پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ذكر خدا كا مراد

ذکر خدا کا مراد

یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالى کا ذکر عبادت میں سے ایک بڑى عبادت ہے اور نفس کے پاک و پاکیزہ اور اس کى تکمیل اور سیر و سلوک الى اللہ کا بہترین وسیلہ ہے اب دیکھیں کہ ذکر خدا سے جو آیات اور روایات میں وارد ہوا ہے کیا مراد ہے_ کیا اس سے مراد یہى لفظى ذکر مثل سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ یا اس سے مراد کوئی اور چیز ہے؟ کیا یہ الفاظ بغیر باطنى توجہ کے اتنا بڑا اثر رکھتے ہیں یا نہ؟

لغت میں ذکر کے معنى لفظى ذکر کے بھى آئے ہیں کہ جو زبان سے کئے جاتے ہیں اور توجہ قلب اور حضور باطن کے معنى بھى آئے ہیں احادیث میں بھى ذکر ان دو معنوں میں استعمال ہوا ہے_ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام نے مناجات کرتے وقت عرض کى کہ '' اے خالق_ اس کى جزاء اور ثواب کہ جس نے تجھے زبان اور دل میں یاد کیا ہو کیا ہے؟ جواب آیا اے موسی(ع) میں اسے قیامت میں عرش کے سایہ اور اپنى پناہ میں قرار دونگا_[1]'' اس حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ذکر لفظى جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبى ذکر دونوں میں استعمال ہوا ہے اور دوسرى بہت سى روایات موجود ہیں کہ جن میں ذکر ان دونوں میں استعمال ہوا ہے لیکن غالبا اور اکثر ذکر کو توجہ قلبى اور حضور باطنى میں استعمال کیا گیا ہے اور حقیقى اور کامل ذکر ابھى یہى ہوا کرتا ہے_ خدا کے ذکر سے مراد ایک ایسى حالت ہے کہ خدا کو روح کے لحاظ سے دیکھ رہا ہو اور باطن میں جہاں کے خالق کى طرف اس طرح متوجہ ہو کہ خدا کو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے جانے جو شخص اس طرح کى حالت میں خدا کو یاد کرتا ہو تو و ہ اللہ تعالى کے احکام پر عمل کرے گا اور واجبات کو بجالائیگا اور حرام چیزوں کو ترک کرے گا_ اس معنى کے لحاظ سے اللہ کا ذکر آسان ہے_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے '' سب سے مشکل ترین عمل کہ جو ہر شخص سے نہیں ہو سکتا_ تین ہیں اپنے آپ سے لوگوں کو اس طرح انصاف دینا اور عدل کرنا کہ را ضى نہ ہو دوسروں کے لئے وہ چیز کہ جس کو وہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا_

2_ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور غمگسارى کرنا_ 3_ ہر حالت میں اللہ تعالى کا ذکر کرنا_

ذکر سے فقط سبحا ن اللہ اور لا الہ اللہ مراد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالى کا ذکر یہ ہے کہ جب کوئی واجب کام سامنے آئے تو اسے بجالائے اور جب حرام کام سامنے ائے تو اسے ترک کرے_[2]

رسولخدا نے فرمایا کہ '' تین چیزیں ایسى ہیں جو اس امت کے لئے بلند و بالا اور مشکل ہیں_ 1_ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور برابرى اور غمگساری_ 2_ اپنے آپ سے لوگوں کو انصاف دینا_ 3_ تمام حالات میں خدا کا ذکر_ یہاں ذکر سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد انسان کا خدا کو اس طرح یاد کرنا ہے کہ جب کوئی حرام کام سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترک کردے_ [3]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا کا سہو اور غفلت میں ذکر نہ کر اور اسے فراموش نہ کر_ اللہ تعالى کا کامل ذکر اس طرح کر کہ تیرا دل اور زبان ایک دوسرے کے ہمراہ ہوں تیرا باطن اور ظاہر ایکدوسرے کے مطابق ہو تو اللہ تعالى کا حقیقى ذکر سوائے اس حالت کے نہیں کرسکتا مگر تب جب کہ تو ذکر کى حالت میں اپنے نفس کو فراموش کردے اور بالاخرہ تو اپنے آپ کو نہ پائے_ [4]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جو شخص حقیقتاً اللہ تعالى کى یاد میں ہو گاہ وہ اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہوگا جو شخص اللہ سے غافل ہوگا وہ اللہ کى معصیت اور نافرمانى کرے گا_ اللہ تعالى کى اطاعت ہدایت کى علامت ہے اور اللہ تعالى کى نافرمانى گمراہى کى نشانى ہے_ ذکر اور غفلت معصیت اور اطاعت کى بنیاد میں ہے_ ''

