پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تيسري فصل؛ امامت

امامت

نبی کی بحث میں بیان ھوا خداوند عالم پر انبیاء کا لوگوں کی سعادت و نیک بختی کے لئے قانون کے ساتھ بھیجنا واجب ھے، اور جس طریقہ سے نبی نے امانت و دیانت کے ساتھ اسلام کے احکام کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پھنچانے میں کوشش کی ایسے ھی رسول کے بعد ایسے شخص کا ھونا ضروری ھے جو احکام کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پھنچائے، یعنی دین کی حفاظت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی امور کو انجام دے تاکہ انسان کے لئے کمال و سعادت کی راھیں وا رھیں، اللہ اور اس کے بندوںکے درمیان ایک لمحہ کے لئے فاصلہ و جدائی نہ ھو سکے ایسے شخص کو امام اور خلیفہٴ رسول (ص) کھتے ھیں۔

تمام ائمہ اطہار (ع) نبی کے علوم کے محافظ اور انسان کی کامل ترین فرد اور نمونہ عمل اور اسلام کے لئے مشعل راہ ھوتے ھیں خود کامل اور سعادت کی راھوں میں سیر کرتے ھوئے لوگوں کی ھدایت کرتے ھیں ۔


امام کے صفات


عصمت

نبی کی طرح امام کو بھی احکام دین اور اس کی تبلیغ و ترویج میں خطا و غلطى، سھو و نسیان سے منزہ ھونا ضروری ھے، تاکہ دینی احکام کسی کمی اور زیادتی کے بغیر کامل طور پر اس کے پاس موجود رھے اور لوگوں کو سیدھے راستے پر چلنے اور حق تک پھنچنے کا جو فقط ایک راستہ ھے اس کو مخدوش نہ ھونے دے، پس امام کا گناھوں سے محفوظ رھنا اور جو کچھ کھے اس پر عمل پیرا ھونا ضروری ھے تاکہ اس کے قول کی اھمیت اور، بات کا بھرم باقی رھے اور لوگوں کا اعتماد اس سے زائل نہ ھو اگر امام گناہ کا مرتکب ھوگا تو اس کی یہ سیرت لوگوں کے لئے سر مشق عمل ھوگی جس سے نبی اور امام کے بھیجنے کا مقصد فوت ھوجائے گا نیز ان کا یہ کردار لوگوں کو اللہ کی معصیت پر ابھارنے کا باعث بنے گا، لہذا امام کے لئے ضروری ھے احکام اسلام پر سختی سے عمل کرے اپنے ظاھر و باطن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے تاکہ اس سے خطا اور غلطی کا امکان نہ رہ جائے ۔

مختصر یہ کہ امام کا معصوم ھونا ضروری ھے نیز امام کا دین کے تمام احکام سے واقفیت اور ھر وہ مطالب جو لوگوں کی راھنمائی اور رھبری کے لئے سزاوار ھیں اس کا جاننا ضروری ھے تاکہ انسان کے لئے سعادت و ھدایت کی شاہ راہ ھمیشہ کھلی رھے ۔


کمال اور فضیلت

پھلی بحث میں ذکر ھوا، امام بھی نبی کی طرح دین کے تمام احکام پر عمل اور اس کے جملہ اصول پر چل کر ایک نمایاں فرد اور کامل انسان ھوتے ھیں، لہذا وہ سیدھے راستے پر خود بھی چلتے اور دوسروں کو بھی ساتھ میں راھنمائی و ھدایت کرتے ھیں، یہ الٰھی معارف و حقائق کی گھٹیوں کو بخوبی درک کرتے ھیں دین کا شاھکار اور کامل ترین نمونہ ھوتے ھیں ۔


معجزہ

اخبار و احادیث سے استفادہ ھوتا ھے کہ ائمہ طاھرین (ع) بھی تمام انبیاء کی طرح صاحب اعجاز ھوتے ھیں، فرد بشر جس کام سے عاجز ھو اس کو یہ با آسانی انجام دے سکتے ھیں، نبی کی طرح ان کے لئے بھی امکان پایا جاتا ھے کہ اپنی عصمت و امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ کو بروئے کار لائیں اور اپنی حجت لوگوں پر تمام کریں ۔

ہاں اگر کوئی مزید تحقیق کرنا چاھے تو حدیث اور تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کرے، اس پر حقیقت کھل کر آشکار ھو جائے گی کہ ائمہ اطہار (ع) نے کتنے مقامات پر معجزہ سے کام لیا ھے، البتہ جتنے معجزات و مطالب ائمہ (ع) کی طرف منسوب کئے گئے ھیں ھم ان سب کی حقیقت کا دعویٰ نھیں کرتے کیونکہ مجھول مطالب کا بھی امکان پایا جاتا ھے ۔


امام کی پہچان

امام کو دو راستوں سے پہچانا جا سکتا ھے:

پھلا راستہ: نبی یا امام خود اپنے بعد آنے والے امام کی پہچان بیان کرے اور لوگوں کے درمیان اپنے جانشین کے عنوان سے مشخص کرے، اگر خود امام یا نبی اس فریضہ کو انجام نہ دیں تو لوگ امام کو معین نھیں کر سکتے اس لئے کہ عصمت اور اعلمیت کے مصداق کو فقط خدا یا اس کے نمائندے ھی جانتے ھیں اور دوسروں کو اس کی خبر نھیں دی گئی ھے ۔

دوسرا راستہ: (معجزہ) اگر امام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چیزوں کی نشان دھی کرے تو اس کی امامت ثابت ھو جائے گی کیونکہ اگر وہ اپنے امامت کے دعوے میں جھوٹا ھے تو سوال یہ ھے کہ خدا نے معجزہ سے اس کی مدد کیوں فرمائی ؟


امام اور نبی میں فرق

امام اور نبی میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ھے ۔

پھلا: نبی دین اور اس کے احکام کو لانے والے ھوتے ھیں، لیکن امام اس کا محافظ اور معاشرے میں اس کو اجرا کرنے والا ھوتا ھے ۔

دوسرا: نبی یا پیغمبر (ص) شریعت،اور احکام کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ھیں نیز نبی کا رابطہ خدا سے براہ راست ھوتا ھے، لیکن امام چونکہ شریعت لانے والے نھیںھوتے اس لئے احکام ان کے لئے وحی کی صورت میں نھیں آتے،بلکہ وہ احکام کو نبی سے دریافت کرتے ھیں اور نبی کے علم میں ھدایت و راھنمائی کے عنوان سے دخالت رکھتے ھیں ۔


تشخیصِ امام اور امام کی تعداد

جو شخص کسی قوم یا معاشرے میں نفوذ رکھتا ھو یعنی صاحب منصب و سرپرستی کے عنوان سے لوگوں کی راھنمائی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتا ھو اگر وہ کچھ دنوں کے لئے جانا چاھے تو اس کے لئے ضروری ھے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے اور اس نائب و جانشین میں ساری وھی ذمہ داریاں پائی جانی چاھیے جو اس سے پھلے اصل شخص میں موجود تھیں، یعنی پورے معاشرے کی سرپرستی اس کے ہاتھ میں ھو، اس طرح کا کوئی بھی شخص بغیر کسی جانشین کے نھیں جاتا ھے، جس سے لوگوں کے تمام کام مفلوج ھو کر رہ جائیں چہ جائیکہ پیغمبر اسلام (ص) کہ آپ کو اس کا بخوبی علم تھا اور آپ اس کی اھمیت کے بھی زیادہ قائل تھے کیونکہ جب بھی کوئی دیہات یا شھر فتح ھوتا تو آپ فورا ً وہاں پر ایک گورنر معین فرماتے تھے ۔ اور جب بھی کھیں،جنگ کے لئے لشکر بھیجتے تو اس کے لئے کمانڈر اور یکے بعد دیگرے کئی فرد کو معین فرماتے تاکہ ایک شھید ھوجائے تو اس کی جگہ پر دوسرا رھے، اور آپ بھی کھیں سفر کے لئے جاتے تو اپنا جانشین کسی کو معین فرماتے جس پر مدینہ کے تمام کاموں کی ذمہ داریاں ھوتی تھیں ۔

کیا یہ ھوسکتا ھے کہ چھوٹے اور معمولی سفر کے لئے اپنا جانشین معین کرےں لیکن جب ھمیشہ کے لئے جا رھے ھوں تو کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ فرمائیں؟ اور نئے مسلمان کہ جن کی بنیاد ابھی مضبوط بھی نھیں ھونے پائی تھی کہ آپ ان کو اس حالت پر چھوڑ کر چلے جائیں، کیا یہ کوئی سونچ سکتا ھے کہ آں حضرت (ص) اپنی پوری زحمت کو بے سہارا چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ جب کہ آپ کو پھلے سے معلوم تھا کہ مسلمان بغیر معصوم راھنما کے زندہ اور اسلام تابندہ نھیں رہ سکتا ھے ۔

اس لئے قطعی طور پر کھاجا سکتا ھے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے میں ایک پَل کے لئے بھی فروگذاشت نھیں فرمائی اور جو بھی موقع آپ کو حاصل ھوا، دامے درمے، قدمے سخنے ھر طرح سے بخشش کرتے رھے، جو رسول (ص) اپنی زندگی کے ایک لمحہ کو اسلام اور مسلمین کے لئے تشنہ نہ چھوڑے ھمیشہ کے لئے اتنا بڑا داغ اپنے سینہ پر رکھ کر کیسے سو سکتا ھے؟ ! ۔

