پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پهلي فصل؛ خدا كي پہچان

خدا کی پہچان
علم کی اھمیت

اسلام علم و عقل کا دین ھے مسلمانوں سے دلچسپی کے ساتھ علم حاصل کرنے کو چاھتا ھے، اسلام لوگوں کی اھمیت علم و دانش سے دیتا ھے اور حصول علم کو تمام لوگوں پر واجب و لازم جانتا ھے، خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا: اے رسول (ص) پوچھو! بھلا جاننے والے اور نہ جاننے والے کھیں برابر ھو سکتے ھیں؟ (۱)

اور خدا قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے: خدا مومنین کے مقام کو بلند کرتا ھے اور علماء کو سب سے بلند درجہ تک پھنچاتا ھے (۲)

رسول (ص) خدا فرماتے ھیں: علم کا حاصل کرنا ھر مسلمان مرد و عورت پر واجب ھے (۳)

آنحضرت (ص) نے فرمایا: عالم وہ ھے جو دوسروں کی معلومات اور اطلاعات سے فائدہ حاصل کرے اور اپنے علم میں اضافہ کرے ۔۔۔۔پُر اھمیت شخص وھی ھے جس کے اعمال و حسنات زیادہ ھوں، اور لوگوں میں بے اھمیت وہ ھے جس کے پاس علم و آگھی نہ ھو (۴)

حضرت علی امیر المومنین (ع) فرماتے ھیں: علم سے بھتر کوئی خزانہ نھیں ھے(۵)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں تمھارے جوانوں کو دو حال میں پسند کرتا ھویا علم حاصل کرنے والے یا تعلیم دینے والے ھوں اگر ایسا نھیں ھے تو انھوں نے کوتاھی کی ھے، اور ھر کوتاھی کرنے والا عمر ضائع کرتا ھے اور عمر کو برباد کرنے والا گنھگار ھے اور گنھگار کا ٹھکانہ جھنم ھے۔ (۶)

حضرت باقر العلوم (ع) فرماتے ھیں: جو شخص حصول علم میں رات و دن سرگرم رھے وہ اللہ کی رحمت میں شریک ھے۔ (۷)

حضرت سرورکائنات (ص) نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! علمی گفتگو میں ایک گھنٹہ رھنا، اللہ کے نزدیک ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ھے، جس کی ھر رات میں ہزار رکعت نماز پڑھی گئی ھو۔ (۸)


خدا کی پہچان

خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رھاھے، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نھیں آتی ھے مثال کے طور پر اگر ھم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو یقین کریں گے کہ اس کا بنانے والا، کار گر و مزدور اور نقشہ کھینچنے والا انجینیرکوئی ضرور ھوگا، یعنی یہ گھر انھیں افراد کی زحمات کا نتیجہ ھے کسی کے خیال میں بھی نھیں آئے گا کہ یہ خودبخود تیار ھو گیا ھوگا ۔

اگر ھم ٹیبل پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ اس پر کسی نے لکھا ھے تو دیکھ کر ھمیں اطمینان سا ھوجائے گا کہ ھماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ھے اگر کوئی کھے بھائی صاحب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ھی اس پر رواں ھو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ھے تو ھم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات غیر معقول قرار دینگے، اگر ھم کسی مقام پر خوبصورت تصویر بھترین پارک میں بنی ھوئی دیکھیں جو ھر ایک کا دل اپنی طرف لبھا رھی ھو تو کیا ھمارے ذھن میں یہ بات آئے گی کہ ھو نہ ھو یہ خود بخود بن گئی ھو گی ۔

ھم گاڑی میں باتیں کرتے ھوئے چلے جا رھے تھے اتفاق سے گاڑی رک گئی ڈرائیور کو اطمینان ھے کہ گاڑی بغیر وجہ کے نھیں رکے گى، کوئی نہ کوئی ضرور موٹر میں خرابی آئی ھے، اور بنانے کے لئے تمام کوششیں کر رھاھے ھم کھیں بھائی ٹھھرو ابھی گاڑی خود بخود صحیح ھوکر چلنے لگے گی !

ھمارے ہاتھ کی گھڑی چلتے چلتے رک گئی ھم نے بنانے والے کو دیا، کیا وہ کہہ سکتا ھے کہ یہ ابھی خود ھی سے ٹھیک ھوجائے گی ۔

آپ کو اچھی طرح معلوم ھے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نھیں ھوتا ھے، اور اس کی تلاش ھر شخص کو ھوتی ھے، اب میں آپ سے سوال کروں یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ھوگئی ھے؟ ھرگز ایسا نھیں ھے، اتنی بڑی اور منظم دنیا پھیلے ھوئے دریا، چمکتے ھوئے ستارے اور دمکتا ھوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا، فصلوں کی تبدیلى، درختوں کے شباب، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نھیں ھو سکتا ۔


دنیا میں نظم و ترتیب

اگر ھم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ھوئی ھو کہ اس کے اجزاآپس میں اچھی طرح خوب ملے ھوئے ھوںاوراس میںرھنے والوںکیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراھم ھو یعنی اس میںکسی طرح کا کوئی عیب ونقص نظرنہ آرھاھواُجالے کے لئے بجلى، پینے کے لئے بھترین پانى، سونے کے لئے کمرہ، کچن، مھمان خانہ، حمام، پیشاب خانہ اورجاڑے میں گرم کرنے کے لئے ھیٹر، گرمى میں سرد کرنے کے لئے (AC) اورکولربھت ھی نظافت سے پانی کے پائپ اوربجلی کے تار پھےلے ھوئے ھوں، اور اس کی بناوٹ میں ڈاکٹری پھلوؤں پر خاص توجہ دی گئی ھو، سورج کی ٹکیا پورے طور پر اس گھر میں نور چھڑک رھی ھو، جبھم یہ ملاحظہ کرتے ھیں تو ھماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ھو جاتی ھے کہ یہ ھر لحاظ سے منظم گھر خود بخود نھیں بنا ھوگا، بلکہ اس کے بنانے اور سنوارنے والا کوئی با ھوش مدبر، دقت بیں، نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ھے ۔