لہذا اپنے دل کو قبلہ قرار دے اور زبان کو سوائے دل کے حکم اور عقل اور رضا الہى کى موافقت کے حرکت نہ دے کیونکہ اللہ تیرے باطن ظاہر سے آگاہ ہے اس شخص کى طرح ہو کہ جس کى روح قبض ہو رہى یا اس شخص کى طرح جو اعمال کے حساب دینے میں اللہ تعالى کے حضور کھڑا ہے_ اپنے نفس کو سوائے الہى احکام کے جو تیرے لئے بہت اہم ہیں_ یعنى اوامر اور نواہى الہى اور اس کے وعدے اور عہد کے علاوہ کسى میں مشغول نہ کر حزن اور ملال کے پانى سے اپنے دل کو دھوئے اور پاک و پاکیزہ کرے_ جب کہ خدا تجھے یاد کرتا ہے تو تو بھى خدا کو یاد کر کیونکہ خدا نے تجھے اس حالت میں یاد کیا کہ وہ تجھ سے بے نیاز ہے اسى لئے خدا کا تجھے یاد کرنا زیادہ ارزش اور قیمت رکھتا ہے اور زیادہ لذیذ اور کاملتر ہے اور تیرے یاد کرنے سے بہت پہلے ہے_

تیرى اللہ تعالى کى صفت اور اس کا ذکر تیرے لئے خضوع اور حیاء اور اس کے سامنے تواضع کا موجب ہوگا اور اس کا نتیجہ اس کے فضل اور کرم کا مشاہدہ ہے اس حالت میں اگر تیرى اطاعت زیادہ بھى ہوئی تو وہ اللہ تعالى کے عطاء کے مقابلے میں کم ہوگى لہذا اپنے اعمال کو صرف خدا کے لئے بجالا_ اگر اپنے خدا کے ذکر کرنے کو بڑا سمجھے تو یہ ریا اور خودپسندى جہالت اور لوگوں سے بداخلاقى اپنى عبادت کو بڑا قرار دینے اور اللہ تعالى کے فضل و کرم سے غفلت کا موجب ہوگا_ اس طرح کا ذکر سوائے اللہ تعالى سے دور ہونے کے اور کوئی ثمر اور نتیجہ نہیں دے گا اور زمانے کے گذرجانے سے سوائے غم اور اندوہ کے کوئی اور اثر نہیں رکھے گا_ اللہ تعالى کا ذکر دو قسم پر تقسیم ہوجاتا ہے_ ایک خالص ذکر کہ جس میں دل بھى ہمراہى کر رہا ہو_ دوسرا وہ ذکر جو غیر خدا کى یاد کى نفس کردیتا ہو جیسے کہ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تیرى مدح نہیں کرسکتا تو اس طرح ہے کہ جس طرح تو نے اپنى صفت خود بیان کى ہے_

لہذا رسول خدا نے اپنے ذکر کى کوئی وقعت اور ارزش قرار نہیں دى کیونکہ اس مطلب کى طرف متوجہ تھے کہ بندے کا خدا کے ذ کر کرنے پر اللہ تعالى کا بندے کا ذکر کرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے کمتر ہیں وہ اپنے اللہ کے ذکر کو ناچیز اور معمولى قرار دینے کے زیادہ سزاوار ہیں لہذا جو شخص اللہ تعالى کا ذکر کرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک اللہ اسے توفیق نہ دے اور خود بندے کو یاد نہ کرے وہ اللہ کے ذکر کرنے پر قدرت نہیں رکھے سکتا_[5]

جیسے کہ ملاحظہ کر رہے ہیں ان روایات میں قلبى توجہ اور باطنى حضور کو ذکر کرنے کا مصداق بتلایا گیا ہے نہ صرف قلبى خطور اور بے اثر ذہنى تصور کو بلکہ باطنى حضور جو یہ اثر دکھلائے کہ جس کى علامتوں میں سے اوامر اور نواہى الہى کى اطاعت کو علامت قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس امر کى دلیل نہیں ہے کہ لفظى اور زبانى ذکر و اذکارش لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غیرہ کے اللہ کے حقیقى ذکر کا مصداق نہیں ہیں بلکہ خود یہ کلمات بھى اللہ تعالى کے ذکر کا ایک مرتبہ اور درجہ ہیں علاوہ اس کے کہ یہ اذکار بھى قلب اور دل سے پھوٹتے ہیں_

