پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

امير المومنين(ع) كا حكم

امیر المومنین(ع) کا حکم

نوف کہتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ جلدى سے جا رہے تھے_ میں نے عرض کى _ اے مولای_ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے نوف مجھے میرى حالت پر چھوڑ دے کیونکہ میرى آرزو او رتمنا مجھے اپنے محبوب کى طرف لے جا رہى ہے _ میں نے عرض کى _ اے میرى مولا_ آپ کى آرزو کیا ہے؟ آپ نے فرمایا_ وہ ذات جو میرى آرزو کو جانے وہ جانتى ہے کہ میرى آرزو کیا ہے اور دوسروں کو اس آرزو کے بیان کرنے کى ضرورت نہیں ہے ؟ ادب کا تقاضا یہى ہے کہ خدا کا بندہ اللہ تعالى کى نعمتوں اور حاجات میں کسى دوسرے کو شریک قرار نہ دے_

میں نے عرض کی_ یا امیرالمومنین میں خواہشات نفس اور دنیاوى امور کى طمع سے اپنے اوپر ڈرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کیوں اس ذات سے جو خوف کرنے والوں اور عارفین کى حفاظت کرنے والى ہے سے غافل ہو؟ میں نے عرض کى کہ اس ذات کى مجھے نشاندہى فرمایئےآپ نے فرمایا کہ وہ خداوند عالم ہے کہ جس کے فضل اور کرم سے تو اپنى آرزو کو حاصل کرتا ہے_ تو ہمت کر کے اس کى طرف متوجہ رہ اور جو کچھ دل پر خیالات آتے ہیں انہیں باہر نکال دے اور اگر پھر تجھ پر یہ کام دشوار ہوا تو میں اس کا ضامن ہوں _ خدا کى طرف لوٹنے جا اور اپنى تمام توجہہ خدا کى طرف کر خداوند عالم فرماتا ہے کہ مجھے اپنى ذات اور جلال کى قسم کہ اس کى امید جو میرے سوا کسى دوسرے سے امید رکھتا ہو قطع کر دیتا ہوں اور اسے ذلت اور خوارى کا لباس پہناتا ہوں اور اپنے قرب سے دور کر دیتا ہوں اور اس کا اپنے سے ربط توڑ دیتا ہوں اور اس کى یاد کو مخفى رکھتا ہوں_ ویل اور پھٹکار ہو اس پر کہ جو مشکلات میں میرے سوا کسى دوسرے سے پناہ لیتا ہے جب کہ تمام مشکلات کا حل کرنا میرے ہاتھ میں ہے_ کیا وہ میرے غیر سے امید رکھتا ہے جب کہ میں زندہ اور باقى ہوں_ کیا مشکلات کے حل کرنے میں میرے بندوں کے دروازے پر جاتا ہے جب کہ ان کا دروازہ بند ہے_ کیا میرے دروازہ کو چھوڑ رہا ہے جب کہ وہ کھلا ہوا ہے؟ کس نے مجھ سے امید رکھى ہو اور میں نے اسے نا امید کیا ہو؟

میں نے اپنے بندوں کى امیدوں کو اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اور میں ان کى ان میں حفاظت کرتا ہوں میں نے آسمان کو ان سے پر کردیا ہے جو میرى تسبیح کرنے سے تھکتے نہیں ہیں اور فرشتوں سے کہہ رکھا ہے کہ کسى وقت بھى میرے اور میرے بندوں کے درمیاں دروازہ بند نہ کریں_ جب کسى کو مشکل پیش آئے کیا وہ نہیں جانتا کہ میرى اجازت کے بغیر کوئی بھى اس کى مشکل کو حل نہیں کر سکتا؟ کیوں بندہ اپنى ضرورات میں میرى طرف رجوع نہیں کرتا جب کہ میں اسے وہ دیتا ہوں کہ جسے اس نے چاہا بھى نہیں ہوتا کیوں مجھ سے سوال نہیں کرتا اور میرے غیر سے سوال کرتا ہے؟ کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ بغیر سوال کئے تو میں بندے کو دیتا ہوں اور جب وہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے نہیں دونگا؟ کیا میں بخیل ہوں کیا بندہ مجھے بخیل جانتا ہے؟ کیا دنیا اور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا جو داور سخا میرى صفت نہیں ہے؟ کیا فضل اور رحمت میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ کیا تمام آرزوئیں میرے پاس نہیں آتیں؟ کون ہے جو انہیں قطع کرے گا؟ مجھے اپنى عزت اور جلال کى قسم اگر تمام لوگوں کى خواہشات اور آرزوں کو زمین پر اکٹھا کردیں اور ہر ایک کو ان تمام کے برابر بھى دے دوں تو ذرہ بھر میرے ملک میں کمى واقع نہ ہوگی_ جو کچھ میرى طرف سے دیا جاتا ہے وہ کس طرح نقصان والا ہوگا؟ کتنا بیچارہ اور فقیر ہے وہ شخص کہ جو میرى رحمت سے نامید ہے؟ کتنا بیچارہ ہے وہ شخص جو میرى نافرمانى کرتا ہے اور حرام کاموں کو بجا لاتا ہے اور میرى عزت کى حفاظت نہیں کرتا اور طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف طغیان کرتا ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے بعد نوف سے فرمایا کہ اے نوف یہ دعا پڑھنا_

