پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 6 خدا كى تلاش

 خدا کى تلاش

جہاںتک تاریخ بتاتى ہے اورزمین کى کھدائی اورآثار قدیمہ کى تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے، گزشتہ دور کے انسان حتّى کہ قبل از تاریخ کے انسان بھى خدا سے آشنا اورواقف تھے اور اس عظیم ذات کا احترام کرتے اور اس کى عبادت بجالاتے تھے اوراس ذات کى خوشى کى خاطر بعض مراسم انجام دیتے تھے_

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان ابتدا میںخدا کى طر ف کیسے متوجہ ہوا___؟ کون سے عوامل اور اسباب تھے جنھوں نے انسان کو خداپرستى کى فکر میں ڈالا؟ کون سے عوامل نے اس کى رہنمائی کى کہ وہ خالق کائنات کى جستجو اور تلاش کرے___؟ اس فکر مقصد اور اس کى بنیاد کیا تھی___؟ اصولاً کون سے عوامل اوراسباب اس بات کا باعث ہوئے کہ انسان خدا اور اس کى پرستش کى طرف متوجہ ہوا اور اس کے بارے میں سوچنے لگا___؟

معمولى سے غور و فکر کے بعد اس سوال کا جواب معلوم کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ تیسرے سبق میں بیان کیاجاچکا ہے کہ انسان فطرتاً معلول کى علّت و سبب کى تلاش وجستجو کرتا ہے_ انسان ابتدا ہى سے اس مسئلہ سے آگاہ ہے کہ ہر موجود اپنے وجود کے لئے کسى نہ کسى علّت کا محتاج ہے_ اسى بناپر وہ موجود کى علّت و سبب کا متلاشى نظر آتا ہے_ اگر بھوکا ہوتا ہے توغذا کى تلاش کرتا ہے کیونکہ غذاکوبھوک دورکرنے کى علّت و سبب سمجھتا تھا_ اگر پیاسا ہوتا توپیاس دورکرنے کے لئے پانى کى تلاش میں نکلتا، کیونکہ پانى کو پیاس کے دورکرنے کى علّت جانتا تھا اگرکسى آواز کودیوار کے پیچھے سے سنتاتواسے یقین ہوجاتا کہ آواز کى کوئی نہ کوئی علّت ہے اوراسکى علّت معلوم کرنے کے درپے ہوجاتا __ اوراگربیمارہوتا تواپنى بیمارى کوکسى سبب وعلّت کا نتیجہ جانتا اوراس کے علاج کى فکر کرنے لگتا ہے سردى کودور کرنے کے لئے آگ کى پناہ ڈھونڈ تا کیونکہ گرمى کو سردى دورکرنے کى علّت جانتا_

علّت کى تلاش و جستجو ،ہر انسان کى خلقت وطینت میں موجود ہے اور ہر انسان ہمیشہ اس تلاش و جستجو میںرہتا ہے کہ موجودات کى علّت سے آگاہى حاصل کرے ہر موجود کے متعلق کہ وہ کیوں ہے اوراس کى علّت کیاہے اس کے سامنے واضح ہوجائے اورہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اس علّت وسبب کى تلاش وجستجوکا درست اورقابل اطمینان جواب حاصل کرے_ اور جب تک اس کا صحیح جواب نہ پالے اسے آرام نہیں آتا_

انسان ذاتاً علّت کى تلاش کرنے والا موجود ہے اور وہ اپنى اس فطرت وطبیعت کوفراموش نہیں کرسکتا_

 

تمام انسان، بشموں دوراوّل کے انسان بھى اس فطرت و طینت کے حامل تھا_ یہ انسان اس کائنات میں زندگى گزاررہا تھا اورروزمرّہ کى زندگى میں اسے مختلف حیرت انگیز حوادث وواقعات سے واسطہ پڑتا تھا_ دن رات کا پے درپے اورتسلسل کے ساتھ ظہور، سردى و گرمی، سورج چاند اورستاروںکى منظم حرکت، عجیب وغریب حیوانات اورنباتات، بلند و بالا پہاڑوں،وسیع وعریض دریاؤں اورپانى کاجارى ہونا، ان تمام کواپنى آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس فکر اورسوچ میں ڈوب جاتا تھا کہ اس جہاں کى علّت کون ہے؟ اوراس کووجود میں لانے والاکون ہے؟

لامحالہ یہ منظم کائنات اپنى علّت رکھتى ہے اورخالق دانا اور توانا نے اسے پیدا کیا ہے اوروہى اسے چلارہا ہے_

اس طرح سے دور اوّل کے انسان اللہ تعالى سے واقف ہوئے اور انہوںنے اس کے وجود کااعتراف کیا اوراس کى عظمت اور قدرت کے سامنے خشوع و خضوع کیا_

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک گروہ انحراف کا شکار ہوا اور جھوٹے معبود دل کى پرستش میں مشغول ہوگیا اور آہستہ آہستہ بت پرستی، خورشید پرستی، چاند پرستی، آتش پرستی، ستارہ پرستى بھى لوگوں میںپیداہوگئی_

جھوٹے معبودوں کا پیدا ہوجانا خود اس بات کى دلیل ہے کہ انسان اپنى فطرت میں موجود، علّت کى تلاش کے عنصر کیا بناپر یہ بات جانتا تھا کہ اس کائنات کى بقا کے لئے ایک علّت ضرورى ہے لیکن اس نے بعض امورمیں غلطى واشتباہ کیا اورجھوٹے معبودوں کو خالق حقیقى اورکائنات کى علّت جانا اور ان کی پرستش میں مشغول ہوگیا_

مختصر یہ کہ انسان اس فطرت (علّت کى تلاش) کى وجہ سے جواس کى سرشت میں رکھى گئی ہے تمام موجودات کے لئے علّت تلاش کر رہا تھا اوراسى ذریعہ سے خالق کائنات کہ جوکائنات کى محتاج موجودات کى حقیقى علّت ہے سے واقف اورمطلع ہوا، اس کے وجود کوتسلیم کیا اوراس کى عبادت اورپرستش شروع کردى _
آیت قرآن

''و لئن سالتہم مّن خلق السّموت والارض لیقولنّ خلقہنّ العزیز العلیم''

اگران سے پوچھوکہ زمین اورآسمان کوکس نے خلق کیا ہے توجواب دیں گے کہ انھیں عزیز اورعلیم نے خلق کیا ہے (سورہ زخرف 42_ آیت9)
سوچیے اورجواب دیجئے

1)___ کون سے اموراورعوامل نے انسان کوخداپرستى کى فکر میںڈالا ہے؟

2)___ علّت کى تلاش یاعلّت جوئی سے کیا مراد ہے؟ انسان کى علّت جوئی سے متعلق کوئی مثال دیجئے؟


3)___ ہر موجود کے سلسلہ میں ''کیوں اورکس علّت سے''_ انسان کے سامنے واضح ہونے سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

4___ جھوٹے معبودوں کاپیدا ہونا کس بات کى دلیل ہے؟