اس مثال کے ذکر کے بعد چاھتا ھوں کہ اپنی روزانہ کی زندگی پر آپ لوگوں کی توجہ مبذول کراؤں انسان اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے پانی اور کھانے کا محتاج ھے کہ کھانا کھائے اور پانی پئے اور بدن کے خلیوں (CELLES) کی ضروریات کو پورا کرے تاکہ بدن کے تمام خلیہ زندہ اور اپنے کاموں میں مشغول رھکر ھماری زندگی کو اچھی طرح قائم و دائم رکھیں، ضروری ھے کہ مختلف انواع کے کھانے کھائیں اور ان کو فوت ھونے سے بچائیں ورنہ انھیں کے ساتھ زندگی کے چراغ مدھم ھونا شروع ھوجائیں گے ۔

انسان اپنی زندگی کے لئے مفید ھوا کا نیاز مند ھے تاکہ اس کو جذب کرے اور داخلی جراثیم کو باھر نکال کر حیات کو تازگی بخشے، آپ ملاحظہ کریں، کس طرح ھماری زندگی کو بھترین بنانے کے لئے ضروریات کی تمام چیزیں خارج میں موجود ھیں اگر کھانا تلاش کریں تو مختلف انواع و اقسام کے کھانے موجود ھیں اگر زندگی کے لئے گیھوں، چاول، سبزى، پھل اور گوشت وغیرہ کی تلاش ھوتو تمام کی تمام چیزیں خارج میں موجود ھیں، اگر پانی یا ھوا کی ضرورت ھوتو باھر موجود ھے پاؤں ھوں تو کھانے کی تلاش میں نکل سکتے ھیں آنکھیں ھوں تو مناسب اچھی غذائیں دیکھ سکتی ھیں اور ہاتھ ھوں تو اٹھا سکتے ھیں، اور پیدا کرنے والے نے ہاتھ کو بھی کیا خلق کیا ھے کہ پورے طور پر ھمارے اختیار اور ھماری ضروریات کو مختلف انداز میں پورا کرنے کے لئے تیار ھے جس طرح اور جس وقت چاھیں اٹھائیں بیٹھائیں فقط ھمارے ارادہ کے محتاج ھیں، جیسا ارادہ ھو ویسا کریں، بند کرنا چاھیں تو کھلے نہ، اور کھولنا چاھیں تو بند نہ ھو، کس قدر تعجب خیز ھے ہاتھوں کی بناوٹ اور اس میں انگلیوں اور ھتھیلیوں کی ظرافت، ھونٹوں کو پیدا کیا تاکہ منھ کو بند رکھیں لقمہ باھر آنے سے محفوظ رھے ۔

مشکل ترین مسئلہ یہ ھے کہ بدن کی ضروری غذائیں جو رنگ برنگ اور مختلف اقسام کے ساتھ پائی جاتی ھیں کیا یہ اتنی آسانی سے بدن کے خلیوں کے لئے لائقِ استفادہ ھو سکتی ھیں؟ ھر شخص کہہ سکتا ھے، نھیں بلکہ اس میں بھترین طریقہ سے تغیر و تبدیلی واقع ھو، تاکہ وہ بدن کے استفادہ کے مطابق ھو سکے، انسان کی داخلی مشینری (Machinery) غذا کو چار مرحلہ کے بعد ہضم کے لائق بناتی ھے لہذا (بطور عبرت) خلاصة ً قارئین کے پیش خدمت ھے ۔

پھلا مرحلہ: خدا وند عالم نے ھمارے منھ میں دانت جیسی نعمت دی جو غذا کے مطابق لقمہ کو چبا کر ریزہ ریزہ کرنے کے کام آتے ھیں، اور زبان میں حرکت عطا کی تاکہ لقمہ کو مناسب دانتوں کی طرف ھدایت کرے اور منھ کے اندر بعض حصوں کو ایسا منزہ بنایا جو کھانے کے ذائقہ اور اس کی اچھائی و خرابى، مٹھاس اور تلخی کو دماغ کی طرف منتقل کرتے ھیں، اور اسی لقمہ (غذا) کے مطابق، مرطوب اور نرم کرنے کے لئے مخصوص پانی چھوڑتے ھیں، تاکہ وہ لقمہ آسانی سے چبانے اور نگلنے کے لائق ھو جائے اس کے علاوہ یہ منھ کے پانی غذا کو ہضم کرنے میں کافی مدد کرتے ھیں اور خود اس کے اندر شیمیائی اور کیمیائی طاقتیں بھر پور پائی جاتی ھیں ۔

دوسرا مرحلہ: جب دانت اپنے کام سے فارغ ھوجائے یعنی لقمہ نگلنے کے لائق ھو جائے تو غذا منھ کے راستہ کے ذریعہ معدہ میں پھونچ جاتی ھے، لقمہ کو نیچے جاتے وقت چھوٹی زبان (کوا) ناک اور سانس کے سوراخ کو بند کر دیتی ھے اور اس مخصوص پردہ کے ذریعہ ناک و سانس کے راستے کو بن کرنے کا مقصد یہ ھے کہ کھانا ناک کے سوراخ میں نہ چلا جائے ۔

تیسرا مرحلہ: کھانا کچھ دیر معدہ میں رھتا ھے تاکہ وہ ہضم کی صلاحیت پیدا کر لے، معدہ کی دیواروں میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے غدود پائے جاتے ھیں جس سے خاص قسم کا سیال پانی نکلتا ھے لہذا اس کے ذریعہ کھانا ہضم اور بھنے والے پانی کے مانند ھوجاتا ھے ۔

