پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 11 قيامت كا خوف خدا كے شائستہ بندوں كى ايك صفت

 قیامت کا خوف
خدا کے شائستہ بندوں کى ایک صفت

خدا کے شائستہ بندوں کے متعلق حضرت على (ع) فرماتے ہیں کہ:

خداوند عالم نے اپنى یاد کو دلوں کے منور ہونے کا سبب قرار دیا ہے یاد خدا دلوں کوسماعت بخشتى ہے، خدا کى یاد تاریک و مردہ اور افسردہ دلوں کوروشن، بینا اور زندہ کرتى ہے، خدا کى یاد سرکش اور گنہکار دلوں کو خدا کى بندگى اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانے کا سبق دیتى ہے_

ہر دور میں خدا کے ایسے منتخب بندے ہوتے ہیں جو خدا کى یاد میں مشغول رہتے ہیں اور اس سے مناجات کرتے ہیں اور دل کى گہرائیوں سے اس سے راز و نیاز کرتے ہیں_

خدا کى یاد سے ان کى دلوں میں بیدارى اور آگاہى کا نور چمکتا ہے_ ان کى آنکھ، کان اوردل اس سے منور ہوجاتے ہیں_

خدا کے یہ منتخب بندے لوگوں کو ''ایام اللہ'' کى یاد دلاتے ہیں اور اس کے ارفع و اعلى مقام سے ڈراتے ہیں_ یہ باخبر رہنما بھولے بھنکے ہوؤں کو ہدایت دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں_ جو بھى میانہ روى اور صحیح راستہ اختیار کرے اس کى حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے نجات کى خوش خبرى دیتے ہیں_ جوکجروى اختیار کرے اس کى مذمّت کرتے ہیں اور ہلاکت و تباہى سے ڈراتے ہیں_

یہ لائق احترام اور یاد خدا میں مشغول رہنے والے بندے اندھیروں کا اجالا اور گم کردہ راہوں کے رہنما ہوتے ہیں_

جى ہاں اس قسم کے شائستہ لوگوں نے دنیا کى محبت کى جگہ اللہ کى یاد کو اپنے دل میں جگہ دى ہے_ دنیاوى کام کاج اورتجارت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتے_

وہ اس عمدہ سامان سفر سے اپنى زندگى کا سفر طے کرتے ہیں اور راہ طے کرتے وقت غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرتے اور انہیں گناہوں سے روکتے ہیں_ لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور خود بھى عدل و انصاف کے مطابق سلوک کرتے ہیں_ لوگوں کو برے کاموں اورمنکرات سے منع کرتے ہیں اور خود بھى برے کاموں کى طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے_

گویا وہ راہ دنیا طے کر کے آخرت تک پہنچ چکے ہیںاوروہاں سکونت اختیار کر کے ماوراء دنیا کا مشاہدہ کر رہے ہیں_ قیامت کے وعدے انکے لئے ثابت ہوچکے،وہ لوگوں کے لئے ان حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہیں اورقیامت وبرزخ کے حالات کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں_

 اس طرح کہ جیسے اس عالم کى جن چیزوں کا مشاہدہ وہ کر رہے ہیں لوگوں کى نگاہیں انھیں نہیں دیکھ پاتیں اور جن صداؤں کویہ سنتے ہیں لوگ نہیں سن پاتے_

اے کاش

تم اپنے ذہن میں ان کے بلند مرتبہ اورروحانیت کو دیکھ پکاتے اور ان کے مقام محمود کا مشاہدہ کر تے_ گویا انہوں نے اپنے اعمال ناموں کو اپنے سامنے کھول رکھا ہے_ اوراپنے نفس کے (محاسبہ میں) اورچھوٹى بڑى کوتاہیوں اور خطاؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں_

خدا کے عذاب کے خوف سے آہ و فغان اور گریہ و زارى کر رہے ہیں_ اپنى خطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے ندامت اورپشیمانى کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے رب سے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں_

اگر ان منتخب بندگان خدا کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہدایت کے پرچم اور روشنى پھیلانے والے چراغ نظر آئیں گے کہ جن کے ارد گرد اللہ کى رحمت کے فرشتوں نے احاط کر رکھا ہے، آسمان کے دروازے ان پرکھلے ہوئے ہیں اورفرشتے آرام واطمینان سے ان پر نازل ہوتے ہیں_

ان کے لئے امن و کرامت کے مقامات تیار کئے گئے ہیں_ اس امن کے مقام ہیںکہ جہاں خدا ان سے آگاہ، ان کى سعى وکوشش سے راضى اور ان کى راہ و رسم سے خوش ہے_