ھم نے اس سے پھلے ثابت کیا تھا رسول (ص) کے لئے امام کا معین کرنا نہایت ضروری ھے اس لئے کہ خدا اور رسول (ص) کے علاوہ عصمتِ باطنی سے کوئی واقفیت نھیں رکھتا ھے اگر ایسا نھیں کرتا تو گویا دین اسلام کو ناقص چھوڑ کر جارھاھے، ھمارا عقیدہ ھے کہ رسول خدا (ص) نے مسلمانوں کے لئے اپنا جانشین معین فرمایا ھے، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خلیفہٴ بلا فصل کو معین کیا ھے بلکہ اماموں کی تعداد (بارہ ھوں گی) اور بعض روایات میں ان کے اسمائے گرامی کا بھی تذکرہ کیا گیا ھے ۔

حضور اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ھے: میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ ھونگے ان کا پھلا شخص علی (ع) اور آخری مھدی (ع) موعود ھوگا، اور جابر کی روایت میں نام بہ نام اماموں کی تصریح موجود ھے ۔


پھلے امام حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۳ رجب المرجب ھجرت سے ۲۳ سال پھلے ۔

محل ولادت: خانہ کعبہ ۔

والد کا نام: عمران، ابو طالب (ع) ۔

والدہ کا نام: فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا۔

سن مبارک: ۶۳ سال ۔

شہادت: ۱۹ رمضان کو ضربت اور ۲۱ رمضان سن ۴۰ ھجری ۔

محل: مسجد کوفہ ۔

مدفن: نجف اشرف ۔

رسول خدا (ص) نے آغاز بعثت سے لے کر اپنی وفات کے آخری لمحات تک نہ معلوم کتنی مرتبہ حضرت علی ابن ابیطالب (ع) کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کے لئے امام و خلیفہ کے عنوان سے تعارف کرایا ۔

اپنی عمر کے آخری سال میں حج کے مناسک کو انجام دینے کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور حج سے واپسی کے وقت مقام غدیر خم پر خداوند عالم کی طرف سے آیت نازل ھوئى، اے رسول (ص) ! جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پھنچادو، اور تم نے ایسا نہ کیا (تو سمجھ لو کہ) تو تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پھونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، خدا ھر گز کافروں کی قوم کو منزل مقصود تک نھیں پھونچاتا۔ (۲۶)

حضرت اس مقام پر ٹھھر گئے اور لوگوں کو بھی وھیں قیام کا حکم دیا اس وقت حضرت کے چاروں طرف ستر ہزار کا مجمع تھا حکم ھوا منبر بنایا جائے، فوراً اونٹوں کے کجاوہ کا منبر بنایا گیا، لوگوں سے آشنائی کرانے کے لئے حضرت (ص) منبر پر اپنے ساتھ علی بن ابی طالب (ع) کو بھی لے گئے اور ایک تفصیلی خطبہ کے بعد فرمایا، (لوگوں آگاہ رھو) میں جس کا مولیٰ ھوں علی (ع) اس کے مولیٰ ھیں اے خدا! جو علی (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو ان سے بغض رکھے تو اس کو دشمن رکھ ۔

لوگوں میں سب سے پھلے حضرت عمرۻ نے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور کھا: اے علی (ع) !آپ کو مبارک آپ ھمارے اور جملہ مومنین و مومنات کے سر پرست اور اولی بالتصرف ھوگئے اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بیعت کرنی شروع کردی پھر تین دن تک بیعت ھوتی رھی ۔حضور سرورکائنات نے شدید گرم ھوا جلانے والے سورج اور تپتی ھوئی زمین حجاز پر اسلام کے اس مھم کام کو انجام دیا اور آں حضرت (ص) نے علی ابن ابی طالب (ع) کی رسمی طور پر تاج پوشی فرمائی اور علی (ع) خلافت و امامت کے عظیم عھدہ پر فائز ھوئے (۲۷)

یہ پر اھمیت واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ سن دس ھجری میں واقع ھوا، شیعیان اھلبیت (ع) اس دن کو عید زھرا اور جشن و مسرت کا دن جانتے ھیں اور اس دن جشن ولایت اور محافل کے عنوان سے بہ کثرت پروگرام منعقد کرتے ھیں ۔

حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکی شادی آپ سے کی اوراصحاب کبار کے ایک گروہ نے غدیر خم کے واقعہ کی روایت کی ھے، اور یہ روایت متواتر و قطعی ھے، اور سنی و شیعہ کی معتبر کتابوں میں اس کا تذکرہ موجود ھے، اور مذکورہ حدیث غایة المرام میں اھلسنت کے ۸۹ طریقوں سے نقل ھوئی ھے اور شیعوں کی کتابوں میں ۴۳ طریقوں سے منقول ھے۔آپ (ع) آں حضرت (ص) کے داماد ھو گئے، حضرت علی (ع) کے کمالات اور آپ کی خدمات، اسلام میں اس قدرزیادہ ھیں جن کو اس کتاب میں بیان کرنا محال ھے بلکہ دریا کو کوزے میں سمونے کے مترادف ھے آپ اسلام کی مدد، خدا کی عبادت، ترویج دین کے لئے جہاد کرتے آپ تمام جنگوں میں آگے آگے کسی دشمن خدا سے نھیں ڈرتے تھے حتیٰ سخت مواقع، خطرناک حوادث میں فداکاری و جانثارى سے ایک پل کے لئے بھی دریغ نھیں کرتے تھے، شجاعت و مردانگی میں آپ کا کوئی ثانی نھیں تھاعبادت پروردگار میں خود اپنی مثال اور یگانہٴ روزگار تھے علم و فھم میں بے مثال، خازن علوم نبی (ص) تھے حضرت (ع) زراعت اور کھیتی کو پسند فرماتے تھے نیز زمین کو زندہ کرنے اور اس پر درخت لگانے اور جگہ جگہ پانی کے کنویں کھودنے کو بھت دوست رکھتے تھے ۔

اس جہان فانی سے آنحضرت (ص) کی آنکھ بندھوتے ھی منافقوں کی گندی سیاست آپ کے فضائل و کمالات سے چشم پوشی آنحضرت (ص) کے حکم کی صریح مخالفت کے بعد کھنے کو رہ گیا، علی (ع) جوان ھیں اور حکومت کے امور بھت مشکل! اور علی (ع) نے دشمنان اسلام کے سر براھوں کا قلع قمع کیا ھے لہذا وہ آپ سے حسد کرتے ھیں، اور آپ کو حکومت کے لئے پسند نھیں کرتے، ایسے ھی بے بنیاد مضحکہ آمیز بہانے کی آڑ میں حضرت کو خلافت سے سبکدوش کر دیا ۔

حضرت علی (ع) پچیش سال خلفا کے دور حکومت کی تنہائی اور گوشہ نشین زندگی میں اپنے لائق چاھنے والوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رھے، عثمان کے قتل ھوتے ھی لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور چار سال نو مھینے ظاھری خلافت پر فائز رھے ۔

حضرت علی (ع) ترسٹھ سال اس دنیا میں رھے اور انیس رمضان سن ۴۰ ھجری ابن ملجم کی ضربت سے مجروح ھوئے اور ۲۱ رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا:


پھلا واقعہ

حضرت علی (ع) کے دور حکومت کا واقعہ ھے، آپ کے خزانہ دار بیان کرتے ھیں خزانہ میں ایک مروارید کا ہار تھا آپ کی ایک بچی عید الاضحی (بقرہ عید) کے دن پھننے کے لئے عاریتاً لے گئی اس شرط کے ساتھ کہ تین دن میں واپس اور اگر گم ھوگیا تو اس کی قیمت ادا کرے گی ۔ حضرت علی (ع) بچی کے گلے میں ہار دیکھ کر پہچان گئے اور میرے پاس آکر کھنے لگے مسلمانوں کے مال میں تم نے خیانت کیوں کی ھے؟ میں نے پوری تفصیل آپ کے سامنے بیان کردی اور کھاکہ آپ کی بیٹی نے واپس کرنے کی ضمانت لی ھے، اور میں خود بھی اس کا ذمہ دار ھوں۔فرمایا: ابھی اسے واپس لے لو اور آ ئندہ تم نے ایسا کام کیا تو میں تجھے سزا دونگا، آپ (ع) کی بیٹی نے کہا: بابا جان !کیا بیت المال سے ھمیں اتنا بھی حق نھیں پھونچتا کہ ایک ہار چند دن کے لئے عاریہ کے طور پر لے سکیں؟!