چوتھا مرحلہ: غذا پتلی نالیوں کے ذریعہ (آنت) پت کی تھیلی میں جاتی ھے اور وہاں پر بڑا غدود جس کو (لوزالمعدہ) کھتے ھیں، جس سے مخصوص قسم کا، سیال اور غلیظ پانی نکلتا ھے جو غذا کو ہضم کرنے کے لئے نہایت ھی ضروری ھے، کھانا آنت میں بھنے والی چیزوں کی طرح رھتا ھے، اور اس آنت کی دیواروں پر لگے ھوئے غدود اس سے غذائی مواد حاصل کرتے ھیں، اور اس مواد کو خون کی صورت میں تبدیل کر کے تمام بدن میں پھنچاتے ھیں اور دل جو برابر حرکت میں رھتا ھے، ان قیمتی مواد کو خون کے ذریعہ بدن کے تمام حصوںمیں بھیجتا ھے اور اس طریقہ سے انسان کے بدن کے تمام خلیے اپنی اپنی غذائیں حاصل کرتے ھیں ۔

توجہ کی بات ھے کہ انسان کے عضلات اور دنیا کی چیزوں میں کس قدر ارتباط اور رابطہ پایا جاتا ھے، کیا اب بھی کسی میں ھمت ھے جو کھے یہ دنیا خود بخود پیدا ھوگئی ھے !

اگر ھم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاھرہ کیا گیا ھے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتھاباقی نہ رھے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گھرا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ھے جس سے ھمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ھو جاتی ھے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نھیں آئی ھیں ۔

بلکہ پیدا کرنے والے نے بھت ھی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ھے، کیا خدا کے علاوہ کوئی ھو سکتا ھے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گھرا رابطہ پیدا کر سکے؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نھیں ھے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ھے؟ کیا طبیعت کے بس کا ھے جو انسان کے منھ میں ایسا غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ھمیشہ تروتازہ بنا رھے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ھر لقمہ اور ھر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ھے خود بخود بن جائے گى؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ھیں خود بخود خلق ھوئے ھیں ؟وہ کونسی چیز ھے (لوزالمعدہ) جو بڑے غدود کو حکم دیتی ھے کہ وہ سیال اور غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکاؤ کرے؟ کیا انسان کے دو عضو اپنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ھیں ؟وہ کیا چیز ھے جو دل کو مجبور کرتی ھے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین (Protein) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پھنچائے؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ھے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھتے ھیں۔


بچپنے کا زمانہ

اب ھم اپنی زندگی کے دوسرے پھلوؤں پر بھی نظر ڈالیں، جب ھم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو اتنے لاغر و کمزور تھے کہ بات کرنے کی بھی تاب نھیں رکھتے تھے چل کر معاش فراھم کرنا کیسا؟ ھمارے ہاتھوں میں تو لقمہ اٹھانے کی طاقت نھیں تھی جو اٹھاتے اور منھ میں رکھتے، منھ میں کیا رکھتے کہ چبانے کے لئے دانت نھیں تھا، معدہ میں ہضم کرنے کی صلاحیت موجود نھیں تھى، اس حال میں سب سے بھترین غذا خداوند عالم نے دودھ کو ھمارے لئے قرار دیا ۔

جب ھم نے دنیا میں آنکھیں کھولی تو خدا نے اس سے پھلے ھی ماں کے سینہ میں ھماری غذارکھ چھوڑی تھى، اس کے دل میں ھماری محبت اور الفت کی جگہ دی تاکہ رات و دن کے ھر لمحات میں ھمارے لئے زحمت و مشقت برداشت کرے، ھماری زندگی کو اپنی زندگی ھمارے آرام کو اپنے لئے آرام سمجھے جب تھوڑا بڑے ھوئے ہاتھ پاؤں آنکھ کان اور معدہ کی قوت کے سبب سنگین غذاؤں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور معمولی دانتوں سے کھانا شروع کیا۔


انصاف کریں

کس نے ھمارے لئے محبت پیدا کى؟ اور ھمارے بچپنے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں جیسی شفیق و مھربان خاتون بنایا؟ کس نے اس وسیع و عریض دنیا، چمکنے والے ستارے سورج اور چاند کو خلق کیا؟ کس نے اس دنیا کو منظم و مرتب پیدا کیا؟ کس نے زمین اور چاند کو عمیق حسابوں سے رواں دواں کیا؟ یہ جاڑے، گرمى، برسات اور خزاں کو کس نے معین فرمایا؟ !

آنکھ، کان، زبان، معدہ، دل، کلیجہ، آنت، پھیپھڑا، ہاتھ، پاؤں، دماغ اور دوسرے تمام بدن کے عضلات اس مہارت سے کام کرنے والے کس نے بنائے ھیں؟

کیا ممکن ھے بے شعور و بے ارادہ طبیعت، حیوان و انسان کے اعضا کو پیدا کرنے کی علت بن سکتی ھے؟ جب کی آنکھ جیسا حصہ، نہات دقت و باریک بینی کو گھیرے ھوئے ھے نھیں ھرگز ایسا ممکن نھیں ھے بلکہ خدائے مھربان نے ان کو پیدا کیا ھے وھی ھے، جو ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا، اور زندہ رکھتا ھے اور مارتا ھے، خدا ھی ھے جو بندوں کو دوست رکھتا ھے اور ان کے لئے تمام نعمتوں کو پیدا کرتا ھے ھم خدا کو چاھتے ھیں اور اس کے سامنے عاجزی و فروتنی سے سر جھکاتے ھیں، اس کے احکام کی اطاعت کرتے ھیں، اور اس کے علاوہ کسی کو مستحق عبادت و اطاعت نھیں جانتے، اور اپنے سر کو دوسروں کے سامنے عاجزی و ذلت سے نھیں جھکاتے ھیں ۔
ھر موجود کے لئے علت کا ھونا ضروری ھے

