پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 10 جنّت اور اہل جنّت دوزخ اور اہل دوزخ

 جنّت اوراہل جنّت; دوزخ اور اہل دوزخ

جناب ابوذر غفارى سے کسى نے سوال کیا کہ ہمارے لئے مرنا کیوں تکلیف دہ ہوتا ہے___؟

حضرت ابوذر نے جواب دیا:

'' اس لئے کہ تم نے اپنى دنیا کو آباد کیا ہے اور آخرت کو خراب و ویران کیا ہے_ اس دنیا میں اپنى خواہشات نفس کى پیروى کى ہے اور گناہوں میں مبتلا رہے ہو اور جو کچھ تمہارے پاس تھا اسى دنیا میں خرچ کردیا ہے اور آخرت کے لئے کوئی توشہ و زاد راہ روانہ نہیں کیا_ اسى لئے تمہارے لئے ایک آباد مکان سے خراب و ویران مکان کى طرف منتقل ہونا تکلیف دہ ہوتا ہے_

اس نے پھر سوال کیا کہ ا بوذر ہمارى حالت آخرت کے جہان میںداخل ہوتے وقت کیسى ہوگی؟

جناب ابوذر نے فرمایا:

لوگ دوقسم کے ہوتے ہیں_ نیک اور برے _ نیک لوگ، ان لوگوں کى طرح ہوں گے جو طویل مدّت اپنے گھر بار سے اوراپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے دور ہوں اوراب وہ اپنے گھر پہنچنے والے ہوں اور اپنے رشتہ داروں کا دیدار کرنے والے ہوں تو انھیں کتنى خوشى اور مسرّت محسوس ہوگی؟ وہ کتنے خوشحال خوشنود ہوں گے؟ نیک لوگ اس طرح اپنے مہربان خدا کے نزدیک اور اس کى خوبصورت بہشت میں داخل ہوں گے_ ملائکہ و پیغمبران و اولیاء خدا ان کا استقابل کریں گے اور وہ بہشت کى ختم ہونے والى نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن گناہگار اور برے اعمال کے مرتکب اس مجرم اور باغى ى طرح ہو گے جو اپن گناہو کے خوف سے فرار ہوگیا ہو اور جب اسے گرفتار کے لایا جائے اور اس کے جرائم کى سزا سنائی جائے تو اس کى کیا حالت ہوگی؟

اعمال بد انجام دینے والا اپنے آپ کو اپنے اعمال میں گرفتار دیکھ رہا ہوگا تمام گناہگارو کى یہى حالت ہوگی، وہ خود کو خدا کے غیظ و غضب اور عذاب میں مبتلا دیکھ رہے ہوں گے_ وہ دیکھ رہے ہو گے کہ اب وہ اس پروردگار کے سامنے کھڑے ہیں جو بدلہ لینے والا ہے_ جس کے فرامین و احکامات کى انہوں نے خلاف ورزى کى ہے_ ان پر پانى پانى کردینے والى شرمندگى طارى ہوگى اور وہ اپنے آپ کوعذاب کامستحق دیکھ رہے ہوں گے اوربالآخر ان کوکھینچ کر جہنّم میں لے جایا جائے گا_''

اس شخص نے پھر سوال کیا_ اے ابوذر بتایئےہ ہمارى حالت خداوند عالم کے سامنے کیسى ہوگی؟ جنّتى ہوں گے یا جہنّمی؟

حضرت ابوذر نے فرمایا کہ:

اپنے اعمال کو اللہ تعالى کى کتاب کے سامن رکھو اوردیکھو کہ خدائے تعالى قرآن مجید میں کیا فرماتے ہے اور تمہارى کیا حالت ہے_ خدائے تعالى قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ نیک اور صالح جنّتى ہوں گے اور فاسق و فاجر جہنّمی''_

ابوذر نے فرمایا:

اللہ تعالى کى رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے''_

آخرت میں انسان لامحالہ ان دو مقامات میں سے ایک میں قیام کرے گا_ جنّت میں یا جہنّم میں_


جنّت

جنّت نیک اور دیندار اور خداپرست لوگوں کى رہائشے اور مکان ہے، پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ہمیشہ رہنے کى چگہ ہے_

بہترین اور خوبصورت ترین مقام ہے جسے مہربان خالق نے اپنے نیک بندوں کے لئے بنایا ہے_ نہایت وسیع اور کشادہ ہے، زمین ماور آسمان کى وسعتوںکے مساوى بلکہ ان سے بھى وسیع و عریض ہے، روشن و پرنور ہے_ غرض انسان اس کى تعریف سے عاجز ہے_

اسے بہشت بھى کہتے ہیں_ قرآن اسے جنت سے تعبیر کرتا ہے ''جنّت'' یعنى سر سبز و شاداب درختوں سے بھرا ہوا باغ

جنت کے سر سبز و شاداب درختوں کے نیچے صاف اور شفاف اورٹھنڈے پانى کى نہریں جارى ہوں گی_ ان کى شاخوں پر رنگ برنگ اور مزے دار پھل لٹکے ہوئے ہوں گے اور معطر ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہے ہوں گے_

