پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

روزہ

روزہ

اسلام کے اھم واجبات میں سے روزہ ھے ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: روزہ جھنم کی آگ کے مقابلہ میں ڈھال ھے۔ (۷۲)

خدا وند تبارک و تعالیٰ فرماتا ھے: روزہ میرے لئے ھے اور میں خود اس کا اجر دوںگا ۔ (۷۳) یہ عظیم عبادت اپنے دامن میں بھت زیادہ فوائد رکھے ھوئے ھے، ڈاکٹری تحقیق کے مطابق پیٹ کی مشینوں کے لئے آرام کا باعث ھے، اور انسان کی سلامتی کے لئے مفید ھے اور اخلاقی اعتبار سے دشواری اور سختی کے وقت صبر و استقامت بخشتا ھے اور امیروں کو ناتواں اور مفلوک الحال افراد کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ھے ۔

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: روزہ واجب ھے تاکہ پیسے والے، بھوک کا مزہ چکھیں،

مجبوروں اورغریبوں کے حال پر غور و فکر کریں (نیز) ان کے ساتھ احسان و بخشش کریں ۔ (۷۴)

تمام مسلمانوں پر رمضان کے مھینے کا روزہ کھنا واجب ھے، یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک تمام وہ کام جو روزہ کو باطل کر تے ھیں ان سے اجتناب و پرھیز کرے اور روزہ کو باطل کرنے والے امور یہ ھیں:

1۔ کھانا اور پینا۔

2۔ غلیظ گرد و غبار کا حلق تک پھنچانا ۔

3۔ قے کرنا۔

4۔ جماع (عورت سے ھمبستری کرنا)

5۔ حقنہ کرنا۔

6۔ پانى میں سر ڈبونا۔

7۔ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر جھوٹا الزام لگانا۔

8۔ استمناء (منی نکالنا)

9- صبح کی اذان تک جنابت و حیض و نفاس پر باقی رھنا ۔

نکتہ: اگر یہ روزہ توڑنے والی چیزیں عمداً واقع ھو تو روزہ باطل ھوجاتا ھے

لیکن اگر بھول چوک یا غفلت کے سبب واقع ھو تو روزہ باطل نھیں ھوتا ھے سوائے جنابت و حیض و نفاس پر باقی رھنے کے، کہ اگر سھواً اور غفلت کی وجہ سے بھی ھو، تو بھی روزہ باطل ھے ۔
وہ افراد جو روزہ کو توڑ سکتے ھیں

1۔ بیمار: جس پر روزہ رکھنا ضرر کا باعث ھو ۔

2۔ مسافر، انھیں شرائط کے ساتھ جو مسافر کی نماز کے متعلق بیان ھوئی ھیں۔

3۔ وہ عورت جو ماھواری (حیض کی حالت میں) یا نفاس میں ھو ۔

نکتہ: ان تینوں قسم کے افراد کو چاھیے کہ اپنے روزہ کو توڑدیں اور عذر کو بر طرف ھونے کے بعد روزہ کی قضا کریں ۔

4۔ حاملہ عورتیں جن کا وضع حمل قریب ھو اور روزہ خود اس کے لئے یا اس کے بچے کے لئے ضرر کا باعث ھو ۔

5۔ بچے کو دودھ پلانے والی عورتیں جسکو روزہ رکھنے سے دودھ میں کمی آتی ھو اور بچہ کی تکلیف کا سبب ھو۔

6۔ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں جن پر روزہ رکھنا سخت اور دشوار ھے ۔

نکتہ۱) یہ عورتیں عذر کے زائل ھونے کے بعد اپنے روزے کی قضا اور تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں گی ۔

نکتہ ۲) اگر یہ لوگ رمضان کے بعد بآسانی روزہ رکھ سکتے ھوں تو قضا کریں، لیکن اگر ان پر روزہ رکھنا دشواری کا باعث ھے تو قضا واجب نھیں ھے، لیکن ھر روزہ کے بدلے تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں۔

نکتہ ۳) جو شخص عذر شرعی کے بغیر ماہ رمضان کے روزہ کو توڑ دے تو اسے چاھیے کہ اس کی قضا کرے اور ھر روزہ کے بدلے ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے ۔

72. وافى، ج۲، جز ۷، ص۵ ۔
73. وافى، ج۲، جز ۷، ص۵ ۔
74. وافى، ج۲، جز۷، ص۵۔