حضرت علی (ع) نے فرمایا: بیٹی اپنے حق سے تجاوز نہ کرو ! کیا عید کے دن زینت کے لئے مہاجرین کی عورتیں ایسا ھی ہار رکھتی ھیں؟(۲۸)


دوسرا واقعہ

حضرت امیر المومنین (ع) نے ایک عورت کو دیکھا جو سر پر مشکیزہ لئے چلی جارھی ھے آپ (ع) نے فرمایا: مشک مجھے دیدے تاکہ میں تیرے گھر تک پھونچادوں اس سے مشک لیا اور راستہ میں احوال پرسی کرنے لگے اسی اثنا میں اس نے کہا: علی بن ابی طالب (ع) نے میرے شوھر کو ملک کی فلاں سرحد پر بھیجا تھا اور وہ وہاں قتل ھوگیا اس نے وارث میں چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑے ھیں جو کھانے اور پھننے کے بھی محتاج ھیں لہذا میں مجبور ھو کر ان کے لئے محنت و مزدوری کر کے کھانے کا بندوبست کرتی ھوں، حضرت مشک اس کے گھر پھونچا کر بیت الشرف تشریف لائے اور نہایت کرب و پریشانی کی حالت میں رات بسر فرمائی ۔

صبح ھوتے ھی کھانے کی بوری اٹھا کر اس بیوہ کے گھر لے گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا عورت دیکھ کر پہچان گئی اور کھاخدا تم سے راضی و خوش ھو اور اللہ میرے اور علی (ع) کے درمیان فیصلہ کرے،آپ نے اس عورت سے فرمایا: کیا تو روٹی بنائے گی میں بچوں کو بھلاؤں اگر تو بچوں کو بھلائے تو میں روٹی بناؤں، عورت نے کھا: تم لاؤ میں روٹی بناتی ھوں، حضرت یتیم بچوں کو بھلانے اور خوش کرنے میں مشغول ھوگئے یہاں تک کہ اس نے کھانا پکا کر تیار کر دیا، تو آپ اپنے ہاتھوں سے بچوں کے منھ میں روٹی اور گوشت و کھجور کے لقموں کو ڈالتے اور کھتے جاتے تھے، اے میری آنکھوں کے نور نظر کھاؤ اور علی (ع) سے راضی ھو جاؤ پڑوس کی عورت نے حضرت کو دیکھ کر پہچان لیا اور بیوہ عورت سے کھایہ شخص امیر المومنین (ع) ھیں وہ بیوہ عورت دوڑی ھوئی حضرت کی خدمت میں آئی اور معذرت کے ساتھ کھنے لگى: یا امیر المومنین (ع) !میں آپ سے شرمندہ ھوں، حضرت (ع) نے فرمایا: تم علی (ع) کو معاف کردو کہ میں نے تیری خبر گیری نھیں کی علی (ع) تم سے بھت شرمندہ ھے ۔ (۲۹)


دوسرے امام حسن بن علی علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ رمضان المبارک سن۳ ھجرى

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

والدہ کا نام: فاطمہ بنت رسول خدا (ص)

سن مبارک: ۴۷ سال

شہادت: ۲۷ صفر المظفر سن ۵۰ھجرى

محل شہادت: مدینہ

مدفن: قبرستان بقیع (جنت البقیع)

حضرت علی (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) کو خدا کے حکم سے منصب امامت کے لئے معین فرمایا ۔ (۳۰)

حضرت رسول خدا (ص) (امام حسن و حسین (ع) ) کو بھت چاھتے اور ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ھیں ۔ (۳۱)

حضرت امام حسن (ع) اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد مسند خلافت و حکومت پر جلوہ افروزھوئے لیکن معاویہ کی شدید مخالفت اور اس کے حیلہ و فریب کے سبب جنگ کی نوبت آگئی اور وہ وقت یہاں تک آ پھونچا کہ معاویہ کی فوج حضرت امام حسن (ع) کے روبرو کھڑی ھو گئی جب امام حسن (ع) نے اپنے سپاھیوں کے حالات اور ان کی کارکردگی کا معاینہ کیا تو ان میں اکثر کو خیانت کے جال میں پھنسا ھوا پایا لہذا آپ (ع) جنگ سے منصرف ھوکر معاویہ سے صلح کرنے پر مجبور ھوگئے ۔

امام حسن (ع) کے صلح کی بنیادی دو وجھیں تھیں:


پھلی وجہ

الف) حضرت کے فوجیوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن متفرق اور غیر منظم تھے اور ان میں اکثر یت ایسے افراد کی تھی جو ظاھر میں آپ کے ساتھ اور باطن میں معاویہ کے طرفدار تھے، معاویہ سے یہاں تک طے ھوچکا تھا کہ” ھم امام حسن (ع) کو پکڑ کر تمہارے حوالے کر دیں گے “ حضرت امام حسن (ع) نے دیکھا اگر اس حال میں ان سپاھیوں کے ساتھ جنگ کی جائے تو شکست یقینی ھے ۔

ب) اگر ان سے جنگ کا ارادہ کریں تو ان منافقوں سے داخلی جنگ اور آپس ھی میں خون خرابہ شروع ھوجائے گا اور اس اختلاف میں علی (ع) کے چاھنے والے کثرت سے شھید ھو جائیں گے نتیجہ میں مسلمانوں کی طاقت کمزور ھوجائے گی ۔
دوسری وجہ

معاویہ لوگوں کو فریب اور دھوکہ دینے کے لئے اپنے کو دین کا حامی و مددگار مظلوموں سے دفاع کرنے کا نعرہ بلند کرتا تھا اور کھتا تھا میرا مقصد اس جنگ سے اسلام کی ترویج اور قرآن کا بول بالا کرنے کے سوا اور کچھ نھیں ھے۔

حضرت کو اطلاع تھی کہ معاویہ جھوٹ بولتا ھے، اور اس کو حکومت اور ریاست کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نھیں ھے مگر اس مطلب کو آسانی سے لوگوں کو سمجھایا نھیں جا سکتا تھا۔

ان دو وجوہ کے علاوہ اور دوسرے اسباب کی بنا پر صلح کے لئے آمادہ ھوگئے، تاکہ معاویہ کی مکاری اور اس کی خباثت لوگوں پر آشکار ھوجائے اور تمام لوگ معاویہ اور سیرت بنی امیہ کو خوب پہچان لیں تاکہ آنے والے انقلاب کے لئے ایک بھترین راہ فراھم ھوسکے ۔

حضرت نے روح اسلام اور اصل دین کی بقا کے لئے صلح کا اقدام فرمایا اور صلح نامہ میں اپنے تمام شرائط کو اس سے باور کرایا تھا لیکن معاویہ نے ایک شرط کو بھی پورا نہ کیا، سن پچاس ھجری میں معاویہ کے حکم سے جعدہ بنت اشعث نے حضرت امام حسن (ع) کو زھر دے کر شھید کر ڈالا۔


امام حسن (ع) کا واقعہ

ایک شامی نے حضرت کو دیکھ کر گالیاں دینا شروع کر دیا جب وہ خاموش ھوا تو آپ اس کی طرف متوجہ ھو کر سلام کر کے مسکرا دئے اور فرمایا: مجھے معلوم ھے کہ تو مسافر ھے اور میری حقیقت تجھ پر روشن نھیں ھے، اگر تو معافی مانگے گا تو تجھ سے راضی ھو جاؤنگا، اگر کوئی چیز طلب کرے گا تو عطا کرونگا، اگر راھنمائی چاھتا ھے تو راھنمائی کرونگا، اگر بھوکا ھے تو تجھے سیر کرونگا، اگر لباس نھیں رکھتا ھے تو لباس دونگا، اگر فقیر ھے تو غنی کردونگا، اگر بھاگ کر آیا ھے تو تجھے پناہ دونگا، اگر کوئی حاجت ھے تو حاجت روائی کرونگا، میرا گھر وسیع اور میرے پاس بھت مال ھے اگر تو میرا مھمان ھوگا تو تیرے لئے بھتر ھے ۔

جب شامی نے حضرت (ع) سے یہ تمام باتیں سنیں، گریہ کرنے لگا اور رو کر کھنے لگا: میں گواھی دیتا ھوں کہ آپ اللہ کے خلیفہ اور لوگوں کے امام ھیں بیشک خدا بھتر جانتا ھے خلافت و امامت کو کہاں قرار دے، یابن رسول (ص) اللہ !آپ کی ملاقات سے پھلے میں آپ کا اور آپ کے والد کا سخت ترین دشمن تھا، اور آپ کو تمام لوگوں میں پست ترین آدمی سمجھتا تھا، لیکن اب آپ (ع) سے بے انتھامحبت کرتا ھوں اور آپ کو لوگوں میں بھترین شخص جانتا ھوں پھر وہ شخص حضرت کے بیت الشرف آیا اور جب تک مدینہ میں تھا حضرت کا مھمان رھا (۳۲)


تیسرے امام حضرت حسین ابن علی (ع)

ولادت با سعادت: ۳شعبان سن ۴ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

والدہ کا نام: حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص)

سن مبارک: ۵۷ سال

شہادت: ۱۰ محرم الحرام سن ۶۱ ھجری

محل شہادت: کربلائے معلى

مدفن: کربلائے معلى

حضرت امام حسن (ع) نے خداوند عالم کے حکم سے اپنے بھائی امام حسین (ع) کو منصب امامت و خلافت کے لئے منتخب فرمایا: (۳۳)

حضرت امام حسن (ع) معاویہ کے زمانے میں نہایت سختیوں اور مشکلات کی زندگی بسر کر رھے تھے اس لئے کہ معاویہ دین اسلام کے احکام کو اپنے پیروں تلے روند رھاتھا اللہ اور اس کے رسول (ص) کے حکم پر اپنا حکم مقدم کئے ھوئے تھا، دوسرے معاویہ حضرت (ع) کے چاھنے والوں کو بلا عذر قتل، اور آپ کو اور آپ کے دوستوں کی ھلاکت کے لئے کسی بھی کام سے دریغ نھیں کرتا تھا ۔

