈاکٹر اور بازار کی قیمت کے متعلق دلال کے پاس جاتے ھیں، پس احکام الٰھی حاصل کرنے کے لئے مرجع تقلید کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ وہ اس فن کے متخصص و ماھر ھیں ۔

2) مرجع تقلید: من مانی اور ھوا و ھوس کی پیروی میں فتویٰ نھیں دیتے بلکہ تمام مسائل میں ان کا مدرک قرآن کی آیات و احادیث پیغمبر (ص) اور ائمہ طاھرین (ع) ھوتی ھے ۔

3) تمام مجتھدین، اسلام کے کلی مسائل بلکہ اکثر مسائل جزئی میں بھی ھم عقیدہ اور نظری اختلاف نھیں رکھتے ھیں ۔

4) بعض مسائلِ جزئیہ جس میں اختلاف نظر پایا جاتا ھے وہ اس وجہ سے نھیں ھے کہ مجتھدین اختلاف کرنا چاھتے ھیں بلکہ تمام مجتھدین چاھتے ھیں کہ حکم واقعی خدا جو کہ ایک ھے اس کو حاصل کریں اور مقلدین کے لئے قرار دیں، لیکن استنباط اور حکم واقعی کے سمجھنے میں اختلاف پیدا ھوجاتا ھے پھر چارہ ھی کوئی موجود نھیں رھتا مگر یہ کہ جو کچھ سمجھا ھوا ھے اس کو بیان کر یں ا ور لکھیں جب کہ حکم واقعی ایک حکم کے علاوہ نھیں ھے ۔ مقلدین کے لئے بھی کوئی صورت نھیں ھے مگر اعلم کے فتوے پر عمل کریں اور خدا کے نزدیک معذور ھوں ۔

5) جیسا کہ پھلے بیان ھوا کہ دنیا کا ھر متخصص و محقق و ماھر چاھے جس فن کے بھی ھوں ان کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ھے، لیکن لوگ امر عادی سمجھتے ھوئے اس پر خاص توجہ نھیں دیتے ھیں اور اس سے اجتماعی امور میں کوئی رخنہ اندازی بھی نھیں ھوتی ھے ۔

مجتھدین کے بعض جزئیات میں اختلافی فتوے بھی اس طرح کے ھیں، اس کو امر غیر عادی نھیں شمار کرنا چاھیے ۔

6) ھمیں چاھیے کہ ایسے مجتھد کی تقلید کریں جو تمام مجتھدین سے اعلم ھو، اور احکام الٰھی کے حاصل کرنے میں سب سے زیادہ تجرّ رکھتا ھو نیز عادل و پرھیز گار جو اپنے وظیفہ و ذمہ داری پر عمل کرتا ھو اور قانون و شریعت کی حفاظت کے لئے کوشاں ھو۔