''الہى ان حمدتک فبموا ہبک، و ان مجدتک فبمرادک و ان قدستک فبقوتک و ان ہللتک فبقدرتک، و ان نظرت فالى رحمتک، و ان غضصت فعلى یعقتک، الى انہ من لم یشغلہ الو لوع بذکرک، و لم یزوہ السفر بقربک، کانت حیاتہ علیہ میتتہ علیہ حسرة، الہى تناہت ابصارت رددون ما یریدون، ہتکت بینک و بینہم حجت الغفلتہ ، فسکنوا فى نورک، تنقسؤا بروحک، فصارت قلوبہم مغارسا لہییتک و ابصارہم معا کفا لقدرتک و قربت ازواجہم من قدسک، فجالسؤا اسقک بوقار المجالستہ، و خضوع المخاطبتہ، فاقبلت الیہم اقبال الشفیق، انصت لہم انصات الرفیق، واجبتہم اجابات الاحباء و انا جیتہم مناجاة الاخلائ، فبلغ بى المحل الذى الیہ و صلوا، و انقلیى من ذکرى الى ذکرک، و لا تترک بینى و بین ملکوت عزک بابا الافتحتہ، و لا حجابا من حجب الغفلتہ الا ہتکتہ حتى تقیم روحى بین ضیاء عرشک، و تجقل لہا مقاما نص نورک انک على کل شى قدیر_

الہى ما اوحش طریقا لا یکون رفیقى فیہ املى فیک ، و ابعد سفر الا یکون رجائی عنہ دلیلى منک، خاب من اعتصم بحبل غیرک، وضعف رکن من استند الى غیر رکنک، فیا معلم موملیہ الامل فیذہب عنہم کابتہ الوجل، یا تخرمنى صالح العمل، و اکلاء نى کلاة من فیارقتہ الحیل، فکیف یلحق موملیک ذل الفقر و انت الغنی، عن مضار المذنبین، الہى و ان کل حلاوة منقطعتہ، و حلاوة الایمان تزداد حلاوتہا اتصالا بک، الہى و ان قلبى قد بسط املہ فیک، فاذقہ من حلاوة بسطل ایاہ البلوغ لما امل، انک على کل شیء قدیر_

الہى اسئلک مسئلتہ من یعرفک کنتہ معرفتک من کل خیر ینتبغى للمومن ان یسلکہ، و اعوذ بک من کل شر و فتنتہ اعذت بہا احباء ک خلقک، انک على کل شیء قدیر_

الهی اسئلک مسئلته من یعرفک کنته معرفتک من کل خیر ینتبغی للمومن ان یسلکه و اعوذ بک من کل شر و فتنته اعذت بها احیاءک خلقک ، انک علی کل شیء قدیر -

الہى اسئلک مسلتہ المسکین الذى قد تحیر فى رجاہ، فلا یجد ملجا و لا مسنداً یصل بہ الیک، و لا یستدل بہ علیک الا بک و باز کانک و مقامتک التى لا تعطیل لہا مسنک، فاسئلک باسمک الذى طہرت بہ لخاصتہ اولیائک، فوحدوک، و اعرفوک فعبدوک بحقیقک ان تعرفنى نفسک لا قرلک بربوبیتک على حقیقتہ الایمان بک و لا تجعلنى یا الہى من یعبد الاسم دون المعنی و الحظنى بالحظتہ من لحظاتک تنوربہا قلبى بمعرفتک خاصتہ و معرفتہ اولیائک انک على کل شیء قدیر_[1]

 

[1]- بحار/ ج 94 ص 94.