یہاں تک کہ معاویہ فوت ھوا یزید اس کا جانشین تخت حکومت پر آتے ھی مدینہ کے گورنر (ولید) کو حکم دیا کہ حسین (ع) سے میری بیعت لے لی جائے اور اگر بیعت نہ کریں تو ان کا سر میرے پاس بھیجدو، اس حکم کو پاتے ھی ولید نے آپ کو طلب کیا اور یزید کا یہ پیغام آپ کے گوش گذار کیا، آپ (ع) نے غور و فکر کرنے کے لئے ایک شب کی مھلت مانگی حضرت نے یزید کی بیعت اور اس کی تصدیق میں اسلام کی بھلائی نہ دیکھی اپنی جان کو خطرہ میں دیکھ کر مدینہ سے کوچ کرنے کا ارادہ فرمایا، خدا کے حرم مکہ معظمہ میں پناہ لینے کے لئے اٹھائیس رجب کو روانہ ھوئے اور تین شعبان کو مکہ پھنچ گئے۔

امام حسین (ع) کے ساتھ یزید کے برتاؤ کی خبر عراق میں پھیلی اور کوفہ کے مع افراد جو حکومت معاویہ و یزید سے تنگ آچکے تھے حضرت کے لئے کثیر تعداد میں خط لکھا اور اس میں آپ کو عراق آنے کی دعوت دی اور ادھر حضرت بھی دیکھ رھے تھے کہ یزید دین اسلام کے ساتھ کیا بد سلوکی سے پیش آرھاھے، اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لئے اللہ و رسول (ص) کی مخالفت سے کوئی لمحہ فرو گزاشت نھیں کیا، اور اس بات کا پورا پورا خوف موجود ھے قانون اسلام کو مسخ کر کے اپنے گندے افعال کو اس کی جگہ پر رکھے، اور یہ وقت بھی آگیا ھے کہ فرزند رسول (ص) سے اپنی حکومت و سلطنت کی تصدیق چاھے اور ادھر یزید نے حاجیوں کے لباس میں منافقین کو بیت اللہ حضرت کو قتل یا اسیر کرنے کے لئے بھیج رکھا ھے، لہذا حضرت (ع) نے حج کو عمرہ سے بدل کر حرم خدا کی عزت کا پاس و لحاظ رکھتے ھوئے وہاں سے کوفہ کے لئے روانہ ھو گئے (یہ کوفہ وھی جگہ ھے جہاں حضرت نے پھلے مسلم بن عقیل کو بھیجا تھا اور اس میں آپ کے چاھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور انھیں لوگوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت اور مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا) یزیدی فوج نے کربلا کے مقام پر آپ کو گھیر لیا آپ نے کوفہ کے لئے کھاتو ادھر سے یزید کا حکم آپھونچا جہاں ھیں وھیں روک لو، ان سے بیعت لے لو، اگر بیعت کرتے ھیں تو ٹھیک ھم آئندہ کے لئے غور و فکر کریں گے اور اگر بیعت نھیں کرتے تو ان سے جنگ کر کے ان کا سر میرے پاس بھیج دو، حضرت نے ذلت و رسوائی کے مقابلے میں شہادت کو ترجیح دى، اور اپنی مختصر سی فوج لے کر ٹڈی دل لشکر کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ھوئے اور کمال شجاعت کے ساتھ بھت سے دشمنوں کو جھنم کے حوالے کیا۔

آخر کار آپ، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں انصار و اصحاب کے ساتھ جام شہادت نوش فرما کر ابدی نیند سو گئے ھم اھل بیت (ع) کے دوست دار اس دن کو غم و اندوہ کا دن قرار دیتے ھیں، حضرت (ع) اور ان شھیدوں کے غم کو تازہ رکھنے کے لئے مجلس عزا اور عزاداری برپا کرتے ھیں، تاکہ ھم میں اور ھماری نسلوں میں فداکاری ظلم کے سامنے استقلال اور حریمِ اسلام کے دفاع کے جذبات زندہ اور باقی رھیں کیونکہ حضرت نے اپنی شہادت انھیں مقاصد کے لئے دی ھے لہذا ھم بھی اس کو کبھی نھیں بھولیں گے، حضرت امام حسین (ع) نے ذلت سے سر بہ تسلیم ھونے کے بجائے مسلمانوں کو فداکارى، جانثارى، دشمنوں کے مقابل قیام، دین سے دفاع، اور عزت کے ساتھ مرنے کا عملی درس دیا ھے۔

بنی امیہ اور یزید جو جانشینِ رسول (ص) کے نام پر حکومت کرتے تھے ان کو ذلیل اور گھناؤنا کردار ذلیل کثیف اعمال پر خط بطلان کھینچ دیا، حکومت بنی امیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا نیز ان کے برے ارادہ کو نقش بر آب کر دیا ۔

مجلس و عزاداری نوحہ و ماتم گریہ و زاری حضرت کے عظیم ھدف کو پورا کرنے کے لئے نہایت ضروری ھے اور ھم کو ان کے ھدف و مقصد پر چلنے کی دعوت دیتے ھیں ۔


چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ جمادی الثانی سن ۳۸ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

ماں کا نام: شھر بانو سلام اللہ علیھابنت یزد جرد (بادشاہ ایران)

والد کانام: امام حسین (ع)

سن مبارک: ۵۷ سال

وفات: ۲۵ محرم سنہ ۹۵ ھجرى

محل وفات: مدینہ منورہ

مدفن: قبرستان بقیع (جنت البقیع)

حضرت امام حسین (ع) نے خدا وند عالم کے حکم سے اپنے فرزند حضرت علی بن الحسین زین العابدین (ع) کو منصب خلافت و امامت کے لئے منتخب فرمایا (۳۴)

حضرت امام سجاد (ع) عبادت خدا میں اس قدر سجدہ کرتے تھے کہ آپ کا لقب سجاد (ع) اور زین العابدین (ع) ھو گیاآپ واقعہ کربلا میں موجود تھے لیکن بیماری کے سبب جنگ میں شرکت نہ کر سکے ۔

کربلا کی واپسی پر کوفہ و شام میں آپ (ع) نے اپنے خطبہ کے درمیان اپنے والد کی حقانیت اور ان کے مقدس ھدف کی وضاحت فرمائی ھے اور ان شھیدوں کے راستہ کو حقانیت و دیانت کا راستہ بتایا ھے ۔ حضرت امام زین العابدین (ع) چونکہ ھمیشہ سختی اور عملی آزادی نہ ھونے کی وجہ سے علوم اور معارف اسلام کو لوگوں تک نہ پھونچا سکے اس لئے مجبوراً گوشہ نشین اور عبادت میں مشغول ھوگئے نیز دین اسلام کی ترویج اور تعلیم و تربیت کا ایک دوسرا راستہ اختیار فرمایا، اور وہ دعا ھے کہ جس میں دین اسلام کی تمام مھم چیزوں کو وضاحت سے بیان فرمایا ھے، اور معارف علوم اسلامی کا ایک دریا صحیفہٴ سجادیہ کی صورت میں لوگوں کے اختیار میں قرار دیا ھے جو آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ھے کہ جسے زبور آل محمد (ص) بھی کھاجاتا ھے ۔

حضرت کا پسندیدہ مشغلہ یتیم و مسکین و نادار و مجبور اور بے سرپرست افراد کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانا تھا اور گاھے اوقات تو خود اپنے ہاتھوں سے ان کو کھلاتے تھے مدینہ کے بھت سے ضرورتمند گھرانوں میں کھانا اور لباس دینا آپ کا خاص وطیرہ تھا، اور اکثر جب لوگ سوجاتے تو آپ رات کی تاریکی میں چھرے کو ڈھاکے ھوئے دوش پر کھانوں کا گٹھر اٹھائے غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کیا کرتے تھے، جس دن دیر ھوجاتی فقرا و مساکین آپ کے انتظار میں بیدار رھتے جب آپ کی زیارت ھوتی تو آپس میں کھتے تمھیں مبارک ھو وہ شخص آگیا ان کو نھیں معلوم تھا کہ یہ کھانا پھونچانے والا کون شخص ھے؟ جب حضرت کی وفات ھوئی اور کئی دن گذر گئے (اور کھانا ان کو نہ ملا) تو سمجھے کہ راتوں میں کھانا پھونچانے والے امام زین العابدین (ع) کے سوا کوئی اور نہ تھا، بس رونا اور پیٹنا شروع کر دیا (۳۵)


پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۳صفر ۵۷ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: علی بن الحسین (ع)

والدہ کا نام: فاطمہ بنت امام حسن (ع)

سن مبارک: ۵۷ سال

شہادت: ۷ ذی الحجہ سن ۱۱۴ ھجری

محل وفات: مدینہ منورہ

مدفن: قبرستان بقیع

حضرت امام زین العابدین (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام محمد باقر (ع) کو منصب امامت و حکومت کے لئے منتخب فرمایا (۳۶)

