پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جہاد

جہاد

اسلام کا ایک مھم دستور جہاد ھے ۔ خدا پرستی کی ترویج و احکام اسلام کے نفوذ، کفر و بے دینی اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کو جہاد کھتے ھیں اور جہاد تمام مسلمانوں پر واجب ھے، اس ضمن میں قرآن مجید کھتا ھے: خدا تو ان لوگوں سے الفت رکھتا ھے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ھیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ھوئی دیوار ھیں (۸۰)

اور دوسرے مقام پر اس طرح تشویق کرتا ھے اور مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب لڑتے ھیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو۔ (۸۱)

اور ایک مقام پر قرآن کھتا ھے ان کے رھنماؤں کے پیر اکھاڑدو کفار کے سربرآوردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو، ان کی قسموں کا ھر گز کوئی اعتبار نھیں ھے تاکہ یہ لوگ (اپنی شرارت) سے باز آجائیں۔ (۸۲)

اسی طرح ارشاد باری ھے: کفار سے اس قدر جنگ کرو کہ فتنہ و فساد بر طرف ھوجائے اور (فقط) خدا کا دین (باقی) رھے ۔ (۸۳)

اور ایک مقام پر ارشاد رب العزت ھے، ان کو مرعوب کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقتیں فراھم کرو تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو میں بھت جلد کافروں کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دونگا (پس پھر کیا ھے اب) تو ان کفار کی گردنوں پر مارو اور ان کی پور پور چٹیلی کر دو ۔ (۸۴)

(۸۵)

اور (مسلمانو) کفار کے (مقابلہ کے) واسطے جہاں تک ھوسکے (اپنے بازو کے) زور سے اور بدھے ھوئے گھوڑوں سے (لڑائی کا) سامان مھیا کرو اسے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن اور اس کے سوا دوسرے لوگوں کے اوپربھی اپنی دھاک بٹھالوگے ۔ (مترجم)

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں: جہاد جنت کے دروازے میں سے ایک دروازہ ھے جو شخص جہاد سے انکار کرے خدا اس کو ذلیل و رسوا کرے گا ۔ (۸۶)

اسلام نے جہاد کو اسلامی ملکوں کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ھے اور تمام مسلمانوں کو مجاھد اور اسلامی ملک کو مجاھدوں کی جگہ قرار دی ھے، مجاھدین اسلام کو چاھیے ھمیشہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں مسلح اور صف بصف آمادہ رھیں تاکہ دشمن اسلام قدرت و شوکت اور اتحاد مسلمین سے خوف کھائے اور اس کے ذھن سے اسلامی ملکوں پر زیادتی اور تجاوز کے خیالات ھوا ھوجائیں، اگر کفار کی فوج اسلام کے کسی علاقہ پر حملہ آور ھو جائے تو تمام مسلمانوں پر اپنے استقلال کے لئے اس کا دفاع کرنا واجب ھے اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ھے کہ سب کے سب دشمنوں کے مقابلہ میں صف بستہ کھڑے ھوں اور ایک ھی حملہ میں مخالف کی فوج کو تھس نھس اور تباہ و برباد کر کے اپنی جگہ پر بٹھادیں تاکہ دوبارہ وہ اس کی جراٴت و ھمت نہ کر سکیں ۔

جب تک مسلمان جہاد کو اپنا مقدس دینی وظیفہ سمجھتے تھے اور دشمن کے مد مقابل اسلحہ سے لیس آمادہ اور تمام تیاری کے ساتھ ایک صف میں محاز آرائی کے لئے کھڑے تھے، اس وقت تک کسی دشمن اسلام کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ھمت نہ تھى، اس وقت دشمنان اسلام خوفزدہ اور اپنی قدرت و طاقت کی کمزوری کو درک کرتے تھے ۔

لیکن جب مسلمان (مجاھدین) پراگندہ ھو گئے اور بکھر گئے (بجائے اس کے کہ دشمن کے مقابلہ میں صف بستہ ھوتے) بلکہ اپنی عزت و عظمت کو خود ھی تباہ کر بیٹھے اور دوسروں کے دست نگر اور محتاج ھوکر استعمال ھونے لگے، لہذا اپنی حفاظت و استقلال کے لئے مجبور ھوگئے کہ غیروں کا سہارا لیں، تاکہ وہاں کاسہ لیسی اور خوشامدی کر کے اپنی حفاظت کی بھیک مانگیں لیکن نتیجہ اس کے بر خلاف نکلا (خود ابریشم کے کیڑے کی طرح) روز بروز اس کے فریب کے جال میں گھرتے گئے ۔

نکتہ: جہاد کے لئے مخصوص شرائط ھیں جس کی بابت چاھیے کہ فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے ۔

80. سورہ صف (۶۱) آیت ۴ ۔
81. سورہ توبہ (۹) آیت ۳۶ ۔
82. سورہ توبہ (۹) آیت ۱۲ ۔
83. سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۹۳۔
84. سورہ انفال (۸) آیت ۱۲ ۔
85. سورہ انفال (۸) آیت ۶۰ ۔
86. وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص ۱۱ ۔