پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ذكر كے مراتب

ذکر کے مراتب

ذکر کے لئے کئی ایک مراتب اور درجات ہیں کہ سب سے کمتر مرتبہ اور درجہ لفظى اور ززبانى ذکر سے شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ انقطاع کامل اور شہود اور فتا تک جا پہنچتا ہے_

 

پہلا درجہ

پہلے درجے میں چونکہ ذکر کرنے والا خدا کى طرف توجہ کرتا ہے اور قصد قربت سے خاص اور مخصوص زبان پر بغیر معانى سمجھے اور متوجہہ ہوئے جار ى کردیتا ہے_


دوسرا درجہ _

قصد قربت سے ذکر کرتا ہے اور ذکر کرنے کى حالت میں ان کے معانى کو بھى ذہن میں خطور دیتا ہے_


تیسرا درجہ

زبان قلب کى پیروى کرتى ہے اور ذکر کہتى ہے اس معنى میں کہ جب دل خدا کى طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنے باطن ذات میں ان اذکار کے معانى پر ایمان رکھتا ہے تو پھر وہ زبان کو حکم دیتا ہے کہ وہ خدا کا ذکر شروع کردے_


چوتھا درجہ

خدا کى طرف رجوع کرنے والا انسان خالق جہان کے بارے میں حضور قلبى اور توجہ کامل رکھتا ہے اور اسے حاضر اور ناظر اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے حاضر دیکھتا ہے_ خدا کى طرف رجوع کرنے والے انسان اس حالت میں درجات رکھتے ہیں اور مختلف ہوتے ہیں بعض کاملتر ہیں جتنى مقدار غیر خدا سے قطع قطع کرے گا اتنى ہى مقدار خدا سے مانوس اور اس سے علاقمند ہوگا یہاں تک کہ انقلاع کامل اور لقاء اور فتاء کى حد تک پہنچ جائیگا_ اس درجے میں خدا کى طرف رجوع کرنے والا انسان اعلى ترین درجے پر ہوتا ہے_ اس کے سامنے دنیا کے حجاب اٹھ جاتے ہیں_ اور غیر حقیقى اور مجازى علاقہ اور ربط اس نے ختم کردیئے ہوتے ہیں اور خیرات اور کمال کے مرکز سے متصل ہوجاتا ہے لہذا اس کے سامنے تمام چیزیں یہاں تک کہ وہ اپنى ذات کو کبھی چھوڑ کر خدا کى طرف رجوع کرتا ہے_ غیر خدا سے قطع روابط رکھتا ہے اور صرف ذات الہى سے اپنى محبت کو مختص کردیتا ہے_ سوائے خدا کے اور کوئی کمال نہیں دیکھتا تا کہ اس سے دل کو لگائے اور وابستہ کرے کسى کو مونس نہیں دیکھتا تا کہ اس سے انس اور محبت کرے_ اس طرح کے خاص بندوں نے عظمت اور جلال و کمال او رخیر اور نور و ایمان کے سرچشمہ کو پالیا ہوتا ہے اور اپنى باطنى آنکھ سے جمال الہى کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں_ یہاں تک کہ ایک لحظہ بھى وہ دنیا کى مجازى چیزوں کى طرف متوجہ نہیں ہوتے اور انہیں ا پنا دل نہیں دیتے چونکہ وہ کمالات کے منبع تک پہنچ چکے ہیں لہذا ان کى نگاہ میں مجازى اور عارضى کمالات کوئی حیثیت نہیں رکھتے وہ اللہ تعالى کے لقاء اور عشق اور محبت میں جلتے رہتے ہیں اور خدا سے انس اور محبت کى لذت کو دنیاوى چیزوں سے تبادلہ نہیں کرتے اور اگر جہاں کى ظاہرى چیزوں کو بھى دیکھتے ہیں تو اس میں بھى نو رجمال الہى اور وجود کامل کى نشانى اور علامت کا عکس مشاہدہ کرتے ہیں_ [1]

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' کس طرح تیرے وجود کے ثابت کرنے کے لئے اس چیز سے استدلال کیا جائے کہ جو وہ خود تیرى محتاج ہے؟ کیا تیرے غیر کے لئے ظہور ہے جو تیرى ذلت کے لئے موجود نہیں ہے تا کہ تو اس کے ظہور کے ذریعے ظاہر کیا جائے؟ کب تو دور تھا تا کہ آثار اور علائم تیرے تک پہنچنے کے اسباب بن سکیں؟ وہ آنکھ اندھى ہے جو تجھے اپنا مراقب اور مشاہدہ کرنے والا نہیں دیکھتی؟ کتنا نقصان میں ہے وہ بندہ کہ جسے تو نے اپنى محبت سے کچھ حصہ نہیں دیا؟_[2]