آپ کی علمی قابلیت اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ آپ کو باقر العلوم (ع) کے لقب سے پہچانتےتھے۔ تمام علمی طبقوں میں آپ کو قابل قدر نگاھوں سے دیکھا جاتا تھا اور تمام حضرات آپ کے سامنے نہایت فروتنی اور انکساری کے ساتھ مثل طفلِ مکتب دوزانوں ھو کر بیٹھتے تھے اور اپنی مشکلات کو بیان کرتے اور کافی و شافی جواب لے کر رخصت ھوتے تھے، حضرت کو وہ فرصت حاصل ھوئی جو آپ سے پھلے اماموں کے لئے فراھم نہ تھی لہذا اس موقع کو غنیمت سمجھتے ھوئے اسلامی معارف و شریعت کے احکام اور علمی مطالب کا دریا بھادیا اس دور میں کثرت سے حدیثیں اور مفید اقوال لوگوں تک پھونچے کہ جس طرف سنتے ”قال الباقر“ اور” قال الصادق“ کی صدا ھی سنائی دیتی تھى، اپنے ہاتھوں زراعت اور حصول رزق میں زحمت کرنا آپ کا خاص مشغلہ تھا ۔

محمد بن منکدر کھتے ھیں: میں ایک دن اطراف مدینہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو زراعت کرنے کی حالت میں پورا بدن پسینہ سے تر دیکھا میں نے سوچا محترم اور مع شخصیت، فرزند رسول کو کھیتی کرتے ھوئے زیب نھیں دیتا کہ حصول دنیا میں اس قدر عرق ریزی اور اس گرمی میں گھر سے باھر کھیت کی سختی کو برداشت کریں لہذا میں ابھی چل کر ان کو نصیحت کرتا ھوں، آپ کے نزدیک جا کر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا میں نے عرض کى: یابن رسول اللہ! آپ کو اس وقت اور اتنی شدید گرمی میں حصول دنیا کے لئے عرق ریزی کرنا زیب نھیں دیتا ھے، اگر اس وقت آپ کو موت آجائے تو پھر کیا کریں گے؟ حضرت ٹیک لگا کر کھنے لگے: خدا کی قسم اگر اس وقت مجھے موت آجائے تو یہ موت بھی عبادت کی موت ھوگى، اور پھر خدا کی معصیت میں مشغول رھوں تو موت سے ڈروں، میں اس لئے یہ زحمت برداشت کر رھاھوں تاکہ تم اور تمہارے جیسے دوسرے لوگوں کا محتاج نہ رھوں ۔میں نے کھا: یابن رسول اللہ ! میں آیا تھاآپ کو نصیحت کرنے کے لئے، لیکن خود آپ سے نصیحت لے کر جا رھاھوں (۳۷)


چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۷ ربیع الاول سن ۸۳ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام محمد باقر (ع)

والدہ کا نام: ام فروہ سلام اللہ علیھابنت قاسم بن محمد بن ابی بکر

سن مبارک: ۶۵ سال

شہادت: ۱۵ رجب یا ۲۵ شوال ۱۴۸ ھجری

محل شہادت: مدینہ

مدفن: مدینہ، قبرستان بقیع

حضرت امام محمد باقر (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام جعفر صادق (ع) کو اس منصب امامت و خلافت کے لئے معین فرمایا (۳۸)

حضرت امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں بنی امیہ و بنی عباس کے درمیان اختلاف اور باھمی کشمکش پورے شباب پر تھی چونکہ بنی امیہ کی موجودہ حکومت کمزوری اور تزلزل کا شکار تھی بنی عباس، بنی امیہ کی مخالفت اور اھل بیت (ع) کی طرفداری کا دعویٰ کرتے تھے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے اس فرصت کے موقع سے خوب استفادہ کیا اور معارف دین کی تعلیم اور احکام شریعت کے پھیلانے میں بھرپور کوشش کى، کلاس کی صورت میں اچھے اور لائق شاگردوں کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے درمیان حلال و حرام کے مسائل اور ان کی تعلیم و تعلم کو خوب فروغ دیا ۔

مکتب امام جعفر صادق (ع) میں تقریباً چار ہزار (۴۰۰۰) شاگردوں نے تربیت و پرورش حاصل کی تھى(۳۹) جس کی برکت سے عظیم کتابیں اور حدیثوں کا خزانہ عالم اسلام کے ہاتھ آیا اور آپ ھی کی وجہ سے مذھب شیعہ مذھب جعفری کے نام سے مشھور ھوا ۔

سفیان ثوری کھتے ھیں: ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ھوا دیکھا آپ کے چھرے کا رنگ متغیر ھے میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت نے فرمایا: میں نے گھر والوں کو منع کیا تھا کہ کوئی چھت پر نہ جائے لیکن جب میں گھر آیا تو دیکھا ایک کنیز بچے کو لئے ھوئے سیڑھی کے اوپر ھے، جب اس کی نگاہ مجھ پر پڑی بھت حیران و پریشان ھوئی اور لرزتے ھوئے ہاتھوں سے بچہ چھوٹ کر زمین پر گر گیا اور مر گیا، اب اس کنیز کے بے انتھاخوف و دھشت کی وجہ سے غمگین ھوں، اس وقت آپ (ع) نے کنیز سے فرمایا: میں نے خدا کی راہ میں تجھے آزاد کیا تم جہاں چاھو جا سکتی ھو (۴۰)


ساتویں امام حضرت موسیٰ بن جعفر الکاظم علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۷ صفر سن ۱۲۸ ھجری

محل ولادت: ابواء (مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ھے)

والد کا نام: امام جعفر صادق (ع)

والدہ کا نام: حمیدہ سلام اللہ علیھا

سن مبارک: ۵۵ سال

شہادت: ۲۵ رجب سن ۱۳۸ ھجری

محل شہادت: زندان سندی بن شاھک

مدفن: کاظمین، بغداد

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام کاظم (ع) کو منصب امامت و خلافت کے لئے منتخب فرمایا (۴۱)

آپ اس قدر عبادت گذار اور پرھیز گار تھے کہ لوگ آپ کو عبد صالح سے خطاب کرتے تھے، بھت بردبار و حلیم تھے کبھی کسی غیر پسندیدہ چیز پر غصہ اور ناراض نھیں ھوتے تھے اس لئے آپ کا نام کاظم ھو گیا تھا ۔

امام (ع) اپنے زمانہ میں ھمیشہ سختیوں اور دشواریوں سے دوچار رھے اس لئے اسلامی علوم پھیلانے اور اسکی نشر و اشاعت کا مناسب موقع ہاتھ نہ آیا پھر بھی بھت زیادہ لوگوں نے آپ سے کسب علم و فیض کیا، اور کثرت سے آپ سے منقول احادیث کتابوں میں موجود ھے ۔

ہارون نے ۱۷۹ ھجری میں حضرت کو مدینہ سے عراق بلانے کا حکم دیا اور بصرہ و بغداد کے زندان میں بیشتر مدت تک قید رکھا آخر کار زندان سندی بن شاھک میں آپ کو زھر دے کر شھید کر ڈالا ۔
واقعہ

مدینہ میں ایک شخص امام موسیٰ کاظم (ع) کو اذیت اور حضرت علی (ع) کو گالیاں دیا کرتا تھا آپکے بعض اصحاب نے عرض کی کہ اگر آپ کا حکم ھو تو اس کو قتل کر ڈالیں، حضرت نے ان کو منع کرتے ھوئے فرمایا: وہ کہاں ھے؟ جواب دیا کہ وہ مدینہ کے اطراف میں زراعت کرتا ھے، حضرت اس کے کھیت کی طرف گئے جب اس کے نزدیک پھونچے خندہ پیشانی کے ساتھ اس کے پاس بیٹھ کر بغیر کسی تکلف کے باتیں کرنا شروع کیں آپ نے اس سے دریافت کیا اس زراعت میں تو نے کس قدر خرچ کیا ھے؟ اس نے جواب دیا: سو اشرفى، اور اسے فائدہ کی تجھے کس قدر امید ھے؟ اس نے کھا: دو سو اشرفى، پس حضرت نے اشرفی کی تھیلی نکالی جس میں تین سو اشرفى تھی اس شخص کو دیا اور فرمایا: یہ زراعت بھی تیری ھی ھے، وہ شخص ان تمام اذیت کے مقابلے میں اس احسان کو دیکھ کر اٹھااور حضرت (ع) کے سر کا بوسہ لینے لگا اور بھت زیادہ آپ سے معذرت خواھی کى، امام (ع) نے اسے معاف فرمایا اور مدینہ کی طرف واپس چلے آئے، میں نے دوسرے دن اس شخص کو مسجد میں دیکھا کہ اس کی نگاہ جب امام کاظم (ع) پر پڑی تو کھنے لگا: خدا بھتر جانتا ھے کہ رسالت و امامت کو کہاں قرار دے، لوگ تعجب کرتے ھوئے اس کے اس رویہ کے متعلق پوچھنے لگے تو وہ شخص حضرت کے فضائل و مناقب اور آپ کے حق میں دعا ئے خیر کرنے لگا، اس وقت امام کاظم (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ کام اچھا ھوا یا جو تم لوگ پسند کرتے تھے؟ میں نے تھوڑے پیسہ سے اس کی برائی ختم کر دی اور اس کو اھل بیت (ع) کا چاھنے والا بنا دیا (۴۲)


آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۱ ذیقعدہ ۱۴۸ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام موسیٰ کاظم (ع)

والدہ کا نام: جناب نجمہ خاتون خاتون سلام اللہ علیہا

سنِ مبارک: ۵۰ سال

شہادت: ۲۹ صفر ۲۰۳ ھجری

محل شہادت: طوس

مدفن: مشھد (خراسان)

حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام علی رضا (ع) کو منصب امامت و حکومت کے لئے منتخب فرمایا (۴۳)

حضرت امام علی رضا (ع) دنیا کے تمام افراد میں سب سے افضل اور میدان علم و عمل میں آپ کا کوئی نظیر نہ تھا، لہذا اس زمانے کے علماء و عقلا آپ سے احکام دینی و معارف اور دوسرے مختلف علوم کے متعلق دریافت کرتے تو آپ ھر ایک کو ان کے متعلق جواب عنایت فرماتے تھے ۔ آپ نے مختلف طبقات فکر سے مباحثہ اور مناظرہ بھت ھی دلچسپ انداز سے کیا ھے جو اسلامی کتابوں میں مذکور ھے، آپ کا ایک خاصہ یہ تھا کبھی بھی مباحثہ و مناظرہ کی میز پر کسی مسئلہ میں عاجز و حیران نھیں ھوتے تھے بلکہ ھر ایک کے سوال کا جواب انھیں کے مطابق عنایت فرماتے تھے ۔

آپ لوگوں کے درمیان بھت زیادہ محترم اور (عالم آل محمد (ص) ) آل محمد (ص) کے عالم کے نام سے پہچانے جاتے تھے، مامون عباسی نے سن ۲۰۰ ھجری میں حضرت کو مدینہ سے ”مر و “ بلایا جب آپ تشریف لائے تو اس نے زمام حکومت آپ کے سپرد کرنے کی کوشش کی لیکن حضرت نے قبول نہ فرمایا، جب اس کا اسرار حد سے زیادہ ھوا تو آپ نے ولی عھدی کا عھدہ قبول فرمایا، اور اس کی ولی عھدی قبول کرنے کا دو راز تھا ۔

پھلا: حضرت چاھتے تھے کہ اس ولی عھدی کے ذریعہ مامون کی حکومت میں دینی اور اسلامی رنگ سادات اور شیعہ حضرات کو اپنی طرف متوجہ اور اس طرح ان کے آپسی اختلاف اور افتراق کو دور کیا جا سکتا ھے ۔

دوسرا: مامون چالاکی کرنا چاھتا تھا کہ امام کو اپنے سے قریب کر کے حکومت کے کاموں میں لگا دے جس سے آپ کے چاھنے والے بد ظن اور آپ سے دوری اختیار کرنے لگیں، لیکن امام تو مامون کے شکم کی چیزوں سے بھی باخبر تھے کہ جو حکومت کے لئے اپنے بھائی کو نہ چھوڑے وہ اتنی آسانی سے کسی کو حکومت و ولی عھدی کیسے دے سکتا ھے، لہذآپ نے ولی عھدی سے بھی انکار کیا لیکن مامون کے شدید اصرار کی بنا پر مجبوراً قبول کرنے کے لئے شرائط کے ساتھ راضی ھوگئے اور فرمایا: ولی عھدی کی شرط یہ ھوگی کہ میں حکومت کے کسی کام میں اور حکام کے رکھنے اور معزول کرنے میں دخالت نھیں کرونگا ۔

امام کی اس شرط کا مطلب مامون سمجھ گیا میں نے تو ان کو خوار کرنے کے لئے یہ کام سپرد کیا تھا لیکن یہ تو مزید عزت اور توقیر کا باعث ھوجائے گا، لہذا اب دوسری فکر میں پڑ گیا کہ کیسے امام کو قتل کیا جائے آخر کار آپ کو زھر دے کر شھید کر ڈالا ۔

واقعہ

ایک شخص بیان کرتا ھے میں نے حضرت امام رضا (ع) کو دسترخوان پر سفید و سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھے غذا تناول فرماتے ھوئے دیکھا تو میں نے کھا: یابن رسول اللہ !کاش آپ نے غلاموں کو دسترخوان سے الگ اور جدا بیٹھایا ھوتا امام غضبناک ھوگئے اور فرمایا: خاموش ھوجا، ھمارا خدا ایک، دین ایک، اور ھمارے ماں باپ ایک ھیں ھر شخص قیامت میں اپنے اعمال کا بدلہ پائے گا(۴۴)


نویں امام حضرت محمد ابن علی التقی علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۰ رجب یا ۱۹ رمضان سن ۱۹۵ ھجری

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام علی رضا (ع)

والدہ کا نام: جناب سبیکہ خاتون سلام اللہ علیھا

سن مبارک: ۲۵ سال

شہادت: آخر ذیقعدہ سنہ ۲۲۰ ھجری

محل شہادت: بغداد

مدفن: کاظمین

حضرت امام علی رضا (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے فرزند امام محمد تقی (ع) کو منصب امامت کے لئے معین فرمایا: (۴۵)

حضرت امام محمد تقی (ع) اپنے والد ماجد کے بعد منصب امامت پر جلوہ افروز ھوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک بھت کم تھی اور بلوغ کے حدود میں بھی قدم نھیں رکھا تھا، چونکہ علم و فھم خدا کی طرف سے تھا لہذا لوگوں کی تمام دینی مشکلات، کو بآسانی حل کرنے پر قادر تھے بسا اوقات آپ سے امتحان کے طور پر دین اسلام کے مشکل مسائل کو دریافت کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب کافی و شافی عنایت فرمایا، آپ کی علمی صلاحیت ھر طبقے کے تعلیم یافتہ حضرات کے لئے زباں زد تھی وہ آپ پر تعجب و حیرت کی نگاھوں سے دیکھتے تھے، اور عبادت و پرھیزگاری میں اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کا لقب ھی تقی ھوگیا تھا اور کثرت جود و سخا کی بنا پر لوگ جواد بھی کھتے تھے ۔


دسویں امام حضرت علی بن محمد النقی علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۲ ھجری یا ۲ رجب سنہ ۲۱۲ ھجری

محل ولادت: صریا (مدینہ)

والد کا نام: محمد تقی (ع)

والدہ کا نام: سمانہ سلام اللہ علیہا

سن مبارک: ۴۲ سال

وفات: ۲۷ جمادی الثانی یا ۳ رجب ۲۵۴ ھجری

محل شہادت: سامرہ (سر من رای)

مدفن: سامرہ (سر من رای)

امام محمد تقی (ع) نے خدا کے حکم کے مطابق اپنے فرزند امام علی نقی (ع) کو منصب امامت کے لئے منتخب فرمایا (۴۶)

والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی اس کم سنی کے عالم میں آپ منصب امامت و خلافت پر رونق افروز ھوئے، اسی کے ساتھ الٰھی علوم سے کاملاً بھرہ مند تھے ۔

علم و ذکاوت کے اعتبار سے آپ کا کوئی نظیر نہ تھا، حسن اخلاق کثرت علم اور پرھیزگاری اور حددرجہ عبادت کی وجہ سے آپ لوگوں میں بھت زیادہ محبوب تھے ۔

متوکل عباسی کو خطرہ محسوس ھوا کہ ایسا نہ ھو کھیں لوگ حضرت امام نقی (ع) کے یہاں زیادہ رفت و آمد اور آپ کے اطراف جمع ھو کر حکومت کے لئے کسی دشواری اور خطرے کا باعث بنیں ۔

اس وجہ سے آپ کو سن ۲۴۳ ھجری میں مدینہ سے سامرہ بلایا اور اپنے زیر نگرانی قرار دیا حضرت امام علی نقی (ع) خلفاء بنی عباس کی سختیوں اور ان کی مصیبتوں پر تحمل و صبر کرتے ھو ئے زندگی کے آخری لمحات کو پورا کیا، اور ستائیس جمادی الثانی سن ۲۵۴ ھجری سامرہ میں وفات پاگئے ۔


گیارھویں امام حضرت حسن بن علی العسکری علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۸یا ۴ ربیع الثانی سن ۲۳۲ ھجرى

محل ولادت: مدینہ منورہ

والد کا نام: امام علی نقی (ع)

والدہ کا نام: حُدیث سلام اللہ علیہا

وفات: ۸ ربیع الاول سن ۲۶۰ ھجری

محل وفات: سامرہ (سر من رای)

سن مبارک: ۲۸ سال

مدفن: سامرہ (سر من رای)

حضرت امام علی نقی (ع) نے خداوندعالم کے حکم سے اپنے فرزند امام حسن عسکری (ع) کو منصب امامت کے لئے معین فرمایا (۴۷)

امام حسن عسکری (ع) بھی اپنے والد ماجد علی نقی (ع) کی طرح سامرہ شھر میں زیر نظر، زندانی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، لوگ آپ سے آزاد ملاقات نھیں کر سکتے، آپ کے علم سے فیض نھیں اٹھا سکتے تھے، ان سختیوں کے باوجود آپ نے اپنی یادگار کے طور پر بھت ساری حدیثوں اور مفید مطالب کو لوگوں کے درمیان چھوڑا جو کتابوں کی زینت بنے ھوئے ھیں، اھل فھم رجوع کر کے اس سے استفادہ کرتے ھیں، آپ کے اخلاق حمیدہ پاک سیرت علم و فضل و پرھیزگاری اور عبادت خدا کسی پر مخفی نھیں ھے۔