جو شخص ان لفظى اذکار کو زبان پر جارى کرتا ہے وہ بھى دل میں گرچہ کم ہى کیوں نہ ہو خدا کى طرف توجہ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا کى طرف توجہ رکھتا تھا تب ہى تو اس نے ان اذکار کو زبان پر جارى کیا ہے_ اسلام کى نگاہ میں ان کلمات اور اذکار کا کہنا بھى مطلوب ہے اور ثواب رکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قصد قربت سے ہوں جیسے کہ ظاہرى نماز انہیں الفاظ اور حرکات کا نام ہے کہ جس کے بجالانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے گرچہ نماز کى روح قلب کا حضور اور باطنى توجہ ہے_

[1]- فیما ناجى به موسى علیه السّلام ربّه: الهى ما جزاء من ذکرک بلسانه و قلبه؟ قال: یا موسى اظلّه یوم القیامة بظلّ عرشى و اجعله فى کنفى- بحار/ ج 93 ص 156.
[2]- عن ابی عبد اللّه علیه السّلام قال: اشدّ الاعمال ثلاثة: انصاف الناس من نفسک حتى لا ترضى لها منهم بشى‏ء الّا رضیت لهم منها بمثله. و مواساتک الاخ فى المال و ذکر اللّه على کل حال، لیس سبحان اللّه، و الحمد للّه، و لا اله الّا اللّه، و اللّه اکبر فقط، و لکن اذا ورد علیک شى‏ء امر اللّه به اخذت به و اذا ورد علیک شى‏ء نهى عنه ترکته- بحار/ ج 93 ص 155.
[3]- فیما اوصى به رسول اللّه( ص) علیا: یا على! ثلاث لا تطیقها هذه الامة: المواسات للاخ فى ماله. و انصاف الناس من نفسه. و ذکر اللّه على کل حال. و لیس هو سبحان اللّه و الحمد للّه و لا اله الّا اللّه و اللّه اکبر، و لکن اذا ورد على ما یحرم علیه خاف اللّه عنده و ترکه- بحار/ ج 93 ص 151.
[4]- قال على علیه السّلام: لا تذکروا اللّه سبحانه ساهیا و لا تنسه لاهیا و اذکره ذکرا کاملا یوافق فیه قلبک لسانک و یطابق اضمارک اعلانک و لن تذکره حقیقة الذکر حتى تنسى نفسک فى ذکرک و تفقدها فى امرک- غرر الحکم/ ص 817.
[5]- قال الصادق علیه السّلام: من کان ذاکرا على الحقیقة فهو مطیع و من کان غافلا عنه فهو عاص و الطاعة علامة الهدایه و المعصیة علامة الضلالة و اصلهما من الذکر و الغفلة فاجعل قلبک قبلة و لسانک لا تحرّکه الّا باشارة القلب و موافقة العقل و رضى الایمان، فان اللّه عالم بسرّک و جهرک، و کن کالنازع روحه او کالواقف فى العرض الاکبر غیر شاغل نفسک عما عناک ممّا کلّفک به ربّک فى امره و نهیه و وعده و وعیده و لا تشغلها بدون ما کلّفک و اغسل قلبک بماء الحزن و اجعل ذکر اللّه من اجل ذکره لک فانّه ذکرک و هو غنى عنک فذکره لک اجلّ و اشهى و اتّم من ذکرک له و اسبق، و معرفتک بذکره لک یورثک الخضوع و الاستحیاء و الانکسار و یتولد من ذلک رؤیة کرمه و فضله السابق و یصغّر عند ذلک طاعاتک و ان کثرت فى جنب مننه. فتخلّص بوجهه. و رؤیتک ذکرک له تورثک الریا و العجب و السفه و الغلظة فى خلقه و استکثار الطاعة و نسیان فضله و کرمه. و ما تزداد بذلک من اللّه الّا بعدا و لا تستجلب به على مضىّ الایام الّا وحشة. و الذکر ذکران: ذکر خالص یوافقه القلب، و ذکر صارف ینفى ذکر غیره کما قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: انّى لا احصى ثناء علیک، انت کما اثنیت على نفسک فرسول اللّه لم یجعل لذکره للّه عزّ و جلّ مقدارا عند علمه بحقیقة سابقة ذکر اللّه له من قبل ذکره له. فمن دونه اولى. فمن اراد ان یذکر اللّه تعالى فلیعلم انه ما لم یذکر اللّه العبد بالتوفیق لذکره لا یقدر العبد على ذکره- بحار/ ج 93 ص 158.