ھم جن چیزوں کی تحقیق کرنا چاھتے ھیں اس کے وجود اور موجود ھونے میں کیسے فکر کریں؟ اس مطلب کو ھم اپنے وجدان سے درک کر سکتے ھیں کہ یہ موجود خود بخود وجود میں نھیں آئی ھے موجود کے لئے وجود، عینِ ذات نھیں ھے مقام ذات میں وجود و عدم سے خالی ھے اور وجود و عدم دونوں ھی اس کو چاھتے اور یہ دونوں کی قابلیت رکھتے ھیں ایسے موجود کو ممکن کھتے ھیں مثلا پانی پر توجہ کریں ھم وجداناً کھیں گے کہ پانی در حقیقت نہ وجود ھے اور نہ ھی عدم، نہ بالذات وجود چاھتا ھے اور نہ عدم بلکہ دونوں کی نسبت مقام اقتضا اور خواھش ھے وہ چاھے وجود کو لے کر موجود ھوجائے اور چاھے تو عدم ھی رھے۔ پانی کی طرح دنیا کی تمام چیزیں مقام ذات میں اپنے وجود و عدم سے خالی ھیں یہاں پر ھماری عقل کھتی ھے موجودات چونکہ مقام ذات میں خود یہ وجود نھیں رکھتی ھیں، اگر چاھیں تو وجود میں آجائیں تو چاھیے کہ ایک دوسرا عامل ھو جو اس کے نقائص اور کمی کو دور کرے تاکہ وہ چیز موجود اور ظاھر ھوسکے ۔

مقام ذات میں تمام موجودات فقیر اور ضرورت مند ھیں جب تک کہ ان کی احتیاج پوری نہ ھو ان پر وجود کا لباس نھیں آسکتا ھے اور وہ چیز موجود نھیں ھو سکتی ھے، تمام دنیا چونکہ اپنی ذات میں کمی و نقص رکھتی ھے اور خود مستقل اور اپنے پیروں پر نھیں ھے لہٰذا ممکن ھے، تو چاھیے ایک کامل مستقل اور بے نیاز وجود رکھنے والا جس کا وجود خود عین ذات ھو، اور اس کے لئے ممکن ھونے کا تصور بھی محال ھو، آئے اور اس کو وجود کا لباس پھنائے ایسے وجود کامل کو واجب الوجود اور خدا کھتے ھیں، خدا کی ذات عین وجود ھے اور اس کے لئے عدم و نابودی اصلاً متصور نھیں ھے، یعنی خود اس کا وجود عین ذات اور مستقل ھے (جیسے دال نمکین ھے نمک کی وجہ سے اور نمک خود اپنی وجہ سے نمکین ھے) اور تمام دنیا اور موجودات اس کے ضرورت مند و محتاج ھیں اور اسی سے اپنا وجود حاصل کرتے ھیں


 

خدا کے صفات

اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ھے (۹) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ (۱۰) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔


صفات ثبوتیہ

ھر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اھمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کو کامل کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کھتے ھیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم ۔

ان صفات کی اھمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ھیں، اگر ھم دو آدمیوں میں علم و جھل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ھیں کہ جاھل کے مقابلے میں عالم پُر اھمیت اور فائدہ بخش ھے، لہٰذا یہ عالم جاھل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پھلو رکھتا ھے لہذا ھم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ھے، اور ایسے ھی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پر حقیقت و برتری صفات جمالیہ کی کھل کر روشن ھوجائیگی اور یہ تمام صفات اس کے لئے ثابت ھیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ھم دو دلیلوں پر اکتفا کرتے ھیں ۔

پھلی دلیل: خداوند عالم نے خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ھے کیونکہ انسان اپنے وجود میں خدا کا محتاج ھے ایسے ھی اپنے صفات اور وجودی کمالات میں بھی اسی کا محتاج ھوتا ھے، خداوند عالم نے انسان کو پیدا کیا، لیکن اپنی بقا میں انسان مستقل وجود نھیں رکھتا ھے، تمام خیر و خوبیوں کو خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا، مگر خود یہ خوبیاں اپنی بقا میں مستقل وجود نھیں رکھتی ھیں معلوم ھوا خواہ ذات ھوں اور خواہ صفات ھر حال میں اسی کی محتاج ھیں (بے نیاز نھیں ھیں) لہٰذا خدا ھی ان صفات کمال و جمال کا پیدا کرنے والا ھے ۔

اگر ھم تھوڑا دھیان دیں تو یہ حقیقت کھل کر آشکار ھوجائے گی کہ خدا نے انسان کے لئے تمام کمالات کو پیدا کیا ھے یہ کیسے ممکن ھے کہ ان کمالات سے اپنے کو خالی رکھے، یا اس کے پاس موجود نہ ھو اگر اس کے پاس نہ ھوگا تو دوسروں کو کیسے دے سکتا ھے (فاقد الشیء لا یعطی الشی ء) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ھیں، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ھے، جب تک چراغ روشن نہ ھو، دوسروں کو روشن نھیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ھو دوسری چیزوں کو تر نھیں کر سکتا ھے ۔

دوسری دلیل: ذات پروردگار عالم مطلق ھے یعنی اس کی ذات میں کسی طرح کی قید و حد اور نقص نھیں پایا جاتا ھے جب وہ محدود و ممکن نھیں ھے تو وہ کسی کا محتاج بھی نھیں اور نہ ھی اپنے وجود کو کسی دوسرے سے لیا ھے اس لئے کہ محتاج و ضرورت مند وہ ھوتا ھے جو محدود ھو یا جس میں کمی پائی جاتی ھو لیکن خدا کی ذاتِ مطلق تام و کامل و واجب الوجود ھے لہٰذا جو صفت بھی کمال کے اوپر دلالت کرے گی خدا وند عالم کے لئے ثابت ھے اس سے خدا کی ذات محدود یا مقید نھیں ھوتى، بلکہ اس صفات کا خدا میں نہ پایا جانا اس کی ذات میں نقص کا باعث ھے کیونکہ ان صفات کمالیہ کا خداوندعالم میںنہ پایا جانا ضرورت اور احتیاج کا سبب ھے، جب کہ خدا کی ذات واجب الوجود اوربالذات بے نیاز ھے ۔