بارھویں امام حضرت محمد بن حسن (صاحب الزمان) علیھما السلام

ولادت با سعادت: ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ھجری

محل ولادت: سامرہ (سر من رای)

والد کا نام: امام حسن عسکری (ع)

والدہ کا نام: نرجس سلام اللہ علیہا

حضرت امام حسن عسکری (ع) نے خدا اور اس کے رسول (ص) کے حکم سے خلافت و امامت کے لئے اپنے فرزند مھدی (ع) کو منتخب فرمایا۔ (۴۸)

مھدی (ع)، قائم (ع)، صاحب الزمان (ع)، امام عصر (ع)، اور حجة (ع) اللہ و بقیة (ع) اللہ وغیرہ آپ کے القاب ھیں ۔

بھت زیادہ روایتوں میں حضرت رسول خدا (ص) سے منقول ھے کہ آںحضرت (ص) نے فرمایا: امام حسین (ع) کی نسل کی نویں فرد میرا ھمنام، مھدی (ع) موعود ھوگا، ھر ایک امام نے اپنے زمانہ میں خبر دی ھے کہ ھمارا کونسا فرزند مھدی (ع) موعود ھوگا آنحضرت (ص) اور آپ کے اھل بیت (ع) نے خبر دی ھے کہ امام حسن عسکری (ع) کے فرزند مھدی (ع) موعود ھیں ۔

اور اس کی غیبت بھت طولانی ھوگی جب خدا چاھے گا ان کو ظاھر کرے گا، وہ دنیا کی اصلاح کرینگے اور عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دینگے پوری زمین پر انھیں کی حکومت ھوگى، اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کو پوری دنیا میں پھیلائیں گے دین اسلام کو دین حقیقت کے عنوان سے دنیا والوں کے لئے ثابت کرینگے ۔

رسول خدا (ص) اور ائمہ طاھرین (ع) کے فرمان کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ، امام حسن عسکری (ع) کو ایک فرزند عطا کرے گا، جس کا نام آنحضرت (ص) کے نام پر محمد (ص) ھوگا معتبر و معتمد اصحاب نے اس فرزند کو دیکھ کر گواھی دی ھے ۔

امام زمانہ (ع) اپنے والد ماجد کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے، اور امام (ع) کے بعد آپ (ع) کے جانشین و امام ھوئے بنی عباس کے خلفا نے جو روایات آنحضرت (ص) اور ائمہ طاھرین (ع) سے سنا اور پڑھا تھا کہ ایک فرزند امام حسن (ع) سے پیدا ھوگا جو مھدی موعود دنیا سے ظلم و جور کو ختم کر کے عدل و انصاف سے بھر دے گا، یعنی ظالموں اور سرکش افراد سے جنگ نیز ظالم حکومتوں کو نیست و نابود کر دے گا، فقط خدا کا دین اور اس کا عدل و انصاف ھوگا ان لوگوں نے جب امام کے مذکورہ تمام علائم اور آثار و نشانیاں دیکھیں تو آپ کے سخت ترین دشمن ھو گئے اور قطعی طور پر فیصلہ کیا کہ حضرت امام مھدی (ع) کو قتل کر ڈالیں اور اس خطرہ کو راستہ سے دور کردیں، انھیں اسباب کے تحت امام لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھو گئے اور پوشیدہ زندگی گذارنے لگے لیکن لوگوں سے آپ کا رابطہ بالکل منقطع نھیں ھوا تھا، بلکہ آپ کے خاص نائبین ھوتے تھے جن کے ذریعہ رابطہ برقرار ھوتا، اور وہ ان لوگوں کی مشکلات کو حل فرماتے تھے ۔

حضرت امام زمانہ (ع) کے خاص نواب چار تھے:

۔ عثمان بن سعید

۔ محمد بن عثمان

۔حسین بن روح

۔ علی بن محمد سمری ۔

ان چاروں حضرات میں سے یکے بعد دیگرے امام (ع) کی نیابت کے لئے منصوب ھوئے یہاں تک کہ غیبت صغریٰ کے دن تمام ھوئے اور امام زمانہ (ع) سے ملاقات کے روابط منقطع ھوئے اور غیبت کبریٰ کا آغاز ھوا ۔

ابھی امام زمانہ (ع) غیبت کی زندگی بسر کر رھے ھیں لوگوں کے رفت و آمد ان کے اجتماع اور جلسہ میں شرکت کرتے لیکن خود اپنی آشنائی نھیں کراتے ھیں یھی حال باقی رھے گا یہاں تک کہ آپ کے ظھور کے حالات مساعد اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے کے لئے تمام راھیں ھموار ھوجائیں، اور پوری دنیا کے افراد اس نظام کائنات اور وقتی حکومتوں سے تنگ آکر بس خدا کی حاکمیت اور اس کی حکومت کو چاھنے لگیں، دنیاوی پریشانیوں اور ظلم و ستم و برائیوں سے لوگ تنگ آکر فقط خدائی قانون کو سائباں اور اپنی مشکلات کا حل سمجھیں، اس وقت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، ظھور فرمائیں گے احکام الٰھی کو نافذ کرنے کے لئے اپنے ساتھ طاقت و قدرت لائیں گے اس کے تحت ظلم و بربریت اور فساد کو نیست و نابود اور پورے جہان کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔

ھم شیعیان حیدر کرّار کی اس غیبت کبریٰ کے زمانہ میں ذمہ داری ھے کہ ولی ّبرحق کے ظھور کا انتظار اور آپ کے تعجیلِ ظھور کے لئے دعائیں کریں، قرآن مجید کے اجتماعی احکام اور اس کے پروگرام کو دنیا کے تمام افراد کو سنائیں، اور اس احکام و قوانین کی بلندی و امتیازات اور اس کے فائدہ کو لوگوں کے سامنے پیش کریں، لوگوں کے ذھن اوران کے دل و دماغ کو ان احکام کی طرف متوجہ، اور باطل و بے سود خرافاتی عقائد کا ڈٹ کر مقابلہ اور اسلامی و جہانی امام کی حکومت کے لئے (حتی المقدور) تمام اسباب کو فراھم کریں اور دنیاوی مشکلات کو حل کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے استفادہ کرتے ھوئے بھترین لائحہٴ عمل اور پروگرام تیار کریں اور اس کو مبلغین اور صلح و مصالحت کرنے والوں کے ہاتھوں میں دیں تاکہ وہ فکروں کو اندھیرے سے روشنائی کی طرف موڑیں، اور ھم اپنے امام (ع) کے ظھور اور آپ کی عدل و انصاف سے پُر حکومت کے لئے آمادہ رھیں ۔


ائمہ طاھرین (ع) کے متعلق ھمارا عقیدہ

1) بارہ امام علیھم السلام، ھر طرح کے گناہ اور نسیان (بھو ل چوک) سے معصوم ھیں ۔

2) وہ حضرات خداوند عالم کے تمام احکام و قوانین کو جانتے ھیں اور جتنی چیزیں (علوم اور اطلاعات) لوگوں کی ھدایت اور انکی راھنمائی کے لئے ضروری ھے خداوندعالم نے ان کے اختیار میں دے رکھا ھے ۔

3) دین اسلام میں کوئی بھی حکم اپنی طرف سے نھیں دیتے اور نھیں کسی نئی چیز کو دین میں شامل کرتے ھیں ۔

4) دین اسلام کے تمام احکام پر عمل کرتے ھیں اور ھر صحیح عقیدہ کا اعتقاد رکھتے ھیں، اخلاق حسنہ سے مزین لوگوں میں بھترین افراد اور اسلام کے کامل شاھکار اور بھترین نمونہ ھوتے ھیں ۔

5) لوگوں کی طرحوہ بھی انسان اور اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ھیں ان کو بھی موت اور بیماری لاحق ھوتی ھے، وہ خدا کی طرح موجودہ چیزوں کو پیدا کرنے والے نھیں ھیں ۔

6) ان میں سے گیارہ افراد کو موت آچکی ھے بارھویں امام، یعنی امام حسن عسکری (ع) کے فرزند امام مھدی (ع) ابھی زندہ ھیں، ھم ان کے ظھور کا انتظار کر رھے ھیں ۔


شیعہ

جو لوگ حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو رسول خدا (ص) کا بلا فصل جانشین و خلیفہ مانتے ھیں ان کو شیعہ کھاجاتا ھے ۔

شیعہ امامیہ حضرت علی (ع) اور آپ کے گیارہ معصوم فرزندوں کو امام اور راھنما و رھبر مانتے ھیں اور ان کی رفتار و گفتار میں پیروی کرتے ھیں، اور واقعی شیعہ وھی شخص ھے جو حضرت علی (ع) اور آپ کے معصوم فرزندوں کی اتباع و فرمانبرداری کرے اور ان کے طور طریقے اخلاق و اعمال کو اپنے لئے نمونہٴ عمل قرار دے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جابر ۺ سے ارشاد فرماتے ھیں:

