پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

مرحوم مجلسى كا دستور العمل

مرحوم مجلسى کا دستور العمل

بہت بڑے بزرگوار عالم جو مقام عرفان میں عارف ربانى ملا محمد تقى مجلسى ہیں انہوں نے لکھا ہے_ کہ میں نے اپنے آپ کو صاف کرنے اور ریاضت کرنے میں کچھ حاصل کیا ہے اور یہ اس وقت تھا جب میں قرآن کى تفسیر لکھنے میں مشغول تھا_ ایک رات نیم نیند اور بیدارى میں پیغمبر علیہ السلام کو دیکھا_ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں آنحضرت کے کمالات اور اخلاق میں خوب اور دقت کروں_ میں نے جتنى زیاددہ وقت کى اتنا ہى آنحضرت کى عظمت اور نورانیت کو اس طرح وسیع تر پایا کہ آپ کے نور نے تمام جنگوں کو گھیرا ہوا تھا اسى دوران میں جاگ اٹھا اور اپنے آپ میں آیا تو مجھے القاء ہوا کہ رسول خدا کا اخلاق عین قرآن ہے لہذا ہمیں قرآن میں غور اور فکر کرنا چاہئے میں جتنا قرآن میں زیادہ غور اور فکر کرتا جاتا تھا اتنا ہى زیادہ حقائق سامنے آتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک ہى دفعہ مجھ میں بہت زیادہ قرآن کے معارف اور حقائق آ موجود ہوئے میں جس آیت میں تدبر اور فکر کرتا تھا تو مجھے عجیب موحبت اور مطالب عطا کئے جاتے تھے گرچہ یہ مطالب اس شخص کے لئے کہ جس نے ایسى توفیق حاصل نہ کى ہو بہت دشوار اور ارشاد کرنا ہے_ نفس کى ریاضت او راپنے آپ کو سنوار نے کا دستور العمل یہ ہے کہ بے فائدہ گفتگو کرنے بلکہ اللہ تعالى کے ذکر بغیر بات کرنے سے اپنے آپ کو روکیں_ کھانے پینے اور لباس و غیرہ کى لذیذ چیزوں اور بہترین اور خوبصورت مکان اور عورتوں کو ترک کریں اور بقدر ضرورت استعمال کرنے پر اکتفاء کریں اولیاء خدا کے علاوہ لوگوں سے میل جول نہ رکھیں زیادہ سونے سے پرہیز کریں اور اللہ کے ذکر کو دائماً اور پابندى سے بجالائیں_ اولیاء خدا نے یا حى یا قیوم او ریا _ من لا الہ الا انت کا زیادہ تجربہ کیا ہے اور میں نے بھى اسى ذکر کا تجربہ کیا ہے لیکن میرا غالبا ذکر _ یا اللہ _ جب کہ دل کو خدا کے علاوہ سے نکال کر اور خداوند عالم کى طرف پورى توجہہ سے ہوا کرتا تھا_

لیکن سب سے زیادہ اہم اللہ تعالى کا پورى توجہ اور پابندى سے ذکر کرنا ہوا کرتا ہے باقى چیزیں اللہ تعالى کے ذکر کے برابر نہیں ہوا کرتیں اگر اللہ کا ذکر چالیس دن اور رات تک متصل کیا جائے تو حکمت اور معرفت اور محبت کے انوار کے دروازے ایسے کرنے والے پر کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت وہ فناء فى اللہ اور بقاء باللہ کے مقام تک ترقى کر جاتا ہے_ [1]

 

[1]- روضة المتقین/ ج 13 ص 128.