صفات ثبوتیہ: خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ھیں:

۔ قدرت: خدا قادر ھے یعنی جس کام کو انجام دینا چاھے انجام دیتا ھے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نھیں ھے اور نہ ھی اس کی قدرت کے لئے کوئی جگہ مخصوص ھے بلکہ اس کی قدرت حد بندی سے خالی ھر جگہ موجود ھے ۔

۔ علم: خدا عالم ھے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور تمام موجودات پر احاطہ و قدرت رکھنے والا ھے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نھیں ھے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ھے اور ھر چیز اس کے سامنے ھے ۔

۔ حیات: خدا حی ھے خداوند عالم اپنے کاموں کو علم و ارادہ و قدرت سے انجام دیتا ھے خدا انسانوں کی طرح سانس کے آنے اور جانے کے مثل زندہ نھیں ھے وہ چونکہ اپنے کام کو علم و اراد ہ اور قدرت سے انجام دیتا ھے اس لئے اس کو حی کھتے ھیں۔

۔ ارادہ: خدا مرید ھے اپنے کاموں کو قصد و ارادہ سے انجام دیتا ھے آگ کی طرح نھیں کہ بغیر ارادہ جلادے خداوند عالم کا وجود، وجودِ کامل ھے جو اپنے ارادہ سے کام کو انجام دیتا ھے، مثلِ فاعل مجبور اور بے ارادہ نھیں ھے ۔

۔ بصیر ھے: خداوند عالم دیکھنے والا ھے تما م پیدا ھونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ھے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نھیں ھے ۔

۔ سمیع ھے: خدا سننے والا ھے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ھے کسی چیز سے غافل نھیں ھے۔

۔ قدیم و ابدی ھے: قدیم یعنی ھمیشہ سے ھے اس کی کوئی ابتدا نھیں ھے ابدی یعنی ھمیشہ رھے گا اس کی کوئی انتھانھیں ھے ۔

۔ متکلم ھے: حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پھنچاتا ھے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کھتے ھیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ھیں ۔
یاد دہانى

چونکہ ھم ناقص ھیںاس لئے ھم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نھیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ھیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ھیں دیکھنے کی طاقت کے ھوتے ھوئے آنکھ کے محتاج ھیں، چلنے کی طاقت کے ھوتے ھوئے بھی پاؤں کے نیازمند ھیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ھے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نھیں ھے، لہذا خداوند عالم قادر مطلق بغیر آنکھ کے دیکھتا ھے، بغیر کان کے سنتا ھے، بغیر اعضا وجوارح (جسم و جسمانیت سے خالی) کے تمام کام کو انجام دیتا ھے، ھر ایک کی بگڑی بناتا ھے ۔

ھمارے خیال میں دیکھنے اور سننے کے لئے فقط آنکھ، کان ھی کی راہ پائی جاتی ھے، لہذا جس کا کان صحیح اور آنکھ دیکھنے والی ھے تو کھتے ھیں کہ وہ دیکھتا اور سنتا ھے، ورنہ اندھا و بھرہ ھے ۔

لیکن دیکھنے اور سننے کی اس کے علاوہ بھی راہ پائی جاتی ھے اور در حقیقت وھی اصل دیکھنا اور سننا ھے اگر آنکھ کے وسیلہ سے دیکھا تو کیا دیکھا، کان کے ذریعہ سے سنا تو کیا سنا، خدا کسی بھی وسیلہ و اسباب کا محتاج نھیں ھے، لہذا بغیر وسیلہ کے سنتا اور دیکھتا ھے کوئی چیز اس سے مخفی نھیں ھے۔

ھم محدود و محتاج ھیں لہذا ھر کام میں کسی کے محتاج ھیں اگر اس دائرہ سے باھر ھوں یعنی محدود و ناقص نہ ھوتے تو ھم بھی بغیر آنکھ کے تمام چیزیں دیکھتے، اور بغیر کان کے تمام آوازیں سنتے اور کھاجائے کہ سننے اور دیکھنے کی حقیقت در اصل اس پر صادق آتی ھے، جیسے ھم خواب میں بغیر آنکھ و کان کے دیکھتے اور سنتے اور تمام کام انجام دیتے ھیں ۔

مگر خداوند عالم کی ذات والا صفات جو نہایت درجہ کمال اپنے وجود میں رکھتا ھے، اس کی بنائی ھوئی تمام چیزیں، اس کا ھر ایک کام، بے عیب و نقص ھے کیونکہ وہ کامل ھے اس کے افعال بھی حد درجہ کمال رکھتے ھیں ۔
خدا کی صفات ذاتیہ اور فعلیہ

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ھیں: (۱۱) صفات ذاتیہ (۱۲) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ: ان صفات کو کھاجاتا ھے جو ھمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ھیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نھیں ھے، ان کو صفات ذاتیہ کھتے ھیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

یہ صفات ذاتیہ ھمیشہ خدا کے ساتھ ھیں بلکہ اس کی عین ذات ھیں ان کا ثبوت کسی دوسرے وجود پر موقوف نھیں ھے خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پھلے قادر ھے چاھے کسی چیز کو نہ پیدا کرے، ھمیشہ سے زندہ ھے اور ھمیشہ رھے گا موجودات رھیں یا نہ رھیں، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ھیں، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نھیں ھو سکتی ھے، اس لئے کہ وہ عین ذات ھے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ھونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ھے ۔