امیرالمومنین علیہ السلام شعبانیہ مناجات میں فرماتے ہیں_ '' اے خدا پورى طرح اپنے میں غرق اور کامل ہونے کو مجھے عطا کر اور میرے دل کى آنکھوں کو اپنے جمال کے نور کے مشاہدہ کرنے کا نور عطا فرما تا کہ میرے دل کى آنکھیں نور کے حجاب کو پار کر کے تیرى عظمت تک پہنچ جائیں اور ہمارى روحیں تیرے مقام قدس سے جا وصل ہوں_[3]

 

امام زین العابدین علیہ السلام اس طرح کے خاص بندوں کے حق میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

'' خدایا تیر ى ثناء اور تعریف جو تیرے لائق اور سزاوار ہے زبان سے بیان کرنے میں وہ تیرے بندے عاجز ہیں تیرى ذات کے جمال حقیقت تک پہنچنے سے وہ عاجز ہیں_ تیرے جمال کے انوار کو دیکھنے کى آنکھیں قدرت نہیں رکھتى _ تو اپنے بندوں کے لئے تیرى معرفت کے مقام تک پہنچنے کے لئے سوائے عجز کے اظہار کے اور کچھ نہیں رکھا_ خدایا ہمیں ان بندوں سے قرار دے کہ تیرے لقاء کے شوق کا پودا جن کے دلوں میں بویا گیا ہے_ اور محبت کى آتش نے ان کى دلوں کو گھیر رکھا ہے لہذا وہ عالى افکار کے آشیانہ میں اترتے ہیں اور مقام قرب و شہود الہى کے باغات سے نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور محبت کے چشمے سے لطف و کرم کے جام پیتے ہیں_ صفا اور محبت اور مودت کے چشمہ میں وارد ہوتے ہیں_ ان کے دل کى آنکھوں سے پردہ اٹھ گیا ہے اور عقائد میں شک و تردید اور تاریکى ان کے دلوں سے دور ہوگئی ہے اور ان کے دلوں میں شک کا گذر زائل ہوچکا ہے_ تحقیق کے ذریعے ان کے دلوں کى معرفت نے وسعت پیدا کرلى ہے_ اور زہد کى دوڑ لگانے میں ان کى ہمت بلند ہوچکى ہے_ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے میں پسندیدہ خاطر ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ انس کى مجلس میں پاکیزہ باطن رکھتے ہیں اور خوف کے مقامات میں امن اور آرام کا راستہ موجود پاتے ہیں اور اپنے پروردگار کى طرف رجوع کرنے میں مطمئن نفس رکھتے ہیں_ سعادت اور نجات کے راستے میں یقین کے مرتبہ تک پہنچے ہوئے ہیں_ محبوب کے مشاہدہ کرنے میں ان کى آنکھیں روشن ہیں اور اس کے پانے میں کہ جس کى امید کرتے باطنى آرام اور اطمینان رکھتے ہیں_ دنیا کے معاملات میں آخرت کے لئے فائدہ حاصل کیا_ اے خدا_ تیرے ذکر کے الہام کے تصورات دلوں پر کتنے لذت آور ہوتے ہیں_ اور تیرى طرف غیب کے تفکر کے ذریعے آنے میں کتنا مٹھاس اور شرینى ہے_ اور تیرى محبت کا طعام کتنا مزے دار ہے_ اور تیرے قرب کا پانى کتنا لذیذ اور خوشگوار ہے_ ہمیں دور کرنے او رنکال دیئےانے سے پناہ دے اور ہمیں مخصوص تر عارف اور اپنے بندوں میں صالح ترین بندہ اور اطاعت کرنے میں صادق ترین اور عبادت کرنے والوں میں خالص ترین عبادت کرنے والا قرار دے_ اے بزرگتر اور عظیم اور کریم اور احسان کرنے والا خدا_ تجھے تیرى عطا اور رحمت کى قسم_ اے ارحم الرحمین_'' [4]