جنّت میں کسى قسم کى برائی اور نقص کا وجود نہ ہوگا_ نیک لوگ وہاں جس چیز کى تمنّا کریں گے ان کے لئے حاضر کردى جائے گی_ جب کسى پھل کى خواہش کریں گے تو مدرختوں کى خوبصورت ٹہنیاں ہواکے چلنے سے حرکت کریں گى اور اس نیک بندے کے نزدیک پہنچ کر پھل اس کے ہاتھوں پر رکھ دیں گی_

جنّت میں مومنین کے لئے نہایت عایشان اور آسائشےوں سے پر، محل بنائے گئے ہوں گے، ان پر عمدہ اور بہترین فرش بچھے ہوئے ہوں گے مومنین بہترین اور خوش رنگ لباس زیب تن کئے ہوئے، آرامدہ مندوں پر پیغمبروں، ائمہ اطہار، شہداء اور دوسرے جنتیوں سے محو گفتگو ہوں گے_

پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ:

میں نے جنّت میں دیکھا کہ فرشتے جواہرات اور انیٹوں سے ایک خوبصورت محل بنا رہے ہیں_ کبھى تیزى سے اور زیادہ کام کرنے لگتے اور کبھى کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مسں نے ان سے پوچھا: کیا کام کر رہے ہو؟ کیوں کبھى کام کرنا چھوڑ دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ محل ایک مومن کے لئے بنا رہے ہیں_ آپ(ص) نے سوال کیا: پھر بناتے بناتے رک کیوں جاتے ہو_ فرشتوں نے جواب دیا کیونکہ محل بناتے میں استعمال ہونے والا سامان ختم ہوجاتا ہے_ آپ(ص) نے پوچھا: محل بنانے کا سامان کیا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ سامان اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ہے جو ان جواہرات اور سونے کى دانیٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس محل کوبنانے کا سامان، اللہ تعالى کا ذکر اور وہ نیک اعمال ہیں جو خود مومن دنیا سے ہمارے لئے روانہ کرتا ہے جب تک مومن کار خیر اور اللہ تعالى کى یاد میں مشغول رہے، ہم تک سامان پہنچتا رہتا ہے اور اگر مومن غافل ہوجائے اور کار خیر انجام نہ دیے تو ہم تک سامان نہیں پہنچتا اور ہم بھى مجبوراً کام ر وک دیتے ہیں_''

جنّت میں نعمتیں ہمارے دنیاوى اعمال سے بنائی جاتى ہیں اور جنّت کى بعض نعمتیں اتنى خوبصورت ہیںکہ کبھى آنکھ نے ان جیسى خوبصورتى کو نہ دیکھا ہوگا ان کے دل پسند اور صاف کوکسى کان نے نہ سنا ہوگا بلکہ ان کا خیال بھى کسى کے ذہن میں نہیں آسکتا_ مختصر یہ کہ جنت کى نعمتیں ہمارى فکروں سے بھى زیادہ بلند و بالا ہیں_ اور بہشت کى تعریف و توصیف میں جو کچھ بھى بیان کیا گیا ہے وہ ہمارى ذہنى سطح کے مطابق بیان کیا گیا ہے_ ورنہ بہشت کى عظمت اور اس کى حقیقى خوبصورتى اور زیبائی ناقابل بیان ہے_

لیکن خدا نے بیان کے لئے کہ بہشت رہنے کے لئے کتنى عمدہ جگہ ہے اس کى کچھ صفات کو ہمارى زبان اور ہمارى ذہنى سطح کے مطابق بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

متقین کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کى شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہى ہیں اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے یہ تو انجام ہے متقى لوگوں کا لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کى آگ ہے_''

(سورہ رعد 13_ آیت 35)

بہشت میں جس چیز کى خواہش کروگے تیار ہوگى اور جو چاہو گے وہ موجود ہوگا_''

(سورہ فصلّت 41_ آیت 35)

''ان مومن مردوں اور عورتوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتى ہوں گى اور وہ ان میں ہمیشہ ہیں گے_ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گا ہیں ہوں گى اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کى خوشنودى انھیں حاصل ہوگى اور یہى سب سے بڑى کامیابى ہے_

(سورہ توبہ 9 آیت 72)

جنت میں تمام رہنے والے لوگ ایک مرتبے اور ایک درجے کے نہیں ہیں بلکہ اپنے ایمان اور خلوص اور اعمال صالح کى مقدار کے لحاظ سے ان کے مر اتب میں فرق ہوگا بہشت میں موت، غم، بیماری، فکر، مصیبت کا کوئیوجود نہ ہوگا_ بلکہ جنّتى افراد ہمیشہ خداوند عالم کے لطف و عنایات کے زیر سایہ ہوں گے اور ہمیشہ خدا کى ظاہرى اور باطنى نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور سب سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالى ان سے راضى ہوگا اور وہ بھى اللہ اور اس کے الطاف اور عنایات سے راضى ہوں گے_

 