صفات فعلیہ: ان صفات کو کھتے ھیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ھیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کھاگیا، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ھوا، جب بندوں کے گناھوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کھلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں ۔


ایک حدیث

حسین بن خالد بیان کرتے ھیں: میں نے امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کو فرماتے ھوئے سنا: آپ ارشاد فرمارھے تھے: خدا ھمیشہ سے قادر اور عالم و حی ھے، میں نے عرض کی یا بن رسول (ص) اللہ ! بعض لوگوں کا خیال ھے کہ علم خدا زائد بر ذات ھے، قادر ھے مگر زائد بر ذات ھے، زندہ ھے مگر زائد بر ذات ھے، قدیم ھے مگر قدیم زائد بر ذات ھے، ایسے ھی سمیع و بصیر دیکھنے اور سننے والا ھے، مگر دیکھنا اور سننا زائد برذات ھے؟ امام (ع) نے فرمایا: جس شخص نے خدا کے ان صفات کو زائد بر ذات جانا وہ مشرک ھے اور وہ ھمارا پیرو کار اور شیعہ نھیں ھے، خدا ھمیشہ سے عالم و قدیم حی قادر اور سمیع و بصیر ھے (اور رھے گا) لیکن اس کی ذات اور یہ صفات عین ذات ھیں ۔ (۱۳)


صفات سلبیہ

ھر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ھے اسے صفات سلبیہ کھتے ھیں، خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نھیں پایا جاتا ھے، لہذا ھر وہ صفات جو نقص یا عیب خداوند عالم پر دلالت کرے ان صفات کو سلب اور جدا کرنا ضروری ھے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ھیں

1) خدا مرکب نہیں ہے: ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگى، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی ۔

دوسرے: ہر مرکب علت کا محتاج ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پھر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ہے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ہونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ہو، وہ واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتی ۔

2) خدا جسم نہیں رکھتا: اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔

دوسرے: ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

3) خدا مرئی نہیں: خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

4) خدا جاہل نہیں ہے: جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا، خدا ہر چیز کا عالم ہے، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ہے۔

5) خدا عاجز و مجبور نھیں: پھلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ھے کہ خدا ھر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نھیں ھے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نھیں ھے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ھے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ھے۔

6) خدا کیلئے محل حوادث نھیں: خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نھیں ھے جیسے کمزورى، پیرى، جوانی اس میں نھیں پائی جاتی ھے، اس کو بھوک، پیاس، غفلت اور نیند نیز خستگی وغیرہ کا احساس نھیں ھوتا، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ھیں اور پھلے گذر چکا ھے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ھے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نھیں ھے ۔

7) خدا کا شریک نھیں: اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

8) خدا مکان نھیں رکھتا: خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نھیں ھے نہ زمین میں اور نہ ھی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نھیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نھیں ھے ۔

خدا نے مکان کو پیدا کیا،اور خود ان مکانات سے افضل و برتر،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ھوئے ھے، کوئی جگہ اس کے وجود کو نھیں گھیر سکتی وہ تمام جگہ اور ھر چیز پر تسلط رکھتا ھے، اس کا ھر گز یہ مفھوم نھیں ھوتا کہ اس کا اتنا بڑا جسم ھے، جو اس طرف سے لے کر اس طرف تک پورا گھیرے ھوئے ھے، بلکہ اس کا وجود، وجود مطلق ھے یعنی اس میں جسم و جسمانیات کا گذر نھیں ھے، اور نہ اس کے لئے کوئی قید و شرط (یہاں رھے یا اس وقت وہاں رھے) پائی جاتی ھے لہذا کسی جگہ کا وہ پابند نھیں تمام موجودات پر احاطہ رکھتا ھے، کوئی چیز اس کے دست قدرت سے خارج نھیں ھے، لہذا اس کے لئے یہاں اور وہاں کھنا درست نھیں ھے ۔

سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ پھر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے ھیں؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نھیں ھے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ھے، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ھے ۔

مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گھر کیوں کھتے ھیں؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ھوتی ھے، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ھے (جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گھر کھاھے اور کھتا ھے خدا ھر جگہ و ھر طرف موجود ھے، (فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ) (۱۴)

9) خدا محتاج نھیں: خداوند عالم کسی شی کا محتاج نھیں ھے، اس لئے کہ اس کی ذات ھر جھت سے کامل و تام ھے اس میں نقص اور کمی موجود نھیں ھے جو کسی چیز کا محتاج ھو اور اگر محتاج ھے تو پھر واجب الوجود خدا نھیں ھو سکتا ھے ۔

پھر خداوند عالم نے ھمارے لئے روزہ و نماز جیسے فریضہ کو کیوں واجب کیا ھے؟ اس کا سبب یہ نھیں ھے کہ خدا کی ذات ناقص ھے اور ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاھتا ھے، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ھے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ھمیشہ آباد رھنے والی جنت کے لائق ھو جائے ۔

خدا جو ھم سے چاھتا ھے کہ ھم خمس و زکواة و صدقہ دیں، تو اس کا مطلب یہ ھے کہ خدا غریب و فقیر، ضرورتمندوں کی مدد اور ان پر احسان کرنا چاھتا ھے، تاکہ لوگ نیکی و احسان میں آگے آگے رھیں، اس وجہ سے نھیں کہ ھماری معمولی اور مادی مدد سے وہ خود اپنی ضرورت کو پورا کرے کیونکہ خود یہ خمس و زکات اور صدقات ھمارے سماج کی اپنی ضرورت ھے اور لوگوں کے فائدے کے مدنظر بعض کو واجب قرار دیا اور بعض کو مستحب، لیکن ھر ایک کا مصرف انھیں ضرورتمند افراد کو قرار دیا ھے، قطع نظران چیزوں کے، اگر ھم غور و فکر کریں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا مجبوروں اور غریبوں پر احسان و مدد کرنا اور سماج کی ضروریات کو پورا کرنا (جیسے مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ کی تعمیر کرنا) خود ایک بھترین عبادت اور نفس کو منزل کمال پر پھنچانے اور آخرت میں منزل مقصود تک پھونچنے کا بھترین راستہ ھے ۔