خلاصہ چوتھا مرتبہ اور مقام بہت ہى عالى اور بلند و بالا ہے اور پھر اس کے کئی ایک درجات اور مراتب ہیں جو ذات مقدس واجب الوجود اور کمال و جمال غیر متناہى تک جاتے ہیں_ اہل اللہ اور عارفین کى اصطلاح میں ان کے مختلف نام ہیں جیسے مقام ذکر مقام انس مقام انقطاع مقام محبت، مقام شوق، مقام رضا، مقام خوف، مقام شہود، مقام عین الیقین، مقام حق الیقین، اور آخرى مقام جسے مقام فنا نام دیتے ہیں یہ تعبیرات اکثر آیات اور احادیث سے لى گئی ہیں او رہر ایک نام کى کچھ نہ کچھ مناسبت بھى ہے_

جب عارف اور عبادت گذار واجب الوجود ذات الہى کے جمال اور عظمت غیر متناہى کى طرف توجہ کرے اور اس کى محبت اور فیوضات کو سامنے رکھے اور اپنى تقصیر اور ناتوانى اور مقام اعلى تک نہ پہنچنے کى مسافت سے دور ہونے کا احساس کرے تو پھر اس کے دل میں شوق اور عشق سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے تو اس کیفیت اور مقام کا نام شوق کا مقام دیا جاتا ہے_ جب کمالات کے درجات اور مقامات پر کوئی پہنچ جائے تو وہ انہیں درجات اور معلومات سے انس کرنے لگتا ہے اور خوش اور شاد ہوجاتا ہے تو اسى مناسبت سے اس درجے اور رتبے کو مقام انس سے تعبیر کرتے ہیں اور جب عظمت اور کمال غیر متناہى ذات الہى کى طرف توجہ کرے اور اس عظمت کے مقام کے پانے میں اپنى کمزورى اور عجز اور قصور پر مطلع اور واقف ہو تو اس کا دل لرزتا او ردکھتا ہے اس کے تمام وجود پر خوف اور ڈر چھاجاتا ہے تو پھر وہ گریہ و زارى کرنے لگتا ہے تو اسى مناسبت سے اس حالت کا نام مقام خوف رکھ دیا جاتا ہے_ اسى طرح باقى تمام مقامات کسى نہ کسى انسان کى کیفیت اور حالت کى مناسبت سے رکھے جاتے ہیں_ بہتر یہى ہے کہ یہ ناچیز بندہ جو یہ کتاب لکھ رہا ہے او رجو خواہشات نفس اور مادى تاریکیوں اور ظلمات کا قیدی_ مقامات معنوى کے حاصل کرنے سے محروم ہے اس بحر بیکراں میں وارد نہ ہو اور ان مقامات عالیہ کى شرح اور توضح انہیں لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو اس کى قابلیت اور اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ جس نے محبت اور انس اور لقاء اللہ کا ذائقہ ہى نہ چکا ہو وہ ان مقامات عالیہ کى توضیح اور تشریح سے عاجز اور ناتوان ہوگا_ نیکوں کو دوست رکھتا ہوں اگر چہ انہیں سے نہیں ہوں_