اے جابر! فقط اتنا کہہ دینا کہ ھم اھل بیت (ع) سے دوستی و محبت رکھتے ھیں کیا شیعہ ھونے کے لئے کافی ھے؟ خدا کی قسم وہ ھمارا شیعہ نھیں ھے، مگر جو پرھیزگار اور خدا کی اطاعت کرنے والا ھو، اے جابر ! پھلے ھمارے شیعہ ان صفات سے پہچانے جاتے تھے تواضع، امانتدارى، خدا کا ذکر، روزہ، نماز، والدین کے ساتھ احسان، پڑوسى، اور ناتوان یتیم و قرضدار (اور بے چاروں) کی رکھوالی اور ان کی مدد، صداقت، قرآن کی تلاوت، لوگوں کے متعلق اچھائی کے سوا کچھ نھیں کھتے، اور لوگوں کے لئے امین تھے جابر نے عرض کی یابن رسول اللہ ! اس زمانہ میں کسی کو ان صفات کا حامل نھیں پاتا ھوں فرمایا: اے جابر مختلف راھیں تمھیں حیران و سرگرداں نہ کر دیں اور تم کسی غلطی میں گرفتار نہ ھوجاؤ ۔

انسان کی نجات اور چھٹکارے کے لئے کیا بس یھی کھنا کافی ھے کہ میں علی (ع) کو دوست اور ان سے محبت کرتا ھوں اور اللہ کے فرمان پر عمل پیرا نہ ھو؟ اگر کوئی کھے، میں حضرت رسول (ص) خدا سے محبت کرتا ھوں اور آںحضرت (ص) کے دستور و اخلاق کی پیروی نہ کرے تو کیا رسول خدا (ص) کی یہ دوستی اس کو چھٹکارا دلا سکتی ھے ؟” نھیں “ جب کہ مسلّم ھے آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) سے افضل تھے ۔

اے شیعو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ کسی سے قرابتداری و رشتہ داری نھیں رکھتا ھے، خداوند عالم کے نزدیک با عزت اور سب سے محترم شخص وہ ھے جو سب سے زیادہ پرھیزگار اور اس کے بتائے ھوئے احکام پر عمل کرنے والا ھو، اے جابر !خدا کی قسم ! اللہ سے نزدیکی اور تقرب کے لئے اطاعت و فرماں برداری کے علاوہ کوئی راستہ نھیں ھے جھنم سے آزادی دلانا ھمارے اختیار میں نھیں ھے، جو اللہ کا مطیع ھے وہ ھمارا دوست ھے اور جو اللہ کے حکم سے روگردانی و سر پیچی کرے وہ ھمارا دشمن ھے، ھماری ولایت و محبت سوائے عمل صالح اور پرھیز گاری کے حاصل نھیں ھوتی ھے (۴۹)

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: (اے شیعو) پرھیزگار اور صاحب تقویٰ بنو، اپنے نفس کی اصلاح اور نیک کام (عمل صالح) کی کوشش کرو، حق کھو، امانتدار اور خوش اخلاق ھوجاؤ، پڑوسىوں سے اچھا برتاؤ کرو، اپنے اخلاق و عمل سے لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت دو، ھماری عزت اور سربلندی کا باعث بنو، گندے کاموں کے ذریعہ ھماری شرمندگی اور پشیمانی کا سامان فراھم نہ کرو، اپنے رکوع اور سجود کو طول دو اس لئے جب خدا کا بندہ رکوع اور سجدہ کو طولانی کرتا ھے تو شیطان ناراحت ھوتا ھے اور اس حال میں فریاد کرتا ھے اے، وای یہ لو گ اللہ کی اطاعت کرتے ھیں، لیکن میں نے اللہ کی نافرمانی کی یہ لوگ سجدہ کرتے ھیں اور میں نے سجدہ سے روگردانی کی (۵۰)

امام صادق (ع) فرماتے ھیں: حضرت عیسیٰ (ع) کے شیعہ اور حواری لوگ ان کے دوستدار تھے، لیکن ان کے دوستدار ھمارے شیعوں سے بھتر و افضل نھیں تھے اس لئے کہ ان لوگوں نے مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ان کی مدد نھیں کی اور اللہ کی راہ میں جہاد نھیں کیا، لیکن ھمارے شیعوں نے حضور اکرم (ص) کی وفات کے وقت سے آھماری مددکرنے سے انکار نھیں کیا ھے، ھمارے لئے فداکاری و جانثارى کرتے ھیں، آگ میں جلائے گئے، قید و زندان کی سخت سے سخت مصیبتیں برداشت کیں اپنے گھروں سے نکال دئے گئے (شھر بدر کیا) لیکن پھر بھی ھماری مدد و نصرت کرنے سے دریغ نھیں کیا(۵۱)


مسلمانوں کے متعلق ھمارا عقیدہ

اس حال میں کہ ھم اھل سنت سے مسئلہ خلافت و جانشینی میں اختلاف نظر رکھتے ھیں اس کے باوجود تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی اور ھم مسلک سمجھتے ھیں، اس لئے کہ ھمارا خدا ایک، ھمارا دین، ایک قرآن اللہ کی کتاب ایک، اور ھمارا قبلہ بھی ایک ھے ۔

ان کی عزت و ترقی کو ھم اپنی ترقی اور سربلندی جانتے ھیں ان کی کامیابی اور غلبہ کو ھم اپنی کامیابی و تسلط سمجھتے ھیں، ان کے مغلوب اور ذلت و شکست کھانے کو ھم اپنی شکست اور پستی مانتے ھیں، ھم سب زندہ و مردہ، خوشی و غم اور شادی و بیاہ میں باھم شریک ھیں، اس مسئلہ میں ھم اپنے پھلے امام حضرت علی (ع) کی اتباع و فرمانبرداری کرتے ھیں، کہ اگر آپ اپنے شرعی حق کا دفاع اور خلافت کو لینا چاھتے تو لے سکتے تھے لیکن دین اسلام کی مصلحت اور اپنی اصل خودداری اور دیانتداری کو ان پر ترجیح دى، نہ فقط خلفا سے جنگ نہ کی بلکہ حساس اور سخت وقت میںنیز ضرورت و مجبوری میں ان کی مدد بھی کرتے رھے اور مسلمانوں کو فائدہ پھونچانے سے کبھی بھی دریغ نھیں فرمایا، ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ دنیائے اسلام اس صورت میں ایک زندہ اور طاقتور ملت کے عنوان سے اپنی گذری ھوئی عظمت و شان و شوکت، بزرگی و برتری اور اجنبیوں کے تحت تسلط رھنے سے نجات حاصل کر سکتی ھے شرط یہ ھے کہتمام مسلمان اپنے اختلافات و پراگندگی اور انفرادیت سے دوری اختیار کریں، اور پوری طاقت ایک طرف صرف کردیں اور سب کی سب دین اسلام کی راہ میں اس کی عظمت و ترقی کے لئے قدم جمادیں ۔

26. مائدہ (۶۷)
27. البدایہ و النہایہ، ج۵، ص ۲۰۸۔
28. مناقب ابن شھر آشوب، ج۲، ص ۱۰۸ ۔
29. بحار الانوار، ج۴۱، ص ۵۲ ۔
30. اثباة الھداة، ج۵، ص ۱۲۱ ۔
31. ینابیع المودة، ص ۳۷۳ ۔
32. مناقب شھر آشوب، ج۴، ص ۱۹ ۔
33. اثباة الھداة، ج۵، ص ۱۶۹ ۔
34. اثباة الھداة، ج۵، ص ۲۱۲۔ ارشاد مفید، ص ۲۳۸ ۔
35. مناقب ابن شھر آشوب، ج۴، ص ۱۵۳ ۔
36. اثباة الھداة، ج۵، ص ۲۶۳۔ ارشاد مفید، ص ۲۴۵ ۔
37. کشف الغمہ، طبع تبریز، ج۲، ص ۳۳۷ ۔
38. اثباة الھداة، ج۵، ص ۳۲۸۔ ارشاد مفید ۺ،ص ۲۵۴ ۔
39. ارشاد مفید، ص ۲۵۴۔
40. مناقب ابن شھر آشوب، ج۴، ص ۲۷۴ ۔
41. اثباة الھداة، ج۵، ص ۴۶۷ ا۔رشاد مفید، ص ۲۷۰ ۔
42. کشف الغمہ، ج ۳، ص ۱۸ ۔
43. اثباة الھداة، ج۶، ص۲ ۔ارشاد شیخ مفید، ص ۲۸۵ ۔
44. وافى، ج۳، ص ۸۷ ۔
45. اثباة الھداة، ج۶، ص ۱۵۵ ۔ ارشاد شیخ مفید ۺ، ص ۲۹۷ ۔
46. اثبات الھداة، ج۶، ص ۲۰۸ ۔ ارشاد مفیدۺ، ص ۳۰۸ ۔
47. اثباة الھداة، ج۶، ص ۲۶۹ ۔ ارشاد مفید ۺ، ص ۳۱۵ ۔
48. اثبات الھداة، ج۶، ص ۳۵۲ ۔ ارشاد مفید ۺ، ص ۳۲۷۔
49. وافى، ج۱، تیسرا حصہ، ص۳۸۔
50. وافى، ج ۱، تیسرا حصہ، ص۶۰۔
51. سفینة البحار، ج ۱، ص ۷۳۔