10) خدا ظالم نھیں: اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

 

توحید

الله تبارک و تعالیٰ ایک ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ھے، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نھیں اور نہ ھی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ھے اسی سلسلہ میں چند دلیلوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رھاھے ۔


پھلی دلیل

اگر دو خدا (یا اس سے زیادہ) ھوتے تو چند حالتیں ممکن ھیں ۔

پھلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ھے، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ھے، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ھے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ھیں ۔


پھلی حالت

دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ھے (یعنی ھر چیز دو دفعہ خلق ھوئی ھے) اس کا باطل ھونا واضح ھے ۔

الف) چونکہ ھر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نھیں پایا جاتا ھے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نھیں ھے ۔

ب) ایک خدا نے کسی چیز کو پیدا کیا اور پھر دوسرا خدا اگر دو بارہ اس کو خلق کرے اس کو علماء کی اصطلاح میں تحصیل حاصل کھتے ھیں، (کہ ایک چیز موجود ھو پھر اس کو حاصل کیا جائے) ۔

ج) یا حکماء اور فلاسفر کی اصطلاح میں ایک معلول (موجود) میں دو علت تامہ اثر گذاری کریں محال ھے یعنی ایک موجود کو خلق کرنے میں دو علت ایک وقت میں کار فرما ھو محال و باطل ھے۔


دوسری حالت

ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد (شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ھے، یعنی ھر موجود دو خدا کی مخلوق ھو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ھوں یہ احتمال بھی باطل ھے ۔

الف: دونوںخدا ایک دوسرے کے محتاج تھے یعنی تنھاموجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پھلے گذرچکی ھے کہ خدا عاجز و محتاج نھیں ھے ۔

ھو سکتا ھے کوئی کھے دونوں خلق پر قادر ھیں لیکن پھر بھی دونوں شریک ھو کر موجودات کو وجود میں لاتے ھیں یہ بھی باطل ھے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ھوتے ھوئے پھر بھی تنھاکسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ھیں:

الف) یا دونوں بخل کر رھے ھیں جو کہ نصف نصف پر کام کرتے ھیں یعنی چاھتے ھیں کہ زیادہ خرچ نہ ھو ۔

ب) یا دونوں آپس میں ڈرتے ھیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رھے ھیں۔

ج) یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ھیں ۔

جواب یہ ھے:

الف) خداوند عالم محتاج و نیاز مند نھیں ھے ۔

ب) دونوں دنیا کے خلق کرنے کی مصلحت اور اس کا علم رکھتے ھیں اور اس کی پیدائش پر قدرت بھی رکھتے ھیں اور ان کی قدرت و علم عین ذات بھی ھے، اور اسی کے ساتھ بخل و کنجوسی بھی پائی جاتی ھے جو خدا کی ذات کے لئے اور مناسب نھیں ھے۔

ج) کوئی کام ایک دوسرے کے تحت خوف سے کرتے ھیں تو یہ، شانِ خدا کے بر خلاف ھے کیونکہ جو خدا ھوتا ھے وہ متاٴثر و عاجز نھیں ھو سکتا ھے ۔

د) دونوں عالم و قادر اور بخیل و عاجز نھیں ھیں تو چاھے موجود میں فقط ایک علت ھو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک دنیا اور بنائیں ۔

ان باتوں سے سمجھ میں آتا ھے دونوں کو چاھیے اپنی قدرت و علم کے تحت دو دنیا بنائیں اور اس سے پھلے ثابت ھوچکا ھے کہ ایک معلول میں دو علت کااثر اندازھونا باطل و محال ھے ۔


تیسری حالت

دونوں (مفروض) خدا دنیا کو نصف نصف تقسیم کر کے اپنے اپنے حصہ میں مستقلا موجودات کو خلق کرے (اورمثل بادشاھوں کے اپنے حصہ میں حاکم بنے رھیں، ایسا فرض ھی باطل ھے اس لئے کہ دو خدا نھیں ھو سکتے اور نہ دنیا کے دو حصے ھوسکتے ھیں) اور ایک دوسرے کے حصے میں دخالت کرے یہ احتمال بھی باطل ھے، اس لئے کہ ھر وہ فرضی خدا آپس میں مستقلاً ایک دوسرے کے حصہ میں دخالت (خلق) کی صلاحیت رکھتے ھیں تو چاھیے کہ جدا اور اسے الگ خلق کرے ورنہ اس کا لازمہ یہ ھوگا کہ دو علت ایک معلول میں موثرھوگى، جب کہ اس کا بطلان پھلے گذر گیا ھے یا اگرصلاحیت و استعداد نھیں رکھتا یا خلق پر قادر نھیں ھے یا کنجوسی کر رھاھے تو وہ ناقص ھے اور ناقص، خدائی کی صلاحیت نھیں رکھتا ھے ۔


دوسری دلیل

اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پھلا خدا اپنی خلق کی ھوئی چیز کا دفاع کر سکتا ھے؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ھے؟ اگر پھلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نھیں کر سکتا تو عاجز ھے اور عاجز خدا نھیں ھو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ھے تو دوسرا خدا نھیں ھو سکتا اس لئے کہ عاجز ھے اور عاجز خدا نھیں ھو سکتا ھے ۔