خدایا ہمیں اپنے ذکر کى حلاوت عنایت فرما اور ہمیں حالات چکھنے والے افراد سے قرار دے یہاں بہتر ہوگا کہ جو اس کے اہل تھے ان کى بات اور گفتگو کو نقل کیا جائے_ عارف ربانى فیلسوف عالى ملاصدرا شیرازى لکھتے ہیں_ اگر کسى بندے پر اللہ تعالى کى رحمت کے سائے پڑ جائیں تو وہ خواب غفلت اور جہالت سے بیدار ہوجاتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اس محسوس جہان کے علاوہ بھى کوئی دوسرا جہان ہے_ حیوانى لذت سے اعلى اور بھى لذات ہیں تو اس حالت میں وہ باطل اور بے ارزش امور سے روگردانى کرلیتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے اللہ تعالى سے توبہ کرتا ہے پھر اللہ تعالى کى آیات اور نشانیوں میں فکر اور غور شروع کردیتا ہے اور مواعظ الہى کو سنتا ہے اور پیغمبر اکرم کى احادیث میں غور کرتا ہے اور شرعیت کے مطابق عمل کرتا ہے اور آخرت کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دنیا کے لغویات اور فضولیات جیسے جاہ و جلال مقام و منصب مال اور متاع سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اگر اس سے زیادہ اللہ کى رحمت اس کے شامل حال ہوجائے تو حتمى ارادہ کرلیتا ہے کہ غیر خدا سے چشم پوشى کرے اور اللہ تعالى کى جانب حرکت کرے اور خواہش نفس کے مقام کو چھوڑ کر اللہ تعالى کى طرف حرکت کرے اس حالت میں اس پر اللہ تعالى کے انوار ملکوتى ظاہر ہو جاتے ہیں او رعالم غیب کا دروازہ اس کے لئے کھل جاتا ہے اور عالم قدس کے صفحات آہستہ آہستہ اس کے لئے آشکار ہوجاتے ہیں اور غیبى امور کى مثالى صورت میں مشاہدہ کرتا ہے جب وہ امور غیبى کے مشاہدے کى لذت کو چکھ لے تو پھر خلوت او ر دائمى ذکر کرنے سے علاقمند ہوجاتا ہے اس کا دل حسى مشاغل سے خالى ہوجاتا ہے اور تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالى کى طرف توجہ پیدا کرلیتا ہے_ اس حالت میں اس پر علوم لدنى آہستہ آہستہ اترنے لگتے ہیں اور معنوى انوار کبھى کبھى اس کے لئے ظاہر ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ کامل تمکن اور تحقق حاصل کرلیتا ہے_ تلون مزاجى اور تغیر دور ہو جاتى ہے اور آرام اور سکون اس پر نازل ہوجاتا ہے اس حالت میں وہ عالم جبروت میں وارد ہوجاتا ہے اور عقول مفارقہ کا مشاہدہ کرتا ہے او ران کے انوار سے نورانى ہوجاتا ہے اور اس کے لئے قدرت اور سلطان الہى اور عظمت اور کبریاء کا نور آشکار ہوجاتا ہے اور اس کى انانیت اور وجود کو متلاشى اور ھباء منشوارا کردیتا ہے اور ذات احدیت کى عظمت اور قدرت کے سامنے ساقط ہوجاتا ہے اس حالت اور مقام کو مقام احدیت کہا جاتا ہے اور اغیار سالک کى نگاہ میں مستہلک ہوجاتے ہیں اور لمن الملک الیوم الواحد القہار کى آواز کوسنتا ہے_ [5]

عارف ربانى ملا فیض کاشانى لکھتے ہیں کہ خدائی محبت اور اس کى تقویت اور رویت خدا اور اس کے لقاء کے لئے اسباب مہیا کرنے کا طریقہ معرفت اور اس کو تقویت دینا ہوا کرتا ہے_ معرفت حاصل کرنے کا طریقہ قلب کو دنیاوى علائق اور مشاغل اور کامل طور پر انقطاع الى اللہ کا وسیلہ اور ذریعہ صرف ذکر اور فکر اور غیر خدا کى محبت کو دل سے نکالنا ہے_ کیونکہ دل ایک برتن کى مانند ہے_ اگر برتن پانى سے بھرا ہوا ہو تو پھر اس میں سرکہ ڈالنے کى گنجائشے نہیں ہوتى پانى کو برتن سے خالى کیا جائے تا کہ اس میں سرکہ ڈالا جاسکے_ خداوند کریم نے کسى کے لئے دو دل پیدا نہیں کئے کامل محبت یوں ہوگى کہ سارے دل میں خدا کو دوست رکھے جب غیر خدا کى طرف توجہ رکھے گا تو دل کا کچھ حصہ غیر خدا میں مشغول ہوگا پس انسان جتنا غیر خدا کے ساتھ مشغول رہے گا اتنى مقدار خدا کى محبت میں کمى واقع ہوگى مگر غیر خدا کى طرف توجہ اس نیت سے ہو کہ وہ بھى خدا کى مخلوق اور خدا کا فعل ہے اور ہ اللہ تعالى کے اسماء اور صفات کا مظہر ہے_ خدا نے قرآن مجید میں اسى مطلب کى طرف اشارہ کیا ہے قل اللہ ثم ذرہم یہ حالت شوق کے غلبہ سے حاصل ہوتى ہے بایں معنى کہ انسان کو شش کر ے کہ جو کچھ اس کے لئے آشکار ہوا ہے اس سے زیادہ آشکار ہو اور اس کى طرف جو اسے ابھى تک حاصل نہیں ہوا ہے شوق پیدا کرے کیونکہ شوق اس چیز سے متعلق ہوتا ہے کہ کوئی چیز کچھ آشکار ہو اور کچھ آشکا رنہ ہو ہمیشہ ان دو میں رہے گا کہ جس کى کوئی انتہا نہیں ہے اس واسطے کہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہیں ان کى کوئی انتہا نہیں ہے اس واسطے کہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہیں ان کى کوئی انتہا نہیں ہے اسى طرح خدا کے کمال اور جمال جو باقى ہیں ان کى زیادتى کا کوئی کنارہ نہیں_ بلکہ وصال کے حاصل ہوجانے سے وہ لذت بخش شوق کا احساس کرتا ہے کہ جس میں کوئی الم اور درد نہیں ہوا کرتا پس شوق کبھى بھى ختم نہیں ہوتا بالخصوص جب بہت سے بالا درجا کو مشاہدہ کرتا ہے_ یسعى نورہم بین ایدیہم و بایمانہم یقولون ربنا اتمم لنا نورنا_ [6]