دوزخ

دوزخ ظالموں اور بدکاروں کاٹھکا نہ ہے اور مشرکوں اور منافقوں کى قیام گاہ ہے_

دوزخى نہایت سخت اور بہت دردناک زندگى سے دوچار ہوں گے ان کے برے اعمال اور اور کفر و نفاق، عذاب اور سخت سزا کى صورت میں تبدیل ہوکر ان کے لئے ظاہر ہوں گے اور انھیں درد و رنج پہنچاتے رہیں گے_ آگ کا لباس ان کے جسم پر اور گلے میں طوق، ہاتھ اور پاؤں میں زنجیر پہنائی جائے گی_ آتش دوزخ کے شعلے ان کے جسم سے اٹھ رہے ہوں گے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا رہے ہوں گے_ ساتھ ہى ساتھ ان کے باطن میں قلب و روح میں بھى نفوذ کر رہے ہوں گے_

جہنّمیوں کا کھانا اور پینا، گندا، بدبودار، غلیظ اور جلادینے والا ہوگا جو پیپ سے بدتر ہوگا_ جس کى بدبو مردار سے زیادہ ہوگی_

جہنّم کا عذاب جو کفر و نفاق ظلم و ستم اور برے اعمال کا نتیجہ ہے اتنا سخت اور دردناک ہے کہ جس کا ہم تصوّر بھى نہیں کرسکتے_ اس دردناک عذاب کى جھلک خداوند عالم اس بیان کى صورت میں ہمیں یوں دکھاتا ہے کہ :

ہم نے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھى ہے جس کى لپٹیں انھیں گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گى وہاں گر وہ پانى مانگیں گے تو ایسے پانى سے ان کى تواضع کى جائے گى جو تیل کى تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا بدترین پینے کى چیز اور بدترین رہائشے گاہ _''

(سورہ کہف 18 آیت 29)

جن لوگوں نے ہمارى آیات کو ماننے سے انکار کردیا انھیں یقینا ہم آگ میں ڈالیں گے اور جب ان کے بدن کى کھال گل جائے گى تو اس کى جگہ دوسرى کھال پیدا کردیں گے تا کہ وہ خوب عذلاب کا مزا چکھیں_ یقینا اللہ بڑا قادر اور حکیم ہے_''

(سورہ نساء 4_ آیت 55)

''دردناک سزا کى خبر دو انھیں جو سونا اور چاندى جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کى راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسى سونے چاندى سے جہنّم کى آگ دہکائی جائے گى اور پھر اسى سے ان لوگوں کى پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا_ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، لواب اپنى اس دولت کا مزا چکھو جسے تم نے ذخیرہ کیا تھا_''

(سورہ توبہ 9 آیت 35)

یقینا آپ کا دل بھى چاہتا ہوگا کہ معلوم کریں کہ روز قیامت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آخرت میں ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ جنّت یا جہنّم؟

اگر ہم غور سے پیغمبر اکرم(ص) کے اس قول کا جائزہ لیں تو شاید اندازہ ہوجائے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

بہشت مصائب اور آلام میں پوشیدہ ہے جو شخص دنیا کى مشکلات اور رنج و الم کو برداشت کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا_ اور جہنّم لذّت و شہوت اور ہوس رانى میں پوشیدہ ہے، جو شخص شہوت اورہوس رانى میں مبتلا ہوگا وہ جہنّم میں جائے گا_


آیت قرآن

مثل الجنّة الّتى وعد المتّقون تجرى من تحتہا الانہر اکلہا دائم و ظلّہا تلک عقبى الّذین اتّقوى و عقبى الکفرین النّار''

متقیوں کے لئے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کى شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہى ہیں_  اس کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور اس کا سایہ لازوال ہے_ یہ تو انجام ہے متقى لوگوں کا_ لیکن کافروں کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کى آگ ہے_''

(سورہ رعد 13 آیت 35)


سوچیے اور جواب دیجیے

1)___ حضرت ابوذر- نے اپنے کلام میں نیک لوگوں کوکن لوگوں سے تشبیہ دى ہے اور گناہ گاروں اور برے لوگوں کوکن سے؟

2)___ حضرت ابوذر کے قول کى روشنى میںبتا یئےہ اللہ تعالى کے نزدیک ہمارى حالت کیا ہوگی؟

3) ___اللہ تعالى کى رحمت کہاں گئی؟ جناب ابوذر نے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا،اوراس جواب سے کیا مقصد تھا؟

4) ___اس سبق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہشت کى تعریف کیجئے؟

5) ___بہشت کى نعمتوں میں سے کون سى چیز سب سے برتر اور بالاتر ہے؟

6) ___جنّت میں مومنین کا مکان بنانے کے لئے ملائکہ کون ساسالہ استعمال کرتے ہیں؟ اور کیوں فرشتے کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟

7) ___دوزخ کن کاٹھکا نہ ہے اور جہنم کا عذاب کس چیز کانتیجہ ہوا ہے؟

8) ___قرآن مجید کى آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جہنّم کے عذاب کى کوئی مثال بیان کیجئے؟