یہ بندے اپنى مناجات کے ذریعہ نسیم رحمت اورپروردگار عالم کى بخشش کو جوش میں لاتے ہیں_ ان کے دل اللہ تعالى کے فضل و کرم کے گرویدہ اور اللہ کى عظمت و بزرگى کے سامنے خاضع اور خاکسار ہوتے ہیں_

آخرت کے عذاب کے خوف سے ان کے دل زخمى اور شکستہ ہیں اور خوف خدا کے سبب کیے جانے والے طویل گریہ سے ان کى آنکھیں آزردہ اور خستہ ہوچکى ہیں ...

(نہج البلاغہ سے ایک اقتباس)

امیرالمومنین علیہ السلام کہ جو خود خدا کے شائستہ بندوں میں سے ہیں خدا کے صالح اور شائستہ بندوں کے اس طرح قیامت سے خوفزدہ ہونے کى صفت کا تذکرتے ہیں_ کتنا اچھا ہو کہ حضرت على (ع) کے قول کے ساتھ ساتھ ان کے عمل میں بھى خدا کے شائستہ بندوں کى نشانیوں کو دیکھیں_

امام(ع) کے دو نہایت نزدیکى اصحاب سے امام(ع) کى مناجات کى کیفیت ان کى آہ و زاری، پر سوز نالوں اور قیامت کے خوف کے متعلق سنیں_

حبّہ عرفى اور نوف بکالى کہتے ہیں:

ایک دن ہم دارالامارة کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ آدھى رات کو ایک دردناک آواز نے ہمیں بیدار کردیا_ یہ ہمارے مولا امیرالمومنین (ع) کى آواز تھی_ آپ نے ایک دیوار سے نیک لگائی تھی_ پھر آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چلنے لگے_ ستاروں سے پر آسمان کودیکھتے اور تھوڑى دیر ٹھہرجاتے اور اچانک رونے کى آواز بلند کرتے اور آنسو بہاتے اور پر درد ودلگدار لہجے میں ان آیات کى تلاوت فرماتے تھے:

یقینا زمین و آسمان کى خلقت اور دن و رات کى منظم گردش میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں موجود ہیں، وہ عقلمند کہ جو خدا کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں چاہے بیٹھے چاہے کھڑے اور چاہے پہلو پر بستہ ہیں لیٹے ہوئے ہوں زمین و آسمان کى خلقت پر غور و خوض کرتے ہیں_

اے پروردگار تو نے اس عظیم کارخانہ کو بے کار و بے مقصد خلق نہیں کیا ہے تو عیب سے پاک ہے بس تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا

پروردگار یقینا جس کو تونے آگ میں داخل کردیا ضرور اسے رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اے ہمارے رب ہم نے سنا ہے کہ ایک منادى ندا کرتا تھا ایمان کے لئے کہ ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لے آئے_ اے ہمارے رب پس بخش دے ہمارے گناہوں کو اور دور کردے

ہم سے ہمارى بدیوں کو اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ موت دے_

اسے پروردگار جو کچھ تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا کر اور ہم کو روز قیامت رسوا نہ کرنا_ یقینا تووعدہ خلافى نہیں کرتا_''

(سورہ آل عمران 3_ آیت 19 تا 194)

امیرالمومنین علیہ السلام بار بار ان آیات کى تلاوت کر رہے ہے تھے اشک بہاتے تھے اور ہاتھ آسمان کى طرف اٹھا کر مناجات اورراز و نیاز کرتے تھے حبّہ کہتا ہے:

میں حیرت زدہ اپنے مولا کى حالت کو دیکھ رہا تھا کہ آپ(ع) میرے بستر کے نزدیک آئے اور فرمایا:

''حبّہ سوئے ہوئے ہو یا جاگ رہے ہو؟''

میں نے عرض کى :

مولا،اے امیرالمومنین علیہ السلام جاگ رہا ہوں جب آپ(ع) ، خدا کے خوف سے اس قدر لرزاں اور نالہ کناں ہیں تو افسوس ہم بے چاروں کى حالت پر:

امیرالمومنین علیہ السلام کچھ دیر سرجھکا کر روتے رہے پھر فرمایا:

اے حبّہ ایک دن سب خدا کے سامنے اپنا حساب دینے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے_ خدا اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور کوئی چیز اس سے چھپى ہوئی نہیں ہے_ وہ ہمارى شہ رگ سے بھى زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور کوئی چیز ہمارے اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہوسکتى اس کے بعد نوف کے بستر کے پاس گئے اور فرمایا:

اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟

نوف جو کہ امیرالمومنین (ع) کى حالت کو دیکھ کر رو رہے تھے بولے:

''یا على (ع) جاگ رہا ہوں اور آپ کى اس روحانى حالت کو دیکھ کر گریہ کر رہا ہوں_''

امیرالمومنین (ع) نے فرمایا:

اے نوف اگر آج خوف خدا سے اشک بہاؤ گے تو قیامت میں تمہارى آنکھیں روشن ہوں گى _ تمہارى آنکھوں سے گرا ہوا آنسو کا ہر قطرہ آتش جہنّم کو بجھادے گا_ جو انسان اللہ کے خوف سے ڈرے، گریہ کرے اور اس کى دوستى خدا کے لئے ہو تو بہشت میں اس کا درجہ سب سے بلند و بالا ہوگا_

اے نوف جو شخص خدا کو دوست رکھتا ہو اور جسے بھى دوست رکھتا ہو خدا کے لئے ہو، کبھى بھى خدا کى دوستى پر کسى اور کى دوستى کو ترجیح نہیں دے گا جو شخص جس سے بھى دشمنى رکھتا ہو خدا کیلئے ہو اس دشمنى سے خیر و خوبى کے علاوہ کچھ اور نہ پہنچے گا_

اے نوف جس وقت تم اپنى دوستى اور دشمنى میں اس درجہ پر پہنچو کمال ایمان پر پہنچو گے_ خدا سے ڈورکہ میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں'' یہ کہہ کہ امام (ع) ہم سے دور چلے گئے_ اور خدا سے مناجات شروع کردى اشک بہاتے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ اس دعا کى تلاوت کرتے تھے_

پروردگار اے کاش مجھے علم ہوتاکہ جس وقت میں تجھ سے غافل ہوں تو مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور منھ پھیر لیتا ہے یا پھر بھى مجھ پہ لطف و کرم رکھتا ہے؟ اے کاش مجھے علم ہوتا کہ میرى طویل نیند، سستى و کوتاہى کے سبب میرى حالت تیرے نزدیک کیسى ہے

اس رات امیرالمومنین (ع) تمام رات جاگتے رہے اور اپنے خالق سے ر از و نیاز کرتے رہے_ بے قرارى کے عالم میں چہل قدمى کرتے تھے_

امیرالمومنین (ع) یوں ہى راتوں کو بیدار رہتے، مناجات کرتے اور خوئف خدا اور قیامت کے حساب و کتاب کا ذکر کر کے رویا کرتے تھے_


 


آیت قرآن

'' ربّنا ما خلقت ہذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النّار''

پروردگار تو نے اس جہان اور زمین و آسمان کو باطل پیدا نہیں کیا ہے تیرى ذات پاک و پاکیزہ ہے پس ہمیں جہنّم کى آگ سے محفوظ رکھ_''

(سورہ آل عمران 3 آیت 191)


سوچیے اور جواب دیجیے

1) ___امیرالمومنین (ع) نے اپنے اس خطبہ میں اللہ کے نیک اور صالح بندوں کى بہت سى صافت بیان کى ہیں_ آپ ان میں سے دو صفات کو بیان کریں؟

2) ___یہ صالح بندے کس راہ کى تعریف اور کس کى مذمت کرتے ہیں؟

3)___ ان کا ڈر اور خوف کس چیز سے ہے؟ ان کا طویل گریہ کس خوف کے نتیجہ میں ہے؟

4) ___امیرالمومنین (ع) نے جن آیات کى تلاوت کى ان کا ترجمہ کیجئے؟

5)___ ان آیات میں کن باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس کے سبب امیرالمومنین (ع) کى یہ حالت ہوگئی تھی؟

6) ___جب امیرالمومنین (ع) نے حبّہ سے دریافت کیا کہ سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو تو حبّہ نے آپ (ع) کو کیا جواب دیا؟

آپ (ع) نے قیامت کے دن کے بارے میں حبّہ سے کیا فرمایا؟

7)___امیرالمومنین (ع) نے نوف سے قیامت کى یاد اور خوف خدا سے رونے کے متعلق کیا فرمایا؟

8)___ امیرالمومنین (ع) نے ایمان کامل رکھنے والے انسان کى کیا تعریف کی؟ کامل ایمان ہونے کے لئے کیا علامتیں بیان کیں؟