[1]- سئل امیر المؤمنین علیه السّلام: هل رأیت ربک حین عبدته؟ فقال: ویلک ما کنت اعبد ربا لم اره. قیل: و کیف رأیته؟ قال: ویلک لا تدرکه العیون فى مشاهدة الابصار و لکن رأته القلوب بحقائق الایمان- حقائق فیض/ ص 179.
[2]- قال حسین بن على علیه السّلام: کیف یستدل علیک بما هو فى وجوده مفتقر الیک؟ ایکون لغیرک من الظهور ما لیس لک؟ حتى یکون هو المظهر لک. متى غبت حتى تحتاج الى دلیل یدل علیک؟ و متى بعدت حتى تکون الآثار هى التى توصل الیک؟ عمیت عین لا تراک علیها رقیبا و خسرت صفقة عبد لم تجعل له من حبک نصیبا- اقبال الاعمال/ دعاء عرفه.
[3]- الهى هب لى کمال الانقطاع الیک و انر ابصار قلوبنا بضیاء نظرها الیک حتى تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل الى معدن العظمة و تصیر ارواحنا معلّقة بعزّ قدسک- اقبال الاعمال/ مناجات شعبانیه.
[4]- قال على بن الحسین علیه السّلام: بسم اللّه الرحمان الرحیم. الهى قصرت الالسن عن بلوغ ثنائک کما یلیق بجلالک و عجزت العقول عن ادراک کنه جمالک و انحسرت الابصار دون النظر الى سبحات وجهک و لم تجعل للخلق طریقا الى معرفتک الّا بالعجز عن معرفتک. الهى-- فاجعلنا من الذین ترسّخت اشجار الشوق الیک فى حدائق صدورهم و اخذت لوعة محبتک بمجامع قلوبهم فهم الى اوکار الافکار یأوون و فى ریاض القرب و المکاشفة یرتعون و من حیاض المحبة بکاس الملاطفة یکرعون و شرایع المصافات یردون. قد کشف الغطاء عن ابصارهم و انجلت ظلمة الریب عن عقائدهم و ضمائرهم و انتفت مخالجة الشک عن قلوبهم و سرائرهم و انشرحت بتحقیق المعرفة صدورهم و علت لسبق السعادة فى الزهاة هممهم و عذب فى معین المعاملة شربهم و طاب فى مجلس الانس سرهم و امن فى موطن المخافة سربهم و اطمأنت بالرجوع الى ربّ الارباب انفسهم و تیقنت بالفوز و الفلاح ارواحهم و قرّت بالنظر الى محبوبهم اعینهم و اسقرّ بادراک السؤل و نیل المأمول قرارهم و ربحت فى بیع الدنیا بالاخرة تجارتهم. الهى ما الذّ خواطر الالهام بذکرک على القلوب و ما احلى المسیر الیک بالاوهام فى مسالک الغیوب و ما اطیب طعم حبّک و ما اعذب شرب قربک فاعذنا من طردک و ابعادک و اجعلنا من اخص عارفیک و اصلح عبادک و اصدق طائعیک و اخص عبّادک یا عظیم یا جلیل یا کریم یا منیل! برحمتک و منّک یا ارحم الراحمین- بحار/ ج 94 ص 150، مناجات العارفین.
[5]- مفاتیح الغیب/ ص 54.
[6]- حقائق/ ص 181.