نتیجہ

ھم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ھیں اور اس کے علاوہ جو بھی ھو اس کو ناتوان، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ھیں، ھم فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کو لائق عبادت جانتے ھیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نھیں کرتے اور نہ ھی کسی اور کے لئے جھکتے ھیں ھم آزاد ھیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نھیں کرتے اور کسی کی بے حد و انتھاتعریف نھیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ھیں ۔

ھم انبیاء اور ائمہ (ع) کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ھیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ھے، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ھے، ان کے احکام و قوانین ھمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رھے ھیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نھیں کیا ھے، ھم انبیاء و ائمہ (ع) کے مرقد پر جاتے ھیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ھیں، لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نھیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ھیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ھیں، اور دنیا کو بتانا چاھتے ھیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پھنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں، ھم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاھنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناھوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ھیں، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ھیں ۔


 

عدل

خداوند عالم عادل ھے یعنی کسی پر ظلم نھیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نھیں ھوتا ھے بلکہ اس کے تمام کام میں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ھے اچھے کام کرنے والوں کو بھترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نھیں کرتا ھے، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جھنم میں نھیں ڈالے گا، اس مطلب پر دو دلیل پیش خدمت ھے ۔


پھلی دلیل

جو شخص ظلم کرتا ھے یا برے کام کو انجام دیتا ھے اس کی صرف تین صورتیں پائی جاتی ھیں (۱۵) یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نھیں ھے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ھے (۱۶) یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ھے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ھے چونکہ اس کے پاس وہ شی نھیں ھوتی اس لئے اس کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ھے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس کا مطلب یہ ھے کہ اپنے کام کرنے والوں (کارگروں) پر ستم کرتا ھے اور ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ھے اور خود قوی ھے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ھے، اور ان کے اموال و اسباب سے چاھتا ھے کہ اپنی کمی کو برطرف اور اپنے نقص کو پورا کرے (۱۷) یا ظلم و زیادتی سے آگاھی رکھتا ھے اس کو ان کی ضرورت بھی نھیں ھے، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لھو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ھے۔

عموما ًھر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ھوتے ھیں، لیکن خداوند عالم کی ذات اس سے منزہ اور پاکیزہ ھے، وہ ظلم و ستم نھیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نھیں ھے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ھے وہ ھر چیز سے مطلقا بے نیاز ھے، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نھیں ھے، اس سے لغو و بےھودہ کام بھی صادر نھیں ھوتا اس لئے کہ وہ حکیم ھے در نتیجہ اس کے پاس صرف عدالت ھی عدالت موجود ھے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نھیں پایا جاتا ھے ۔
دوسری دلیل

ھماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کھتی ھے اور تمام عقلمندوں کا بھی اس پر اتفاق ھے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ھوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ھے، اس بنا پر کیسے ھو سکتا ھے کہ جس چیز کو تمام عقلمندافراد برا اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ھوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے اور خود ان غلط کاموں کو انجام دے ؟!

البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ھے کہ تمام لوگ ھر جھت سے برابر نھیں ھیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنى، بد صورت و خوبصورت، خوش فھم و نا فھم، سلامت و بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ھے ۔

بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رھتے ھیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ھوتی ھیں جس سے فرار اور چھٹکارا ممکن ھے، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ھے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا دروازہ کھلا ھوا ھے اور ھر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ھے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نھیں دیتا، انسان کی کوشش اور محنت کبھی رائگاں نھیں ھوتى، ھر فرد بشر کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ھوئے ھیں ۔

 

 

1. سورہ زمر (۳۹) آیت ۹۔
2. سورہ مجادلہ (۵۸) آیت ۱۱ ۔
3. بحار الانوار، ج۱، ص۱۷۷۔
4. بحار الانوار، ج۱، ص ۱۶۴ ۔
5. بحار الانوار، ج ۱،ص ۱۶۵ ۔
6. بحار الانوار، ج۱، ص۱۷۰ ۔
7. بحار الانوار، ج۱، ص ۱۷۴ ۔
8. بحار الانوار، ج۱،ص ۲۰۳ ۔
9. خدا مرئی نھیں: خدا دکھائی نھیں دے سکتا ھے، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاھے تو ممکن نھیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ھے جو جسم رکھے اور خدا جسم نھیں رکھتا ھے لہذا اس کو نھیں دیکھا جا سکتا ۔
10. خدا جاھل نھیں ھے: جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ھوا، خدا ھر چیز کا عالم ھے، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نھیں ھے، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ھے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ھے۔
11. خدا مرکب نھیں ھے: ھر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کھتے ھیں، اور خدا مرکب نھیں ھے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ھے، کیونکہ ھر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ھے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ھے، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ھو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ھوگى، اور ھر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بھت سے اجزا کا مجموعہ ھو، وہ واجب الوجودا ورخدا نھیں ھو سکتی ۔ دوسرے: ھر مرکب علت کا محتاج ھوتا ھے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پھر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ھے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ھونا لازم آئے گا، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ھو، وہ واجب الوجود خدا نھیں ھو سکتی ۔
12. خدا جسم نھیں رکھتا: اجزا سے مرکب چیز کو جسم کھتے ھیں، اور اوپر بیان ھوا کہ خدا مرکب نھیں ھے، لہذا وہ جسم بھی نھیں رکھتا ھے۔
13. بحار الانوار، ج۴، ص ۶۲ ۔
14. لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلہ کا رخ کر لو گے سمجھووھیں خدا موجود ھے۔ سورہٴ بقرہ آٓیت ۱۱۵.
15. سورہ موٴمنون
16. آیت ۱۱۵ کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ ھم نے تم کو بے کار پیدا کیا ھے اور تم ھمارے حضور میں لوٹا کر نھیں لائے جاؤگے ۔
17. آیت ۱۱۵ کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ ھم نے تم کو بے کار پیدا کیا ھے اور تم ھمارے حضور میں لوٹا کر نھیں لائے جاؤگے ۔